نیشنلزم: عرب دنیا کے تناظر میں
منصف مرزوقی | ترجمہ: رضوان رفیقی
ستر کی دہائی کے بیچ تک میرے آفس کی دیوار پر جمال عبد الناصر کی تصویر آویزاں رہی، پھر وہ وقت آیا کہ اسے میں نے ایک الماری میں رکھ دیا۔ میں اس قطعی نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ اتحاد کے منصوبے کو سب سے بڑا خطرہ قومیت پرستوں سے ہے۔ یاد رہے کہ قومیت کو رد کرنے کا مطلب عربیت کو مسترد کرنا نہیں ہے۔ اسی لیے میں نے 1984 میں ایک کتاب لکھی، جس کا عنوان سنسنی خیز تھا "مریخ پر عربوں کے قدم کیوں پڑیں گے؟” ( یہ کتاب میری ویب سائٹ پر موجود ہے )، چناں چہ جب کتاب شائع ہوئی تو اس وقت کچھ نیشنلسٹ میرے پاس آئے اور اپنا مدعا رکھا: ” اب وقت آگیا ہے کہ تیونس میں بھی عربیت کی بنیاد پر ایک سیاسی پارٹی ہونی چاہیے” میں نے کہا ” کیوں نہیں؟ میں ایک کنسپٹ پیپر تیار کرکے دوں گا جس میں اس پارٹی کے اصول اور مقاصد کے سلسلے میں اپنا تصور پیش کروں گا۔
اس پیپر پر میں نے ان نوخیز خیالات کو رکھا تھا، جن کی وکالت میں آج تک کررہا ہوں:
( ۱ ) امت کی کس مپرسی کے دو مصدر ہیں: ایک استعمار جو بیرونی استبداد بنا ہوا ہے، اور دوسرا استبداد جو اندرونی استعمار بنا ہوا ہے۔ استعمار اور استبداد ایک ہی سکے کے کے دو رخ ہیں، اور دونوں میں موازنہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ پس وفاداری امت اور اس کے مبنی بر انصاف معاملات کے ساتھ ہو، کسی پارٹی یا لیڈر کے ساتھ نہیں۔
( ۲ ) عربیت کی علم بردار ہر حکومت کے لیے امپیریلزم اور صہیونیت کا مقابلہ کرنا ضروری شرط ہے۔ لیکن حکومت کرنے کا جواز پانے کے یہ کافی نہیں ہے۔ اور کسی بھی حالت میں یہ نہیں ہوسکتا کہ اسے بنیاد بناکر استبداد سے چشم پوشی کی جائے یا اسے جواز دیا جائے۔
( ۳ ) عربی وحدت کی تشکیل کا واحد راستہ وہی ہے، جس کو یوروپ کی اقوام نے اس وقت اختیار کیا، جب یوروپ کے جمہوری ملکوں نے نازی، فاشسٹ اور سوشلسٹ ڈکٹیٹر نظاموں کے ملبے پر یوروپی یونین کی تشکیل کی۔
( ۴ ) عرب قوم فطری طور پر تکثیری ہے، یہ مضبوط حیثیت والی اور قدیم ماضی رکھنے والی اقوام پر مشتمل ہے۔ اس تکثیریت کا احترام کرنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ بربروں، کردوں اور عیسائیوں کے ساتھ، جو اسلامی عربی تمدن کے ہمارے تاریخی شراکت دار ہیں، گفتگو شروع کی جائے، اور ایسی شراکت داری پر اتفاق بنانے کی کوشش کی جائے جس میں اقلیت اور اکثریت کی منطق سے اوپر اٹھ کر تمام شراکت داروں کو یکساں اہمیت اور حقوق حاصل ہوں۔
( ۵ ) ہر عربی اس امت کا تنہا اور جائز نمائندہ ہے، اس لیے اس کا جسم محترم ہے، اور اس کے حقوق اور آزادیاں دراصل پوری امت کے حقوق اور آزادیاں ہیں۔ اس لیے ہر عربیت والی پارٹی پر واجب ہے کہ وہ ہر ملک میں جمہوریت کی خادم بنے اور ہرجگہ انسانی حقوق کی پاسبان ہو۔
( ۶ ) عرب قوم وہ قوم ہے جو جائز حقوق کا دفاع کرتی رہی ہے، جس میں سر فہرست استعمار کے پنجے میں گرفتار رہنے والی آخری قوم کے حقوق ہیں۔ یعنی فلسطینی قوم۔ لیکن عرب قوم یہودیوں یا اہل مغرب کے خلاف تاریخی انتقام یا موروثی دشمنی کے کسی پروگرام سے جڑی ہوئی نہیں ہے۔ وہ تمام اقوام کے ساتھ سلامتی اور تعاون کا رشتہ رکھتی ہے۔
( ۷ ) عربیت کا یہ جدید منصوبہ دراصل ہر ملک میں قانون اور اداروں کی حکومتوں کا قیام ہے، پھرخود مختار ریاستوں اور آزاد اقوام کے اتحاد کو تشکیل دینا ہے۔ تاکہ وہ باوقار زندگی گزارسکیں اور اپنے اعلی مقصد کو پاسکیں، اور وہ ہے سائنس، ٹکنالوجی، فکر اور فن کے تخلیقی میدان میں پر زور واپسی۔ جس سے وہ اپنی اور پوری انسانیت کی ترقی میں حصہ لے سکیں۔ ان میدانوں سے ہم طویل عرصے تک غائب رہے، جب کہ کبھی اس کے پیشوا ہوتے تھے۔
خیر اس دن کے بعد سے میں نے اپنے فاضل دوستوں سے اس بارے میں کوئی بات نہیں سنی، یہاں تک کہ بورقیبہ کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا گیا اور 1987 میں تیونس دکھاوے کی جمہوریت کے دور میں داخل ہوا۔ اس وقت مجھے یہ دیکھ کربالکل حیرت نہیں ہوئی کہ بہت سارے نیشنلسٹ وحدت کی علم بردار ایک پارٹی میں شامل ہو گئے اور اس کے اندر ہی اس خفیہ ایجنسی کی نگرانی میں دھینگا مشتی کرنے لگے، جس نے رات دن ایک کرکے ایک لبرل پارٹی، ایک ترقی پسند پارٹی اور ایک تیسری دستوری پارٹی تشکیل دی، تاکہ ہر سیاسی گروپ پر بن علی کی مضبوط گرفت کو یقینی بنادیا جائے۔
پھر 1990 میں کویت پر عراق نے حملہ کیا، اس وقت بھی میں نے صاف صاف لکھا تھا کہ یہ ایک احمقانہ حرکت ہے، جس کا وبال عراق ہی نہیں پوری امت پر آئے گا اور سب سے بڑا معرکہ سب سے بڑی ہزیمت ثابت ہوگا، اس وقت صدام کے حواریوں نے میرے خلاف محاذ جنگ کھول دیا جس کی شدت اس جنگ سے کس طرح کم نہیں تھی، جو اس وقت بشارالاسد کے حامی میرے خلاف چھیڑے ہوئے ہیں ۔
جب بدعنوانی، ظلم اور موروثی سیاست کے خلاف عرب بہار کی پہلی لہر میں ہماری قومیں اٹھ کھڑی ہوئیں، تو نیشنلسٹوں نے لیبیا میں قذافی کا ساتھ دیا اور مصر میں سیسی کا، اور اب دیکھو نیشنلسٹوں کو کہ شامی ڈکٹیٹر کی حمایت میں شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں، جب کہ بشار کے جرائم طشت ازبام ہوچکے ہیں۔ ظاہر بات ہے ہر انتخاب میں انھوں نے میرے خلاف ہی ووٹ دیا۔
یہ لوگ طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں’’عبرانی بہار ‘‘سے آپ نے کیا حاصل کیا؟ اس انقلاب کی کتنی قیمت چکانی پڑی ہے؟ ان سے کوئی پوچھے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا عرب ممالک کی اقوام محض انقلاب کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں یا انھیں اس جانب ڈھکیلا گیا؟ کیا ان کا فرض یہی تھا کہ وہ ہمیشہ ظلم وناانصافی، کرپشن اور موروثیت کے سامنے سرتسلیم خم کرتے رہتے، صرف اس وجہ سے کہ تمھاری حکومتیں اسرائیل اور امریکہ کے خلاف زور زور سے چلاتی ہیں۔
پھریہ کہتے ہیں کہ نیٹو، برنارڈ لیوی، عالمی سازش، داعش، ترکی، قطر، کونڈولیزا رائس، اور انارکی وخلفشارکے بارے میں کیا خیال ہے! میں اپنے آپ میں بڑبڑاتا ہوں کہ تمھارا من گھڑت ذہن سند باد کی غداری، علی بابا کی سازش، شہرزاد کی خیانت اور جحا کی بددعائیں نہ بھولے۔
حق بات کہنا چاہیے، اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ نیشنلسٹوں نے پچھلی صدی کے وسط میں استعمار اور صہیونیت سے لوہا لیا اور انھوں نے عرب عوام کو سیکورٹی، تعلیم اور صحت کے میدان میں وہ کچھ دیا، جس پر وہ آج بھی بجا طور پر فخر کرسکتے ہیں۔ میں نیشنلسٹوں میں سے کتنوں کو جانتاہوں، جو سچے ہیں، امت کے لیے انتہائی غیرت مند ہیں، جن کا خفیہ ایجنسیوں والے نیشنلسٹوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور اسی لیے مجھے شدید افسوس ہوتا ہے کہ ایسے ذلت آمیز موقف انھوں نے کیوں کر گلے لگائے؟ اس کا جواب ہے: خود احتسابی کی جرأت نہ ہونے کی وجہ سے۔
تاہم حق گوئی کا تقاضا ہے کہ یہ بھی یاد دلایا جائے کہ انھوں نے مصر میں کرپشن اور فوجی ڈکٹیٹر شپ کی بنیاد رکھی، شام میں ایک فرقہ کی حکومت، اور عراق اور لیبیا میں ایک تنہا پارٹی، اس کے پیغمبر صفت لیڈر اور اس کے خاندان کی آمریت کی بنا رکھی۔ انھوں نے ہمارے ساتھ وہ رویہ روا رکھا، گویا ہم ملک کے شہری نہیں بلکہ رعایا قومیں ہیں۔ یہ بھی یاد دلایا جائے کہ انقلاب کے راستے میں ہماری اقوام نے جو بھاری قیمت چکائی ہے اس کا گناہ ان نیشنلسٹوں کے سر ہے، اسی طرح جوابی انقلاب کے مقابلے میں جو ہماری اقوام بھاری قیمت ادا کررہی ہیں اس کا وبال بھی ان نیشنلسٹوں کے سر ہے جو مصر، شام، لیبیا اور تیونس میں بے حیائی کے ساتھ جوابی انقلابوں کی پشت پناہی کررہے ہیں۔
جمال عبد الناصر، عصمت سیف الدولہ اور میشیل عفلق کی حیرت کا تصور کرو، اگر انھیں کوئی بتاتا کہ مصرمیں ناصری فکر کی وارث ہونے کا دعوی کرنے والی مصری حکومت اسرائیل کے ساتھ مل کر فلسطینیوں کا محاصرہ کرلے گی اور غزہ کے مکینوں کو بھک مری سے دوچار کردے گی۔ اسی طرح شام میں بعثی حکومت اپنی گدّی بچانے کے چکر میں آدھی آبادی کو ملک بدر ہونے پر مجبور کردے گی اور عربیت کے دھڑکتے دل کو ایران اور روس کی چھاؤنی میں تبدیل کردے گی۔ عراق میں بعثی حکومت ہی اس کی تباہی کا سبب بن جائے گی، اور لیبیا میں "جمہوری” نظام لیبیا کی بربادی کا سامان کرے گا، اور دوسرے ملکوں میں باقی نیشنلسٹ استبداد اور جوابی انقلاب کا پانچواں پہیہ بن جائیں گے، صرف اس وجہ سے کہ وہ اسلام پسندوں سے نفرت کرتے ہیں، کیوں کہ وہ بھی یہ جان گئے ہیں کہ اقتدار تک پہنچنے کا راستہ کیا ہے۔
افلاس کی پشت پر غلطیاں بھی ہیں اور جرائم بھی
اس بات کو نہیں سمجھنا بڑی غلطی ہے کہ اقوام کی طاقت، ملکی اداروں، قدروں اور معیشت کی قوت میں ہے، کسی قائد کی پرکشش شخصیت اور تشدد میں نہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہر عرب لیڈر اپنے ملک کو اپنے اور اپنے خاندان کے لیے ایک فارم ہاوس سمجھتا ہے، اور جب تک اسے سارے فارم ہاؤسوں پر قبضہ نہیں مل جائے کسی اور کو تسلیم نہیں کرسکتا۔ اس لیے ان آمرانہ حکومتوں سے اس بات کی توقع رکھنا کہ و ہ ایک وحدت بنائیں گے، ایسے ہی ہے جیسے بیل سے دودھ کی امید کرنا۔ کیا اس کی اس سے واضح کوئی دلیل ہوسکتی ہے کہ ایک ہی فکر کی حامل بعث پارٹی کے دو دھڑوں نے دو الگ الگ ملکوں عراق اور شام پر حکومت حاصل کرلی اور بجائے اس کے کہ وہ آپس میں اتحاد کرتے، ہمیشہ ایک سرد جنگ میں اپنی طاقت جھونکتے رہے، جس کا آخری انجام یہ سامنے آیا کہ عراق کے خلاف امریکی جارحیت میں شامی حکومت امریکی فوجوں کی صف میں شامل تھی۔
میں نے ان قوم پرستوں کو وحدت کا خواب بُنتے دیکھا ہے، لیکن وہ اس کی تعبیر کے لیے غلط وسیلہ اختیار کرنے پر بضد ہیں۔ ان کے لیے میرے ذہن میں ایک تصویر آئی، جس میں ایک شخص چمچے سے لکھ رہا ہے او ر قلم سے کھانا کھارہا ہے۔ ایسے لوگوں سے کس حل کی توقع کی جائے، جو مسئلے کو ہی حل تصور کرلیتے ہوں۔
جہاں تک جرم کی بات ہے تو نیشنلسٹوں نے ہر ظلم اور استبداد، کرپشن اور بدعنوانی پر ہونٹ سی رکھے جب 1988 میں شامی حکومت نے حلبجہ میں کردوں پر کیمیائی ہتھیاروں کی بارش کردی اور جب 1980 میں شام کی تدمر جیل میں قتل عام کی تاریخ لکھی گئی، صیدیانا کی جیل کے سامنے ہونے والی بربریت پر بھی، 1996 میں لیبیا میں ابوسلیم والے قتل عام پر بھی اور 2013 کے موسم گرما میں مصر میں رابعہ والا قتل عام پر بھی، ایسے تمام موقعوں پر انھوں نے اپنے ہونٹ سی رکھے۔
اس معاملے میں سب سے افسوس ناک امر یہ ہے کہ نہ ہی انھوں نے اور نہ ہی ان کے اسلاف نے تاریخ کا سکھایا ہوا وہ سب سے بڑا سبق ذہن نشین کیا کہ گندے وسائل اعلی مقصد کی خدمت تو کجا اسے گندا کرڈالتے ہیں۔ اور وہ ہر اس شخص کو بھی گندگی میں لت پت کردیتے ہیں جو فکری سستی اور اخلاقی گراوٹ کی بنا پر یہ تسلیم کرلیتا ہے کہ مقصد وسیلے کو جواز عطا کرتا ہے۔
کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ اس غلطی کی کیا تاویل کریں گے، جو آپ ایک نئی عربیت کی طرف دعوت دے کر کر رہے ہیں؟ کیا آپ کی یہ نئی تعبیر خود ان تضادات کا مجموعہ نہیں ہے، جن کے ہوتے اس کا سیاست کی عملی دنیا میں وجود پذیر ہونا ناممکن ہوجاتا ہے؟ کیا آپ پرانے نیشنلسٹوں کی وہی غلطی نہیں دہرانے جارہے ہیں، جب آپ بیسویں صدی کے یوروپی یونین کے ماڈل کو نقل کرنے کی بات کررہےہیں؟ بالکل اسی طرح جیسے آپ کے پیش رووں نے انیسویں صدی کے جرمن اطالوی اتحاد کے ماڈل کو نقل کرنے کی کوشش کی تھی؟
افسوس! ان لوگوں کی پستی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ جن ملکوں پر ان نیشنلسٹوں نے حکومت کی، بلکہ یوں کہیں کہ انھیں تباہ کیا، اب کہتے ہیں کہ وہاں عربی قوم کا کوئی وجود نہیں۔
غصہ بجا ہے، لیکن کیا داعش کی وجہ سے ہم اسلام ہی کو مسترد کردیں؟
وہ لوگ جو ایک عرب امت کے وجود ہی میں شک کرتے ہیں، وہ ہمیں سمجھائیں کہ 2011 میں تیونس میں مبارک انقلاب کے مشتعل ہونے کے فوری بعد مصر، لیبیا، یمن اور شام میں عوامی مظاہرے کیوں کر پھوٹ پڑے اور پیرو یا قزاقستان میں اس کی لپٹ کیوں نہیں پہنچ سکی؟
کیا ایسا نہیں ہے کہ ان اقوام کے درمیان روحانی، ثقافتی، سیاسی اور جذباتی مضبوط رشتے موجود ہیں، ان کے اندر انقلاب کی بجلی اسی قوت اور تیزی سے دوڑی، جس طرح بجلی ایک ہی نیٹ ورک کے تاروں میں دوڑتی ہے؟
عربیت کے انکار کا مقصد قوم کے مغربی مفہوم کے زہر کو پھیلانا بھی ہوسکتا ہے، جس تصور کے مطابق فرانسیسی قوم کا وجود فرانس سے ہے، جرمن قوم کا وجود جرمن کے علاقے سے ہے۔ اور جب ہم ایک عرب ملک پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے تو عرب قوم کے بارے میں گفتگو کرنا عبث ہے۔ ان لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ یہ حقیقت نہیں سمجھتے کہ ہم ایسی انوکھی قوم ہیں جسے ریاست پیدا نہیں کرتی ہے بلکہ جو ریاست کے بعد ریاست پیدا کرتی ہے، اس خصوصیت میں ہمارے ساتھ صرف ہندوستانی اور چینی اقوام ہیں۔
چھٹی صدی عیسوی میں عربوں کی فوجی پیش قدمی نیز بارہویں صدی عیسوی میں منگولوں کی پیش قدمی کے درمیان موازنہ کریں۔
منگول بھی عربوں کی طرح خانہ بدوش اور ایسے شہ سوار تھے جن کی نظیر کم ملتی ہے، جب وہ جنگ جوئی پر آتے تو ان کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا۔ ان کی سلطنت نے تمام ہی قدیم وجدید سلطنتوں کو پیچھے چھوڑ دیا، لیکن آج ان میں سے کیا بچا؟ جیسے ہی چنگیز خان اور اس کی اولاد کی قائم کردہ ریاست کا سقوط ہوا، وہ تاریخ سے مٹ گئے اور آج صرف چند ملین منگول، روس اور چین کی سرحدوں پر پائے جاتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں عربوں کو دیکھیے، ان کی پہلی مرکزی حکومت کا شام میں سقوط ہوا، اور دوسری کا عراق میں، ان پر منگولوں، صلیبیوں، ترکوں اور اقوام یوروپ نے چوطرفہ حملہ کیا، اندلس سے انھیں ملک بدر کیا گیا، ان پر جنگیں تھوپی گئیں، آفتیں آئیں، جن میں وطن پرستی، قومیت اور سیاسی اسلام کی آڑ میں چھپی جابرانہ اور بدعنوان حکومتیں بھی شامل ہیں، لیکن ان سب کے باوجود آج بھی وہ 400 ملین ہیں ان کے بائیس ملک ہیں اور وہ تیرہ ملین کیلومیٹر مربع پر پھیلے ہوئے ہیں، ان کی زبان تمام رکاوٹوں کے باوجود پھیل رہی ہے، اس طرح وہ اس کرّہ ارضی پر زبان، تعداد اور رقبے کے لحاظ سے پہلی پانچ اقوام میں سے ہیں۔
انجام میں اتنا بڑا تفاوت کیوں ہے؟ ایسا اس لیے ہے کیوں کہ منگولوں کے برخلاف عرب توسیع اور بقا کے دوبنیادی عوامل سے لیس تھے۔ ایک پوری انسانیت کے لیے ہمہ گیر پیغام، اور دوسرا ایسی زبان، جو عظیم ترین زبانوں میں سے ایک ہے۔
اس بات میں ذرہ برابر بھی مبالغہ نہیں کہ اگر اسلام نہ ہوتا تو عربوں کا انجام منگولوں سے ذرا اچھا نہ ہوتا۔ لیکن یہ بھی ہے کہ اگر فاتحین، علما اور عرب تجار نہ ہوتے تو اسلام کو اتنی وسعت اور عروج حاصل نہ ہوتا، عرب ہی تھے جو ابتدائی صدیوں میں اسلام کے مشعل بردار بنے اور اسے دیگر بڑی اسلامی قوموں تک پہنچایا، جن کے ذریعے یہ پیش رفت جاری رہی۔
اسلام پسندوں سے بہت بڑی غلطی ہوئی، کہ انھوں نے عربوں کی قومی شخصیت کو مسترد کیا۔ حالانکہ تاریخ تو افراد، اقوام اور تہذیبوں کے درمیان پائی جانے والی مسابقت سے بنتی ہے اور ان کے درمیان تعامل تعمیر اور زندگی کا عنصر ہے، شرط یہ ہے کہ یہ تعامل عصبیت اور نسل پرستی کی سرخ لکیر کو پار نہ کرے۔
اسی طرح نیشنلسٹوں سے غلطی ہوئی، جب انھوں نے مغربی ماڈل سے متاثر ہوکر اسلام سے رشتہ توڑنے اور اسے حاشیے پر لگانے کی کوشش کی، ان کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی موٹر ریس میں شرکت کا خواہاں ہو، اور اپنی اس موٹر کار کے آدھے انجن کو بے کار کردیتا ہو، جس سے وہ پہلی پوزیشن حاصل کرنے کے لیے ریس کررہا ہے، اس طرح انھوں نے میدان کار کو اسلام پسندوں کے لیے خالی چھوڑ دیا، جو امت کی روح کے انتہائی حساس تاروں کو چھیڑنا جانتے تھے، یہ نیشنلسٹ اور ترقی پسند کھیل کے باہر ہوگئے، اور استبداد کی گود میں اور زیادہ سمٹتے چلے گئے، اس طرح بگڑی بات کو اور زیادہ بگاڑ دیا۔
کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ اگر ہم ایسی قوم ہیں، جسے ثقافت ایک بناتی ہے، اور سیاست بانٹ دیتی ہے، اور جس کا وجود کسی ریاست کا مرہونِ منّت نہیں ہے، تو اس وحدت کے منصوبے کا آخر کیا فائدہ ہے؟ یہ صحیح ہے کہ جس چیز کا حصول سب سے زیادہ مشکل اور جس کی سب سے کم ضرورت ہے وہ ایک مرکزی ریاست ہے جو خلیج سے بحر اوقیانوس تک پھیلی ہو اور جس کا ایک قائد ہو، جیسا کسی عرب عورت نے پہلے یا بعد کبھی نہیں جنا ہو۔ ہمیں اشد ضرورت ایک نئے عربی نظام کی ہے، جو سب کو ایک لڑی میں پرودے اور آزادی، تکثیریت اور باہم خیرخواہی کے فریم ورک میں کوششوں کو ایک رخ دے سکے، اس طرح ہم تاریخ سازبن سکیں گے، تاریخ کے متاثرین میں شامل نہیں ہوں گے۔
آج جب کہ ہم ایک عظیم ترین مگر بے وزن قوم ہیں، ضرورت ہے ان چیلنجوں کو دور کرنا جو اس سے پہلے کبھی پیش نہیں آئے، اور اس کے لیے دو ہدف حاصل کرنے ہوں گے، جو اس خلل کو درست کرسکیں گے جن کا ادراک تو نیشنلسٹوں نے کیا، مگر اس کے علاج میں وہ ناکام رہے: ہر ملک میں قانون، اداروں اور اجتماعی جمہوریت کی تشکیل، نیز آزاد اقوام اور خود مختار ریاستوں کے اتحاد کی تشکیل۔ اس میں وطنی، قومی، اور اسلامی سبھی استبدادی حکومتوں کے تمام ناکام تجربات سے سیکھنا ہوگا، اور اس قوم کی قوت اور اس کی بقا کی ضمانت لینے والے تنہا دو سرچشموں سے مضبوطی سے وابستہ رہنا ہوگا، اور وہ ہیں اس کا دین اور اس کی زبان۔ ■