نعیم جاوید،دمام ،سعودی عرب
ہماری اکلوتی بیوی جو تادمِ تحریر زوجۂ اول تا آخر ہے جب جدہ چھوڑ کر بھارت یاترا کا سنکلپ کرنے لگیں تو خوف سے دل کے معبد کے ڈھائے جانے کا بد ترین گمان گزرا کیوں کہ ہم بھارتی ہیں اور بھارت کی یاترائیں معبدوں کو چھیڑتی رہتی ہیں۔ادھر بیگم صاحبہ جاتے ہوئے اپنے بچے سمیٹ کر ساتھ لے گئیں اور خود اپنی ساس کے بچے کو چھوڑگئیں اور یہ پٹی پڑھا گئیں کہ میاں اب تم بڑے ہوگئے ہو ‘ من مار کر تنہا رہو اور پابندی سے ڈرافٹ بھیجتے رہو۔ ہم مان گئے اور پھر حبسِ دوام کے قیدی کی طرح پیرول پر رہا ہوئے اورآرام سے دن رات گھومنے اور دیر سے گھر آنے لگے۔کروٹ بدلتے ہی دس دن گزر گئۓ اورادھر ہمارے چٹورے پن کے نتیجے میں جھوٹے برتنوں کاڈھیر ملبہ بن چکا تھا۔ ہم مزاجاً مہم جو تھے‘ خود ہماری بیاہتازندگی رسی پرسائیکل چلانے سے کم نہیں تھی۔نہ معلوم ہماری ناتجربہ کاری کا علم کچن کے آلاتِ حرب و ضرب کو کیسے ہوا ہم سے بڑا برتن تو کجا کمسن کٹوری اور نو عمر پیالی تک سنبھلی نہ جاتی تھی۔نئی نسل کی طرح ہمارے ہاتھوں سے پھسل پھسل کر کانچ کے برتن چھوٹنے لگے۔کسی پیالی کے ہونٹ پھوٹے ‘ کسی ساسر کے پیندے پر خراشیں آئیں توکسی برتن کی پیشانی پر تڑکیں۔بہانے بہانے سے کا نچ کے برتن گر کر ریزہ ریزہ ہو نے لگے۔ میں برتنوں کی اجتماعی خود کشی سے خوف کھا کر گھر کی تنہائی میں جنوں کے وجود کا قائل ہو گیا۔ دیوار سے چپک کر لرزتے ہوئے کٹورے کو دیکھنے لگا ‘ اسی کٹورے کے اوپر تاؤ دیتا ہو ایک چمچہ نظر آیا۔ہم آگے بڑھنے ہی والے تھے کہ اسی اشتعال انگیز چمچے نے ایک سجیلے کٹورے کو بہکادیاجس کے نتیجے میں اس کے شیشہ میں بال آگیا۔ کاش بال بال ہی بچ جاتا۔ ادھرہم نے اپنے سہمے ہوئے ہاتھوں کو دیکھا تو حیرت ہوئی اس میں سے کف چھوٹ رہا تھا۔ دل کو سمجھایا کہ کف واشنگ پاوڈر کا ہے لیکن جنوں کا خیال بھی تو دل میں گھر کر گیا تھا۔ چند گندی کٹوریوں کے عوض ہمارا عقیدہ ہمارے ہاتھ سے پھسل چکا تھا۔ ہماری شخصیت کا بانکپن توہّم کی نذر ہوچکا تھا۔ ہم نے ادھر ادھر سے جو یاد تھا پڑھا۔
مولوی صاحب کے ڈنڈے اور جنوں کے خوف کے درمیان عربی پڑھنے کا یکساں مزہ ہوتا ہے۔ اسی معصومانہ خوف سے ملی جلی آیتیں پڑھیں۔ جب دل عملیات کی طفل تسلیوں سے مان گیا تو پھر ایک بار برتنوں کی دُھلائی کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ سب سے پہلے خیال یہ آیاکہ کانچ کے برتن چاہے جس شکل کے ہوں اسے کان ضرور ہونا چائیے تاکہ دھونے والے کو کان مروڑ کراپنے غصہ اور فن کے اظہار کا موقع مل سکے۔اب باقی ماندہ پیالوں کے خود کُش دستوں کو گود لے کر کچن کے شفاف فرش پر ہم بیٹھ گئے۔ پھر دونوں پیروں کی انگلیوں کے جال میں برتنوں کو پھنسا کر بے تحاشہ مانجھنا شروع کیااور برتنوں سے سالنوں کی کھال ادھیڑ کر پھینکی۔کام میں تیزی آگئی تھی ویسے بہادر تو ہم تھے ہی۔ پھرتی سے اُچک کراوپر سے مزیدبرتن لینے اٹھے تو احساس ہوا کہ ہم اُٹھے نہیں بلکہ ٹھوڑی اور سینہ کے بل فرش پر چاروں خانے چت پڑے ہیں۔ارے !!
یہ بھی کوئی گرنا ہوا ہمیں گرنے کا احساس تک نہیں ہوا۔البتہ ایک بڑی آواز خود ہمارے کانوں کو سنائی دی۔ادھر اُدھر نگاہ ڈالی کوئی دیکھنے والانہیں تھا۔ تنہائی میں گرنے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ خود اپنے پوز سے دیر تک لطف لے سکتے ہیں۔ ہم بھی گپت ماروں کےباوجود ہنستے رہے اور جی بھرکے اپنے بکھراؤ کو دیکھتے رہے۔ خود کو سمیٹتے ہوے پھرایک بارپھرتی سے اٹھے تو پھر وہی لڑکھڑانے کی ترنگ ‘ کچھ کچھ ڈھلمل سے ڈولنے والا تجریدی رقص رہا۔ ویسے اس میں شرمانے کی کیا بات ہے اخلاقاً ہم صرف ایک بار گرےتھے لیکن عادتاً تین بار گیند کی طرح کولہوں پر ٹپک ٹپک جاتے تھے اور جو برتن نیچے رکھے تھے اب ان کے ٹکڑے ادھر اُدھر اُچھل رہے تھے۔ ہم نے خود کو سنبھالا بلکہ ڈانٹا اور غیر روایتی اندازمیں کام کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ہم مشرقی عورت کے مشرقی شوہر تھے۔ مشرق والے شروع شروع کے تھوڑے بہت نقصان کے بعد آخری مرحلو ں کا منصوبہ ضرور بنا لیتے ہیں۔ اس لیے ہم نے بھی ازسرِ نو برتنوں پر نگاہِ غلط انداز ڈالی۔ پھر ہمیں حیا آئی سوچا پہلے ترتیب دیا جائے وہ بھی ترجیحی بنیادوں پر وہی تقدیم و تاخیر کی ڈھیٹ اساس پر۔ پھر مشق کی جائے ‘ اس انوکھے خیال پر ہم دیر تک مرستے رہے۔ تعریف کے ذاتی پل باندھنے اورستائش میں خود مکتفی ہونے کا لطف ہی نرالا ہوتا ہے۔اس سے پہلے ہم آپے سے باہر ہوجاتے بڑی مشکل سے خود پر قابو پاکربرتنوں کے ریزے اُٹھانے لگے۔ ہمیں یاد آیا منیجر کے خوف کو ذاتی شوق ثابت کرتے ہوئے ہم نے ٹائم مینجمنٹ کا ایک کورس کیا تھا جس میں اہم کام کو کرنے کےلیے وقت کے حصے بخرے کیے جاتے ہیں وہ جو کچھ بچتاہے اس میں کچھ کچھ کام ہو بھی جاتاہے۔ اسی بھولے ہوئے تجربے کے حساب سے برتنوں کی دھلائی مہم کا پاور پائنٹ پریزنٹیشن دل ہی دل میں بنایا۔یہاں تک تو ریاضی کا کام ختم ہوا لیکن ابھی میرا کام باقی تھا۔ ادھر فرش وسیع پیمانے پرملگجا ہوچکاتھا۔پھر سوچا برتن مانجھ کر پرفیوم لگانا چاہیے ۔پرفیوم کے تصور سے گندگی کا خیال جاتا رہا۔ پھر ایکبار مردانہ وار اُٹھا اور بڑے چاو سے اپنی سابقہ بنیان لے کرزمین پر نیم دراز ہوگیا۔فرش پر پانی کا چھڑکاؤ کیا واشنگ پاوڈر کی لطیف چکنائی سے فرش رگڑنا شروع کیا۔یوں بھی رگڑا اور ووں بھی رگڑا۔فرش کی دھلائی نے طبیعت میں ایک معصومیت پیدا کردی تھی۔ترنگ میں کھوئے ہوئے ذہن پر بزرگوں کے زمانے کے فلمی گیت نے ایک خاص کیفیت پیدا کردی تھی۔اورہم وہ گیت گنگنانے لگے ۔۔
’’ دو ہنسوں کا جوڑا بچھڑگیو رے گجب دؑھیو راما جُلم بھیو رے‘‘۔ہمارے شوقِ دھلائی کایہ عالم تھا کہ ہمیں احساس ہی نہیں ہوا کہ فرش کم اور گھٹنے‘ کہنیاں اور انگلیاں زیادہ رگڑی گئیں ۔جیسے ہی درد کا احساس جاگا ہم نے فوراً اسےوطن کی چھاتی پر رینگتے ہوئے زخمی فوجی کا تصور کیا۔ ادھر زخمی فوجی کا تصور کرتا تھااُدھر وطن فروشوں کے اسکینڈل اور گھپلے یاد آتے تھے۔لیکن میں تو عام سپاہی سا تھا ویسے ہر فوجی وطن پر جان نچھاور کرتا اور تنخواہ لیتا ہے ‘ہم اپنے بچوں کی ماتا پرسب کچھ نچھاور کرتے ہیں اور سنہری جھڑکیاں کھاتے ہیں۔
ادھر فرش کی دھلائی سے اٹھا تو گھٹنوں کی خراشوں نے ہماری چال چلن بدل ڈالی تھی اور پورے دس انگلیوں کو Bandaid کے سہارے ننگے زخم چھپائے تھے۔ہماری انگلیوں میں وہ دس انگوٹھیوں والا سیٹ نظر آرہا تھا۔ درد کا احساس جانا پہچانا سا تھا۔ جب جب سونے کی دکان پر خواتین کو اس طرح کا سیٹ پہن کر آزماتے دیکھا ہے ساتھ میں ان کے مظلوم شوہروں کے پاکٹ نما چہروں پر غم انگیز تاثرات دیکھنے کو ملے ہیں۔فرش کی صفائی کے بعد ہم نے سنجیدگی سے انڈا تلا جس سنجیدگی سے مرغی نے بھی انڈا نہیں دیا ہوگا۔انڈے کو مٹھیوں میں بھینچ کرسیاہ Pan کے سرپر دے مارا۔پھر سہولت سے انڈے میں تیرتی ہوئی کافوری پیاکنگ کو انگلیوں سے چن چن کر الگ کیا۔پھر چپکے سے چولھے میں آگ لگادی۔لیکن حیر ت ہوئی انڈے کی زردی کا رقص اس انداز کا نہیں تھا جس انداز کا رقص بیگم کے اشارے پرکبھی انڈا اور کبھی ہم کیا کرتے تھے۔ پھر ہم نے ایک سڈول کف گیر لے کر انڈے کے پہلو بدلنے کی کوشش کی لیکن انڈا عجب بد قماش تھا وہ سالم کف گیرسے چمٹ جاتا تھا۔ہمیں احساس ہونے لگا کہ کہیں کوئی گڑبڑہے۔غالباً اس میں گھی تیل کی کمی رہ گئی ‘پھر آناً فاناً پورے انڈے کی بو سارے گھر میں پھیل گی ٔ ۔سفید چمکتا جھلمل انڈا سیاہ Panکے سینے سے چمٹ گیا۔ غالباً اسے کہتے ہیں تہذیبی انضمام وہ بھی جبری۔ اس دوران ہمیں شدید احساس ہوا کہ برہمن کو انڈے کی بو اسی لیے بری لگتی ہوگی اور یقیناً رواداری میں کو ئی فنی کھوٹ ضرور رہتا ہوگاجس کے نتیجے میں آپسی بد بو دور تک پھیلتی ہے۔ اب ہم نے اس تباہ حال انڈے کو پانی میں سیراب کیا اور اس زخمی انڈے نے ہمیں تلگو اور ہندی کے برہمن اساتذہ کی یاد دلادی جو ہمیں امتحانات میں گرما گرم لا تعداد انڈے دیتے تھے۔اس اعتبار سے انڈوں کے عوض رسوائی ہمارے لیے کوئی نیا تجربہ نہیں تھا۔اب ہم نے ہمت اکھٹی کرکے طریقہ واردات بدل کرایک سڈول انڈے کو Microwave Oven میں رکھا ‘ سوچا بھون کر کھاتے ہیں۔ ساری عمر غم کھاتے رہےاور جلی کٹی سنتے رہے پر اُف نہ کی ورنہ سابقہ پارٹ ٹائم نوکری کی طرح حالیہ فل ٹائم شوہری سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ ہم تنہائی میں خود کلامی سے لطف اندوز ہورہے تھے کہMicrowave Oven میں دھماکے کی آواز آئی ہمیں خود پر شک تھا‘ ہمارے خیالات دہشت گردوں کی طرح ہیں۔اب اس دھماکے سے یہ خیال پختہ ہوگیا۔ غور سے دیکھا تو یوں محسوس ہوا جیسے انڈے کی نیو کلیرتوانائی سے صرف پڑوسی کو خوف دلانے کے لیے دھماکہ کیاگیا ہو۔ جبکہ اسکی تاب کاری سے اندر کی پوری فضا برباد ہوچکی تھی۔اب ہمیں یہ ڈر لاحق ہوگیا کہ کو 9/11 کے فسانے میں ہمارے خلاف رپورٹ نہ شائع کردے پھرہمیں بنیاد پرست ودہشت گرد کا الزام لگا کر encounterمیں ہلاک کردے۔ایک انڈے کے عوض ہم جان سےجا سکتے ہیں۔ سوچا چلو آج سے Vegeterian بن جاتے ہیں۔چٹورے پن کے وجہ سے ویسے ہی ہمارا ڈاکٹر کئی بار دنیا سے’’خروجِ نہائی ‘‘ Final exit کی دھمکیاں دے چکا تھا۔ہم خروج سے زیادہ ہجرت سے ڈرتے ہیں۔یہ ہمارا قومی مزاج ہے۔ کتابوں میں پڑھا ہے کہ ہندوستانی اور پاکستانی چٹورے پن یا مسالوں کے سالنوں کی محبت میں ہجرت کے باوجود اپنی زمینوں سے چمٹے رہتے ہیں۔ اور اگر کہیں جاتے ہیں تو سالنوں کی مہک ساتھ لے کرجاتے ہیں۔ جبکہ انگریزانہی گرم مسالوں کی تلاش میں ہندوستان آئے اور200 سال حکمرانی کرتے رہے اور جب گئے تو ہمارے زوال کےلیے مسالے اور عروج صحت و دولت کے لیے ان کی زبان چھوڑ گئے۔ یہی ہمارے عروج و زوال کا فسانہ ہے۔رسوئی میں فلسفہ و منطق کا بگھار سالنوں کو بدمزہ کردیتاہے۔اسکا مطلب یہ نہیں کہ سالنوں اور میٹھوں کے پکوان میں کوئی منطق نہیں ہوتی بلکہ میٹھا کھانے کے بعد تونطق کواعجاز ملتا ہے۔ منطق بھی سجھائی دیتی ہے۔فلسفہ بھی سہل نظر آتا ہے۔ اب اگلے مرحلے پر جو کام تھااس میں صرف عام سی مہارت درکار تھی۔یعنی بیک وقت چار کام کرنے تھے۔ایک استری کرنا ‘ مشین میں کپڑے دھونا ‘ ایک عدد سالن پکانا چوتھا کوئی اضافی کام جیسے فون Attend کرنا یا ٹی وی دیکھنا وغیرہ۔ ہم نے Time Management میں یہ بھی پڑا تھا کہ کام اپنا سمجھ کر کیا جائے اور دوران کام اگر آپکا Boss بھی بلوائے تو آپ کہیے کہ انتظار کیجیے میں کام ختم کرلوں ورنہ وقت نکل جائے گا۔لیکن مشرقی دنیا کا ہر منیجر یہ سوچتا ہے کہ ’’اُسے روزِازل انکار کی جرا ت ہوئی کیونکر ‘‘۔لیکن مغربی ذہن کے ساتھ یہ کام ہم مشرقی چولھے میں ضرور کر سکتے ہیں۔پھر بھی ’’یہ انکا کام ہےجنکے حوصلے ہیں زیاد ‘‘۔ یہ سوچ کر ہم نے اپنی پرانی استری کو پلک لگا کر اُسی آسن میں ایک پیر پر کھڑا کیا جس میں جذبات پر قابو پانے کیلیے بڑے بڑے گیانی ایک ٹانگ پر چپ کھڑے رہتے ہیں۔جی تو چاہتاتھا کہ استری کے ساتھ خود بھی ایک پیر پر کھڑے ہوکر گیانی بن جائیں اور دنیاکو تیاگ دیں لیکن ہمیں گرہستی نبھانی تھی اور وہ بھی مہارت کے ساتھ۔استری کو کام پر لگا کر خود ادھ کٹی سبزیوں کو دال کے ساتھ بیک وقت اُبالناشروع کیا۔ ساتھ ساتھ ذائقہ بڑھانے کے لیے گوشت ، تیل بھی ڈال دیا ۔ پھر سوچا نمک ‘ مرچ نہ چھڑکیں تو انکی فطرت نہیں بدلتی اس لیے ایک بڑا چمچ ،مرچ اور اتنی ہی مقدار کے برابر ہلدی ڈال دی۔ سالن کو نظرِ بد سے بچانے کے لیے اُوپر سے الف سے والسلام تک پڑھ کر پانی کے چھینٹے مارے۔ پھر تیسری مہم پر چل پڑا۔ واشنگ مشین میں پوڈر ‘ پانی اور کپڑے ڈال کربے اختیار آسن زدہ استری کی خبر لینے کے لیے دوڑا۔ استری خاصی گرم ہوچکی تھی۔ہم اس کے جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے کپڑوں کی شکنیں دور ‘بلکہ کس بل نکال رہے تھے۔ہمیں جذباتی فضا میں جینے کا اچھا تجربہ تھا۔پورا کنبہ جذباتی‘ ہمارے مسائل کا حل جذباتی ‘حتیٰ کہ ہمارا منیجر اور مسجد کا امام سب کے سب جذبات نگار تھے۔بلکہ پرانی استریوں کی طرح۔ خیر! ہم اپنے کپڑوں کی شکنوں کو ہموار کرنے سے مطلب رکھتے تھے ‘سو ہم جٹ گئے۔ پھر سوچا ٹہلتے ہوئے اپنے ایک بدخواہ دوست کو فون کرکے بتادیں کہ ہم کتنے گرہست اور سگھڑ ہوچکے ہیں۔جو ہمیشہ ہمیں طعنہ دیتا بلکہ کوستا رہتا ہے کہ ہم ناکارہ ہیں۔ کیوں کہ اس نے اپنے گھر میں ایک بار ہمیں دیکھ لیا تھا جب ہم ایک افریقی ٹماٹر لیے دیر تک سوچ رہے تھے کہ یہ شروع اور ختم کہا ں سے ہوتا ہے۔ اور اس کو ذبح کس طرح کیا جاتا ہے۔ پھر ہمیں ایک ترکیب سجھائی دی تھی کہ پہلے آم کی طرح اس کو نرم کیا ،پھر تربوزکی طرح چاقو گھونپ کر اس کو ذبح کیا تھا جس کے نتیجہ میں ٹماٹر کی پچکاری جو اسکی دھتکار سے کم نہیں تھی دانوں سمیت ناک میں دور تک گھس گئیٔ تھی۔پھر چھینک اور ٹھسکے کی جگل بندی جب ختم ہوئی جب اس بدخواہ دوست نے پیٹھ پر زور زور سے گھونسے اور مکّے مارے تھے۔ ہم زمین پر گرچکے تھے اورڈر رہے تھے کہ کہیں اس نے اُردو کی مثل ’’لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ‘‘ پڑھ نہ لی ہو۔اس جاہل کا کلاسیکل اردو کا مطالعہ کمزور تھا ورنہ آپسی تکلف باقی نہیں رہتا اور لاتوں کے بارش اور وارفتی زدو کوبی کے بعد وہ شرمندگی سے مجھے منہ دکھانے کے لائق نہیں رہتا۔ آخر طبیعت سنبھلی تو دانے ناک سے باہر اور پیٹھ درد سے بے قابو ہوچکی تھی۔ ہم سے چلا نہیں جاتا تھا۔اسی بدخواہ دوست نے سواری کا انتظام کرکے گالیاں دیتے ہوئے اپنے گھر سے نکال باہر کیا تھا۔لیکن یہ تو اوروں کے ٹماٹر وں پر بے دلی سے ہاتھ صاف کرنے کے نتیجہ میں ہوا تھا۔ اب جبکہ ہم خود شوق سے سگھڑ بن چکے ہیں تو ٹماٹر کیا ،دریائی گینڈے اور وحشی جانور تک ذبح کرسکتے ہیں۔ان حوصلہ مند خیالات کے ہجوم میں ہم استری کو مزید گرم کرنے کے لیے پلٹے اور بڑی ممتا سے پکھوا (کروٹ) بدل کر اسے لٹا دیا۔ذہن میں شک ابھرا کہ استری کو کروٹ کروٹ چین دینے کا خیال کوئی زندہ خیال نہیں ہے لیکن ہم شکی تھوڑی تھے کہ استری کے کردار پر شک کرتے اورکہیں سن رکھاتھا کہ گرہستی میں شک کرنے سے زندگی کو چرکے لگتے ہیں۔ویسے ہمارے کام کی جدت اور انوکھا پن شک سے بالاتر تھا۔ سو ہم نے کھلے ذہن سے استری کو ایک پہلو لٹادیا ‘پھر والہانہ انداز میں سالن کے احوال سے باخبر ہونے چلے۔ کچن میں ہمارے تیز تیز چلنے کا انداز وہی تھا جو نو سیکھ بچے کے ابتدائی قدموں کا ہوتا ہے۔ جو چلتا کم اور بہکتا زیادہ ہے اور احساس ِکمال کے جذبے میں کچھ بھاگا بھاگا سا چلتا ہے۔ادھر سالن کو دیکھا جو یرقان زدہ نظر آیا۔ گوشت کا بال بیکا نہیں ہوا تھا‘سالن کی سطح اکھڑی اکھڑی ‘ سبزیاں پیسٹ بن چکی تھیں ‘ دال کے دانوں کی ڈھٹائی قا ئم تھی ‘ سالن کیا تھا؛لٹی بساط کا بکھراؤتھا۔ ہمیں اچانک بیگم کی سنہری جھڑکی یاد آئی۔سالن کو پہلے پہل چپ چاپ کھالیا کرو دوسرے اور تیسرے دن سالن خود بخود اچھے ہوجاتے ہیں۔ ہمیں خواتین کی ہر بات میں تفریح اور افادیت نظر آتی ہے۔سالن کو چکھنے کے لیے ایک پیالہ نما بڑا چمچہ لیا ‘ سالن میں دھڑ دھڑچمچہ مار کر سالن نکالا اور منہ کو لگانے ہی والا تھا کہ فون کہ گھنٹی بجی۔ وہی شر اندیش دوست تھا جو صبح فون کرکے ہمارے سلیقہ کو کوس چکا تھا۔ شام کی طعنہ زنی باقی تھی ہم نے اس طعنہ کناں کو بتایا کہ ہاتھ میں مقدس کتاب کی طرح خانہ سازسالن ہے اور اس کورے سالن کے تقدس کی قسم کھا کرکہتا ہوں جس سالن پر ابھی تک کسی مرد کے ہونٹ تک نہیں لگے۔ اس سالن کوباعصمت بنانے میں میرے کردار کا بڑا دخل ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔یہ سن کر اس ازلی بد گمان دوست کو حیرت ہوئی فون پر ہائیں ! وائیں !! کی حواس باختہ آوازیں سنارہا تھا۔ وہ مزاجاً شکی تھا اس لیے اس نے کہا کہ وہ اپنے خرچ پر میرے گھر آکر میری گرہستی کے احوال دیکھے گا۔اس کی رسوا ہونے والی اس آرزوئے بے جا پر غصہ آیاکہ کیا میں کوئی ان بیاہی کنواری لڑکی ہوں جو میرے بانکپن پر فریفتہ ہوکر خود اپنا رشتہ بھیج دے گا ‘ جبکہ مزاج کے اختلاف کی وجہ سے میں اس سے شادی کرکے خوش نہیں رہ سکتا تھا۔ کیونکہ وہ وحشتناک حد تک گھریلو لڑکی کی تلاش میں تھا۔اس زنانہ اور مردانہ ملے جلے رومانٹک خیال کو لیکر ہم نے سالن چکھا۔ منہ کی چار دیواری میں سرخ چیونٹیوں کا قبایٔلی رقص اور ان کے خونی حملے کااحساس ہوا ۔ آنکھوں سے جھڑی اور ناک کے نتھنوں سے لاوا بہنے لگا۔ منہ میں بچھی بارود کو کہاں Dump کریں بڑی دیر تک یہ ہمارے پر امن ذہن کو سجھائی نہیں دیا۔ ہمارا ذہن بارہا یہ کہہ رہا تھا کہ سارا قصور اس چمچے کا ہے جو ہمارے ہاتھ میں ہے اس لیے کلی کرنے سے پہلے ہمیں پیالہ نماچمچے کے سالن کو فوراً پھینک دینا چاہیے۔ ہم منہ کے اندر کے سالن یا چمچہ کے سالن کو ترتیب سےپھینکے یا اگلنے کے بارے میں سوچ رہے تھے ،ہم نے دیکھا کہ واشنگ مشین میں پانی زارو قطار بلکہ موسلادھار بہہ رہا تھا۔ادھر چمچہ والا ہاتھ بڑھا کر ہم واشنگ مشین کا نل بند کرنا چاہتے تھے کہ سالن بھرا چمچہ ہاتھ سے پھسل کر سفید کپڑوں میں مشین میں منہ کےبل گرگیا۔ اِدھر فون کی گھنٹی بجی اور اُدھر ہمارے منہ میں چیونٹیوں بھراکباب تھا سو وہ لیکر فون اُٹھایا اور بے خیالی میں فون پر اشاروں سے بغیر آواز کے بات کرنے لگا۔اُدھر سے ہمارے سگھڑ دوست نے ہلو ہلو کی رٹ کے بعد ایک خانگی گالی دی کہ’’ابے وہ بد سلیقہ ‘ گونگے ، کام چور۔پھرہم نے بھی پورے غصے میں فون پر سالن سے غرارہ کیا۔ اور چلاّ کرکہا کم بخت تو اندھا ہے کیا ‘ دیکھتا نہیں میں فون پر تجھ سے اشاروں میں بات کررہا ہوں۔ ویسے اتنی سمجھ اس میں کہاں تھی۔ یہ راے ہم قائم کرنے والے ہی تھے کہ استری کے پہلو کو لگے ہوے کپڑے کے جلنے کی بوآئی ۔ دوڑ کر استری اُٹھایا۔ پلگ نکالا۔ پھر فون کی گھنٹی بجی۔ میں فون بند کرنے کے لیے Cradel پر دے مارا اور فون رکھ دیا۔ لیکن حیرت ہوئی کہ گھر میں کپڑوں کے بجائے پلاسٹک جلنے کی بو آنے لگی۔ آس پاس کے کمروں میں دیر تک تلاش کیا۔ تب تک کچھ دکھائی نہ دیا۔ جب تک کہ دھواں کمرے میں پھیل چکا تھا۔ دھویں کی گھٹن میں غور سے دیکھا تو مزید اپنی ایک چھوٹی سی غلطی کا احساس ہوا کہ جذبات میں آکر ہم نے Cradel پرفون رکھنے کے بجاے استری رکھ دی تھی۔ ہمارا وجود شادی شدہ تھا ‘ تجربہ کنوارہ تھا اس لیے خود کو کوستے ہوے نقصانات کی فہرست بنانے لگے اور ہاری ہوئی جنگ کے آخری فوجی کی طرح پورے میدانِ کارزار کو دیکھ رہے تھے۔ کہیں داغ ‘کہیں دھبے‘کہیں دھواں اور چاروں طرف بکھراو ‘ٹوٹی کانچ کی پیالیاں ‘ جلا ہوا فون اور سالن زدہ کپڑے۔ایسے میں اچانک Door bell کی آواز آئی ۔ پوچھا کون ؟ جواب دیا وہی تمارا سب کچھ۔ میں کنواری لڑکی کی طرح رشتے کے خوف سے بھاگ کر سامان سمیٹنے لگا۔ کبھی کچن جھاڑتا ‘ کبھی استری چھپاتا۔ کبھی فون الٹا رکھتا ‘ کبھی سالن لگے کپڑوں پر دو ایک نئے جوڑے ڈال کر کپڑوں کو چھپاتا۔ ادھر دروازہ زور سے کھٹکھٹا یا جارہاتھا۔ گھر کا دروازہ کھولا ۔ اس نے جلتے ہوئے فون کے دھویںٔ سے کھانستے ہوے پوچھا کتنے مردے جلائے ہیں اس شمشان گھاٹ پر Shame on you کہہ کر چلا گیا۔ خیالات گڈ مڈ ہوگئے اب فرق کرنا مشکل ہو گیا تھا کہ اس دوست نے دوستی ٹھکرائی یا رشتہ ٹھکرایا تھا۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 21 نومبر تا 27 نومبر 2021