مفتی تنظیم عالم قاسمی
اللہ تعالیٰ ساری دنیا کا خالق اور مالک ہے۔ اسی کے حکم سے نظام کائنات رواں دواں ہے ،سورج اور چاند بھی روشنی دینے میں اسی کے حکم کے محتاج ہیں ،کسی بندے کو اختیار نہیں کہ اس کی مرضی کے بغیر ایک لمحہ بھی زندہ رہ جائے۔ وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے ،ساری مخلوق اس کی غلام اور اس کے منشا کے تابع ہے۔انسان کو عقل سلیم دی گئی اور اسے اختیار دیا گیا کہ وہ اپنی عقل کا صحیح استعمال کرکے مالک حقیقی کا سچا غلام اور نظام شریعت کا فرماں بردار ہو جائے یا اپنی زندگی کو شیطانی راہ پر ڈال کر قدرت سے بغاوت کر جائے۔جس نے بندگی اور غلامی اختیار کی وہ دنیا و آخرت دونوں جگہ کامیاب ہوگا۔ ایک خدا کی بندگی و غلامی ساری دنیا میں عزت دے گی ،بلند مقام و مرتبہ حاصل ہوگا اور آخرت میں بھی اطمینان بخش زندگی میسر ہوگی اور اگر یہاں کسی نے خدائے واحد کی بندگی و غلامی اختیار کرنے کے بجائے خواہشات کو اپنا رہبر بنایا تو کچھ دنوں کے لئے ظاہری ترقی ممکن ہے مل جائے اور اور عیش و عشرت کے اسباب بھی حاصل ہوجائیں لیکن حقیقی چین و سکون اور اور دائمی میں کامیابی ہرگز حاصل نہیں ہوگی۔ فلاح دارین کا تعلق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی غلامی اور اس کی اتباع سے ہے جس کو ’’ خود سپردگی‘‘ کہا جاتا ہے اور یہی اسلام ہے۔دنیا میں جو کوئی کسی کا نوکر یا ملازم ہوتا ہے اس کا اپنا کوئی اختیار نہیں ہوتا بلکہ وہ قدم قدم پر اپنے مالک کے حکم کا محتاج ہوتا ہے۔ اس کی کوئی بھی سرگرمی مالک اور آقا کے منشا کے خلاف نہیں ہوتی ،ایسے ہی شخص کو فرماں بردار نوکر یا ملازم کہا جاتا ہے اور اسی کے نتیجے میں وہ اپنے مالک کا قرب پا لیتا ہے اور جس نوکر یا ملازم میں سرکشی ہوتی ہے وہ نافرمان اور باغی کہلاتا ہے ،اسے مالک سزا دیتا ہے اور راندۂ درگاہ کر دیتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح خدا کی غلامی قبول کرنے والا ہمیشہ خوش حال اور کامیاب رہتا ہے اور نافرمان بہر حال معتوب اور ناکام رہتا ہے خواہ اس کے پاس اسبابِ تعیش کا ڈھیر ہی کیوں نہ ہو۔ اس لئے جن لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے آپ کو نظام شریعت کا سچا تابع بنا لیں اسی کی رہنمائی میں ترقی کے منازل طے کریں اور کامیابیاں حاصل کریں۔ اسلام کے کسی بھی حکم پر عقل کو اعتراض نہ ہو۔ سوال کرنے کی جرأت ہمیشہ کے لئے فنا ہوجائے ۔نماز، روزہ ،زکوٰۃ ،حج اور دیگر عبادات سے لے کر معاملات و معاشرت ،سیاست و قیادت ، معیشت و تجارت وغیرہ مکمل نظام حیات کے لئے رسول اکرم ﷺ کے اسوہ کو اختیار کیا جائے اور ہر موقع پر ان ہی کو اپنا رہبر تسلیم کیا جائے۔ اگر یہ جذبہ پیدا ہوجائے تو سمجھ لیجئے کہ آپ کا اسلام عنداللہ مقبول ہے اور اب آپ اس کے مستحق ہیں کہ رحمت الٰہی کے دروازے آپ کے لئے کھول دیے جائیں ، دنیا کے کسی مالک کو اپنے نوکر یا ملازم پر مکمل تصرف کا اختیار نہیں ہوتا اس کے باوجود وہ اپنے مالک کا ہر حکم بجالاتا ہے اور اس کی اطاعت کرتا ہے۔ غور کیجئے کہ پھر ہمیں کس قدر اللہ کی اطاعت کرنی چاہئے اور اس کے اوامر و نواہی کے سامنے بچھ جانا چاہئے کہ اس کا ہمارے جسم پر مکمل اختیار اور تصرف ہے کہ ایک سانس بھی ہم اس کی مرضی کے بغیر نہیں لے سکتے۔
سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کردیا تھا ،ان کی جان اور مال و اولاد میں ان کی کوئی مرضی نہیں تھی،جب وقت آیا کہ نمرود کی بھڑکائی ہوئی آگ کو قبول کرلیا جائے لیکن توحید کے اعلان کو ترک نہ کیا جائے تو انہوں نے اسے قبول کرلیا لیکن عقل کو ترجیح نہیں دی۔ اپنی بیوی اور بیٹے کو جب مکہ کے صحرا میں بے یار و مددگار چھوڑ دینے کا حکم ہوا تو کسی تردد کے بغیر چل پڑے اور حکم خداوندی کو بجا لایا۔ اس سے بھی زیادہ خوف ناک مرحلہ بیٹے کی قربانی کا تھا جو اس زمین پر اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ تھا ،ایسا امتحان آج تک کسی سے نہیں لیا گیا،اس کو خود قرآن نے ’’بڑا امتحان‘‘ قرار دیا کہ ایک شخص اپنے اکلوتے لخت جگر کو ایسے وقت راہ خدا میں اپنے ہاتھوں ذبح کر دے جب کہ خود اسے اس کے سہارے کی ضرورت ہو۔ بیٹے کی قربانی کا یہ فلسفہ عقل و خرد کے خلاف تھالیکن سیدنا حضرت ابراہیم ؑ نے خود سپردگی اختیار کی اور اپنی ہر مرضی اور خواہش کو اپنے رب کی مرضی کے تابع کردیا۔ یہی وہ جذبہ تھا جس نے انہیں خلیل اللہ بنا دیا اوروہ مقام حاصل ہوا جو دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کے لئے بھی قابل رشک تھا ۔ان کا یہ عمل خدا کو اتنا پسند آیا کہ قیامت تک کے لئے اس کو یادگار بنادیا اور حج اور قربانی کی شکل میں اس کو ہمیشہ کے لئے زندہ رکھنے کا فیصلہ کیا بلکہ اسے اپنی رضا کا ذریعہ قرار دیا۔حضرت ابراہیم ؑ پر جس رحمت کاملہ کا نزول ہوا اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ تمام درودوں میں درود ابراہیمی کو فضیلت حاصل ہے جس میں تشبیہ کے طور پر حضرت ابراہیم ؑ پر نازل ہونے والی رحمت اور برکت کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ یہ مقام انہیں خود سپردگی کی وجہ سے حاصل ہوا اور اللہ نے وعدہ کیا کہ قیامت تک جو بھی ان کے نقش قدم پر چلے گا وہ ضرور کامیابی سے سرفراز ہوگا اور جس میں اطاعت خداوندی کا یہ جذبہ نہیں وہ ذلیل اور رسوا ہوگا خواہ وہ کسی پیغمبر کی نسل سے ہی کیوں نہ ہو۔ ارشاد باری ہے:وَإِذِ ابْتَلَی إِبْرَاہِیْمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ فَأَتَمَّہُنَّ قَالَ إِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَاماً قَالَ وَمِن ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لاَ یَنَالُ عَہْدِیْ الظَّالِمِیْنَ( بقرۃ ۔ ۱۲۴)’’ یاد کرو کہ جب ابراہیم ؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اتر گیا تو اس نے کہا میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں ۔ابراہیم ؑ نے عرض کیا اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے؟ اس نے جواب دیا : میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے‘‘۔
ہر سال قربانی کا عمل ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اپنے ہر معاملے میں عقل و سائنس کے بجائے شریعت اور حکم خداوندی کو معیار بنائیں اور اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیں۔دنیا میں زندہ رہیں تو اسلام پر زندہ رہیں اور مریں تو اسلام پر مریں۔ ایک خدا کی عظمت کا نغمہ ہماری زبان پر ہو ،دنیوی عہدے اور مناصب کا حرص اور کسی طرح کا خوف، خدا کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے مانع نہ بنے اور نہ ہی اس کے ساتھ کسی کو شریک کرنے پر دل راضی ہو۔ اسی کا سبق تکبیر تشریق کے ذریعے دیا جاتا ہے اور قربانی کے جانور کو ذبح کرتے وقت جس دعا کی تاکید کی گئی ہے اس کے ذریعے اس وعدہ کو دہرایا جاتا ہے۔خود سپردگی اوروحدانیت کا یہ جذبہ جب کسی میں پیدا ہوتا ہے اور اس پر ڈٹ جاتا ہے تو اسے غیب سے عزت و طاقت عطا کی جاتی ہے اور اسے مقام قرب حاصل ہوتا ہے۔ لوگ اسے دیوانہ سمجھیں یا تہذیب و تمدن سے نابلد ہونے کا طعنہ دیں ،ہر حال میں وہ اپنے رب کی رضا کا طالب ہوتا ہے۔ پھر شہرت، عزت اور عظمت اس کا تعاقب کرنے لگتی ہے اور وہ جہاں کہیں بھی ہوتا ہے بڑے بڑے مناصب اس پر قربان ہو جایا کرتے ہیں۔اونچے عہدوں پر فائز افراد بھی اس کا طواف شروع کردیتے ہیں اور اس کے قدموں میں بیٹھنے کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں۔ملک کے موجودہ حالات میں اس فلسفے پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر مسلمان ترقی اور چین کے تمام اسباب اختیار کرلیں لیکن نظام مصطفیٰ سے ان کی زندگیاں خالی ہوں تو انہیں کسی بھی سیاست داں کی قربت فائدہ نہیں دے گی ،وہ روتے بلبلاتے رہیں گے اور ذلت ان کا تعاقب کرتی رہے گی۔ اور اگر وہ سب کو چھوڑ کر اپنے رب سے تعلق جوڑ لیں اور اس کی سچی بندگی و غلامی کو اختیار کر لیں پھر دنیا کی امامت سے کوئی طاقت انہیں زیر نہیں سکتی۔
اللہ تعالیٰ نے یہ اصول کتنے صاف لفظوں میں بیان کیا ہے:
وَمَن یُسْلِمْ وَجْہَہُ إِلَی اللَّہِ وَہُوَمُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقَی وَإِلَی اللَّہِ عَاقِبَۃُ الْأُمُورِ( لقمان۔ ۲۲)۔’’ جو شخص اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کردے اور عملا ً وہ نیک ہو،اس نے فی الواقع ایک بھروسے کے قابل سہارا تھام لیا اور سارے معاملات کا آخری فیصلہ اللہ ہی کے ہاتھ ہے‘‘۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس نے اخلاص کے ساتھ نیکی کا راستہ اختیار کیا اور اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کیا ،یقین جانئے کہ اس نے بڑا مضبوط حلقہ ہاتھ میں تھام لیا ہے ،جب تک یہ کڑا پکڑے رہے گا گرنے یا چوٹ کھانے کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔وہ کبھی ناکام نہیں ہوگا کیوں کہ اس کے ساتھ خدا کی نصرت شامل حال ہوتی ہے۔جس طرح صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے نہتے ہونے کے باوجود دنیا کو فتح کیا اور اپنے رعب و دبدبہ کا سکہ ہر جگہ جمایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے کلمۂ توحید کا اقرار کیا اور اس پر وہ جم گئے۔ بڑی بڑی سلطنتوں کے مالک بھی ان کے ایمان کو نہیں خرید سکے ۔ ان کا یقین ہتھیار پر تھا اور نہ دنیوی اسباب و وسائل پر بلکہ وہ کائنات کے مالک کی قدرت پر نظر رکھتے تھے اور اسی کے بھروسے پر اپنی سرگرمیاں انجام دیتے تھے ،اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ جس میدان میں بھی گئے کامیاب ہو گئے۔ فاتح قوم کی حیثیت سے ہر جگہ جانے پہچانے لگے۔ لاکھوں مربع کیلو میٹر کے وہ حاکم تھے اور بڑی بڑی طاقتیں ان سے ٹکڑا کر پاش پاش ہو گئیں ۔اگر آج بھی مسلمان ان کی طرح ایمان اور جذبۂ خود سپردگی پیدا کریں تو اس سرزمین پر پھر سے اسلام کے نظام حق کا بول بالا ہو سکتا ہے اور اس زمین پر اسلامی ریاست کا تصور حقیقت میں بدل
سکتا ہے۔
عید الاضحی کے ایام میں لاکھوں جانوروں کی قربانی دی جاتی ہے اور سنت ابراہیمی کو زندہ کرنے کے لئے کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔ بعض بیمار ذہنوں میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ اس کے بجائے غریبوں اور محتاجوں پر یہی رقم خرچ کردی جاتی تو ان غربت دور ہو جاتی،اس رقم سے کتنے بیماروں کو علاج میسر ہوجاتا ،کتنی غریب بچیوں کی شادی ہو جاتی ، یہ تصور اور سوچ خود سپردگی کے خلاف ہے۔ شریعت نے جب جس چیز کاحکم دیا ہے اس پر عمل کرنا اور عقل و سائنس کو راہ دیئے بغیر اس کو تسلیم کرنا ہی اسلام اور کامل ایمان ہے ۔حکمتوں سے خدا خوب واقف ہے اس لیے مغرب میں تین اور فجر میں دو رکعت پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔زکوٰۃ کے نظام کو غیر مؤثر نہیں کہا جا سکتا ،روزہ اور حج کے احکام میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی، نکاح و طلاق خریدو فروخت ، وراثت ،ہبہ اور وصیت کے اسلامی نظام کو فرسودہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔اسلام کا یہ مکمل نظام ہے جو قرآن و احادیث میں موجود ہے اور ان دونوں سے فقہائے کرام نے ہزاروں مسائل کا استنباط کرکے امت کی رہنمائی کی ہے ،ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس نظام کے حوالے کردیں ،اس کے راہ نجات ہونے پر یقین رکھیں اس کو دین حق کی حیثیت سے دنیا میں متعارف کرائیں اور اس کو فروغ دیں ۔ دنیا اور باطل ادیان کے لوگ چاہے کتنی ہی طاقت لگا دیں ہم اپنے موقف پر قائم رہیں اور اپنی خواہشات کو دین کےلیے قربان کردیں ،آپ دیکھیں گے کہ اسلام کی طاقت سب پر غالب آجائے گی اور قرآن کا دستور دستورِحیات کے طور پر قبول کر لیا جائے گا اور یکے بعد دیگرے اسلام کے دامن میں پناہ لینے پر لوگ مجبور ہو جائیں گے۔
***
خود سپردگی اوروحدانیت کا یہ جذبہ جب کسی میں پیدا ہوتا ہے اور اس پر ڈٹ جاتا ہے تو اسے غیب سے عزت اور طاقت عطا کی جاتی ہے اور اسے مقام قرب حاصل ہوتا ہے ،لوگ اسے دیوانہ سمجھیں یا تہذیب و تمدن سے نابلد ہونے کا طعنہ دیں ،ہر حال میں وہ اپنے رب کی رضا کا طالب ہوتا ہے