فکر و تحقیق – نظریہ ارتقا: رد و قبول و متبادل امکانات
نظریہ ارتقا: مسلم علما ، مفکرین اور محققین کی نظر میں
ڈاکٹر محمد رضوان
گذشتہ سطور میں نظریہ ارتقا کے تناظر میں عیسائی نقطہ نظر بیان کیا گیا تھا اور بالعموم عیسائی دنیا میں نظریہ ارتقا کے کامل غلط ہونے والا بیانیہ سامنے لایا گیا تھا۔ اسی بیانیہ کے رد اور متبادل کے طور پر خدا آشنا ارتقا پر تفصیل بھی آئی تھی۔ اب ان سطور میں نظریہ ارتقا پر مسلم علما و مفکرین کے تحقیقی کاموں اور موقف کا جائزہ لیا جائے گا۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہےکہ مسلم دنیا میں نظریہ ارتقا کے حوالے سے کچھ خاص ہلچل نہیں ہوئی۔ جو کچھ ہوا وہ بائبل کے تخلیقی نظریے کے قائلین کے ذریعے لکھے گئے لٹریچر اور عیسائی دنیا میں رائج بیانیے کی نقالی تک محدود رہا۔ اس تناظر میں مسلم علما و عوام اور مفکرین کی آرا اور موقف کی تحقیق و تاریخ بڑی دل چسپ ہے۔ مثلاً:
1. اس بات کا جائزہ کہ ماقبل ڈارون مسلم فلاسفہ اور محققین کے یہاں زندگی کی ابتدا اور انسان کے ظہور سے متعلق نظریات پائے جاتے تھے
2. بیسویں صدی کے نصف تک نظریہ ارتقا اور اس پر عربی دنیا اور اردو دنیا اور غیر عربی و اردو مسلم دنیا میں نظریہ ارتقا کولے کر فکری سطح پر کیا معاملہ رہا
3. پچھلے 50 تا 70 برسوں میں جدید مسلم دنیا میں نظریہ ارتقا کو عوام اور خواص کی سطح پر کیسے دیکھا گیا
4. نظریہ ارتقا اور اس کے اخلاقی و سماجی اثرات پر مسلم مفکرین و محققین کی آرا اور اس کا تحقیقی بیانیہ
مندرجہ بالا چاروں پہلو فرداً فرداً تحقیق کے متقاضی ہیں، اور ان میں سے ہر پہلو اپنے آپ میں منفرد البتہ دیگر سے مربوط تحقیقی امکانات کا حامل ہے۔ اس مضمون میں ہم ان چاروں پہلوؤں پر اجمالی طور پرگفتگو کریں گے۔
ماقبل ڈارون مسلم فلاسفہ و محققین اور نظریہ ارتقا
سائنس کی تاریخ علم کی ایک دل چسپ اور مکمل شاخ ہے۔ یہ شاخ زیادہ پرانی تو نہیں، البتہ اہم ضرور ہے۔ اس شاخ میں سائنس کی تاریخ پر تحقیقات ہوتی ہیں۔ سائنس کی ہر شاخ کی طرح اس کی اپنی حدودہیں۔ سائنس کی اس شاخ کے ذریعے سے ادھر کچھ دہائیوں سے اس بات پر لٹریچر وجود میں آنے لگا ہے جس میں دکھایا گیا کہ ماقبل ڈارون مسلم فلاسفہ و محققین کے یہاں نظریہ ارتقا کا تذکرہ موجود ہے۔ ذیل میں چند مثالیں دی جاتی ہیں۔
جرنل آف بائیلوجیکل ایجوکیشن میں آمنہ ملک اور روئیو ڈیوگو (Rui Diogo) نے دنیا بھر کےآٹھ معروف و مقبول فلسفیوں یا محققین کا تذکرہ کیا ہے [۱]، اور ان کی مختلف کتابوں کے حوالوں سے ثابت کیا ہے کہ ماقبل ڈارون نباتات اور حیوانات کے وجود میں آنے سے متعلق ان فلاسفہ اور محققین کی تحریروں میں ڈارون کے نظریے کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔یہ اور ان کے علاوہ کچھ اور محققین کے نام حسب ذیل ہیں:
1. ابو عثمان عمرو بن بحر الكنانی البصری (776-869ء) جو الجاحظ کے نام سے مشہور ہیں۔
2. ابو نصر محمد بن محمد بن اوزلغ بن طرخان (870-950ء) جو الفارابی کے نام سے متعارف و مقبول ہیں۔
3. ابو الحسن علی بن الحسین المسعودی (م 957ء)جو عبد اللہ بن مسعود کے سلسلہ نسب سے مانے جاتےہیں۔
4. امام راغب اصفہانی(م 1008 ء)
5. ابوعلی احمد بن محمد بن یعقوب مسکویہ (932-1030ء) جو ابن مسکویہ کے نام سے مغرب میں معروف ہیں۔
6. ابوریحان محمد بن احمد البیرونی (937-1048ء) جو البیرونی کے نام سے معروف ہیں۔
7. علی الحسین بن عبد اللہ بن الحسن بن علی بن سینا (980- 1037ء)، ابن سینا جو مغرب میں Avicennaکہلاتے ہیں۔
8. ابو بکر محمد بن یحیی بن صائغ ابن باجہ جو مغرب میں Avempaceکے نام سے مشہور ہیں۔
9. ابن طفیل جو اندلس سے تعلق رکھتے تھے اور مغرب میں Abu Bucerکے نام سے جانے جاتے ہیں۔
10. ابو الوليد محمد بن احمد بن رشد (1128-1198ء)، مغرب میں Averroes کہلاتے ہیں۔
11. احمد بن عمر بن علی نظامی المعروف بہ عروضی سمر قندی
مذکورہ بالا مسلم محققین جن کا تذکرہ آمنہ ملک نے کیا ہے، ان میں سے بعض کی تحریروں کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے تا کہ قارئین کے لیے اس نکتے کی وضاحت ہو جائے کہ ماقبل ڈارون ارتقائی نظریہ کی جڑیں کیا واقعی مسلم محققین یا فلاسفہ کے یہاں پائی جاتی ہیں۔ کیا ان کے نظریات سے متاثر ہو کر یا تحریک پا کر ڈارون نے نظریہ ارتقا کی بنیاد رکھی تھی؟ واضح رہے کہ یہ مقدمہ دو اعتبار سے خام ہے۔
1. ان فلاسفہ یا محققین کی زبان یا تو عربی تھی یا فارسی اس لیے ترجمہ کی صحت مشکوک ہے۔
2. ڈاروینی نظریہ ارتقا اور ان کے ذریعے دیے گئے نکات میں تطبیق ارتقائی فریم کو سامنے رکھ کر کی گئی ہے اس لیے وہ معتدل بہرحال نہیں ہو سکتی۔
مندرجہ بالا دو نکات کو ذہن مین رکھتے ہوئے ذیل میں دی گئی بحث کو پڑھنا مفید ہوگا جو ڈارون سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے کے مسلم محققین و فلاسفہ کے یہاں حیات، مخلوقات کے وجود میں آنے کے میکانزم اور حیات کے ارتقا کے سلسلے میں ملتی ہیں۔
الجاحظ
الجاحظ کی ’’کتاب الحیوان‘‘ سائنس کی تاریخ لکھنے والوں میں ایک مسلّم کتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب میں الجاحظ نے بہت سے ان تصورات کا تذکرہ کیا ہے جن پر بعد میں ڈارون نے کلام کیا۔ مثلاً کم زور جان داروں کافنا ہونا، فطری انتخاب اور نباتات سے حیوانات کا ارتقا، لیکن الجاحظ کے ارتقائی بیانیے میں خدا کے ذریعے ارتقائی احکامات کا جاری ہونا ثابت کیا جا سکتا ہے۔ وہ معدنیات سے پودوں میں تبدیلی کو خدا کی حکمت سے تعبیر کرتے نظر آتے ہیں۔
ابن مسکویہ
ابن مسکویہ کے ارتقائی خیالات کا تذکرہ ان کی کتاب ’’الفوز الاصغر‘‘ کے مشمولات میں ہے۔ ان کے مطابق تمام زندگی کی ابتدا پانی میں ہوئی ہے اور زندگی نے معدنیات سے پودے اور پودوں سے حیوانات تک کا سفر طے کیا ہے۔ ہمارے نزدیک ابن مسکویہ خدا آشنا ارتقا کے بانی کہے جا سکتے ہیں۔ کیوں کہ وہ ارتقا کو خدا کے ذریعے مخلوقات کو وجود بخشنے کے میکانزم کے طور پر دیکھتے ہیں۔
البیرونی
گو کہ بعض مصنفین البیرونی کے یہاں ارتقائی نظریات تلاش کرتے نظر آتے ہیں تاہم ہمارے نزدیک البیرونی نے حیات کی تقسیم کے سلسلے میں بہت واضح نکات پیش کیے ہیں۔ انھوں نے تمام ذی روح جانداروں کو مختلف اقلیموں میں رکھا ہے۔ ان کی مشہور کتاب ’’کتاب الجواہر المعارف الجواہر‘‘ میں معدنیات اور اسی قبیل کی دوسری اشیا کا تذکرہ ہے اور حیات، روح و غیر روح وغیرہ پر دل چسپ بحثیں ملتی ہیں [۳]۔ البیرونی تمام ذی روح کو اللہ کی مخلوق مانتے ہیں اور انسان کو تمام مخلوق میں افضل جانتے ہیں۔ ان معنوں میں وہ پاپولر ڈاروینیت سے یکسر مختلف نکات پیش کرتے ہیں۔
ابن سینا
ہمارے نزدیک الجاحظ کے بعد غالباً ابن سینا وہ محقق ہیں جن کے یہاں ارتقائی نظریات کی جھلک ملتی ہے۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ تین اقلیم (kingdoms) ہیں: معدنی، نباتی، حیوانی۔ تمام جاندار اصلاً عناصرِ معدنیات سے بنے ہیں۔ چار مخصوص عناصر معدنیات جب خاص مقدار میں جمع ہوتے ہیں تو اس میں ایک نظام ترتیب پا جاتا ہے۔ جسے وہ روح ارضیہ کا نام دیتے ہیں۔ اس میں مزید عناصر کیمیا اور معدنیات جب ملتے ہیں تو نفس نباتیہ وجود میں آتا ہے۔ اس نفس یا روح میں تین خاصیتیں یا قوتیں ہوتی ہیں۔ ’’غذیہ‘‘ یعنی تغذیہ کی صلاحیت، ’’نمویہ‘‘ یعنی نشو و نما پانے یا بڑھنے کی صلاحیت اور ’’مؤلّدہ‘‘ یعنی افزائش نسل کی صلاحیت۔ ان کے مزید بہتر امتزاج سے روح حیوانیہ وجود میں آتی ہے اور جب بہترین اور معتدل ترین امتزاج ہوتا ہےتو ’’ادراکیہ‘‘ کی صورت میں انسان کی شکل ظہور پذیر ہوتی ہے۔
اوپر محض چار محققین و فلاسفہ کے تصورات کا تذکرہ کیا گیا ہے، جو نہایت اجمالی ہے۔ ان کے ارتقائی نظریات پر خاطر خواہ لٹریچر موجود ہے، دل چسپی رکھنے والے حضرات مصادر کی مدد سے اسے دیکھ سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ اخوان الصفا کے خیالات بھی نظریہ ارتقا کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے دل چسپی کا موضوع بنتے ہیں۔
اوپر دیے گئے اس پورے مقدمہ سے درج ذیل نکات اخذ کیے جا سکتے ہیں:
1. یہ بات نسبتاً وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ مسلم فلاسفہ و محققین کے یہاں تقریباً ہزار سال قبل زندگی، اس کے وجود، اس کے ارتقا، انسان اور حیوانات کے وجود میں آنے کے میکانزم پر غور و فکر ہوا ہے اور خوب ہوا ہے۔ یہ بات بھی تقریباً پایہ ثبوت کو پہنچتی نظر آتی ہے کہ یہ غور و فکر یونانی فلسفہ کے زیرِ اثر بھی رہا ہے، اور یونانی فلسفہ کے علی الرغم بھی۔
2. وہ تمام محققین و فلاسفہ جن کی تحریروں میں ڈارون سے قبل نظریہ ارتقا کے مشمولات سے ملتے جلتے نظریات پائے جاتے ہیں، ان میں ایک دو استثنائیات کو چھوڑ کر تقریباً تمام ہی محققین اللہ پر یقین رکھتے تھے اور اسے خالقِ کائنات و موجودات مانتے تھے۔ یہ بہت اہم بات ہے اور یہ بات اس خیال کو مزید تقویت پہنچاتی ہے کہ ارتقائی نظریات پر غور و فکر کا لازمی مطلب الحاد یا خدا کا انکار نہیں ہے۔
3. غو رو فکر و علم کا تسلسل اس بات کی گواہی دیتا ہے اور اس یقین کو مزید جلا بخشتا ہے کہ حیات، انسان، اس کے وجود اور کائنات اور اس کے سلسلے کے سوالات ابدی نوعیت کے ہیں اور محض تمدنی ترقی کے مرہون منت نہیں ہیں، جیسا کہ بعض ملحد حضرات مانتے ہیں۔
4. ضروری نہیں ہے کہ ڈارون نے ان سب فلاسفہ اور محققین کی تحریروں کو پڑھ کر ہی اپنی تھیوری پیش کی ہو۔ اور ایسا نہیں ہوا ہے اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس لیے بعض جدید محققین کا یہ کہنا غلو نظر آتا ہے کہ بالاصل نظریہ ارتقا مسلمانوں ہی کی دین ہے۔
بیسویں صدی میں نظریہ ارتقا کے تئیں مسلم دنیا کا فکری سطح پر کیا معاملہ رہا
اوپر دیے گئے نکتے پر قابل لحاظ لٹریچر موجود ہے اور اس لٹریچر کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: (۱) وہ لٹریچر جس میں عربی زبان اور عربی مسلم دنیا کے فکری رد عمل کا جائزہ لیا گیا ہے۔(۲)۔ خلافت عثمانیہ کے محققین و مفکرین، جنھوں نے ترکی زبان میں نظریہ ارتقا سے فکری تعامل کیا۔(۳)۔ اردو و دیگر زبانوں میں نظریہ ارتقا پر رد عمل۔
عربی زبان کے لٹریچر میں تفصیلات کے لیے قارئین نجم بزرغان کی کتاب دیکھ سکتے ہیں The Comparative Reception of Darwinism[۴]
عربی دنیا ڈاروینیت کے بارے میں یعقوب صروف اور فارس نمرکے ذریعے واقف ہوئی۔ یہ دو عیسائی طالب علم تھے اور 1876 میں بیروت کے سیرین پروٹسٹنٹ کالج سے شائع ہونے والے جرنل ’’المقتطف‘‘ میں ڈاروینیت کے متعلق ان کا مقالہ شائع ہوا، جس سے پہلی بار ڈارون کے افکار عرب دنیا میں متعارف ہوئے۔
ہمارے نزدیک عربی زبان میں بالعموم ابتدائی ڈاروینیت کے تصورات کو صحیح نہیں سمجھا جا سکا۔ جو تراجم ہوئے ان میں تصوراتی سقم ہونے کی وجہ سے بعض مباحث خلط ملط ہو گئے۔ مثلاً یہ سمجھا گیا کہ انسان بندروں سے وجود میں آیا ہے۔ یا یہ کہ ڈارون ملحد تھا۔ اس طرح عمومی طور پر یہ معاملہ ’’رد‘‘ کا ہی رہا اور اس وقت کے اعتبار سے غالباً وہی رویہ درست ہو سکتا تھا۔ متبادل اور آزادانہ تحقیقات نہ عیسائی دنیا میں موجود تھیں نہ ہی مسلم دنیا میں۔ چناں چہ عربی داں دنیا میں عیسائی رد عمل ہی کو قبول عام حاصل ہوا۔ حالاں کہ عربی دنیامیں پوشیدہ طور پر ایسے محققین و فلاسفہ رہے ہوں گے جنھوں نے اس نظریہ کو معتدل نظروں سے دیکھا ہوگا لیکن سیاسی و مذہبی پس منظر نے بہر حال انھیں خاموش رہنے پر مجبور کر دیا ہوگا۔
ترکی زبان میں نظریہ ارتقا اور اس سے فکری تعامل کی تاریخ بہت دل چسپ ہے اور اس میں ایک تسلسل نظر آتا ہے۔ خلافتِ عثمانیہ کی روشن علمی روایات گو کہ 1850 کے آتے آتے دھندلاتی جا رہی تھیں پھر بھی عربی و دیگر زبانوں کے مقابلے میں ڈارون کے نظریہ سے فکری تعامل کی سطح ترکی لٹریچر میں بدرجہا اعلیٰ نظر آتی ہے۔ اور اس کا جائزہ الپر بلگلی (Alper Bilgili) نے برٹش سوسائٹی فار دی ہسٹری آف سائنسز کے ذریعے شائع ہونے والے جرنل میں اپنے مقالے میں کیا ہے۔ [۵]
وہ اسمٰعیل فینی (1855-1946) کے حوالے سے ڈاروینیت پر عثمانی رد عمل کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ ’’ اگرچہ اسمٰعیل فینی ڈاروینیت کے ماننے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سماجی بگاڑ والے نظریہ کے حامی تھی اور ڈاروینیت کے خلاف تھے، لیکن انھوں نے اسکولوں میں ڈاروینیت پڑھانے کے خلاف بننے والے قانون کی سخت مخالفت کی۔ انھوں نے مغربی مادہ پرستی کے خلاف کتاب بھی لکھی۔ تاہم انھوں نے ڈاروینیت کو بحیثیت سائنس پڑھانے کی مخالفت کبھی نہیں کی۔‘‘[۶]
اسی طرح سے ایک حوالہ عثمانی مفکر اور سائنس کی تعلیم کے حامی عبداللہ جودت (Abdullah Cevdet، م ۱۹۳۲ء) کا بھی ملتا ہے۔ جنھوں نے ان تین اساتذہ کی گرفتاری کے خلاف انتباہ دیا اور اسے ایک بڑی غلطی قرار دیاجنھیں اسکول میں ڈاروینیت پڑھانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔[۷]
خلاصہ کلام یہ کہ ترکی زبان میں فکری سطح پر ڈاروینیت کو :
1. ایک سائنسی نظریہ کے طور پر لیا گیا
2. اسے یکسر رد یا یکسر قبول نہیں کیا گیا
3. دیگر عربی و غیر عربی مسلم دنیا کے ممالک کے طرز پر اسکولوں میں اس کے پڑھانے پر پابندی نہیں لگائی گئی حالاں کہ بعض حصوں میں ایسا کیا گیا۔ لیکن بالعموم یہ نظریہ اسکولوں میں پڑھایا گیا
عثمانی رد عمل کے جس تسلسل کا تذکرہ اوپر آیا ہے اسے سائنس ریسرچ فاؤنڈیشن ترکی (BAV) کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ BAV ترکی حکومت کی مدد کے ذریعے قائم کردہ ادارہ ہے، جو مذہب اور سائنس اور بالخصوص تخلیقت اور ڈاروینیت سے متعلق فکری مباحث اور کتب کے اجرا کا کام دیتا ہے۔ اس ادارہ (BAV) پر تنقید بھی قابلِ لحاظ ہے اور تعریف بھی۔ سب سے کڑی تنقیدنظریہ جو ارتقا کے قائلین کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہارون یحییٰ در اصل اسی ادارے کے تحت منظر عام پر لائے گئے ہیں۔ (ہارون یحیٰ کا اصل نام عدنان اختر ہے۔ انھوں نے ارتقا کے رد میں 100 سے زائد کتابیں تصنیف کی ہیں۔اسلامی دنیا میں مقبول و معروف ہیں۔) ارتقا کے قائلین ان کے استناد پر سوال اٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ BAV پس پردہ رہ کر انھیں مقبولِ عام بنانے کی کوشش کر رہی ہے، اور ان کے ذریعے لکھا گیا لٹریچر در اصل کئی مصنفین کی محنت کا نتیجہ ہے نہ کہ صرف ہارون یحیٰ کا۔
بہر حال اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ترکی دنیا میں اور اس کے تراجم کے واسطے سے بالعموم مسلم دنیا میں BAV کے ذریعے تخلیق یا تالیف کیا گیا لٹریچر مسلم عوام بالخصوص تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو زبردست طریقے سے متاثر کرتا ہے۔ اور یہ اثرپذیری بعض حوالوں سے مثبت ہے اور بعض حوالوں سے منفی۔ (اس موضوع پر کہیں اور کلام کیا جائے گا!) چناں چہ فکری تعامل کے سلسلے میں انیسویں صدی کے اوائل سے بیسویں صدی کے اختتام اور اکیسویں صدی کے اوائل میں ڈاروینیت اور ترکی رد عمل دیکھا جا سکتا ہے۔ (یہ ایک منفرد تحقیقی موضوع ہے۔)
گذشتہ 70 برسوں میں نظریہ ارتقا کو مسلم دنیا میں کیسےدیکھا گیا
اوپر دیے گئے بیانیےکو کئی زاویوں سے پرکھا جا سکتا ہے۔ مثلاً:
• مسلم دنیا میں مسلم مفکرین و محققین و علما نے اس ضمن میں کیا روش اختیار کی
• مسلم عوام کا رجحان اس نظریہ کو لے کر کیسا رہا
• مسلم دنیا کے تعلیمی اداروں میں اس نظریہ کی تدریس و تفہیم کا کیا معاملہ رہا
مسلم علما کی نظر میں
اگر ہم مسلم مفکرین، محققین اور علما کے رد عمل کا تجزیہ کریں تو درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں:
1. نظریہ ارتقا کے خلاف فکری رد عمل یکساں نہیں بلکہ مختلف فیہ ہے۔ یعنی یہ یکسر رد سے یکسر قبول تک کے خط پر مختلف نقاط پر دیکھا جا سکتا ہے۔
2. رد کرنے والے اس کے رد میں جس اسلامی تخلیقی بیانیے کا حوالہ دیتے ہیں وہ بیانیہ زیادہ تر اسرائیلی اور عیسائی روایتوں کے خلط مبحث پر مبنی نظر آتاہے۔
3. جو مفکرین، علما اور محققین قبول کا رد عمل دیتے ہیں وہ قرآنی تخلیقی بیانیے کی جدید توجیہ و تشریح کے قائل نظر آتے ہیں۔
4. جو نظریہ ارتقا کو اسلامی فکر اور اسلام کے مخالف نہیں مانتے ہیں لیکن بالکلیہ اسے قبول بھی نہیں کرتے ہیں بلکہ گنجائش ماننے کی بات کرتے ہیں ان کا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ قرآن میں تخلیق آدم اور تخلیق انسان اور انسان کی تخلیق کے مادہ اور اس کے میکانزم پر غور و فکر کی گنجائش ہے اس لیے نظریہ ارتقا کے وہ پہلو جو براہِ راست قرآن سے نہیں ٹکراتے انھیں مان لینے میں کوئی حرج نہیں ہے جو ٹکراتے ہیں انھیں خارج کیا جا سکتا ہے۔
اس پہلو کا دوسرا زاویہ عوام کی سطح پر نظریہ ارتقا کے تئیں رد کا جائزہ ہے۔ اس ضمن میں پچھلے 30 برسوں میں خاطر خواہ لٹریچر وجود میں آیا ہے، کئی سائنسی تحقیقات ہوئی ہیں، کئی سروے موجود ہیں جو مسلم دنیا میں نظریہ ارتقا اور اس کے تئیں عوامی فکر کا جائزہ لیتے ہیں۔ لیکن یہ تحقیقات اور سروے کئی اعتبار سے اضافی ہوتے ہیں۔ مثلاً:
1. سروے کے سیمپل سائز اتنے بڑے نہیں ہوتے کہ احصائیات (statistics)کی صحت پر پورے اتر سکیں۔
2. سروے کی بنیاد پر اخذ کیے گئے نتائج اکثر افراط و تفریط پر منتج ہو جاتے ہیں۔
3. اس طرح کی غیر معروضی تحقیقات میں حتمی نتائج کا حصول بہت مشکل ہوتا ہے۔
ان تمام باتوں کے باوجود ملیشیا، انڈونیشا، پاکستان اور عرب دنیا میں پیو (Pew)ادارےنے سروے کرائے ہیں جن کے نتائج ان کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ لیکن ایک سرسری جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلم دنیا میں نظریہ ارتقا سے متعلق چار بڑے رد عمل (response) پائے جاتے ہیں:
1. عدم واقفیت: مسلم دنیا کی ایک بڑی تعداد اب بھی اس نظریے سے واقف ہی نہیں ہے۔
2. یکسر رد: علما اور بہت سارے اساتذہ کی تعداد اسے یکسر ردکرتی ہے۔[۸]
3. تذبذب:بالعموم پڑھے لکھے افراد اس سلسلے میں فکری خلجان میں مبتلا نظر آتے ہیں۔
4. یکسر قبولیت اور گنجائش
پوری مسلم دنیا کے رجحانات کو مندرجہ بالا چار خانوں ہی میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، چناں چہ یہاں بھی صوت یکساں نہیں بلکہ مختلف ہے۔ اس لیے کسی حتمی نتیجے پر پہنچنا مشکل ہے۔
آخری پہلو نظریہ ارتقا کو اسکولی نصاب میں پڑھانے سے متعلق ہے۔ تو یہاں بھی ایک خط ہے، جس کے ایک سرے پر نظریہ ارتقا اور اس قبیل کی چیزیں پڑھائی ہی نہیں جاتیں، جیسے سعودی عرب اور دوسرے سرے پر مصر، اردن اور ایران جیسے ممالک ہیں جہاں پورے پورے اسباق ارتقا پر موجود ہیں۔ اور اس کے بین بین ترکی ہے جہاں نظریہ ارتقا کے ساتھ ساتھ تخلیقی نقطہ نظر بھی نصاب کا حصہ ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ حالیہ برسوں میں بالعموم اور پچھلی دہائیوں میں بالخصوص مسلم دنیا میں نظریہ ارتقا کو لے کر ہلچل ہوئی ہے۔ خاص طور پر مغرب میں امریکہ اور برطانیہ اور کینیڈا میں اور مشرق میں ملیشیا، انڈونیشیا، ترکی اور ایران میں یہ ہلچل اطلاعاتی ٹکنالوجی کے انقلاب اور گلوبلائزیشن کی وجہ سے محسوس کی گئی ہے، لیکن اس تمام تر ہلچل کے باوجود اب بھی مسلم دنیا میں نظریہ ارتقا کے حوالے سے ایک غالب علمی بیانیے کی تشکیل ہونا باقی ہے۔ (جاری)■
حوالے
Aamina H. Malik, Janine M. Ziermann & Rui Diogo (2017): An untold story in biology: the historical continuity of evolutionary ideas of Muslim scholars from the 8th century to Darwin’s time, Journal of Biological Education, DOI: 10.1080/00219266.2016.1268190
ibid
Al-Beruni, Abdu’l Rayhan Mohammad bin Ahmad, Kitab al-Jawahir fi Ma’rifat al-Jawahir, English translation (Islamabad: Pakistan Hijra Council, 1989) pp. 197, 244.
Najm Bezirgan, The Islamic world , in Thomas F. Glick (ed.), The Comparative Reception of Darwinism , Austin: University of Texas Press, 1974, pp. 375–387.
Alper Bigili :An Ottoman response to Darwinism: Ismail Fennî on Islam and evolution; BJHS 48(4): 65–582, December 2015
ibid
ibid
Alassiri, M. Evolution is the disguised friend of Islam. Nat Hum Behav 4, 122 (2020). https://doi.org/10.1038/s41562-019-0771-7