نفرت کا موجودہ ماحول ملک کے لئے انتہائی نقصاندہ

 جماعت اسلامی ہند کے مرکزی دفتر میں منعقدہ ماہانہ پریس کانفرنس میں نائب امیر پروفیسر محمد سلیم کا اظہار خیال،منی پورتشدد،ٹرین میں آرپی ایف جوان کی دہشت گردی اور خواتین کے خلاف جرائم پر جماعت کے ذمہ داران نے تشویش کا اظہار کیا

نئی دہلی،06اگست:

ملک میں جاری نفرت کے ماحول اور فرقہ وارانہ فسادت کی خبروں سے ملک کا ہر سنجیدہ طبقہ فکر مند اور تشویش میں مبتلا ہے ۔ چاہے وہ ملک کے شمالی خطے میں واقع منی پور میں تین ماہ سے جاری تشدد کا سلسلہ ہو یا پھر حالیہ ہریانہ کے نوح میں فرقہ وارانہ فسادات ہو یا ٹرین میں آر پی ایف کانسٹیبل کے ذریعہ انجام دیا گیا دہشت گردانہ واقعہ ہو۔ملک کا ہر طبقہ اس کی مذمت کر رہا ہے اور نفرت کے اس ماحول کو ملک کے لئے انتہائی نقصان دہ اور خطرناک قرار دے رہا ہے ۔دریں اثنا ملک کی باوقار تنظیم جماعت اسلامی ہند نے اپنے مرکزی دفتر میں منعقدہ ماہانہ پریس کانفرنس کے دوران ملک میں نفرت کے ماحول پر شدید تشویش کااظہار کیا ہے ۔

نائب امیرجماعت اسلامی ہند پروفیسر محمد سلیم نے مرکز، نئی دہلی میں منعقدہ پریس کانفرنس میں  کہا کہ”منی پور میں المناک نسلی تشدد تقریبا تین ماہ سے جاری ہے۔ اتنے عرصے تک کسی بھی تشدد کا جاری رہنا، انسانیت کے لئے باعث شرم ہے۔ یہ ریاستی اور مرکزی دونوں سطحوں پر حکمرانوں کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر حکومت کی جانب سے بروقت کارروائی کی جاتی تو تشدد کو روکا جاسکتا تھا جس سے کئی قیمتی جانیں بچ سکتی تھیں اور عبادت گاہوں پر حملے کو روکا جاسکتا تھا“۔

انہوں نےمزید کہا  کہ اس تشدد سے اشارہ ملتا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کو عدم تحفظ، امتیازی سلوک، پسماندگی اور انتظامیہ و سیاست میں نمائندگی کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ منی پور میں بے بس خواتین کو برہنہ پریڈ کرائے جانے کے غیر انسانی رویے نے پورے ملک کو شرمسار اور خواتین کے تحفظ اور ان کے وقار کو شدید چوٹ پہنچایا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ حالات کو معمول پر لانے کے لئے فوری مناسب اقدامات کرے اور قصورواروں کو سخت سزا دے“۔

’لوک نیتی – سی ایس ڈی ایس‘ کی حالیہ میڈیا سروے کی رپورٹ پراپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ”ملک میں میڈیا کی آزادی کو سلب کرلی گئی ہے۔ صحافت سے منسلک افراد میں عدم اطمینان ہے۔ لہٰذا میڈیا اداروں کو اپنے ملازمین کے عدم اطمینان کے خاتمے اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے ترجیحی بنیاد پر اقدامات کرنا چاہئے اور صحافیوں کو اپنی بات کہنے کے لئے مکمل آزادی ملنی چاہئے“۔انہوں نے کہا کہ ”میڈیا کو بھی منصفانہ اور غیر جانبدارانہ خبروں کو ہی عوام تک لے کر جانا چاہئے“۔

جے پور، ممبئی ٹرین حادثہ پر بات کرتے ہوئے نائب امیر جماعت ملک معتصم خان نے کہا کہ ”برسراقتدار طاقتوں کی طرف سے بنیاد پرستی اور پولرائزیشن کو ہوا دینے کے نتیجے میں یہ گھناو ٔنا جرم ہوا ہے جس میں آر پی ایف کے ایک کانسٹیبل نے اپنے ایک سینئر سب انسپکٹر سمیت تین شہریوں کو گولی کا نشانہ بناکر موت کی نیند سلا دیا۔ ملزم نے مسلمانوں سے مشابہت رکھنے والے مسافروں کو نشانہ بنایا۔ یہ مسلمانوں کے خلاف منظم تشدد کے سلسلے کی ایک کڑی ہے جو ملک میں معمول بنتا جارہاہے“۔ انہوں نے کہا کہ”ملزم قتل کے بعد وزیر اعظم اور یو پی کے وزیر اعلیٰ کی تعریف کررہاتھا،یہ انتہائی حیران کن بات ہے۔ تشدد کا یہ ماحول ملک میں غیر ذمہ دار میڈیا، متعصبانہ کردار پرمبنی فلموں اور اشتعال انگیز لٹریچروں کی وجہ سے بھی پیدا ہوا ہے۔ جماعت ملزم کے خلاف قانونی کارروائی کرنے اور مرنے والوں کے اہل خانہ کو معاوضہ اور روزگارفراہم کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔نیز پورے معاملے کی اعلیٰ سطحی جانچ ہو“۔ جماعت کے نیشنل سکریٹری مولانا شفیع مدنی نے کہا کہ ”ہریانہ کے ’سوہنا‘اور’نوح‘ میں تشدد جس میں دو ہوم گارڈز سمیت چھ افراد کی موت ہوئی، ایک ہندو حامی تنظیم کی طرف سے نکالے گئے جلوس کی وجہ سے ہوا۔ اس تشدد کی وجہ سے ہریانہ میں خوف کا ماحول ہے۔ تشدد میں ملوث سماج دشمن عناصر بے خوف ہیں، انہیں یقین ہے کہ ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوگی، کیونکہ انہیں سیاسی سرپرستی حاصل ہے“۔ انہوں نے کہا کہ”جماعت ہلاک ہونے والوں کے لئے مناسب معاوضے کا مطالبہ کرتی ہے۔ ساتھ ہی معاملے کی فوری اعلیٰ سطحی انکوائری اور ان پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کرتی ہے جو پیشگی اطلاع کے باوجود شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے جماعت کے ایک وفد نے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا اور متعلقہ علاقے کے پولیس آفیسر اور باشندوں سے ملاقات کی۔

ملک کی مختلف ریاستوں میں خواتین اور لڑکیوں کا لاپتہ ہونا ایک تشویشناک بات ہے۔ محترمہ رحمت النساء، نیشنل سکریٹری شعبہ ویمن،جماعت اسلامی ہند نے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی مرتب کردہ رپورٹ پر جس میں 2019 تا 2021 ملک بھر سے 13.13 لاکھ سے زیادہ لڑکیوں اور خواتین کے لا پتہ ہونے کی بات کہی گئی ہے، افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ”یہ تعداد تو وہ ہے جس کی رپورٹنگ ہوئی ہے۔ جن لاپتہ خواتین کی رپورٹنگ نہ ہوسکی، ان کی تعداد بھی بہت بڑی ہوسکتی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ’بیٹی بچاو ٔ کا نعرہ محض ایک انتخابی نعرہ ہے“۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کے خلاف جنسی جرائم کی روک تھام کا بہترین طریقہ اخلاقیات اور اخلاقیات پر مبنی معاشرہ کی تشکیل ہے۔ یہی معاشرہ خواتین کو بازاری قوتوں کا آلہ کار بننے سے روک سکتا ہے۔خواتین کو ان کے جائز حقوق ملنے چاہئیں اور انہیں باختیار ہونا چاہئے۔