نابغۂ روزگارشخصیت: مولانا محمد رفیق قاسمی

ایک اور کارواں منزل حیات سے گزر گیا

ڈاکٹر عمیر انس

ہر انسان کی زندگی میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی اہمیت آپ کبھی نہیں سمجھتے، اس لیے نہیں کہ وہ اہم نہیں ہوتے بلکہ اس لیے کہ وہ آپ سے اتنا قریب ہوتے ہیں کہ آپ کو پتہ نہیں چلتا کہ باقی دنیا میں محبت کرنے والے بھی ان کی محبت میں حصے دار ہیں۔ پچھلے دو مہینے میں، مَیں نے اور میرے بھائی بہنوں نے اپنے دو سرپرست کھو دیے۔ کانپور کے حافظ منصور عالم صاحب 27 اپریل کو اور اب مولانا محمد رفیق قاسمی صاحب اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ایک بار میں اپنے والد مرحوم کی ڈائری ان کے سامنے دیکھ رہا تھا، پہلے ہی صفحے پر سارے بچوں کے نام لکھے تھے، میرا نام مصعب عمیر لکھا ہوا تھا، میں نے پوچھا یہ کس کا نام ہے؟ کہنے لگے کہ پہلے تمہارا نام یہی رکھا گیا تھا بعد میں حافظ صاحب کے مشورے سے عمیر اور انس ملا کر نام عمیر انس بنایا گیا۔ یاد نہیں کہ کتنی مرتبہ حافظ صاحب ہمارے گھر پر ٹھہرے ہوں گے۔ ہم سارے بچے دوڑ دوڑ کر ان کی خدمت کرتے کبھی وہ قرآن سنتے کبھی ہمیں کوئی اپنی پرانی بات سناتے۔ جب ہم مدرسے پہنچے تو معلوم ہوا کہ اس مدرسے کے معائنے کے لیے ذمہ داران آرہے ہیں اور یہ کوئی اور نہیں بلکہ حافظ صاحب تھے۔ اسی مدرسے میں مولانا رفیق قاسمی صاحب کے سب سے چھوٹے صاحبزادے لطف الرحمن زیر تعلیم تھے اور ہم سے سینئر تھے۔ مولانا قاسمی صاحب اگرچہ جماعت اسلامی یو پی کے امیر حلقہ تھے لیکن مدرسے میں ان کی آمد ہم سب کے لیے ایک باپ کی طرح ہوتی تھی۔ یہ جاننے میں ابھی بہت وقت تھا کہ جماعت اسلامی کا امیر حلقہ ہونا بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ ہمارے لیے تو وہ والد صاحب کے دوست تھے۔ والد صاحب کی زبان سے اور ان کے احباب کے درمیان سب سے زیادہ جن ناموں کا ذکر کیا جاتا تھا ان میں سب سے زیادہ احترام قاسمی صاحب کو حاصل تھا۔ والد صاحب اور حافظ صاحب کا تعلق بھائیوں کا سا تھا۔ بچوں کی صحت ہو یا تعلیم، شادی ہو یا خانگی مسائل حافظ صاحب سے مشورے کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا تھا، گھنٹوں دونوں باتیں کیا کرتے تھے۔ گزشتہ سال جب ہندوستان آیا تھا تو حافظ صاحب سے دعا لینے ان کے گھر کانپور گیا تھا، آخری بار واٹساپ پر چھ سات مہینے پہلے بات ہوئی تھی۔ یہ شکوہ بے جا نہ ہوگا کہ جماعت کی نئی نسل جس نے آزمائش کے زمانے نہیں دیکھے ہیں انہیں اپنے ان بزرگوں کی قدر نہیں ہے۔ جس جماعت نے مسلم جماعتوں میں سب سے زیادہ حکومت کا عتاب برداشت کیا ہو اس کے نوجوان کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کے صبر اور استقلال کے ایمان انگیز واقعات کو جانیں۔
قاسمی صاحب کی شخصیت دیکھنے میں جتنی بارعب تھی عملاً وہ اتنے ہی زیادہ دوست مزاج تھے، ایک بڑی جماعت کے اعلیٰ مناصب پر فائز ہونے اور بے حد مصروف زندگی گزارنے کے باوجود بے حد خوش مزاج، ملنسار اور غم گسار انسان بھی تھے۔ ایسا نہیں ہوا کہ کوئی ان سے ملنے جائے تو اس سے اس کے مسائل خود سے نہ دریافت کر لیں۔ بڑے مسائل کا آسان اور عملی حل پیش کرتے تھے۔ انہوں نے ایمرجنسی کے دوران ذمہ داروں اور ارکان کے گھروں کی خیر خیریت لینے اور ان کے معاشی مسائل حل کرنے میں اپنے پورے وسائل اور طاقت جھونک دی تھی۔ انہوں نے عام لوگوں کی بھی بے لوث خدمت کی۔ وہ خود کئی خوبیوں کے مالک تھے اور انسانی خوبیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ انہیں اس ملک کی زرخیزی پر پورا یقین تھا اور مسلمانوں کو بھی ہمیشہ پر امید رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ انہوں نے بابری مسجد کی شہادت کا سانحہ اپنی اتر پردیش کی امارت کے دوران دیکھا تھا۔ اس سے پہلے ہی انہوں نے فورم فار کمیونل امیٹی کے کام کو اپنے متعدد مایوس ارکان کی مخالفت کے باوجود جاری رکھا۔ میرے والد (مرحوم عبد الطیف صاحب) اس فورم کا سرگرم حصہ تھے۔ وہ اس بات میں یقین رکھتے تھے کہ بابری مسجد سانحہ کا جواب مزید دعوتِی سرگرمیوں اور مزید انسانی اقدار کے احیاء کے ذریعے دیا جانا چاہیے۔ وہ فرقہ پرست سیاست دانوں کے ساتھ بھی روابط کے خواہاں تھے چنانچہ ہم نے دیکھا کہ ہمارے شہر میں 1988 میں ایک بڑے جلسے میں جماعت اسلامی کے یہ دونوں قائدین فرقہ پرستی کے خلاف سبرا منیم سوامی کے ساتھ ایک ہی اسٹیج پر جمع ہوئے تھے۔ مولانا قاسمی کی امارت ختم ہونے کے بعد جب جناب نصرت علی صاحب امیر حلقہ مقرر ہوئے تو وہ بھی اسی رخ پر کام کرتے رہے۔ جب والد مرحوم بابری مسجد کی شہادت کے بعد جیل بھیجے گئے تو ہم نے غیر مسلم حضرات کے درمیان بہترین شخصیات کا ذاتی طور پر تجربہ کیا۔ حافظ منصور عالم صاحب نے مولانا قاسمی صاحب کی زیر امارت خوب کام کیا۔ وہ جماعت اسلامی کے ان چند لوگوں میں شمار کیے جاتے تھے جو جماعت کے نظم کے درمیان اپنے اخلاص اور جد وجہد کی بنیاد پر اہم ذمہ داریوں پر مقرر کیے گئے۔
مولانا قاسمی صاحب کا ممتاز کارنامہ یہ ہے کہ اُنہوں نے جماعت اسلامی اور دار العلوم دیوبند کے درمیان دوستانہ ماحول کو پروان چڑھایا۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ مولانا مرحوم دونوں مکاتب فکر کی نمائندہ شخصیت تھے۔ مولانا رضی الاسلام صاحب نے درست فرمایا کہ وہ جماعت اور دیوبند کے درمیان مضبوط کڑی تھے۔ ملت اسلامیہ کے لیے سب سے خوش آئند پہلو یہ ہے کہ اس کے قائدین میں اختلاف کے باوجود ملک اور ملت کے اہم مسائل پر سر جوڑ کر بیٹھنے کی صلاحیت موجود ہے۔ مولانا قاسمی کی ملت اسلامیہ کے مختلف طبقات، مدارس، شخصیات اور تنظیموں کے درمیان توافق، اعتماد اور اشتراک کی فضا ہموار کرنے کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
جماعت اسلامی ہند کو کئی عظیم الشان قائدین میسر آئے۔ مولانا ابو اللیث اصلاحی نے اگر جماعت کو ہندوستان میں قائم کرنے کا کام کیا تو مولانا سراج الحسن نے جماعت کو ایک تحریک میں بدلنے کا کام کیا۔ کوئی بھی تنظیم دو وجوہات سے تحریک میں بدل سکتی ہے، پہلی یہ کہ آپ اپنے پیغام کو لے کر معاشرے کے ہر طبقے کے پاس جائیں اور دوسری یہ کہ تنظیم کے افراد اس کام کو کرنے کے لیے دل وجان سے راضی ہو جائیں۔ چنانچہ مولانا سراج الحسن صاحب کے دور امارت میں ان دونوں چیزوں کے پھلنے، پھولنے اور بڑھنے کا بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ جماعت کے قائد ہونے کے ساتھ ساتھ ملت کے قائد بھی تھے۔ خود بھی ملت کے ہر طبقے تک پہنچے اور جماعت کے ہر کارکن کو پہنچایا۔ اس طرح دعوت کے کاموں کو توسیع دی۔ کسی سفر میں جب کہ ان کی گاڑی میرے شہر کے بائی پاس سے گزر رہی تھی انہوں نے اصرار کر کے گاڑی کا رخ میرے گھر کی طرف کروا لیا اور والد صاحب سے ملنے کے لیے پہنچ گئے۔ ان کی بے باکی کا عالم یہ تھا کہ ایک بڑے مدرسے میں کھانے کی دعوت پر جب ان سے مدرسے کے بارے میں چند کلمات کہنے کی درخواست کی گئی تو بلا خوفِ لومۃ لائم ذمہ دارانِ مدارس سے اپنی توقعات کا بر ملا اظہار کر دیا۔ منتظمین حیرت میں پڑ گئے۔ میں بھی اس مجلس میں حاضر تھا اور مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ اس واقعے نے جماعت اسلامی ہند کے اس قائد کے لیے میرا احترام دو بالا کر دیا۔ ایک سرگرم قیادت کا ماڈل پیش کرنے کے بعد یہ قائد اصرار کے باوجود خود کو قیادت سے دور کر لیتا ہے تاکہ نئی قیادت اور نئے افراد اس تحریک کو آگے بڑھائیں۔ مولانا سراج الحسن نے اپنے دور امارت میں جماعت اسلامی ہند کا نام خوب روشن کیا۔ جماعت اسلامی تحریک ہے اور تحریکوں میں کوئی باب بند نہیں ہوتا۔ کسی ایک باب کا بند ہو جانا بالآخر تحریک کا دم توڑ جانا ہے۔ زندہ تحریکیں اپنے پورے ابواب کے ساتھ چلتی ہیں۔ اب یہ تحریک کے قائدین اور اس کے کارکنان پر منحصر ہے کہ وہ اس کو چلانے میں کتنی طاقت لگاتے ہیں۔ بہرحال یہ تین افراد ہی نہیں بلکہ ایمان اور عمل کا ایک کارواں تھا جو ہزاروں لوگوں کے دلوں کو فروزاں کرتے ہوئے اپنی منزلِ جاودانی کو جا پہنچا اور اللہ کے پاس اپنی خدمات اور اعمال کے ساتھ حاضر ہوگیا۔ اللہ تعالٰی ان تینوں بزرگوں کو معاف فرمائے ان پر رحم فرمائے ان کے کارناموں کو شرفِ قبولیت بخشے اور جنت نصیب فرمائے جہاں ان کو شہداء وصدیقین کی رفاقت نصیب فرمائے۔ آمین۔


 

قاسمی صاحب کی شخصیت دیکھنے میں جتنی بارعب تھی عملاً وہ اتنے ہی زیادہ دوست مزاج تھے، ایک بڑی جماعت کے اعلیٰ مناصب پر فائز ہونے اور بے حد مصروف زندگی گزارنے کے باوجود بے حد خوش مزاج، ملنسار اور غم گسار انسان بھی تھے۔ ایسا نہیں ہوا کہ کوئی ان سے ملنے جائے تو اس سے اس کے مسائل خود سے نہ دریافت کر لیں۔ بڑے مسائل کا آسان اور عملی حل پیش کرتے تھے۔