حلال سرٹیفیکیشن کے خلاف مذموم مہم

ہندوتوتنظیموں کا بے بنیاد پروپگنڈا۔ بھارتی کمپنیوں کی برآمدات متاثر ہونے کا امکان

افروز عالم ساحل

ملک میں پھیلتی ہوئی نفرت کی آگ میں ہندوتوادی تنظیموں کے نشانے پر اب ’حلال سرٹیفیکشن‘ ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ہندوستان میں حلال گوشت اور حلال کھانے کی اشیاء پر پابندی عائد کی جائے، کیونکہ مسلمان حلال کاروبار کے ذریعے پیسے اکٹھا کر رہے ہیں اور ہندوستان کو اسلامی ریاست میں بدلنے کی سازش کر رہے ہیں۔ اس مہم میں بی جے پی اور سنگھ پریوار سے وابستہ تنظیموں اور ان کے چھوٹے ہی نہیں بلکہ بڑے لیڈر بھی شامل ہیں۔ بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری سی ٹی روی نے پچھلے دنوں حلال گوشت کو مسلمانوں کا ‘اقتصادی جہاد‘ قرار دے چکے ہیں۔ وہیں شری رام سینا کے چیف پرمود متالک نے ہندوستان کو ’حلال سے پاک ملک‘ بنانے کی اپیل کرتے ہوئے اس کو ’جزیہ‘ کی ایک شکل قرار دیا۔ تو آر ایس ایس سے وابستہ ہندو جن جاگرتی سمیتی نے کہا کہ حلال چیزوں کی خریداری کرنا ملک دشمن سرگرمیوں کی حمایت کرنا ہے۔ ان بیانات کے درمیان کرناٹک کے ضلع بھدراوتی میں بجرنگ دل کے کارکنوں کے ذریعے ایک مسلمان دکاندار پر حملہ کرنے کا واقعہ بھی سامنے آیا۔ اس معاملے میں پولیس میں دائر کردہ شکایت کے مطابق، بجرنگ دل کے کارکنوں نے ایک چکن شاپ پر ’غیر حلال‘ گوشت دینے کے کے کہا۔ چکن دکاندار نے کہا کہ میری دکان پر نہیں ہے تھوڑا وقت دیجیے تو جھٹکا گوشت کا انتظام کر دوں گا۔ اس سے ناراض ہو کر کارکنوں نے اس کی پٹائی کی۔

ان واقعات کے تناظر میں ہفت روزہ دعوت نے ملک میں ’حلال سرٹیفیکشن‘ کے خلاف جاری مہم اور ہمارے ملک سے دوسرے ممالک میں ہونے والے کاروبارکے ساتھ ساتھ خود اپنے ملک پر اس کے امکانی اثرات کا جائزہ لیا ہے۔

اس ضمن میں ہفت روزہ دعوت نے معیشت کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے کئی ماہرین سے بات چیت کی ہے۔ ان ماہرین کا ماننا ہے کہ ہندوتوادی تنظیموں کا یہ قدم ہندوستان کے لیے فائدہ کم، نقصان زیادہ کرنے والا ہے۔ اتنا ہی نہیں، ان کے اس مطالبے سے راست فائدہ ہمارے پڑوسی ملکوں کو ہونا شروع ہو جائے گا اور پاکستان نے یہ فائدہ اٹھانے کی کوشش شروع بھی کردی ہے۔

واضح رہے کہ ہندوتوادی تنظیموں کی یہ مہم نئی نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی ہندوتوادی تنظیمیں کھانے پینے کی اشیاء پر حلال سرٹیفیکیشن کی سیاست اور اس کے لازم کرنے کے خلاف احتجاج کر چکی ہیں۔ دراصل بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی اس مہم کی شروعات ہو چکی ہے۔ خود نریندر مودی نے وزیر اعظم بننے سے قبل 2014 کی انتخابی تقریروں میں ملک سے گوشت کی برآمدات پر سوال اٹھائے تھے۔ حالانکہ خود ان کی حکومت میں ملک سے ایکسپورٹ ہونے والے گوشت خاص طور پر بیف کے ایکسپورٹ میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ لیکن 2019 الیکشن کے بعد حلال سرٹیفیکیشن پر ملک میں جو مہم چلی ہے اور خود حکومت کی جانب سے جو تبدیلیاں لائی گئیں ہیں، اس تعلق سے ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ خود ہندوستان کے لیے نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے۔

حلال سرٹیفیکیشن کو لے کر پھیلائی جا رہی ہے طرح طرح کے بھرم!

گزشتہ سال ستمبر میں ’حلال سرٹیفیکیشن: ایک اقتصادی جہاد‘ کے عنوان پر ہندو جن جاگرتی سمیتی کے ذریعہ ایک ’آن لائن پروگرام‘ بھی منعقد کیا گیا۔ اس پروگرام کی رپورٹ آن لائن موجود ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق، ’حلال سرٹیفیکیشن‘ کے ذریعے عالمی معیشت کو کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ پچاس سالوں میں دس ٹریلین امریکی ڈالر کی معیشت اسلامی ممالک نے بنائی ہے۔ یہ ہندوستانی معیشت سے تین گنا زیادہ ہے۔ دنیا کی کئی انٹلیجنس ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ حلال پیسہ اسلامی بالادستی قائم کرنے اور دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ حلال ’مدر آف جہاد‘ ہے۔ یہ باتیں ’جھٹکا سرٹیفیکیشن اتھارٹی‘ کے چیئرمین روی رنجن سنگھ نے اپنے خصوصی مکالمے میں کہیں۔ میڈیا رپورٹوں میں مانا جاتا ہے کہ روی رنجن سنگھ کی قیادت میں ’جھٹکا سرٹیفیکیشن اتھارٹی‘ حلال کی اجارہ داری کو توڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اس رپورٹ میں ہندو جن جاگرتی سمیتی کے قومی ترجمان رمیش شندے کے حوالے سے کہا گیا کہ ’ چوبیس ہزار کروڑ روپے کا گوشت برآمد کرنے والی حکومت ہند کے ’اپیڈا‘ کے قوانین کے خلاف سال بھر احتجاج کر کے ’حلال تصدیق شدہ گوشت‘ کا لفظ نکلوانے میں ہم کامیاب رہے ہیں۔ اسی طرح چالیس ہزار کروڑ روپے کی معیشت والی حکومت ہند کی ’ایئر انڈیا‘، ریلوے کی ’آئی آر سی ٹی سی‘ ، ہندوستانی ٹورازم بورڈ کی ’آئی ٹی ڈی سی‘ سے ’حلال سرٹیفائیڈ‘ مصنوعات کو ہٹانے کے لیے لڑنا ہو گا۔ اگر ہم ’حلال مصنوعات‘ خرید کر اسلامی معیشت کو فروغ نہیں دینا چاہتے تو ’ہندو راشٹر‘ کے قیام کے لیے ہندوستانی معیشت کو فروغ دے کر ’حلال معیشت‘ کو پوری طرح بند کرنا ہو گا۔‘ اس رپورٹ میں ایسی ایسی باتیں ہیں کہ ملک کے کسی بھی سمجھدار انسان کو پڑھنے کے بعد ہنسی آئے گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہی بے تکی باتوں کے ذریعے ملک کے لوگوں میں نفرت کا زہر بھرا جا رہا ہے۔

اوپ انڈیا کی ایک رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ حلال سرٹیفیکیشن کی وجہ سے ہر پروڈکٹ پر اس ملک کے عوام کو دو روپے آٹھ پیسے زیادہ دینا پڑ رہا ہے اور یہ رقم دہشت گردی کو سپورٹ کرنے والی معیشت کو جا رہی ہے۔ ان کی اس رپورٹ میں ’جمعیت علمائے ہند حلال ٹرسٹ‘ کی آمدنی کا تجزیہ کیا گیا ہے اور قارئین سے سوال پوچھا گیا ہے کہ کیا کسی کو اس بارے میں کچھ معلوم ہے کہ ہندوستان میں دیگر تمام حلال سرٹیفیکشن کرنے والی تنظیمیں اپنی آمدنی سے کیا کرتی ہیں؟ پی ایم کیئرز فنڈ میں کتنی رقم جمع ہوئی اور اسے کہاں خرچ کیا گیا، یہ سب کو جاننا ہے۔ لیکن یہ تنظیمیں حلال سرٹیفیکیشن کے نام پر جو رقمیں لیتی ہیں، وہ کہاں جاتی ہیں، یہ کوئی پوچھے گا؟ اور اگر پوچھ بھی لیا تو کیا وہ کچھ بتائیں گے؟ یا جیسے انٹونیا ماینو(سونیا گاندھی) نے پالگھر میں سادھوؤں کے بہیمانہ قتل پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے، ویسے ہی وہ بھی چپی سادھ لیں گے؟

بتادیں کہ اوپ انڈیا نے حلال سرٹیفیکشن کو لے کر ایک مہم کے تحت بے شمار اسٹوریاں لکھی ہیں۔ ایک اسٹوری کا عنوان ہے، ’حلال گوشت کا ایک حصہ جاتا ہے جہاد میں، یہ کھانا مطلب اپنی سپاری خود دینا : ڈاکٹر جھٹکا‘۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’کھانے کی کوئی بھی چیز، چاہے وہ آلو کے چپس ہی کیوں نہ ہو، اسے ’حلال‘ صرف اسی صورت میں سمجھا جا سکتا ہے جب اس کی کمائی کا ایک حصہ ’زکوٰۃ‘ میں چلا جائے۔ جسے وہ جہادی دہشت گردی کے لیے رقم دینے کے مترادف قرار دیتے ہیں، کیونکہ ہمارے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ زکوٰۃ کے نام پر لیا گیا پیسہ زکوٰۃ میں ہی جا رہا ہے یا جہاد میں، اور جہاد صرف کافر کے خلاف ہی ہوتا ہے، جب تک وہ اسلام قبول نہ کر لے! اوپ انڈیا کی طرح دیگر ویب سائٹوں نے بھی حلال سرٹیفیکشن کے بارے میں طرح طرح کی باتیں لکھی ہیں، جسے پڑھ کر لوگوں کے دماغ میں نفرت خود بخود پیدا ہو جائے گی۔ ہفت روزہ دعوت اس رپورٹ میں ان کو باتوں کو زیادہ جگہ دینے سے پر ہیز کر رہا ہے، لیکن یہ رپورٹس آپ کو ضرور پڑھنی چاہیے، تاکہ آپ سمجھ سکیں کہ حلال سرٹیفیکیشن کے نام پر ملک کے مسلمانوں کے خلاف کس طرح کی سازش کی جا رہی ہے، اور کیسے ایک مہم کے طور پر ملک کے چھوٹے چھوٹے شہروں و گاؤں میں پروگرام منعقد کیے جارہے ہیں۔

ایک مخصوص برانڈ کی آئس کریم کے بائیکاٹ کی بھی اپیل

کرناٹک کے ساحلی شہر منگلورو میں گزشتہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر ہندوؤں سے ایک مخصوص برانڈ کی آئس کریم کے بائیکاٹ کی اپیل کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل پیامات میں کہا گیا ہے، ’’ہندو تاجروں سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اپنی مصنوعات سے ایک ماہ کے اندر اندر حلال سرٹیفیکیشن کو حذف کر دیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو کرناٹک میں اس برانڈ اور اس کے آئس کریم پارلرز کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔‘‘

ہندوتوادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ جب فوڈ سرٹیفیکیشن کے لیے ایف ایس ایس اے آئی اور ایف ڈی اے جیسی سرکاری سرٹیفیکیشن ایجنسیاں موجود ہیں تو مذہب کی بنیاد پر سرٹیفیکیشن کی ضرورت کہاں ہے؟ ان کا دعویٰ ہےکہ حلال سرٹیفیکیشن سیکولرازم کے اصولوں کے خلاف ہے۔

پروڈکٹ پر اردو یا عربی تحریر سے بھی ہے پریشانی!

گزشتہ دنوں دہلی میں سدرشن چینل کے ایک رپورٹر نے ہلدی رام کے ایک آؤٹ لیٹ پر جا کر مائیک پر خوب شور مچایا۔ اس کے بعد سدرشن چینل اور اس کے ایڈیٹر سریش چوہانکے نے ہلدی رام کے پروڈکٹ پر اردو میں کچھ لکھنے پر نہ صرف اعتراض کیا، بلکہ اس کے پیچھے کسی بڑی سازش ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کر دیا۔

لیکن مزے کی بات یہ تھی کہ سدرشن نیوز نے جس پیکٹ پر اردو لکھے جانے کو لے ہنگامہ برپا کیا، وہ اردو تھی ہی نہیں بلکہ عربی تھی۔ لیکن سدرشن چینل نے بار بار لوگوں میں یہ بھرم پھیلانے کی کوشش کہ ہلدی رام اردو میں لکھ کر کچھ چھاپ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو اس تحریر کے ساتھ وائرل کروائی گیا کہ ہلدی رام نمکین میں گوشت ملاتا ہے۔

دراصل ہلدی رام اپنا یہ پروڈکٹ دوبئی ایکسپورٹ کرتا ہے۔ کسی بھی پروڈکٹ کو دبئی بھیجنے کے کچھ اصول ہیں۔ ایگریکلچر اینڈ پروسیسڈ فوڈ پروڈکٹ ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (اپیڈا) کے ایڈوائزری میں صاف طور پر لکھا گیا ہے کہ پروڈکٹ کی پیکیجنگ پر تمام معلومات عربی زبان میں درج کی جائیں، اس میں پروڈکٹ کا نام، اجزاء، وارننگز، غذائیت کے حقائق شامل ہیں۔ بتادیں کہ ہندوستان، متحدہ عرب امارات کو پروڈکٹس بھیجنے والا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے۔ ہندوستان کے بعد برطانیہ، ہالینڈ اور عمان کے بعد امریکہ کا نمبر آتا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی حکومت اور انتظامی محکموں نے تمام ممالک سے آنے والی مصنوعات کے متعلق یہ اصول بنائے ہیں۔ امریکی مصنوعات پر بھی یہی اصول نافذ ہوتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ظاہر سی بات ہے کہ یو اے ای اس پروڈکٹ کو لینے سے انکار کر سکتی ہے۔ لیکن ہندوتوا تنظیموں کو اب کسی پروڈکٹ پر اردو یا عربی تحریر سے پریشانی ہے۔

ہندوستان سے ایکسپورٹ ہونے والے گوشت کے مینول سے لفظ ’حلال‘ ہٹا دیا گیا ہے!

جنوری 2021ء میں آنے والی ایک خبر کے مطابق، ہندوستانی وزارت تجارت و صنعت کے محکمہ ایگریکلچر اینڈ پروسیسڈ فوڈ پروڈکٹ ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (اپیڈا) نے حلال گوشت سے متعلق ہدایت نامے سے لفظ ’حلال` کو ہٹا دیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ گوشت برآمد کرنے والی سبھی کمپنیوں کو اب حلال سرٹیفیکیشن کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ صرف ان کمپنیوں کو ہوگی جو مسلم ممالک کو گوشت برآمد کرتی ہیں۔ نئے ہدایت نامے کے مطابق اب برآمد کیے جانے والے گوشت پر لکھا جائے گا کہ ’جانوروں کو درآمد کیے جانے والے ممالک کے قواعد کے مطابق ذبح کیا گیا ہے۔‘ جبکہ اس سے قبل پرانے ہدایت نامے میں لکھا تھا کہ ’’اسلامی ممالک کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے جانوروں کو ’’حلال‘‘ طریقے سے ذبح کیا جاتا ہے۔‘‘ واضح رہے کہ اس کے بعد ہی ’جمعیت علمائے ہند حلال ٹرسٹ‘ حلال سرٹیفیکٹ دیتی ہے۔ اور ہندوتوادی تنظیموں کو اسی تنظیم سے مسئلہ ہے۔

اس موقع سے ایپیڈا نے واضح کیا تھا کہ ’’ہندوستانی حکومت کی طرف سے حلال گوشت کے بارے میں کوئی شرط عائد نہیں کی گئی ہے۔ یہ درآمد کرنے والے ممالک/درآمد کنندگان کی اکثریت کی ضرورت پر مبنی ہے۔ درآمد کرنے والے ممالک کے ذریعہ حلال سرٹیفیکیشن ایجنسیاں براہ راست تسلیم شدہ ہیں۔ اس میں کسی سرکاری ایجنسی کا کوئی کردار نہیں ہے۔‘‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ کارروائی دائیں بازو کے ہندوتوا گروپوں کے ان الزامات کے درمیان سامنے آئی جس میں کہا جا رہا تھا کہ اس سے مسلم گوشت برآمد کنندگان کو ایک خاص فائدہ ملتا ہے۔ بتادیں کہ حلال گوشت قرآنی تعلیمات کے مطابق ذبیحہ کے گوشت کو کہا جاتا ہے اور متعدد اسلامی ممالک صرف اسی کی درآمد کرتے ہیں۔

قبل ازیں بی جے پی کی زیر قیادت جنوبی دہلی میونسپل کارپوریشن نے بھی ایک تجویز کو منظوری دی تھی جس کے تحت تمام گوشت فروشوں اور ہوٹل و دھابہ آپریٹرز کے لیے یہ لازمی قرار دیا گیا کہ وہ اپنی دکان، ہوٹل یا دھابے کے باہر لکھیں کہ وہ کون سا گوشت فروخت کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو انتخاب کرنے میں آسانی ہو۔

سعودی عرب میں گوشت کے علاوہ دیگر پروڈکٹس کے لیے بھی حلال کا لزوم

گزشتہ سال سعودی عرب فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی (ایس ایف ڈی اے) نے حلال قوانین میں تبدیلی کی تجویز پیش کی، جس نے عام طور پر استعمال ہونے والے کھانے اور مشروبات (ایف اینڈ بی) کے لیے لازمی حلال سرٹیفیکیشن میں توسیع کر دی ہے۔ یہ ترمیم ان اصلاحات کے سلسلے کا ایک حصہ ہے جن پر سعودی حکومت 2019 سے عمل درآمد کر رہی ہے۔ مملکت میں پہلے حلال سرٹیفیکیشن صرف درآمد شدہ گوشت اور گوشت پر مبنی مصنوعات کے لیے لازمی تھا۔ تاہم، نئے ضابطے میں تمام درآمد شدہ ٹھنڈا اور منجمد کھانے، کنفیکشنری، لانگ لائف شیلف مصنوعات، دودھ اور دیگر ڈیری پروڈکٹس اور تیل و چربی کے لیے حلال سرٹیفیکیشن لازمی ہے۔ کنفیکشنری میں بسکٹ، کیک، کینڈی، چاکلیٹ اور جیلی شامل ہیں، جبکہ ٹھنڈے اور منجمد کھانے کے زمرے میں منجمد فاسٹ فوڈز جیسے پاستا، پیزا اور نوڈلز اور مشروبات شامل ہیں۔ لمبی شیلف لائف مصنوعات میں بچے کی خوراک، ڈبے میں بند فوڈ، سافٹ ڈرنکس، چٹنی اور غذائی سپلیمنٹس شامل ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، نیا ضابطہ یکم جنوری سے یکم جولائی 2022 تک دو مراحل میں نافذ کیا جا رہا ہے۔

درحقیقت مسلم ممالک میں اسلامی عقیدے کی بدولت ’حلال‘ کے تعلق سے کافی حساسیت پائی جاتی ہے اور اسی کے سبب ’حلال کی تصدیق‘ کا چلن عام ہوا ہے جسے ’معاشی جہاد‘ کے معنیٰ پہنانا سراسر جہالت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام تر مذہبی تعصب کے باوجود کوئی بھی کمپنی ’حلال سرٹیفکیشن‘ کو نظر انداز کر کے کاروباری مفادات کو محدود کرنا نہیں چاہے گی۔ ایسے میں بڑا سوال یہی ہے کہ حلال سرٹیفیکیشن کے خلاف جاری مذموم مہم کے زیر اثر حکومت کا حتمی رخ کیا ہو گا۔ اگر حکومت اس ضمن میں کوئی انتہائی اقدام کرتی ہے تو اندرون ملک مسلمانوں کے لیے خوراک کے انتخاب کا دائرہ بھلے ہی سمٹ جائے لیکن اس ناعاقبت اندیشی کا بدترین اثر بھارتی کمپنیوں اور بھارتی معیشت پر پڑے گا۔

کیا حلال سرٹیفیکیشن کا پیسہ دہشت گردی میں خرچ کیا جاتا ہے؟

آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ سال 2014 میں آسٹریلیا میں بھی کچھ اسلام مخالف تنظیموں نے حلال سرٹیفیکشن کی مخالفت کی تھی کہ حلال سرٹیفیکیشن کے ذریعے ہونے والی آمدنی سے دہشت گردی کے لیے فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں۔ تب آسٹریلیا کی فیکٹ چیک کرنے والی سب سے بڑی میڈیا تنظیم ’اے بی سی نیوز‘ فیکٹ چیک کرکے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ اسلام مخالف گروپ کی جانب سے لگایا گیا یہ الزام پوری طرح غلط ہے۔ بلکہ ’اے بی سی نیوز‘ نے اپنی اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا کہ حلال سرٹیفیکشن کرنے والی یہ تنظیمیں کس طرح سے آسٹریلیا کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں سے آسٹریلیا میں بچوں کے لیے اسپتال اور کینسر کونسل کو چندہ ملتا ہے۔

بین الاقوامی منڈی میں حلال فوڈ اینڈ پروڈکٹس کی مانگ تیزی سے بڑھ رہی ہے

ان سب کے درمیان حقیقت یہ ہے کہ عالمی سطح یعنی بین الاقوامی منڈی میں حلال فوڈ اور حلال پروڈکٹس کی مانگ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ دبئی اسلامک اکانومی ڈیولپمنٹ سنٹر کے مطابق حلال کھانوں کی عالمی منڈی 2023 تک 50 ٹریلین ڈالر تک پہنچ جانے کا امکان ہے۔ شاید اسی لیے اس مارکیٹ میں اپنی جگہ بنانے کی کوششیں صرف مسلم دنیا کے کاروباری ادارے ہی نہیں کر رہے ہیں بلکہ اس پھیلتے ہوئی کاروبار اور پیداواری صنعت سے فائدہ اٹھانے کی کوششیں کرنے والوں میں برازیل سے لے کر امریکا اور آسٹریلیا تک کے ادارے بھی شامل ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی کئی معروف کمپنیوں، بشمول اڈانی ولمار اور ریلائنس انڈسٹریز نے بھی اپنے ایکسپورٹ کو بڑھانے کے لیے ’حلال سرٹیفیکیشن‘ حاصل کر رکھا ہے۔ ایسی کمپنیوں کی فہرست میں یوگا گرو بابا رام دیو کی پتنجلی بھی شامل ہے۔

وقتاً فوقتاً حلال گوشت پر ہنگامہ آرائی کے باوجود، ہندوستان کی بھینسوں کے گوشت کا ایکسپورٹ ملائیشیا اور انڈونیشیا جیسے ممالک کی مانگ پر منحصر ہے، جو یا تو مسلم اکثریتی ہیں یا ان کی آبادی قابل ذکر ہے۔ اگریکلچرل اینڈ پروسیسڈ فوڈ پروڈکٹس ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (اپیڈا) کے مطابق، ہندوستان سے زرعی اور پروسیس شدہ خوراک کی برآمدات میں چاول اور باسمتی چاول کے بعد بھینس کا گوشت ہے۔ سال 2020-2021 میں صرف بھینس کے گوشت کی برآمدات کی مالیت 23,460 کروڑ روپے ($3.1 بلین) رہی ہے۔ سال 2020-2021 میں ہندوستانی بھینس کے گوشت اور اس کی مصنوعات کے سب سے بڑے درآمد کنندگان ہانگ کانگ، ویت نام، ملائیشیا، مصر اور انڈونیشیا تھے۔

وہیں ہندوستان نے سال 20-2021 میں 7050.55 ٹن بھیڑ اور بکرے کا گوشت دنیا کو ایکسپورٹ کیا، جس کی مالیت 329.96 کروڑ یعنی 44.57 ملین امریکی ڈالر ہے۔ اور یہ گوشت متحدہ عرب امارات، قطر، کویت، سعودی عرب، عمان جیسے ممالک کو ایکسپورٹ کیا گیا۔ یہی نہیں، سال 2020 میں 12 کروڑ روپے کا پروسیس شدہ گوشت بھی ایکسپورٹ کیا گیا اور اسے امپورٹ کرنے والے مسلم ممالک ہی تھے۔

پاکستان حلال مارکٹ کا حصہ بننے کے لیے بے قرار

ہفت روزہ دعوت نے اپنی ریسرچ میں پایا کہ اب پاکستان میں اس بات پر غور و فکر ہونے لگا ہے کہ پاکستان حلال اشیا کی عالمی مارکٹ سے باہر کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان حلال مارکٹ کا حصہ بننے کے لیے بے قرار ہے۔ گزشتہ کچھ مہینوں میں آنے والی خبروں کے مطابق پاکستان کے بڑے چین اسٹورز سعودی عرب میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں۔ ویسے تو پاکستان میں حلال اشیا کی تصدیق کرنے والی اتھارٹی کا قیام 2016ء میں ہی عمل میں آچکا ہے، لیکن انڈسٹری، ماہرین کے مطابق اب تک مکمل طور پر فعال اور متحرک نہیں تھی۔ مگر اب کچھ دنوں سے فعال و متحرک نظر آ رہی ہے۔

غور طلب ہے کہ گزشتہ سال 2021 کے دسمبر مہینے میں پاکستانی حکومت نے پاکستان حلال اتھارٹی کے نئے بزنس رولز اور پاکستان حلال سرٹیفیکیشن ریگولیشنز 2021 کو منظوری دی ہے۔ اس موقع پر پاکستان کے اس وقت کے وفاقی وزیر شبلی فراز نے صاف طور پر کہا تھا کہ ملک صرف ٹیکسٹائل کے ایکسپورٹ پر آگے نہیں بڑھ سکتا، اسے دیگر مصنوعات کے ایکسپورٹ کو بھی بڑھانا ہو گا اور بین الاقوامی حلال فوڈ مارکیٹ میں بتدریج اپنا حصہ حاصل کرنا ہو گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اسلامی دنیا میں اہم مقام رکھتا ہے، حلال اور حرام قوتیں ہمیشہ ایک دوسرے سے نبرد آزما رہی ہیں، ہماری کوشش ہے کہ یہ ادارہ قانونی طور پر قائم ہونے کے بعد اب عملی طور پر بھی اقدامات کرے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں تیزی سے بڑھتی ہوئی حلال مارکیٹ کا حصہ بننے پر زور دیا جس کا بین الاقوامی مارکیٹ میں ٹریلین ڈالر مالیت کا حجم ہے۔ ان کے مطابق عالمی منڈی دنیا بھر میں اندازاً 1.9 بلین مسلمانوں کی ضروریات اور کارکردگی پر مبنی ہے جو غیر مسلم دنیا سے دگنی شرح سے بڑھ رہی ہے اور 2030 تک اس کے 2.2 بلین تک پہنچنے کی توقع ہے۔ وہیں پاکستان اپنے میڈیا کے ذریعہ اس بات کو بھی زور و شور سے اٹھانے

کی کوشش میں لگا ہوا ہے کہ ’عالمی منڈیوں میں حلال اشیا فراہم کرنے والے ممالک میں حلال سرٹیفیکیشن پر کافی شکوک و شبہات ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں خاصا کام ہوا ہے اور فوڈ اینڈ بیوریجز کے علاوہ بھی متعدد اشیا کے حلال سرٹیفیکیشن کے لیے اسٹینڈرڈز مرتب کیے گئے ہیں۔‘

آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ پاکستان سال 2019 میں بیف ایکسپورٹ کرنے والے ممالک کی فہرست میں 19ویں نمبر پر تھا، جبکہ ہندوستان کا نمبر دوسرا تھا۔ لیکن سال 2020 کی یو ایس ڈی اے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اب 14 ویں نمبر پر ہے اور ہندوستان کا مقام چوتھا ہے۔ پہلے، دوسرے اور تیسرے مقام پر برازیل، آسٹریلیا اور امریکہ ہیں۔

حلال مارکٹ پر نائیجیریا کی بھی نظر

نائیجیریا کی صنعت، تجارت اور سرمایہ کاری کی وزیر مریم کاتاگم نے نائیجیریا میں حلال سرٹیفیکیشن کے لیے روڈ میپ اور آپریشنل فریم ورک کی ترقی کے لیے 23 مارچ 2022 کو ایک 14 رکنی تکنیکی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ نائیجیریا ابھی تک اپنی ایکسپورٹ کی آمدنی کو بڑھانے، سرمایہ کاری کرنے اور معیشت کی ترقی کے لیے اس بڑی مارکیٹ سے فائدہ نہیں اٹھا سکا ہے۔ لیکن اب اس جانب ہمیں مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ کمیٹی حلال مارکیٹ میں نائیجیریا کے اہم رول ادا کرنے کی خاطر اسٹریٹجک پلان اور آپریشنل فریم ورک تیار کرے گی۔ ان کے مطابق، آج یہ حلال مارکیٹ 112 ممالک میں تقریباً دو بلین مسلمانوں پر مشتمل ہے، وہیں اس اسلامی آبادی کے علاوہ، دنیا بھر میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو صحت مند طرز زندگی کے انتخاب کی بنیاد پر حلال مصنوعات استعمال کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ ان کی تعداد بھی یقیناً کئی بلین میں موجود ہے۔ بتادیں کہ اس کمیٹی کی صدارت حلال اسٹینڈرڈ ڈیولپمنٹ ٹرسٹ کے چیئرمین اور نائیجیریا کی سپریم کونسل برائے اسلامی امور کے رکن نور ثانی ہانگا کر رہے ہیں۔

کیا ہے حلال سرٹیفیکشن؟

حلال سرٹیفیکیشن ایک ایسا سرٹیفکٹ ہے جو کھانے و دیگر استعمال ہونے والی مصنوعات پر لگایا جاتا ہے تاکہ مسلمان پہچان سکیں کہ یہ اشیاء حلال ہیں۔ یہ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی تقریباً تمام یورپی ممالک، امریکہ وغیرہ میں بھی اشیائے خوردونوش کے حلال ہونے کی تصدیق کی جاتی ہے اور حلال سرٹیفکٹ دینے سے پہلے باضابطہ اس کامعائنہ کیا جاتا ہے۔ اور تحقیق کی جاتی ہے کہ واقعی یہ مصنوعات حلال ہیں یانہیں؟ پوری طرح اطمینان ہونے کے بعد ہی اس پروڈکٹ کو ایکسپورٹ کرنے کے لئے سرٹیفکٹ دیا جاتا ہے۔

***

 درحقیقت مسلم ممالک میں اسلامی عقیدے کی بدولت ’حلال‘ کے تعلق سے کافی حساسیت پائی جاتی ہے اور اسی کے سبب ’حلال کی تصدیق‘ کا چلن عام ہوا ہے جسے ’معاشی جہاد‘ کے معنیٰ پہنانا سراسر جہالت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام تر مذہبی تعصب کے باوجود کوئی بھی کمپنی ’حلال سرٹیفکیشن‘ کو نظر انداز کر کے کاروباری مفادات کو محدود کرنا نہیں چاہے گی۔ ایسے میں بڑا سوال یہی ہے کہ حلال سرٹیفیکیشن کے خلاف جاری مذموم مہم کے زیر اثر حکومت کا حتمی رخ کیا ہو گا۔ اگر حکومت اس ضمن میں کوئی انتہائی اقدام کرتی ہے تو اندرون ملک مسلمانوں کے لیے خوراک کے انتخاب کا دائرہ بھلے ہی سمٹ جائے لیکن اس ناعاقبت اندیشی کا بدترین اثر بھارتی کمپنیوں اور بھارتی معیشت پر پڑے گا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  01 تا 07 مئی  2022