محمد یوسف اصلاحی
’’حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا، اللہ نرم خو ہے اور نرم خوئی کو پسند کرتا ہے، اور نرم خوئی پر جتنا کچھ دیتا ہے سخت مزاجی پر نہیں دیتا بلکہ نرم خوئی پر اتنا دیتا ہے کہ اس کے علاوہ کسی چیز پر اتنا نہیں دیتا ‘‘۔
انسان میں دو خصلتیں پائی جاتی ہیں نرمی اور سختی اور دونوں پوری زندگی پر اثر اندازہوتی ہیں، نرمی اور مہربانی ایک پسندیدہ خوبی ہے اور سختی ایک نا پسندیدہ خصلت ہے۔ اس حدیث میں اللہ کے رسول نے نرمی اور ملائمت کی ترغیب دی ہے، ترغیب کے لیے نہایت حکیمانہ اور مصلحانہ طور پر دو انداز اختیار کیے گئے ہیں۔ یہ کہہ کر نرمی خدا کی صفت اور شان ہے اور خدا نرمی کو پسند کرتا ہے آدمی کے جذبات خیر کو نہایت نفسیاتی انداز میں ابھارا گیا ہے اور یہ کہہ کر کہ نرمی پر وہ کچھ ملتا ہے جو سختی پر نہیں ملتا بلکہ نرمی کے علاوہ اتنا کچھ اور کسی بھی چیز پر نہیں ملتا، آدمی کو پوری قوت کے ساتھ اس جوہری صفت کو اپنانے کا حریص اور خواہش مند بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
نرمی خدا کی صفت اور شان ہے۔ حدیث میں خدا کی اس صفت کو ظاہر کرنے کے لیے رفق کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور قرآن پاک میں خدا کی اس صفت کو ظاہر کرنے کے لیے لطیف کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
اللہ لطیف بعبادہ
اللہ اپنے بندوں پر لطف اور مہربانی فرماتا ہے
بندوں ک ہدایت اور رہنمائی میں بھی نرمی فرماتا ہے ان کی سرکشی، بغاوت اور نافرمانیوں پر بھی نرمی فرماتا ہے۔ ان کے گناہوں اور خطاوں کو معاف فرماتا ہے، اور نافرمانیوں پر بھی نرمی فرماتا ہے۔ ان کے گناہوں اور خطاوں کو معاف فرماتا ہے، بار بار سدھرنے اور سنورنے کا موقع دیتا ہے، گناہ پر یکا یک پکڑ نہیں کرتا، بلکہ سنبھلنے اور اصلاح کرنے کی مہلت بھی دیتا ہے اور اسباب بھی فراہم فرماتا ہے، بندوں کی ضرورتوں اور مصلحتوں کا اس طرح خیال رکھتا ہے اور وہاں وہاں سے ان کی ضرورتیں پوری کرتا ہے کہ بندوں کو اس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔
پھر بندوں پر نرمی اور لطف کرنے والا رب یہ بھی چاہتا ہے کہ بندے بھی ایک دوسرے کے ساتھ اسی طرح نرمی اور سہولت کا معاملہ کریں۔ وہ رفیق اور نرم خو بھی ہے، اور نرمی اور سہولت کو پسند کرنے والا بھی ۔
نرمی اور رفق تمام اخلاقی خوبیوں کی روح اور عطر ہے۔ خدا نے جس بندے کو اس دل نواز خوبی سے نوازا ہے گویا اسے ہر خوبی سے نواز دیا ہے اور جسے اس خوبی سے محروم رکھا ہے وہ گویا ہر خوبی سے محروم ہے۔ حضرت عائشہؓ ایک اور روایت میں فرماتی ہیں اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے:
’’جس آدمی کو خدا کی طرف سے نرمی کا حصہ ملا اس کو دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کا حصہ مل گیا اور جو نرمی سے محروم رہ گیا وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خیر وبھلائی کے حصے سے محروم رہا‘‘۔
اخلاقی زندگی کو دلکشی کمال وجمال، رعنائی اور حیرت انگیز جاذبیت بخشنے والی چیز نرمی اور ملائمت ہی ہے۔ بلکہ خدا کے رسولﷺ نے تو حضرت عائشہؓ سے یہاں تک فرمایا ہے کہ:
’’نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے اس کو زینت بخشتی ہے اور جس چیز سے بھی نرمی الگ کرلی جائے اس کو بدنما بنادیتی ہے‘‘۔
آپ کسی ایسی خاتون کا تصور کریں جس کی آواز میں مٹھاس ہو، لہجے میں سوز وگداز ہو، لفظ لفظ سے خیر خواہی ٹپکتی ہو، چیخنے چلانے، ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کرنے سے بالکل ہی دور ہو جو معاملہ کرنے میں نہایت نرم دل ہو، سختی اور سخت مزاجی جانتی ہی نہ ہو۔ ہمیشہ دوسروں کے لیے آسانی اور سہولت پیش نظر رکھتی ہو۔ بچوں پر سختی کرنے اور بچوں کی غلطیوں پر سخت گیری کرنے سے پرہیز کرتی ہو، کسی سے اگر کوئی مطالب بھی کرتی ہوتو نہایت نرمی اور ملائمت کے ساتھ کسی کو کوئی بات سمجھاتی ہوتو نہایت نرم لہجے میں، بد زبانی، سخت کلامی ، تیزی، ترشروئی اور جنجھلاہٹ سے اس کی زندگی پاک ہو۔ تصور کیجیے ایسی خاتون کی شخصیت میں کس قدر غیر معمولی کشش ہوگی۔ اس طرح ہر ایک اس سے قریب ہونے کی کوشش کرے گا، خاندان میں وہ ہر ایک کی محبتوں اور چاہتوں کا مرکز ہوگی۔ اور اس کا گھر کیسا خیر و برکت اور بھلائیوں کا گہوارا ہوگا۔ اس کے برخلاف، اس خاتون کا تصور کیجیے ، جو بد زبان ہو بات بات پر بگڑنے اور سخت سست کہنے والی ہو جس کا لہجہ درشت، روکھا، اور کاٹ کھانے والا ہو جس کی زبان سے نکلنے والے الفاظ، جھنجھلاہٹ، غصہ، حسد، اور جلن کے زہر میں بجھے ہوئے تیر ہوں، جو اپنے چھوٹوں کے معاملے میں نہایت سخت مزاج، اور سخت گیر ہو، بات بات پر بچوں کو ڈانٹتی ہو، پڑوسیوں سے نہایت ترش مزاجی، بدسلوکی اور سختی سے پیش آتی ہو، رشتہ داروں کے لیے اس کے دل میں کوئی نرمی ، کوئی دل سوزی ہی نہ ہو، جو ہر ایک اس سے کترانے کی کوشش کرے گا۔ ہر ایک کو اس سے نفرت اور بیزاری ہوگی۔ اور اس کا گھر ، گھر کیا ہوگا ایک وحشت کدہ ہوگا جس پر ویرانی اور حیرانی برستی ہوگی۔ اور کوئی بھی اس کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لیے دل سے آمادہ نہ ہوگا۔ یہی بات ہے جس کو خدا کے رسول ﷺ نے یوں بیان فرمایا:
اللہ تعالیٰ جس گھر کے لوگوں کو بھی نرمی صفت سے نوازتا ہے وہ اس صفت کی بدولت انہیں بھلائیاں پہنچاتا ہے اور جس گھر کے لوگوں کو بھی نرمی کی اس صفت سے محروم کرتا ہے ان کو ضرر اور خرابیاں پہنچاتا ہے‘‘۔
گویا گھر کے سکون و آسائش اور خیر و برکت کا دراومدار نرمی اور نرم خوئی پر ہے، اور گھر کی خرابی اور اجاڑ پن یہ ہے کہ گھر والے اس جوہری خوبی سے محروم ہوں، جب خدا کسی گھر کے لیے بھلائی مقدر فرماتا ہے تو گھر والوں کو نرم خوئی جیسی عظیم اخلاقی خوابی سے نواز دیتا ہے اور جب کسی گھر کے لیے تباہی اور خرابی مقدر فرماتا ہے تو گھر والوں کو نرمی اور نرم خوئی جیسے جوہر اخلاق سے محروم کردیتا ہے۔
رہتی زندگی تک کے لیے خدا نے جس ہستی کو نمونہ بنایا ہے وہ لوگوں کی محبت و قربت کا مرکز اسی لیے تھے کہ خدا نے اپنی خصوصی رحمت سے انہیں اسی خوئے دلنوازی، نرمی اور لینت کا پیکر بنایا تھا، اگر وہ سخت مزاج اور سنگ دل ہوتے تو گردو پیش سے جاں نثار پروانے چھٹ جاتے۔
یہ اللہ کی زبردست رحمت کی وجہ ہے کہ آپ ان کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے ہیں، ورنہ کہیں آپ تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب آپ کے گردو پیش سے چھٹ جاتے۔
دوسری بات جس کی طرف نبی ﷺ نے اس حدیث میں توجہ دلا کر نرمی اور سہولت کی ترغیب دی ہے وہ یہ ہے کہ خدا بندے کو نرمی اور ملائمت کے صلے میں وہ کچھ دیتا ہے جو دوسری کسی چیز پر نہیں دیتا۔ آدمی اس غلط فہمی میں رہتا ہے کہ میں سختی ، درشتی اور سخت گیری سے زیادہ کام نکال سکتا ہے خدا کے رسولﷺ نے اس غلط طرز فکر کی جڑ ہی کاٹ دی، اور فرمایا جو کچھ بندے کو ملتا ہے ، خواہ وہ جس شکل میں بھی ملے، خدا کے فیصلے اور حکم ہی کے تحت ملتا ہے۔ جو مقصد بھی پورا ہوتا ہے اسے خدا ہی پورا کرتا ہے آدمی کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ کوشش کرے، اور خدا کے رسول نے یہ فیصلہ کن بات بتائی کہ نرمی اور نرم خوئی سے جتنا کچھ ملتا ہے وہ سختی اور سخت گیری کرنے سے نہیں ملتا بلکہ نرمی سے جو کچھ خدا عنایت فرماتا ہے اتنا اور کسی طریقے بھی نہیں مل سکتا جب حقیقت ہے اور رسول خود اس حقیقت کے گواہ ہیں تو پھر اپنے کام سے تعلق اور اپنے مقصد کو عزیز رکھنے کا تقاضا بھی یہی ہے کہ آدمی نرمی اور ملائمت کا رویہ اختیار کرے اور اپنی ذات سے محبت اور خیر خواہی کا تقاضا بھی یہ ہے کہ نرمی اور نرم دلی کے جوہر سے اپنی شخصیت کو آراستہ کرے اور خواہ مخواہ تند خوئی اور سخت گیری سے اپنی شخصیت کو بدنما اور بیزار کرنے والا نہ بنائے۔
گھر کے خادم اور ملازمین کے ساتھ نرمی، بچوں کے ساتھ نرمی، رشتہ داروں اور عزیزوں کے ساتھ نرمی، پڑوسیوں اور شناسا لوگوں کے ساتھ نرمی برتنے سے لوگوں کے دلوں میں محبت، وقعت ، احترام اور وفاداری کے جذبات ابھرتے ہیں، بیگانے اپنے بنتے ہیں اور اپنوں میں قربت و خلوص بڑھتا ہے۔ جذباتی تعاون ملتا ہے، نیک تمنائیں اور دعائیں ملتی ہیں اور آدمی کے دل و دماغ کو سکون، اطمینان اور روحانی سرور ملتا ہے۔ آدمی سماج کے لیے باعث رحمت ہوتا ہے اور سماج انسان کے لیے رحمت بن جاتا ہے۔ اس کے برخلاف سخت مزاجی، ترشروئی، ہر وقت کی جھنجھلاہٹ بد زبانی اور سخت کلامی سے آدمی کے گھر والے اور گردو پیش کے احباب و شناسا بیزار ہونے لگتے ہیں، آدمی کی شخصیت اور زندگی میں کوئی کشش باقی نہیں رہتی۔ ہر ایک اس سے کترانے لگتا ہے، گھر والے اس سے اکتانے لگتے ہیں اور وہ گھر والوں سے۔ اور اس طرح سب کچھ ہونے کے باوجود آدمی کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ اسی لیے خدا کے رسول ﷺ نے فرمایا:
’’جو شخص نرمی کے جوہر سے محروم کیا گیا وہ درحقیقت سارے خیر اور بھلائی سے محروم کیا گیا‘‘۔
یہ تو نرمی، نرم مزاجی اور اس کے وہ صلے اور ثمرات ہیں، جو اس دنیا میں آدمی کو میسر آتے ہیں، آخرت میں بھی نرمی اور نرم خوئی کی بدولت ہی آدمی کامیاب وکامراں ہوتا ہے۔
حضرت حارثہ بن وہبؓ کا بیان ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’بدزبان اور بد مزاج آدمی جنت میں نہیں جائے گا‘‘۔( ابو داود)
اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا بیان ہے کہ خدا کے رسولﷺ نے فرمایا:
’’کیا میں تمہیں اس شخص کی خبر نہ دوں جو جہنم کی آگ پر حرام ہے اور جہنم کی آگ اس پر حرام ہے۔ ایسا شخص وہ ہے جو نرم مزاج ہے، نرم دل ہے اور لوگوں سے قریب ہے اور نرم خو ہے‘‘۔
اس حدیث میں نرمی اور نرم خوئی کے مختلف پہلووں کو واضح کرنے کے لیے خدا کے رسولؐ نے چار الفاظ استعمال فرمائے ہیں اور بڑے دل کش انداز میں اس دل نواز شحصیت کی تصویر کشی کی ہے جس کی تعمیر اسلام کو مطلوب ہے، اسلام کا مطلوب انسان وہ ہے جو اپنے مزاج رویے، سلوک اور معاملات میں نرم ہو، خواہ مخواہ اپنا رعب نہ جماتا ہو، لوگوں سے خود کو برتر سمجھ کر الگ تھلگ نہ رہتا ہو، دوسروں کو اپنے سے کمتر نہ سمجھتا ہو، ہر ایک کے ساتھ نرمی اور مہربانی سے پیش آتا ہو، ہر ایک بے تکلف اس سے اپنے دل کی بات کہہ سکتا ہو اور وہ ہرایک کے دکھ درد میں شریک رہتا ہو، وہ ہر ایک کی محبت کا مرکز ہو، بد زبان، ترشروئی، سخت مزاجی، اکھڑ پن، خود پسندی، سخت گوئی، سخت گیری، غصہ، جھنجھلاہٹ جیسی اخلاقی برائیوں سے اس کی زندگی یکسر پاک ہو، دنیا میں بھی اس شخص کی زندگی قابل رشک ہوگی اور آخرت میں بھی اس کی دل کش شخصیت قابل رشک اور حسین اور انجام قابل فخر ہوگا۔
***
***
گھر کے خادم اور ملازمین کے ساتھ نرمی، بچوں کے ساتھ نرمی، رشتہ داروں اور عزیزوں کے ساتھ نرمی، پڑوسیوں اور شناسا لوگوں کے ساتھ نرمی برتنے سے لوگوں کے دلوں میں محبت، وقعت ، احترام اور وفاداری کے جذبات ابھرتے ہیں، بیگانے اپنے بنتے ہیں اور اپنوں میں قربت و خلوص بڑھتا ہے۔ جذباتی تعاون ملتا ہے، نیک تمنائیں اور دعائیں ملتی ہیں اور آدمی کے دل و دماع کو سکون، اطمینان اور روحانی سرور ملتا ہے، آدمی سماج کے لیے باعث رحمت ہوتا ہے اور سماج انسان کے لیے رحمت بن جاتا ہے ۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 10 تا 16 اکتوبر 2021