میثاقِ مدینہ کی ضرورت واہمیت

منتشر گروہوں کو قوم کا تصور دینے والا پہلا تحریری معاہدہ

ریاض فردوسی، پٹنہ

سیاسی دنیا کی تاریخ کی ورق گردانی کی جائے اور تجزیاتی مطالعہ کیا جائے تو یہ امر روز روشن کی طرح سامنے آتا ہے کہ دنیا کا سب سے پہلا اوراق وصفحات پر رقم کردہ دستور ہونے کا شرف میثاق مدینہ کو حاصل ہے۔ مدینہ میں رسول اللہ ﷺ کے کیے جانے والے ابتدائی اقدامات میں ایک بڑا نمایاں اقدام آپ کا مدینہ کے دوسرے تمام نمایاں قبائل اور خاندانوں سے ہونے والا معاہدہ تھا۔ خوش قسمتی سے ابن اسحق نے اس قابل قدر دستاویز کو جسے ’’دستور ریاست مدینہ،، کا نام دیا جاتا ہے محفوظ رکھا۔ اس دستور سے نبی کریم کی عظیم سیاسی حکمت عملی ظاہر ہوتی ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں ہی اس مثالی امت کی تشکیل کی راہ ہموار ہوئی جس کے لیے آپ نے جد وجہد کی تھی۔ یہ ریاست قانون الہیہ کے پس منظر سے متعلق تھی اور عملی غور وخوض سے تشکیل پائی تھی، اس میں اعلیٰ تر اختیار اللہ اور اس کے نبی کا ہی تھا۔ جن کے سامنے تمام معاملات پیش ہوتے تھے۔ اس دستور میں امت مسلمہ کے ساتھ ساتھ یہود اور غیر مسلموں کو بھی شامل کیا گیا تھا۔میثاقِ مدینہ میں خصوصیت سے بنی اسرائیل اور مدینہ کے قبائل شامل تھے۔ اس معاہدے کی روح یہ ہے کہ حضورﷺنے غیر مسلموں کو بھی اسلامی ریاست کی شہریت عطا کی، اُن کے حقوق طے کیے اور یہ طے کیا کہ کس طرح سے مل کر مدینہ کا دفاع کریں۔ طے ہوا کہ یہود اپنے دفاعی اخراجات خود برداشت کریں گے اور مسلمان اپنے دفاعی اخراجات خود۔میثاق مدینہ کی رو سے مختلف عقائد کے حامل افراد ایک ریاست کے شہری ہو سکتے تھے اور اپنے اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے مشترک تعلقات (joint relationship) کے ساتھ ریاست کا نظام چلایا جا سکتا تھا۔ یعنی ایک یہ کہ مسلمانوں کا حضورﷺ کو بحیثیت نبی ماننا اور ریاست کا سربراہ ماننا، اور غیر مسلموں کا حضور کو نبی تسلیم نہ کرتے ہوئے بھی انہیں ریاست کا سربراہ ماننا اور آخری سیاسی اتھارٹی تسلیم کرنا۔ پھر یہ کہ ایک اسلامی مملکت کا غیر مسلموں کے حقوق اور ان کے مقام کا تعین کرنا تھا۔
میثاق مدینہ سے قبل مدینہ میں یہود کے دس قبائل آباد تھے جو باہم طویل عرصے سے بر سرِ جنگ تھے۔ ان کے سامنے صلح کی ایک تجویز پیش کرنا ایک کمال تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان منتشر قبائل کے سامنے پہلی مرتبہ ایک قوم ہونے کا تصور دیا، شہریوں کے حقوق وفرائض کی نشاندہی فرمائی، ان کے قدیم رواج اور قبائلی نظام کو برقرار رکھتے ہوئے مدینہ میں ایک امت کی تجویز رکھی۔ مذہبی آزادی اور قبائل کے داخلی کلی اختیار کے ساتھ بیرونی حملوں کی مدافعت اور باہمی اختلافات کے تصفیہ کی بنیاد پر ان سارے قبائل کو متحد فرمایا۔ چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کے والد کے مکان پر سارے مسلم وغیر مسلم قبائل کے نمائندوں کا اجتماع ہوا اور رسول اللہ ﷺ کی تجویز پر سارے قبائل بیرونی حملوں کے دفاع اور اندرونی مسائل کی یکسوئی کے لیے ایک چھوٹی سی ریاست کی تشکیل پر متفق ہو گئے اور سبھوں نے بالاتفاق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جدید ریاست کا حاکم اعلیٰ منتخب کیا۔
حضور کی ہجرتِ مدینہ سے قبل مدینہ کی سر زمین کسی باقاعدہ دستور یا نظام نہ ہونے کی وجہ سے خونریزی اور قتل وغارت کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی۔ ہر طرف بدامنی، افراتفری، خونریزی، بربریت اور نفاق کا دور دورہ تھا۔ اُس وقت یہاں پر انصارِ مدینہ کے دو قبائل اوس اور خزرج آباد تھے۔ دوسری طرف یہود کے تین قبیلے بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ تھے جو پورے یثرب پر غالب تھے۔ ویسے وہاں قبائلی نظام موجود تھا مگر اُس نظام کے اندر کسی انسان کی عزت وآبرو، جان ومال کی حفاظت اور اُس کے مذہبی وروایتی رسوم ورواج اور ثقافت کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں تھی۔
یہ سب طبقات کسی ایسے مسیحا کی تلاش میں تھے جو وہاں امن وامان قائم کر سکے اور لوگوں کے جان ومال اور عزت وآبرو کا تحفظ یقینی بنا سکے۔ گردشِ دوراں کے مارے مفلوک الحال لوگوں نے پیغمبرِ رحمت کو مسیحا کے طور پر پہچان لیا، کیونکہ وہ جان چکے تھے کہ ان کی تعلیمات امن وآشتی پر مبنی، محبت پر استوار، رواداری پر قائم، اخوت وبھائی چارے پر مبنی اور داخلی وخارجی دونوں طرح کے امن کی ضامن ہیں۔ اس پر یہ ذاتِ رحمت ہر طرح کے فسق وفجور کے خاتمے کی ضمانت بھی فراہم کرتی ہے۔ وہ ہر طرح کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی استحصال کے خاتمے کی ضامن بھی ہے۔ وہ دولت کی مساویانہ تقسیم اور آسائش میں سب کو شریک اور امن و امان میں سب کو ذمہ دار بنانے پر قائم ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ان روشن اور فلاحی حقائق پر متفقہ طور پر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا پیشوا تسلیم کیا اور آپ کو بلا شرکتِ غیرے سربراہِ ریاست منتخب کر لیا۔میثاق مدینہ پہلا تحریری معاہدہ ہے جس نے آج سے 1400سال قبل انسانی معاشرے میں ایک ایسا ضابطہ قائم کیا جس سے شرکائے معاہدہ میں سے ہر گروہ اور ہر فرد کو اپنے اپنے عقیدے پر کار بند رہتے ہوئے آزادی کا حق حاصل ہوا۔ یہودیوں کی مدینہ کی سیاست اور قیادت کا خاتمہ ہوا اور اسلام کا غلبہ ہونے لگا۔ یہودیوں کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت کو تسلیم کرنے سے مسلمانوں کی سیاست پر بڑا اہم اثر پڑا۔ اس معاہدے کی اہمیت یوں بھی نمایاں ہوئی کہ یہ دنیا کا پہلا بین الاقوامی معاہدہ ہے جو 622ء میں تحریر ہوا۔ اس طرح یہ پہلا تحریری بین الاقوامی منشور ہے جس میں ایک غیر قوم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت کو قبول کیا۔
میثاق مدینہ کے چند اہم نکات۔
تمام مسلمان اپنے آپ کو رضا کار سمجھیں گے۔
* مسلمان آپس میں امن واتحاد قائم رکھیں گے جو اسلام کی بنیاد ہے۔
* اگر ان میں کوئی اختلاف ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے
فیصلے کو تسلیم کریں گے۔
* مسلمانوں کے مختلف عناصر کو حقوق وفرائض کے لحاظ سے مساوی
سمجھا جائے گا۔
* فوجی خدمت سب کے لیے ضروری ہوگی۔
* قریش مکہ کو پناہ نہیں دی جائے گی۔
* تمام مہاجرین کو ہر معاملات میں ایک قبیلہ کی حیثیت دی گئی جبکہ اس
منشور کی روشنی میں انصار کے قبائل کو اسی شکل میں تسلیم کیا گیا۔
* تمام معاملات کے لیے اور آپس میں اختلافات کے لیے آنحضرت
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیصلہ قطعی ہوگا۔
* دوسرے حصے کا تعلق یہودیوں کے تینوں قبائل سے تھا جس کے اہم
نکات مندرجہ ذیل ہیں:
* مدینہ میں رہتے ہوئے یہودیوں کو مذہبی آزادی ہوگی۔
* مدینہ کا دفاع جس طرح مسلمانوں پر لازم ہے اسی طرح یہودی بھی
اسے اپنی ذمہ داری سمجھیں گے۔
* بیرونی حملے کے وقت مسلمانوں کے ساتھ ساتھ متحد ہو کر مدینہ کے
دفاع میں حصہ لیں گے۔
* ہر قاتل سزا کا مستحق ہوگا۔
مسلمان کے قتل ناحق پر اگر ورثا رضا مندی سے خوں بہا لینے پر آمادہ نہ ہوں تو قاتل کو جلاد کے حوالے کیا جائے گا۔
تمدنی وثقافتی معاملات میں یہودیوں کو مسلمانوں کے برابر حقوق حاصل ہوں گے۔
یہودی اور مسلمان ایک دوسرے کے حلیف ہوں گے۔ کسی سے لڑائی اور صلح کی صورت میں دونوں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔
مسلمانوں پر جارحانہ حملے کی صورت میں یہودی اور یہودیوں پر حملے کی صورت میں مسلمان ان کا ساتھ دیں گے۔
قریش یا ان کے حلیف قبائل کی یہودی مدد نہیں کریں گے۔
یہودی اور مسلمانوں کے درمیان کسی قسم کے اختلافات کی صورت میں عدالت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہوگی اور ان کا فیصلہ قطعی ہوگا۔اسلامی ریاست کی سربراہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات ہوگی اور یہودی بھی آپ کی قیادت و سیادت تسلیم کریں گے۔ اس طریقے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسلمان اور یہودیوں کی متحدہ افواج کے سربراہ بھی ہو گئے۔ان کے اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔شہر مدینہ میں ایک دوسرے فریق کے ساتھ جنگ کرنا حرام ہوگا۔مجید خدوری نے میثاق مدینہ کو غزوہ بدر سے پہلے کی دستاویز قرار دیا ہے۔ The Law of War and peace in islam
(Page no 206)
بنو قینقاع جو اس معاہدہ کے ایک فریق تھے، انہیں غزوہ بدر کے ایک ہی ماہ بعد، اس معاہدہ کی خلاف ورزی کرنے پر مدینہ سے نکالا گیا۔ ابن اسحاق نے اس واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: بنو قینقاع پہلی جماعت تھی جس نے اس معاہدہ کو توڑا جو ان کے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ہوا تھا، انہوں نے بدر واحد کی درمیانی مدت میں لڑائی کی تھی۔یہ عبارت اس بات کو پوری طرح سے واضح کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام یہودیوں سے جن میں بنو قینقاع بھی موجود تھے، یہ معاہدہ غزوہ بدر سے پہلے ہی کیا تھا۔ واضح رہے کہ اس معاہدے کے متن میں بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ کا نام درج نہیں۔ ان قبائل کو اوس وخزرج کا حلیف ہونے کی وجہ سے معاہدہ میں شریک کیا گیا۔یہ در حقیقت مدینہ میں پہلی سیاسی فتح تھی۔ تاریخ انسانی کے مختلف ادوار میں سیاسی قواعد وضوابط اور حکم رانی کے اصولوں کے حوالے سے کئی افکار وقوانین کو تحریری شکل میں لکھا گیا۔ مثلا منوسمرتی (500 ق م) جو راجہ کے فرائض پر مشتمل ہے کوتلیا کی آرتھ شاستر (300 ق م) اور اس کے ہم عصر ارسطو (384۔ 322 ق م) کی تحریروں کو سیاسیات پر مشتمل تصانیف گردانا جاتا ہے۔ اسی طرح گزشتہ صدی میں شہر اینتھنز کا دریافت ہونے والا دستور ہے۔ مگر ان تمام تحریروں کی حیثیت حکم رانی کے لیے نصیحتیں ومشاورتی یا درسی نوعیت کی ہے اور ان میں سے کوئی بھی تحریر ایسی نہیں ہے جسے کسی باقاعدہ اور منظم ریاست کا قابل نفاذ دستور کہا جا سکے۔
میثاق مدینہ کے ذریعے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ ایک باقاعدہ تحریری دستور کا تصور دیا بلکہ وہ مذہب جس کی تبلیغ آپ مکہ میں فرما رہے تھے مدینہ آتے ہی آپ نے اس کی سیاسی حیثیت کو اس نئے شہر کے مختلف المذاہب کے ماننے والوں سے منوا لیا۔ اس دستور کے ذریعے سے آپ نے اہل ایمان اور مقامی باشندوں کے حقوق وفرائض کا باقاعدہ تعین فرمایا۔ میثاق مدینہ کے تحت وجود میں آنے والی ریاست مدینہ میں مہاجرین، انصار اور مدینہ کے غیر مسلموں اور ان کے متبعین پر مشتمل کئی ریاستی اکائیاں شامل تھیں۔ ان کے باہمی اشتراک سے وجود میں آنے والی ریاست میں حضور اکرم کو سربراہ تسلیم کر لیا گیا۔ اس دستور کے تحت جہاں مختلف مملکتی طبقات کو آئینی طور پر Define کیا گیا، ان کے باہمی حقوق وفرائض اور آئینی ذمہ داریوں کو بیان کیا گیا وہیں اس امر کا لحاظ بھی رکھا گیا کہ آئینی قواعد وضوابط کی پابندی ہر سطح پر یقینی ہو اور ہر سطح پر معاملات کو آئینی طور پر چلایا جا سکے اس کے لیے میثاق مدینہ میں تقسیمِ اختیارات کا تصور رکھا گیا تاکہ مقامی سطح پر نظم وضبط کے قیام کے لیے انتظامی اختیارات تفویض کیے جائیں۔میثاق مدینہ کے ذریعے پہلی اسلامی ریاست میں مسلم شہریوں کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے جملہ حقوق کو بھی تحفظ فراہم کیا گیا۔خواتین کے حقوق کی ضمانت دی گئی۔
آج دنیا میں قانونی ودستوری میدان میں ترقی کے باوجود میثاق مدینہ کا متبادل نہیں ہے۔ میثاق مدینہ کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ آنحضرت ﷺ نے یہود سے اپنی سیادت تسلیم کرائی، جو صدیوں سے مدینہ کے حکم راں چلے آ رہے تھے۔
میثاق مدینہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس میثاق کا بیشتر حصہ پورے متن کے ساتھ شاہ کانریڈ دوم کے دستور، منعقدہ 1037ء میں نقل کیا گیا۔ شاہ الفانسو نہم کے قانون حبس بے جا منعقدہ، 1188ء نے اسی کی اقتدا کی ہے۔ میگنا کارٹا کے منشور اعظم، منعقدہ 1215ء میں اسی منشور سے بہت سی باتوں کو اخذ کیا گیا ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کے قانون چارہ جوئی، منعقدہ، 1355ء میں اسی کو نظام حیات بنایا گیا۔ برطانوی پارلیمنٹ کے قانون حبس بے جا، منعقدہ، 1679ء میں اس کی نقل کی گئی ہے۔ مسلمانوں کے آج سب سے بڑے دشمن امریکہ نے بھی اسی منشور کو اعلان آزادی، منعقدہ، 1776ء کے بعد دستور میں لایا گیا۔ فرانس کے منشور انسانی حقوق، منعقدہ، 1789ء اسی میثاق کو ہی بروئے کار لایا گیا۔ تھامس پین کے انسانی حقوق کے بلندی کے لیے پیش کردہ منشور جو 1792ء میں لایا گیا تھا اس میں میثاق مدینہ کی بہت ساری باتیں شامل کی گئیں۔1941ء میں پیش کردہ اوقیانوس منشور میں تقریباً ساری باتیں ہی میثاق مدینہ کی شامل تھی۔ حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے لیے جو منشور 1948ء میں طئے کیا گیا تھا اس میں بھی میثاق کی بہت سی باتیں شامل کی گئی تھیں اور آج بھی اقوام عالم کے کئی قوانین میں موجود ہیں لیکن نبی کریم کے پیش کردہ میثاق کا مقابلہ کرنے میں یہ تمام منشورات ناکام ہیں بس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کی اقتدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میثاق مدینہ کے اہم مقاصد میں داخلی اور خارجی امور میں تمام فیصلے آزادانہ اور خود مختارانہ طور پر ہوں، عدل وانصاف بلاتفریق دین ومذہب، رنگ ونسل ’’مساوات‘‘ کی بنیاد پر ہو یعنی تمام انسانیت کو عدل وانصاف میسر ہو کسی خاص گروہ یا دین ومذہب کو نہیں۔ امن وامان میں داخلی اور خارجی سیکورٹی عسکری انداز میں میسر اور نافذ ہو، یعنی فوج ریاست کی مکمل محافط ہو اور ہر فتنے وفساد کو کچلنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔ اور سب سے اہم معاشی خوشحالی کا نظام متعارف ونافذ کرانے کی استعداد اور اہلیت اس میثاق کے سربراہ میں موجود ہو اور تمام فریقین مل کر اس طرف کوشش کریں گے، مخالفت نہیں کریں گے۔ میثاق مدینہ کے تحت جو شہری محروم معذور، بے بس، مسکین، بیوہ اور یتیم تھے ان کی مدد اور اعانت کے لیے ہر صاحب استطاعت مسلمان پر زکوٰۃ لازم تھی یہ زکوٰۃ بیت المال میں جمع ہوتی تھی اور محتاجوں پر خرچ کی جاتی تھی۔ جو شخص بھی مسجد نبوی میں مالی امداد کے لیے آتا، اسے خالی ہاتھ واپس نہیں کیا جاتا تھا۔ اللہ کے رسول قرض لے کر بھی حاجت مند کی امداد کر دیا کرتے تھے۔ میثاق مدینہ 7300 الفاظ پر مشتمل ایک جامع دستور ہے جو ریاست مدینہ کا آئین تھا۔ 622ء میں ہونے والے اس معاہدے کی 53 دفعات تھیں۔ دور حاضر میں آج اسی میثاق کی اشد ضرورت ہے۔


 

آج دنیا میں قانونی ودستوری میدان میں ترقی کے باوجود میثاق مدینہ کا متبادل نہیں ہے۔ میثاق مدینہ کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ آنحضرت ﷺ نے یہود سے اپنی سیادت تسلیم کرائی، جو صدیوں سے مدینہ کے حکم راں چلے آرہے تھے۔