نہال صغیر، ممبئی
یوں تو ہندوتوا کے علمبرداروں میں سے شاید ہی کوئی شخص، ادارہ یا ان کے معاونین ہوں جو جھوٹ نہیں بولتے ہوں اور افواہ سازی میں نمایاں کردار ادا نہ کرتے ہوں، مگر سدرشن نیوز چینل کو اس سلسلے میں ایک امتیازی شان حاصل ہے کہ وہ گالیاں سن کے بھی بے مزہ نہیں ہوتا۔ اس نے جامعہ ملیہ اور یو پی ایس سی کے مفروضہ جہاد سے لے کر شاہ رخ خان کے ’’پھونکنے کو تھوکنے‘‘ تک بے شمار گالیاں سنی ہیں مگر اس کی بے شرمی کم نہیں ہوئی۔ لتا منگیشکر کی موت کے بعد ان کے جسد خاکی پر شاہ رخ خان کے کچھ پڑھ کر پھونکنے کو کسی بی جے پی کے لیڈر نے تھوکنا قرار دیا تو یہ چینل اسے لے اڑا اور ایک لائیو پروگرام میں اس بیہودہ سوال کا جواب مانگا۔ جواب میں اسے ساری دنیا سے لعنت ملامت کے بے شمار کلمات نوازا گیا لیکن یہ بے شرمی سے ہنستا رہا، کسی کا جواب انتہائی جارحانہ ہوتا تو یہ کہہ دیتا کہ بھائی میں نے تو بس یہ پوچھا ہے کہ شاہ رخ خان نے پھونکا تھا یا تھوکا تھا؟ سپریم کورٹ تک سے اسے جھڑکیوں کی سوغات وصول کرنی پڑی مگر مجال ہے جو اس کے بے غیرت ماتھے پر غیرت کی شکن نظر آئی ہو۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس نے بے حسی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ سچائی اور امن کے فروغ کے لیے حساس ہوتا۔
چند روز قبل اس نے کرلا مارکیٹ کے تعلق سے یہ افسانہ تراشا کہ یہاں مسلمان خریداروں کی بھیڑ ہے جبکہ مارکیٹ کا وہ حصہ جہاں ہندو دکاندار ہیں وہاں سناٹا ہے۔ کوئی مسلمان وہاں خریداری کو نہیں جارہا ہے۔ اس نے اسکرین پر اس کا نام ’’بیوپار جہاد‘‘ رکھا ہے۔ اس کی افسانہ طرازی میں یہ بھی ہے کہ آیا رمضان میں مسلمان صرف مسلمانوں سے ہی خریداری کریں گے؟ اسی طرح کے اور افسانے بھی اس نے گھڑ رکھے ہیں۔ اس کا مقصد صرف ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ دو تین سال پہلے غالباً لاک ڈاون سے قبل بھی سدرشن چینل نے اسی طرح کی شر انگیزی کی تھی جب اس نے گاندھی مارکیٹ سائین کے تعلق سے یہ پھیلایا تھا کہ مسلم دکانداروں کے یہاں خریداروں کا ازدحام ہے جس میں واضح طور سے مسلمان نظر آرہے ہیں جبکہ ہندو دکاندار خالی بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس وقت گلی نیوز نے اسی مقام سے لائیو ٹیلی کاسٹ کے ذریعہ یہ بتایا تھا کہ یہ جھوٹ ہے۔ اس نے دکھایا تھا کہ کیا ہندو کیا مسلمان سبھی جگہ خریداروں کی بھیڑ ہے اور سدرشن نیوز چینل محض جھوٹ پھیلا رہا ہے ۔
سدرشن نیوز چینل نے اس طرح کا ویڈیو بنانے کے لیے مسلم دکانداروں یا مسلم علاقوں کا ویڈیو اس وقت لیا جب عام طور سے خریدار امڈ کر آتے ہیں اور ہندو مارکیٹ یا ہندو دکانداروں کا ویڈیو اس وقت لیا جب مارکیٹ میں برائے نام لوگ ہوتے ہیں یہ وقت دوپہر کی سخت گرمی کا ہوتا ہے، جب کوئی بھی شخص بغیر انتہائی ضرورت کے دھوپ میں نہیں نکلنا چاہتا۔ مسلمانوں میں اس طرح کی سوچ نہیں پائی جاتی بلکہ میں نے اکثر مسلمانوں کو ہندو دکانداروں کی تعریف کرتے ہوئے سنا ہے کہ ان کا انداز اور کاروبار کا طریقہ کار ایسا ہوتا ہے کہ خریدار خود بخود وہاں جاتا ہے یا جو ایک بار ان سے خریداری کرلیتا ہے وہ بار بار جاتا ہے۔ اس کی وجہ مسلمانوں میں در آئی کچھ خرابیاں ہیں جیسے وہ ایک دو چیز دکھانے کے بعد کہیں گے کہ جاو میاں تمہیں خریدنا بھی ہے کہ یوں ہی میرا وقت برباد کر رہے ہو۔ جبکہ ہندو دکانداروں کا معاملہ یہ ہے کہ آپ انہیں روکتے رہیں مگر وہ زیادہ سے زیادہ سامان آپ کو دکھانے کی کوشش کریں گے اور پھر بھی کچھ نہیں خریدا تو وہ ہاتھ جوڑ کر خوش دلی سے رخصت کریں گے۔
دہلی کے ایک ادیب و شاعر ہیں فاروق ارگلی، ان کے فیس بک پر کئی ہندوؤں نے اپنے تاثرات میں لکھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے ہم مسلمان پڑوسیوں اور دکانداروں سے اپنے تعلقات ویسے ہی رکھیں گے جیسے اب ہیں۔ ہم کسی کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے۔ ملک میں ہندو تیوہاروں میں فساد کے سیزن کے سوا ابھی تک کہیں بھی مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان بائیکاٹ کا ماحول نہیں بنا ہے۔ ہم مومن پورہ ممبئی میں دیکھتے ہیں کہ یہاں توحید جیولر کے علاوہ سبھی جیولری شاپس ہندوؤں کی ہیں مگر ان کے زیادہ تر گاہک مسلمان ہی ہیں۔ یہی حال پورے ملک کا ہے۔ بائیکاٹ والی شر انگیزی خود ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے پھیلائی گئی اور یہ آج سے نہیں بلکہ پچیس برسوں سے جاری ہے۔ اس کے اثرات عوام پر اس لیے نہیں پڑے کیوں کہ آبادی ایک دوسرے میں اس قدر ملی ہوئی ہے کہ ایک دوسرے کے تعاون کے بغیر زندگی کی گاڑی چل ہی نہیں سکتی۔ کچھ جگہوں پر استثنائی صورتحال ہو سکتی ہے۔
سدرشن چینل چاہتا تو ان ویڈیوز اور واٹس ایپ مسیجس کی خبر لیتا جس میں کھلے عام مسلمانوں کے بائیکاٹ کے لیے حلف دلایا جا رہا ہے، یہ اور بات ہے کہ اس میں موجود افراد اتنے کم ہیں کہ اس کی معنویت کو سمجھا جاسکتا ہے۔ سدرشن نیوز چینل اس پر سوال اٹھاتا اور ہندوؤں سے کہتا کہ ان لوگوں کے خلاف عام ہندو میدان میں آئیں اور بدمعاشوں کے اس چھوٹے سے گروہ پر قابو پائیں لیکن اس کے برعکس وہ زبردستی مسلمانوں میں شر انگیزی ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ملک کے موجودہ ماحول میں شر انگیزی اور فساد پھیلانے والے اصل مجرموں کو پولیس پوچھتی بھی نہیں لیکن اگر کوئی مسلمان فساد کو ختم کرنے کے لیے اٹھ کھڑ ہوتا ہے تو اسی کو اہم ملزم بنا دیتی ہے۔ جیسا کہ دلی کے جہانگیر پوری میں ہوا، اس سے قبل راجستھان اور مدھیہ پردیش میں بھی پولیس کا یہی رویہ رہا۔
ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے، خواہ وہ اچھا ہو یا برا۔ بائیکاٹ والی مہم کا بھی ایک برا رد عمل سامنے آ رہا ہے کہ کچھ نادان واٹس ایپ مسیج کے ذریعہ ہندووں کے بائیکاٹ کی بات پھیلا رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ حالات کے سخت دباؤ کے سبب کچھ مسلم نوجوانوں میں یہ سوچ پروان چڑھی ہو لیکن اجتماعی طور سے مسلمانوں کی یہ سوچ نہیں ہے۔ مجھے امید ہے کہ اگر کسی میں اس طرح کی سوچ ہے تو مسلمانوں کے درمیان سے ہی اس کے خلاف آواز بلند ہو گی، کیوں کہ مسلمانوں میں بہر حال مثبت فکر والوں کا غلبہ ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کی شر انگیزی کا حل کیا ہے؟ اس کا بھی حل وہی ہے جو گلی نیوز نے تین سال قبل دیا تھا یعنی خود گراونڈ پر پہنچ کر حقیقت حال کا ویڈیو یا نشر کیا تھا۔ آج بھی اسی طرح لائیو ویڈیو میں حقیقت سے پردہ اٹھایا جائے اور فیس بک، سوشل میڈیا اور ٹویٹر پر نشر کیا جائے۔ اس سے یہ ہو گا کہ جو جھوٹ ہندو شدت پسند پھیلانا چاہتے ہیں اس کی ہوا نکل جائے گی، یہ مسلسل کرنے کا کام ہے، ایک دو روز میں کسی مسئلہ کا حل نہیں نکلتا، برائی پھیلتی تو جلدی ہے لیکن اسکے تدارک میں کافی وقت لگتا ہے۔ دوسرا علاج یہ ہے کہ اس کے جھوٹ اور افواہ کی بنیاد پر مسلسل رپورٹ کی جائے اور عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے۔ اگرچہ عدلیہ سے کوئی زیادہ خوش گمانی نہیں رکھی جا سکتی مگر پھر بھی عدلیہ کے ذریعہ ہی حکومت اور انتظامیہ کو ایکسپوز کیا جاسکتا ہے اور عارضی ہی سہی مگر ایک دباؤ تو بنتا ہے۔ صرف باتیں کرنے اور رونے دھونے سے کچھ نہیں ہوتا، کچھ نہ کرنے سے کچھ کرنا بہتر ہوتا ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 01 تا 07 مئی 2022