حلال سرٹیفیکیشن کے خلاف مذموم مہم : گلوبلائزیشن کے دور میں پاگل پن کی باتیں

ریسرچ اسکالر حسن محفوظ سے ہفت روزہ دعوت کی بات چیت

افروز عالم ساحل 

’آج جبکہ پوری دنیا ’گلوبل ویلیز‘ میں تبدیل ہو چکی ہے، ہر ملک دوسرے ملک کے ساتھ جڑا ہوا ہے، اگر اس طرح کے ’پاگل پن‘ کا مظاہرہ ہندوتوادی تنظمیوں کے لوگ کرتے رہیں گے تو اس کا نقصان پورے ملک کو ہوگا، اور اس کا راست اثر ملک کی معیشت اور برآمدات پر پڑے گا۔ بہت سارے بزنس مین ہمارے ملک کو چھوڑ کر جا سکتے ہیں۔ اس کا نقصان بھی عوام کو ہی اٹھانا پڑے گا۔۔۔‘

یہ باتیں ترکی میں اسلامک اکانومکس میں پی ایچ ڈی کرنے والے ریسرچ اسکالر حسن محفوظ نے کہیں جو ہندوستان میں ’حلال سرٹیفیکشن‘ کے تعلق سے جاری مہم کے تناظر میں استنبول میں ہفت روزہ دعوت سے بات کر رہے تھے۔ حسن محفوظ استنبول صباحتین زائم یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف اسلامک اکانومکس اینڈ فینانس میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں۔ نیز، اسلامک ڈیولپمنٹ بینک سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ ان کا تعلق ریاست اتر پردیش سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ حلال مارکٹ چاہے قومی سطح پر دیکھیں یا بین الاقوامی سطح پر، کافی اہم ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں 210 ملین سے زائد مسلمان ہیں، جبکہ بین الاقوامی سطح پر مسلمان تقریباً دو سو بلین ہے، اور یہ سب لوگ آج بھی یہ عزم رکھتے ہیں کہ وہ حلال چیزیں ہی کھائیں گے یا خریدیں گے۔ ایسے میں ہم محض ہندوتوادی تنظیموں کے ’حلال سرٹیفیکیشن‘ کے خلاف مہم کی وجہ سے اتنی بڑے مارکیٹ سے محروم ہو سکتے ہیں۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ مثال کے طور پر، انڈونیشیا اور ملائیشیا، ہندوستان کے لیے دو بڑے اہم ایکسپورٹر ممالک ہیں۔ یہ دونوں ہی ممالک ’حلال سرٹیفیکٹ‘ کے بغیر اپنے ملک میں کچھ بھی امپورٹ نہیں کرتے۔ کیونکہ ان کے یہاں قانون کا حصہ ہے کہ جس پروڈکٹ پر ’حلال سرٹیفیکٹ‘ نہیں ہو گا، اس پروڈکٹ کا امپورٹ بند کر دیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انڈونیشیا جہاں 25 کروڑ مسلمان ہیں اور ملائیشیا جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد رہتی ہے، ان ممالک میں ہندوستان کا کوئی سامان ایکسپورٹ نہیں ہو پائے گا، اگر ہم نے ’حلال سرٹیفیکشن‘ کے سسٹم کو ختم کر دیا۔ اس کے علاوہ دیگر مسلم ممالک جیسے ترکی، سعودی عربیہ، متحدہ عرب امارات، مصر وغیرہ، یہ تمام ملک بہت بڑے امپورٹر ملک ہیں۔ ان ممالک میں ہندوستان سے ہر طرح کے گوشت کے ساتھ ساتھ کافی سارا پروڈکٹ جاتا ہے۔ ان مسلم ممالک کے ساتھ ہندوستان کا کئی ہزار کروڑ کا ایکسپورٹ کا کاروبار ہوتا ہے، اور یہ ممالک ایکسپورٹ صرف اور صرف حلال سرٹیفیکشن کی بنیاد پر ہی کرتے ہیں۔ اور وہ اس لیے کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ انڈیا میں مسلمانوں کی کتنی بڑی آبادی ہے اور ’حلال سرٹیفیکٹ‘ کون دیتا ہے۔

اگر حکومت ہند ’حلال سرٹیفیکشن‘ کے خلاف چلنے والی مہم کے دباؤ میں آکر اس سسٹم کو ختم کر دیتی ہے تو اس کے کیا معاشی نتائج برآمد ہوں گے؟ اس سوال پر حسن کہتے ہیں اس کا خمیازہ ملک کے ہر شہری کو بھگتنا پڑے گا کیونکہ اس کی وجہ سے ہندوستان دیگر مسلم ممالک کے علاوہ انڈونیشیا اور ملائیشیا جیسی بڑی منڈیوں سے محروم ہو جائے گا۔ آپ کو بتا دوں کہ ایک رپورٹ کے مطابق، ہندوستان میں 2022 میں بیف کا پروڈکشن 42.5 لاکھ ٹن ہونے کی پیشنگوئی کی گئی ہے۔ اس میں گھریلو کھپت 27.5 لاکھ ٹن تک ہونے کی امید ہے۔ وہیں ایکسپورٹ کے 15 لاکھ ٹن تک پہنچنے کی پیشنگوئی کی گئی ہے۔ ایسے میں ہمیں ایکسپورٹ بڑھانے کی ضرورت ہے، کیونکہ اگر ایکسپورٹ نہیں بڑھے گا تو نقصان یقیناً ہمارے ملک کا ہی ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں ’حلال سرٹیفیکشن‘ ختم کرنے سے ہندوستان کو مسلم ممالک کے ساتھ تجارت میں اربوں ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے اور وہ صرف گوشت کو ہی امپورٹ کرنا بند نہیں کریں گے بلکہ شاید دیگر اشیاء کی درآمد بھی بند کر دیں گے۔

اگر ہندوستان میں ’حلال سرٹیفیکشن‘ کے خلاف مہم اسی طرح جاری رہے گی تو کیا دوسرے ممالک کو اس کا فائدہ مل سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں حسن کہتے ہیں، یقیناً اس کا فائدہ پاکستان کو زیادہ ملے گا۔ جن مسلم ممالک میں ہندوستان سے ایکسپورٹ ہو رہا ہے، اگر انہیں اس مہم کی وجہ سے کچھ غلط معلوم گا تو وہ آزاد ہیں کہ کسی دوسرے ملک سے اپنے لیے حلال سرٹیفیکیشن والی چیزیں امپورٹ کریں۔ ایسے میں وہ لازما ہندوستان کا متبادل تلاش کریں گے۔ پھر انہیں پاکستان نظر آئے گا یا وہ آسٹریلیا یا برازیل کی طرف دیکھیں گے جبکہ پاکستان حالیہ دنوں میں کافی تیزی سے اس میدان میں آگے بڑھ رہا ہے۔

محض عربی میں لکھا ہونے کی وجہ سے ملک میں ایک ٹی وی چینل کے ذریعے کیے گئے ہنگامے کے سوال پر حسن کہتے ہیں کہ عربی ایک زبان ہے، اور زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ مصر اور لبنان جیسے ملکوں میں عیسائی بھی عربی زبان بولتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان میں اس وقت جو سیاسی حالات ہیں، اس لحاظ سے عربی زبان کو مسئلہ بنایا جا رہا ہے۔ اس ’پاگل پن‘ پر میں مزید کچھ نہیں کہہ سکتا۔

حسن محفوظ ایک طویل گفتگو میں بتاتے ہیں کہ ہندوستان سے دیگر ممالک میں ایکسپورٹ کا ہونا ہندوستان کے لیے بہت اہم ہیں کیونکہ یہ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کا موجب ہے۔ جب ہم دوسرے ملک میں کچھ بیچتے ہیں تو وہ ڈالر میں بیچتے ہیں اور وہ ڈالر ملک میں امپورٹ والی چیزوں کی رقم کی ادائیگی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اگر ایکسپورٹ کسی وجہ سے کم ہوتا ہے تو ہندوستان کا تجارتی خسارہ زیادہ ہو گا۔ کیونکہ اگر ڈالر آنے بند ہو جائیں گے تو آپ کا کرنٹ اکاؤنٹ یا ٹریڈ اکاؤنٹ خسارے میں چلا جائے گا اور اس کا راست اثر ملک کی معیشت پر پڑے گا۔ کیونکہ اس خسارے کی مالی اعانت کے لیے ہندوستان کو بین الاقوامی اداروں سے قرض لینا پڑے گا یا ملکی اثاثے غیر ملکیوں کو فروخت کرنا ہو گا، اور اس قرض کی وجہ سے ہندوستانی شہریوں پر مزید ٹیکس لگیں گے اور یہ ٹیکس عوام کو اپنی جیب سے بھرنا پڑے گا۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ آج کے حالات میں ڈالر ہمارے ملک کے لیے بہت اہم اور قیمتی ہے۔ اور ایکسپورٹ کا بالراست تعلق ہمارے ملک کے عوام کے ساتھ ہے۔ اگر ایکسپورٹ میں کمی ہوگی تو حکومت کو ٹیکس بڑھانے کی ضرورت پڑ جائے گی۔ اور جب ٹیکس بڑھے گا تو ہندوستان کا ہر شہری چاہے وہ کسی مذہب کا ہو، اس کا نقصان ضرور بھگتے گا۔