نیند کی کمی ایک عالمی مرض

جاپان کے بعد بھار ت ’انسومنیا‘ کا شکار دوسرا بڑا ملک

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

مادی ترقی کی دوڑ نے انسان سے سکون چھین لیا
ایک زمانہ تھا جب ہم یہ سنا کرتے تھے کہ گھر میں موجود ضعیفوں، بزرگوں یا بیماروں کو رات میں نیند نہیں آتی، وہ رات بھر سو نہیں پاتے، انہیں نیند نہ آنے کا مسئلہ درپیش رہتا ہے۔ لیکن دور حاضر میں یہ مسئلہ صرف اّنہی حضرات تک محدود نہیں رہا بلکہ اس مسئلے نے آج کے نوجوان نسل کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ آج نیند کی کمی یا نیند کا نہ آنا دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ایک مستقل بیماری کی شکل اختیار کر چکی ہے جس کی زد میں نہ صرف بوڑھے مبتلا ہیں بلکہ نوجوانوں کی کثیر تعداد اس مرض کا شکار بن چکی ہے۔
فلپس گلوبل سلیپ سروے ۲۰۲۱ کے مطابق دنیا کی آبادی کے ۶۲ فیصد لوگوں نے کہا ہے کہ ان کو رات میں بھرپور نیند نہیں آتی ہے یا وہ میٹھی نیند سے محروم ہیں۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں ۷ کروڑ لوگوں نے کہا ہے کہ وہ رات کو اچھی نیند نہیں لے پاتے ہیں۔ انہیں انسومنیا کا مسئلہ درپیش ہے۔ ہمارے ملک میں بھی یہ ایک بہت بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ ہندوستان میں ہر سال ایک کروڑ لوگ انسومنیا کا شکار ہوتے ہیں۔ ۶۰ فیصد ہندوستانیوں نے کہا ہے کہ انہوں نے نیند لانے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے ہیں جس میں دوائیں، ٹیلی ہیلتھ سروس اور نیند آور آلات وغیرہ شامل ہیں۔ ہمارا ملک جاپان کے بعد دوسرا ملک بن گیا ہے جہاں کے عوام سب سے زیادہ انسومنیا یعنی نیند نہ آنے کے مسائل کا شکار ہیں۔ فٹ بیٹ جو مختلف صحت سے متعلق آلات بنانے والی ایک کمپنی ہے اس کے سروے کے مطابق ہندوستانی عوام محض ۷۲ منٹ ہی اچھی یا گہری نیند لے پاتے ہیں باقی رات وہ سوتے تو ہیں لیکن اس سے ان کی جسمانی تھکن دور ہوتی ہے اور نہ ہی ذہنی تھکاوٹ دور ہوپاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق انسان کو ۲۴۰ سے ۲۸۰ منٹ کی گہری نیند کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس کا ذہن وجسم تر وتازہ ہو کر دوبارہ کام کرنے کے قابل ہو سکے۔ بھرپور نیند ملنے پر ہی انسانی دماغ نئی نئی چیزیں سوچ سکتا ہے، تحقیق وجستجو کرسکتا ہے، یاد رکھ سکتا ہے ورنہ اس کا ذہن اس قابل نہیں رہتا کہ وہ کوئی تحقیقی وتخلیقی کام کرسکے۔
نیند نہ آنے کا مسئلہ ہر جگہ یکساں نہیں ہے، یہ لوگوں کے اپنے رہن سہن کے اعتبار سے مختلف نوعیت کا ہوتا ہے۔ ان کے کھانے پینے کے طور طریقے، طرز زندگی اور روز مرہ کی سرگرمیوں کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے۔ دنیا میں اس مسئلہ پر سائنسی تحقیقات ہورہی ہیں۔ اس بیماری کے تدارک کے لیے کروڑوں ڈالر تحقیق پر خرچ کیے جا رہے ہیں۔ اب تو کئی طرح کی نیند آور ادویہ بھی بازار میں آچکی ہیں اور باضاطہ طور پر ایک صنعت کی شکل اختیار کرچکی ہیں۔ بازار میں اس وقت نیند آور ادویہ ہی نہیں بلکہ کئی کمپنیاں ایسی ہیں جو نیند لانے کے لیے اپنی خدمات بھی دے رہی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت نیند آور ادویہ، آلات، خدمات وغیرہ کی مارکیٹ ۴ سو ۳۲ بلین ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ ۲۰۲۴ تک اس تجارت کے تقریباً ۶ سو بلین ڈالر تک پہنچ جانے کا امکان ہے۔ محض امریکہ میں ہی یہ سلیپ ٹکنالوجی پروڈکٹس یعنی نیند آور سائنسی اشیاء کی تیار کرنے والے کمپنیوں کے پیٹنٹ میں ہر سال ۱۲ فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ مسئلہ کتنا گہرا ہے۔ وہ کیا آلات ہیں جو اچھی نیند کی فراہمی کے لیے تیار کیے جارہے ہیں؟ یہ بھی بڑا دل چسپ موضوع ہے۔ اس پر مختلف ممالک میں الگ الگ طرح کی سائنسی تحقیقات جاری ہیں۔ جیسا کے میں نے کہا کہ نیند نہ آنے کی وجوہات ہر جگہ مختلف ہوتی ہیں مثلاً کسی کو نرم گدے پر نیند آتی ہے تو کسی کو تخت پر۔ جرمنی میں لوگ اپنے بستر پر جو توشک استعمال کرتے ہیں وہ سخت ہوتے ہیں وہیں امریکہ میں انتہائی نرم توشک کا استعمال کیا جاتا ہے، جب کہ ہمارے ملک میں دونوں طرح کے توشک استعمال ہوتے ہی۔ میکنسی نامی کمپنی نے حال ہی میں ایک اعلامیہ جاری کیا ہے جس کا موضوع تھا "گلوبل سلیپ ہیلت اکنامی” اس نے عوام کو اس کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دی ہے۔ کمپنی کے مطابق اس میں بنیادی طور پر تین قسم کے مصنوعات ہیں جو اچھی نیند سے متعلق ہیں۔ پہلا ’’ایمبینس‘‘ یعنی ماحول کی تبدیلی، جس جگہ آپ کو سونا ہے اس جگہ کا ماحول کیسا ہونا چاہیے، مثلاً توشک کیسا ہو، تکیہ کیسا ہو وغیرہ۔دوسرے تکیہ کے نیچے سر کو گداز پہنچانے اور بالوں کو سہلانے والے آلات وغیرہ۔ آج بازار میں ایسے کئی آلات دستیاب ہیں جن سے آپ معلوم کر سکتے ہیں کہ آپ نے کتنی نیند لی ہے کس درجہ کی گہری نیند لی ہے کتنے فیصد نیند لی ہے وغیرہ۔ ’’اسمارٹ پِلوس‘‘ تکیہ بھی خوب آ رہے ہیں جو سر کو سہلاتے ہیں، اگر اس کی حرکت زیادہ ہو تو اسے سکون پہنچانے کے لیے اس میں خفیف سی لہریں پیدا ہوتی ہیں جو آدمی کو سکون پہنچاتی ہیں پھر اسی طرح سوتی لہروں کے آلات، میٹھی اور سریلی آواز پیدا کرنے والے آلات جو کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ تیسرا طبی طریقہ۔ کسی ماہر سے مشورہ لینا، کسی ڈاکٹر سے علاج کروانا، پھر اسی طریقے سے مختلف دوائیں بھی ہیں جس کو استعمال کرکے آدمی نیند کی آغوش میں جاسکتا ہے۔ دنیا کی مشہور دوا ساز کمپنیوں نے تو نیند آور ادویہ کا ایک شعبہ ہی مختص کر دیا ہے تاکہ وہ مستقل تحقیق کرتا رہے اور نئی نئی دوائیں متعارف کراتا رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلہ نے اب مکمل صنعت کی شکل اختیار کرلی ہے۔
ماہرین کے مطابق بنیادی طور پر نیند نہ آنے کا تعلق طرز زندگی سے ہے، نیند نہ آنے کی وجوہات میں روز مرہ کی سرگرمیوں میں دماغی تناؤ کا ہونا، کام کرنے کی جگہ پر کام کا بوجھ، گھر کا بوجھ وغیرہ۔ لوگ جہاں وہ کام کرتے ہیں وہاں کے تناؤ کو اپنے گھر لے آتے ہیں اور جو گھر کے مسائل ہیں ان کو اپنے کام کی جگہ لے جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ سکون سے محروم ہوجاتے ہیں، نتیجہ میں وہ نیند سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف جسمانی تناؤ بھی ایک مسئلہ بنا ہوا ہے، کام کی زیادتی، زیادہ دیر تک کام کرنا، ٹریفک میں پھنس جانا، حمل ونقل کی صعوبتیں وغیرہ۔ تیسری وجہ کھانے کی عادتیں ہیں۔ یہ بھی ایک اہم وجہ ہے نیند نہ آنے کی۔ زیادہ کھانے کی وجہ سے بھی نیند میں خلل پڑتا ہے، بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ ماہرین نیند نہ آنے کی ایک اور وجہ بھی بتاتے ہیں اور وہ ہے نیلی روشنی، جی ہاں نیلی روشنی سے بھی نیند میں بہت خلل پڑتا ہے۔ نیلی روشنی یعنی ٹیلی ویژن، کمپیوٹر، موبائل فون وغیرہ سے خارج ہونے والی روشنی بھی بہت بڑی وجہ ہے نیند کی بربادی کی۔ ان چیزوں کے استعمال سے ہمارے طبعی اوقات میں بڑی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ دیر رات تک فیس بک، واٹس ایپ یا دیگر غیر ضروری چیزوں میں اپنے آپ کو مصروف رکھ کر ہم نے اپنے طبعی اوقات کے دورانیہ میں غیر فطری تبدیلی کی ہے، دیر رات تک جاگنا اور صبح دیر سے اٹھنا جس سے نہ رات کی نیند پوری ہوتی ہے اور نہ دن کا کام صحیح طریقے سے ہو پاتا ہے ۔
ان سب سے بڑھ کر ایک اہم وجہ انسان کا دنیا میں غرق ہو جانا ہے۔ وہ اس فانی دنیا میں اس قدر مگن ہو گیا ہے کہ اس کو اپنا مقصد وجود ہی یاد نہیں رہا۔ مادی طور پر ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی چاہ نے اس سے روحانی سکون چھین لیا ہے۔ دنیا اسی سکون کی تلاش میں ہے، وہ اس کے لیے اپنا قیمتی وقت، اپنی گاڑھی کمائی صرف کر رہی ہے، وہ طرح طرح کے ذرائع اپنا رہی ہے لیکن پھر بھی وہ سکون حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ اے کاش کہ انسان کو کوئی سمجھاتا کہ اس کا سکون مادی ترقی میں نہیں ہے بلکہ روحانی ترقی میں مضمر ہے۔
***

 

***

 فلپس گلوبل سلیپ سروے ۲۰۲۱ کے مطابق دنیا کی آبادی کے ۶۲ فیصد لوگوں نے کہا ہے کہ ان کو رات میں بھرپور نیند نہیں آتی ہے یا وہ میٹھی نیند سے محروم ہیں۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں ۷ کروڑ لوگوں نے کہا ہے کہ وہ رات کو اچھی نیند نہیں لے پاتے ہیں۔ انہیں انسومنیا کا مسئلہ درپیش ہے۔ ہمارے ملک میں بھی یہ ایک بہت بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  02 جنوری تا 08 جنوری 2022