مسعود باری، دلّی
سنگھ پریوار کی تنظیموں کی طرف سے تاریخ کو مبہم کرنے اور تعلیم کو بھگوا بنانے کی کوششیں کوئی نئی ہیں ہیں۔ جب سے اس کا سیاسی بازو اقتدار میں آیا ہے، اس طرح کی کوششیں انتہائی عام اور حکومت کے اسپانسر ایجنڈے کا روپ دھار چکی ہیں۔ اس حوالے سے تازہ ترین معاملہ گجرات کا ہے جہاں اسکولی تعلیم تباہ حال ہے، اساتذہ کی 18000 آسامیاں خالی ہیں اور 6000 اسکول بند پڑے ہیں۔ تاہم، بھارت کے آئین کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے گجرات کے وزیر تعلیم جیتو واگھانی نے 17 مارچ کو ریاستی اسمبلی میں کہا کہ بھگوت گیتا کو ریاست بھر میں چھٹی جماعت سے بارہویں جماعت تک اسکولی نصاب میں شامل کیا جائے گا، جس کا آغاز تعلیمی سال 2022-23 سے ہوگا۔ محکمہ تعلیم کے لیے بجٹ مختص کرنے پر بحث کے دوران، وزیر واگھانی نے کہا کہ بھگوت گیتا کی اقدار اور اصولوں کو اسکول کے نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ مرکزی حکومت کی نئی قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی) کے مطابق کیا گیا ہے جو جدید وعصری تعلیم، قدیم ثقافت، روایات اور علمی نظام کو شامل کرنے کی وکالت کرتی ہے تاکہ طلبا بھارت کی وقیع ومتنوع ثقافت پر فخر محسوس کریں۔
گجرات کے جوتے میں پیر ڈالتے ہوئے بی جے پی کی زیر اقتدار ایک اور ریاست کرناٹک نے بھی اسکول کے نصاب میں ویدک کتابوں کو متعارف کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ریاست تمام غلط وجوہات کی بنا پر سرخیاں بنا رہی ہے، اسکولوں میں حجاب اور دیگر اسلامی اعمال پر پابندی ہے۔
اس سے پہلے دسمبر میں پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے دوران مرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے ایوان کو بتایا کہ بھگوت گیتا کو ہندوستانی تعلیمی نظام میں اسکول اور کالج کے نصاب سے لے کر تکنیکی تعلیم تک ہر سطح پر نصاب میں متعارف کرایا گیا ہے۔ وہ لوک سبھا میں اسکول اور کالج کے نصاب میں ہندو کتب کو شامل کرنے کے اقدام پر ایک تحریری سوال کا جواب دے رہے تھے۔
وزیر نے مزید کہا ’’نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) کا تجویز کردہ ’شریمد بھگوت گیتا‘ سے متعلق مواد پہلے ہی اس کی 11ویں اور 12ویں جماعت کی سنسکرت کی نصابی کتابوں میں موجود ہے‘‘۔
پردھان نے بتایا، ’’بھکتی تحریک کے سلسلے میں، NCERT کی چھٹی جماعت کے لیے تاریخ کی نصابی کتاب ’’ہمارا ماضی-I‘‘ میں تاجرین، بادشاہان اور زائرین‘‘ کے موضوع کے تحت شریمد بھگوت گیتا کا حوالہ دیا گیا ہے۔
وزیر کے مطابق یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) نے ’یوگا‘ موضوع کے لیے قومی اہلیتی امتحان (نیٹ) میں مذہبی کتاب کے کچھ حصے شامل کیے ہیں۔ قومی اہلیتی امتحان ہندوستان میں یونیورسٹی کے اساتذہ کے لیے قابلیت کا امتحان ہے۔
پردھان نے ایوان زیریں کو بتایا کہ ’’یونیورسٹیز خود مختار ادارے ہیں جو متعلقہ مرکزی/صوبائی/ریاستی ایکٹ کے تحت بنائے گئے/شامل کیے گئے ہیں، جو ان کے اپنے ایکٹ، قوانین اور آرڈیننس/ریگولیشنز کے تحت چلائے جاتے ہیں؛ اس طرح اپنے قانونی اداروں کی مناسب منظوری کے ساتھ انہیں کسی بھی پروگرام کے نصاب کا فیصلہ کرنے کی خود مختاری حاصل ہے،‘‘
وفاقی وزیر کے اعلان سے پہلے ہی، اعلیٰ تعلیمی ادارے اسی طرح کے اجتماعات کو اسپانسر کر کے متبادل تاریخ، سیوڈو سائنس اور دیگر ہندوتوا کے اہداف پر چھلانگ لگا چکے ہیں۔ IIT کھڑگپور نے حال ہی میں ایک خود ساختہ یوگا اور روحانی شخصیت سری سری روی شنکر کے ساتھ ایک تقریب کی میزبانی کی جس کا مقصد طلبا میں تناؤ کو کم کرنا تھا۔ ان خود ساختہ یوگیوں اور باباوں نے اپنے آپ کو متعدد اعلیٰ تعلیمی اداروں میں باقاعدہ طور پر موجود شخصیتوں کے طور پر خود کو منوایا ہے حالاں کہ ان اداروں میں سائنسی نظریے اور سیکولر رویہ کے ساتھ بامعنی گفتگو کی ضرورت ہوتی ہے۔ مجوزہ قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی) ہندوتوا سے متاثر تعلیم پر بھی توجہ مرکوز کرتی ہے جسے ’’بھارت پر مرتکز‘‘ تعلیم کے عنوان سے ملفوف کیا گیا ہے۔موجودہ وزارتیں سنسکرت کو سائنسی زبان کے طور پر ثابت کرنے اور گائے سائنس کے امتحانات کرانے کی خواہشمند ہیں۔ اس نے ناپسندیدہ ہندوتوا کٹھ پتلیوں کو پیدا کیا ہے جو ماہرین یا اسپیشیلسٹ کے طور پر اعلیٰ تعلیم میں داخلہ لے رہے ہیں۔ اس طرح کی خود ساختہ سائنس، سائنسی مزاج کو افسانوی فریبوں سے متاثر کرتی ہے اور ملک کی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔
گجرات حکومت کا یہ اقدام جس کی پیروی دیگر بی جے پی زیر اقتدار ریاستیں بھی کر سکتی ہیں، آئین کے سیکولر اصولوں پر ایک براہ راست حملہ ہے۔
تاہم اپوزیشن جماعتوں نے ریاستی حکومت کے اس انتہائی فرقہ وارانہ فیصلے کی مخالفت نہیں کی۔ اہم اپوزیشن، کانگریس اور عام آدمی پارٹی (اے اے پی) نے اسکولی نصاب میں شریمد بھگوت گیتا کو شامل کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
’’ہم نصاب میں شریمد بھگوت گیتا کو شامل کرنے کے فیصلے کی تعریف کرتے ہیں‘‘ گجرات کانگریس کے ترجمان ہیمانگ راول نے اس اقدام کے جواب میں کہا ’’تاہم، گجرات حکومت کو بھی شریمد بھگوت گیتا سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ بھگوت گیتا صاف طور پر کہتی ہے کہ کسی بھی صورت حال کا سامنا کرنے کے لیے آپ کو پہلے اسے قبول کرنا چاہیے۔ راول نے مزید کہا ’’گجرات میں اس وقت تعلیم کی کیا حالت ہے؟ کل 33,000 میں سے صرف 14 اسکول اے پلس گریڈ والے ہیں۔ انسٹرکٹرز کی 18,000 آسامیاں خالی ہیں اور 6,000 اسکول بند ہو چکے ہیں۔ گجرات میں اسکول ترک کرنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے اور بہت سے طلباء آٹھویں جماعت تک پڑھنا لکھنا بھی نہیں جانتے ہیں۔ امید ہے کہ حکومت ان کے لیے بھی کچھ کرے گی۔‘‘
گجرات عام آدمی پارٹی کے ترجمان یوگیش جاڈوانی نے کہا، ’’ہم گجرات حکومت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اس سے طلبہ کو فائدہ ہو گا۔‘‘
احمد آباد میں مقیم جہد کار دیو دیسائی نے کہا کہ گجرات کو ہندوتوا کی پہلی تجربہ گاہ سمجھا جاتا ہے۔ اسکول کے نصاب میں ایک مخصوص مذہبی متن کا تعارف آئین اور اس کے سیکولر تانے بانے پر براہ راست حملہ ہے۔ دیسائی نے کہا کہ ہمیں ایسی کوششوں کی مزاحمت کرنی چاہیے جن کا مقصد معصوم ذہنوں کو زہر آلود کرنا ہے اور نئی تعلیمی پالیسی ملک میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے بجائے زعفرانیت کے حق میں زیادہ مفید ہے۔ گجرات میں تعلیمی سہولیات کے مایوس کن منظر کو اجاگر کرتے ہوئے دیسائی نے دعویٰ کیا کہ خالی آسامیوں کو پُر کرنے، کلاس رومز کو بڑا کرنے، کیمپس میں بنیادی سہولتیں فراہم کرنے اور نئے اسکول کھولنے کے بجائے، گجرات میں بی جے پی کی حکومت اسکولی تعلیم کو مزید فرقہ وارانہ بنا رہی ہے جس کے طلبا پرسنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ معروف صحافی اور آل انڈیا کرسچن کونسل کے سکریٹری جنرل، جان دیال نے کہا ہے’’ہندوراشٹر آر ایس ایس کی تشکیل کا نو دہوں سے بھی زیادہ عرصہ قبل طے شدہ ایک واضح مقصد ہے جس کو وی ڈی ساورکر نے بڑی تفصیل سے بیان کیا تھا۔ تحریری طور پر مہاتما گاندھی نے کٹر ہندو ہونے کے باوجود تقسیم پر رضامندی اور پھر ہندوستان کو ہندوؤں کے لیے سختی سے محفوظ نہ بنانے کی قیمت ادا کی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اداروں کی زعفرانیت کے لیے پوری رفتار سے کوشش کی جا رہی ہے، لیکن آر ایس ایس اس بات کا یقین نہیں کر سکتی کہ وہ انسانی وسائل کو یکسر تبدیل کیے بغیر ہر ریاست میں وہاں کے اپنے نسلی تنوع کے ساتھ نئے کیڈر کو مسلسل تلاش کر سکتی ہے۔ جان دیال نے کہا کہ یہ کام صرف آنے والی نسلوں کی بڑے پیمانے پر تعلیم کے ذریعے احتیاط سے منصوبہ بندی کے ساتھ ہی کیا جا سکتا ہے۔
انگریز جدید تعلیم لائے تھے اور اس کے ساتھ سماجی اصلاحات کی بھی حوصلہ افزائی کی تھی، مثال کے طور پر انہوں نے ستَی کی رسم کا خاتمہ کیا۔اس کا حوالہ دیتے ہوئے جان دیال نے کہا کہ بی جے پی و آر ایس ایس کا پروگرام اسی سے سبق لیتا ہے۔ سنگھ کے لوگ اگرچہ اسے طنزیہ طور پر ’میکالزم‘ کہتے ہیں لیکن ساتھ ہی اس کا استعمال رجحان کو الٹ دینے کے لیے کرتے ہیں تاکہ نسلوں کے مذہبی ثقافتی سلسلے کو پھر سے بنایا جائے جس کی جڑیں پرانے ہندو راشٹر میں ہوں۔این ای پی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ہندو راشٹر کے مقصد کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ ہم نے اسے منظم طریقے سے بے نقاب کیا ہے جب سے یہ پہلی بار ایک مسودے کے طور پر دکھایا گیا تھا۔ ہر گزرتا دن ہمارے اندیشوں میں اضافہ کرتا ہے کہ پرائمری سے لے کر کالج کی سطح تک تعلیم کو اعتدال اور اس صورتحال کی طرف رہنمائی کی جا رہی ہے جو جواہر لال نہرو کی معقولیت پسند سوچ اور سائنسی مزاج میں کی گئی تمام پیش رفت کو پلٹ دے گی۔انہوں نے مزید کہا ’’پچھلی سات دہائیوں میں اقلیتوں کے خلاف کئی بار تشدد کی کوشش کی گئی ہے لیکن ملک کی وفاقی نوعیت سمیت کئی وجوہات کی بناء پر یا تو مذہبی اقلیتوں کا صفایا کرنا یا انہیں اتنا خوفزدہ کرنا ممکن نہیں ہے کہ بھارت میں وہ دوسرے درجے کی رہائش قبول کرلیں، یہاں تک کہ حق رائے دہی سے محرومی پر بھی راضی ہو جائیں۔ جبکہ سی اے اے کے خلاف جمہوری ہندو سماج کی طرف سے مزاحمت نے اس دہائی میں اسے نا ممکن ثابت کر دیا ہے تاہم، ایک اور عیسائی رہنما اور دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق رکن، اے سی مائیکل نے ویدک متن کی تعلیم کے تعارف میں کوئی غلط بات نہیں دیکھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ اچھا خیال ہے کیونکہ اقلیتی تعلیمی ادارے عیسائیوں، سکھوں، جینوں، مسلمانوں اور دیگر کمیونٹیز کی ملکیت ہیں جو فی الحال اپنے طلباء کو متعلقہ مذہبی کتابیں پڑھاتے ہیں۔ اس سے ہمارے ملک کے سیکولر اور جمہوری تانے بانے مضبوط ہوں گے کیونکہ ہر مذہب برابری کا درس دیتا ہے۔ ہو سکتا ہے ہر طالب علم کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ کسی کے خاندان یا انفرادی عقیدے سے قطع نظر سیکھنے کے لیے اپنی مذہبی کتاب کا ترجیحاً انتخاب کرے۔‘‘
دیو بند کی ایک سماجی تنظیم جماعت دعوت المسلمین کے سرپرست مولانا قاری اسحاق گورا نے کہا، ’’اسکول سیکھنے کا مندر ہے نہ کہ کسی مخصوص مذہب کے نظریے کو پھیلانے کے لیے ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب کے معاملے پر اپنے حالیہ مشاہدے میں کہا ہے ’اسکول یکسانیت سے چلایا جائے گا نہ کہ کسی مذہبی عمل سے؟ تو ایسی صورت میں اگر ہم عدالت سے رجو ع ہوں تو کیا اسکول کے نصاب میں ’گیتا‘ کو شامل کرنا مناسب ٹھہرایا جائے گا؟‘‘
مولانا اسحاق نے کہا کہ حکومت کو سب سے پہلے طلبہ کی رضامندی حاصل کرنی چاہیے اور ’’صرف ان کو پڑھانا چاہیے جو رضا مند ہوں‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’تاہم، میں سمجھتا ہوں کہ کسی مذہب یا اس کی مقدس تحریروں کو کسی پر مسلط کرنا نا مناسب ہے،‘‘
اسی طرح کے جذبات ظاہر کرتے ہوئے، دیو بند کے ایک اور اسلامی اسکالر مفتی اسد قاسمی نے کہا ’’نوخیز ذہنوں پر کچھ بھی مسلط کرنا غلط ہو گا‘‘۔ مفتی صاحب نے کہا ’’ہم اسکول میں گیتا کی تعلیم کے خلاف نہیں ہیں اور جو بچے مقدس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں وہ کر سکتے ہیں، لیکن اسے مسلم طلبہ پر تھوپنا غلط ہے کیونکہ تمام مذاہب کے طلبہ اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔‘‘
بائیں بازو کی تنظیموں نے بھی تعلیمی نظام کو بھگوا بنانے کی کوشش کی مذمت کی۔ اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا کے صدر وی پی سانو نے خبردار کیا کہ اس سے ملک کے سیکولر کردار پر سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔ سانو نے کہا کہ ایس ایف آئی ریاستی سرپرستی میں ان مذموم کوششوں کی مذمت کرتی ہے اور سائنسی اور سیکولر ذہنوں کو اپنا احتجاج درج کرنے کی دعوت دیتی ہے۔(بشکریہ ریڈیئنس ویوز ویکلی)
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 10 تا 16 اپریل 2022