مولانا یوسف اصلاحیؒ نہیں رہے لیکن ان کی شخصیت کا فیض جاری رہے گا
کس نے کیا کہا؟ ملی وسماجی حلقوں سے مختلف افراد کا اظہار تعزیت
(دعوت نیوز ڈیسک)
با صلاحیت اور قیمتی شخصیت کی جدائی
مولانا محمد یوسف اصلاحی کی رحلت کی خبر ملی۔ سخت صدمہ ہوا۔ ایک با صلاحیت اور قیمتی شخصیت ہم سے جدا ہو گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ جماعت اسلامی ہند کے قدیم رکن تھے۔ جماعت کی مجلس نمائندگان اور مجلس شوریٰ کے بھی عرصہ سے رکن چلے آرہے تھے۔ وہ جماعت کے ادارۂ تصنیف سے بھی وابستہ رہے، لیکن جب ادارہ رام پور سے علی گڑھ منتقل ہوا تو انہوں نے معذرت کرلی اور رام پور ہی میں قیام کو ترجیح دی۔ ان کی بڑی دینی خدمات ہیں۔ وہ جماعت اسلامی ہند کی ابتدائی درس گاہ میں کئی سال تک استاذ رہے اور جناب افضل حسین مرحوم ناظم درس گاہ کی ایما پر آسان انداز میں کئی درسی کتابیں لکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں آسان انداز میں تصنیف وتالیف کی غیر معمولی صلاحیت عطاکی تھی۔ قرآنی تعلیمات، آسان فقہ جیسی ان کی تصنیفات سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ ان کی تصنیف ’آدابِ زندگی‘ کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کے متعدد ایڈیشن نکل چکے ہیں اور کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔ وہ ایک عرصے سے ہر سال اپنے ایک ہمدرد کی دعوت پر امریکا آتے اور کئی کئی ماہ قیام کرتے۔ وہیں وہ نماز تراویح میں قرآن بھی سناتے تھے۔ جامعۃ الصالحات ان کی دینی یادگار ہے۔ اس کی بڑی وسیع عمارتیں ہیں جس میں ہاسٹل بھی ہے۔ جدید طرز کی بیش ترسہولتیں انہوں نے اس میں فراہم کیں۔ مجھ سے ان کے قریبی تعلقات تھے۔ بار بار ان سے ملاقات ہوتی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے، ان کی مغفرت فرمائے اور اعلیٰ علّیین میں جگہ دے، پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے۔
سید جلال الدین عمری (سابق امیر جماعت اسلامی ہند)
مولانا مغربی دنیا میں جماعت اسلامی کے تعارف کا ذریعہ بنے
مولانا یوسف اصلاحی کی رحلت سے جماعت اسلامی ہند اپنے ایک تجربہ کار وجہاں دیدہ بزرگ سے محروم ہو گئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مولانا مرحوم کی کتابوں نے بلا مبالغہ کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ مولانا مرحوم کی کتابوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر طبقے میں مقبول ہیں۔ سنجیدہ اہل علم سے لے کر عام گھریلو خواتین بلکہ چھوٹے بچے بھی ان کی کتابیں شوق سے پڑھتے ہیں۔ آسان، سادہ لیکن دلکش زبان اور پرکشش اسلوب میں بنیادی اسلامی تعلیمات کی ترسیل و ابلاغ کا جو ملکہ اللہ نے مرحوم کو عطا کیا تھا، اس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ ان کی کتاب ’آداب زندگی‘ نصف صدی سے زیادہ عرصے سے ان گنت مسلمان گھروں کے بک شیلف کا لازمی حصہ بن چکی ہے۔ مائیں اپنی بچیوں کو شادیوں کے موقع پر اس کتاب کا تحفہ اس امید کے ساتھ دیتی ہیں کہ اس کے مطالعے سے ان کی زندگیاں سلیقہ مند اور اسلامی آداب کی آئینہ دار ہوں گی۔ مولانا مرحوم کی دوسری بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ دنیا بھر میں ہندوستان کی اسلامی تحریک کے تعارف کا ذریعہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر میں جماعت اسلامی ہند کے تعارف کے لیے حضرات یوسفین کا انتخاب فرمایا۔ ایک سابق امیر جماعت مولانا محمد یوسف جنہوں نے عالم عرب میں جماعت کو متعارف کرایا اور ایک مولانا یوسف اصلاحی جو عالم مغرب میں جماعت کے تعارف کا ذریعہ بنے۔ ناموں کے اشتراک کی وجہ سے بیرون ملک کئی لوگ مولانا یوسف اصلاحی ہی کو سابق امیر جماعت مولانا محمد یوسف سمجھتے رہے۔مولانا مغربی دنیا میں بے حد مقبول تھے اور امریکہ، یورپ آسٹریلیا، جاپان وغیرہ کے کثرت سے دورے کرتے رہے بلکہ برسوں سے سال کا کم سے کم نصف حصہ وہ انہی ملکوں میں گزارتے رہے۔ مولانا کی تقریریں بھی ان کی کتابوں کی طرح پر کشش اور خاص وعام میں مقبول تھیں۔ شخصی وجاہت، باوقار آواز، کوثر وتسنیم میں دھلی ہوئی خوبصورت اردو، اور امیدیں پیدا کرنے والا اور حرکت وعمل پر آمادہ کرنے والا پیغام۔ ان ساری خصوصیات کے امتزاج کی وجہ سے ان کے خطابات میں بڑی کشش وجاذبیت ہوتی تھی۔ مولانا ایک اچھے قاری بھی تھے۔ ان کی آواز میں وقار وبلند آہنگی اور لطافت ونغمگی، دونوں خصوصیات کا نادر امتزاج تھا۔ اس مخصوص آواز میں ان کی تلاوتِ قرآن، وجد کی کیفیت پیدا کر دیتی تھی۔ ’آداب زندگی‘ مصنف کی شخصیت، اسلامی سلیقہ مندی اور نفاست ذوق کا خوبصورت نمونہ تھی۔ لباس، کھانے پینے کے اطوار، گفتگو، نشست وبرخاست ہر معاملے میں اعلٰی درجے کی شائستگی، وضعداری اور رکھ رکھاو ان کی شخصیت کا نہایت پر کشش پہلو تھا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ان کی ہمہ گیر وطویل خدمات کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے آمین۔
سید سعادت اللہ حسینی۔ امیر جماعت اسلامی ہند
آدابِ زندگی سکھانے والا مرد خلیق
مولانا موصوف کے خطابات اور دروسِ قرآن بہت مؤثر ہوتے تھے۔ ان میں سے بہت سے یو ٹیوب پر موجود ہیں۔ ان میں الفاظ کا شکوہ اور بیان کی گھن گرج تو نہیں ہوتی تھی لیکن ابلاغ وترسیل کمال کا ہوتا تھا اور ’از دل خیزد بر دل ریزد‘ والا معاملہ ہوتا تھا۔ وہ تصنیف وتالیف کا بھی عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ قرآن، حدیث، سیرت، فقہ اور دیگر موضوعات پر ان کی کم وبیش پانچ درجن چھوٹی بڑی تصانیف ہیں جن میں سے بعض کے دیگر زبانوں میں تراجم بھی ہوئے اور انہیں برصغیر ہند وپاک اور دیگر ممالک میں کافی پذیرائی حاصل ہوئی۔ مولانا نے دعوتی اسفار بھی بہت کیے ہیں اور برِّصغیر کے ممالک کے علاوہ انگلینڈ، امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور خلیجی ممالک کو بھی جاتے رہے ہیں۔ مولانا یوسف اصلاحی نے نصف صدی تک دعوت وارشاد کے میدان میں سرگرم زندگی گزاری۔ ان کے خطابات، دروس اور تصانیف سے لاکھوں افراد کی زندگیاں بدل گئیں۔ ان شاء اللہ یہ سب ان کے حق میں صدقہ جاریہ ہو گا جس کا اجر انہیں تا قیامت ملتا رہے گا۔
مجھے ممتاز عالم دین مولانا محمد یوسف اصلاحیؒ کے جنازہ میں شرکت کے لیے رام پور جانا ہوا جہاں نصف صدی قبل مرکزی درس گاہ اسلامی میں 1970 سے 1975 تک پانچ برس (آٹھویں جماعت تک) میں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔ رامپور جا کر میں نے اس بار اپنے بچپن کی یادیں تازہ کیں۔ میں ان راستوں سے گزرا جن سے ہو کر بورڈنگ ہاؤس سے درس گاہ جایا کرتا تھا۔ اپنے پیارے استاد مولانا محمد سلیمان قاسمی کا گھر دیکھا۔ وہ دکان دیکھی جہاں سے گوشت خرید کر مولانا کے گھر پہنچایا کرتا تھا۔ وہ مکان دیکھا جس میں مولانا سید احمد عروج قادری قیام پذیر تھے۔ اسی عالم میں بورڈنگ ہاؤس پہنچا۔ مین گیٹ مقفّل تھا، اندر جھانک کر دیکھا تو ٹِھٹَھر کر رہ گیا۔ عمارتیں شکستہ تھیں۔ جنگل اور ویرانے کا سماں تھا۔ مجھے رونا آگیا۔ یہاں میرا سہانا بچپن گزرا تھا۔جی میں آیا کہ چیخ چیخ کر روؤں۔
مرکزی درس گاہ کی عمارت سے متصل شادی گھر کے لان میں بعد نمازِ عصر مولانا کا جنازہ ان کے گھر سے لایا گیا۔ نماز کے بعد مسجد قلّاش ( گوئیا تالاب، نزد قلعۂ معلّیٰ) سے متصل قبرستان میں تدفین ہوئی۔ نہ صرف رام پور بلکہ اطراف واکناف سے بہت سے لوگ جنازہ میں شرکت کے لیے آگئے تھے۔ مرکز جماعت اسلامی ہند سے بھی ایک وفد جناب انجینئر محمد سلیم کی سربراہی میں پہنچ گیا تھا۔
تدفین سے فارغ ہونے کے بعد ہمیں مولانا یوسف اصلاحی کے صاحبزادگان سے تعزیت کے لیے ان کے گھر جانا تھا۔ اونچی مسجد میں مغرب کی نماز ادا کی۔ اس کے بعد مولانا یوسف اصلاحی کے صاحب زادگان اور دوسرے رشتے داروں سے ملاقات کی۔رامپور میں تحریکی رفقا سے ملاقاتیں رہیں۔ مرکزی درسگاہ اسلامی سمیت کئی پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے ہم نے دلی کا رخ کیا۔
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی، سکریٹری شریعہ کونسل جماعت اسلامی ہند
شیریں بیاں مقرر
آسمان تحریک اسلامی کے درخشاں ستارے عالم اسلام کے معروف ومقبول عالم دین مولانا محمد یوسف اصلاحی ایک شیریں بیان مقرر، بلند پایہ مصنف، بے مثال خطیب، مفسر وفقیہ تھے۔ آپ کی مقبول عام کتاب ’’آداب زندگی‘‘ نے بلاشبہ لاکھوں انسانوں کی زندگیاں بدلی۔ خوش اخلاقی، تواضع وانکساری، حلم وبردباری، سادگی وملنساری، عالمانہ وقار اور قلندرانہ مزاج آپکی سیرت کے نمایاں پہلو تھے۔
وحید الدین خان عمری مدنی، سکریٹری حلقہ کرناٹک جماعت اسلامی ہند
مولانا محمد یوسف اصلاحیؒ ایک داعی ومفکر کی جدائی
مولانا کی رحلت کے ساتھ برصغیر ایک ایسی علمی ودینی شخصیت سے محروم ہو گیا جس کی زندگی کا اولین مقصد قرآن کی تعلیمات کو آسان پیرائے میں اللہ کے بندوں تک پہنچانا، تزکیہ نفس اور اس کی بنیاد پر دعوت دین کی فکر کو دلوں میں زندہ رکھنا تھا۔ مولانا نے تقریباً اسّی سال اس فانی دنیا میں گزارے جن میں سے شعور کا اکثر حصہ دعوت دین کی اشاعت اور اسلامی فکر کو آسان پیرائے میں بندگان خدا تک پہنچانے میں صرف کیا، اس نسل کے لوگوں میں شاید اب صرف مولانا جلال الدین انصر عمری صاحب بقید حیات ہیں، دوسرے دینی حلقوں کا حال بھی اس سے بہتر نہیں، پرانے چراغ بجھتے جارہے ہیں، ساتھ ہی وہ روشن روایات بھی ان کے ساتھ تاریخ کے غبار میں چھپتی جارہی ہیں جو تہذیبوں اور ثقافتوں کے لیے طرہ امتیاز ہوا کرتی ہیں۔ مولانا کا تعلق بھی ایسی ہی نسل سے تھا جن کی قربانیوں اور جد وجہد کو اگر آئندہ نسلیں مشعل راہ بنائیں گی تو دارین میں کامیابی اور سرخروئی ان کے قدم چومے گی۔ مولانا نے اپنے پیچھے جو فکری وتصنیفی سرمایہ اور جد وجہد کے جو نقوش چھوڑے ہیں ان شاء اللہ یہ ان کے لیے سرمایہ آخرت ثابت ہوں گے اور جنت میں ان کے درجات کی بلندی کا سبب بنیں گے، اللھم اغفر لہ وارحمہ وادخلہ فی الجنہ
مولانا عبد المتین منیری، ممتاز عالم دین ، بھٹکل کرناٹک
عظیم شخصیت جو علم وعمل کے اعتبار سے جامع تھی
مولانا یوسف اصلاحی مرحوم مشہور عالم دین، مبلغ وداعی، متعدد کتابوں کے مصنف ومولف ہردل عزیز مقرر تھے۔ یقیناً مولانا ایک عظیم ہستی اور قیمتی سرمایہ تھے جن کے چلے جانے سے ایک خلا محسوس ہو رہا ہے۔ آپ علم وعمل کے اعتبار سے جامع اور اعلی اخلاق وکردار کے حامل انسان تھے۔ لہجے کی شائستگی، زبان کی شگفتگی اور موضوع کا ہمہ جہتی احاطہ ان کی پہچان اور شناخت تھی، اسلوب تحریر بہت دلچسپ اور نرالا تھا، تحریر میں بہت ہی سلاست اور روانی تھی، بہت آسان اور سلجھے ہوئے انداز میں لکھتے تھے جس کو سہل المتنع بھی کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرحوم مولانا محمد یوسف اصلاحی کو بے پناہ انتظامی صلاحیتوں سے بھی نوازا تھا، انتظام وانصرام کی اس صلاحیت میں وہ اپنے معاصرین میں ممتاز ونمایاں تھے۔ ان کے انتقال کی خبر سن کر ذہن میں یہ شعر گردش کرنے لگا ۔
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے، آب بقائے دوام لا ساقی
محمد قمر الزماں ندوی ، کالم نگار
مولانا محمد یوسف اصلاحی کی قرآنی خدمات
برصغیر میں جماعت اسلامی کے تعارف اور اسے استحکام عطا کرنے میں فارغین مدرسۃ الاصلاح کا اہم کردار رہا ہے۔ یہ وہی مدرسہ ہے جہاں پر ہندوستان میں جماعت اسلامی کا پہلا مرکز بنا اور اس نے مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا اختر احسن اصلاحی، مولانا صدرالدین اصلاحی اور مولانا ابواللیث اصلاحی کی شکل میں جماعت اسلامی کو بہترین دماغ فراہم کیے تھے۔ مولانا محمد یوسف اصلاحی بھی اسی زریں سلسلے کی ایک کڑی تھے۔ آپ کے دروس کا سلسلہ نیٹ پر بھی وافر مقدار میں موجود ہے۔ درس دیتے ہوئے خشیت وہیبت کی عجیب کیفیت آپ پر طاری رہتی، آپ کے دروس میں تذکیر کا پہلو غالب رہتا ۔ ٹھہر ٹھہر کر کی جانے والی گفتگو کانوں میں عجیب رس گھولتی ہوئی محسوس ہوتی ۔ آپ کی شخصیت میں مزاح کا عنصر بھی شاملتھا۔
ابوسعد اعظمی
مولانامحمد یوسف اصلاحی زمانہ ساز شخصیت تھے
مولانا محمد یوسف اصلاحی کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کو پر کرنا مشکل ہے۔ وہ صرف ہندوستان ہی نہیں بیرون ملک خاص طور پر امریکہ میں بہت مقبول تھے۔ مولانا کا تنظیمی تعلق اگرچہ جماعت اسلامی ہند سے تھا اور مرحوم اس کی مجلس شوریٰ کے رکن بھی تھے لیکن مولانا کے علم اور اخلاق کی وجہ سے تمام مسالک کے عوام وخواص ان کا احترام کرتے تھے۔ ان کی گفتگو میں بلا کی جاذبیت تھی۔ ان کا طرز تکلم والہانہ تھا، ان کی تحریریں موثر تھیں، ان کی کتابیں ساری دنیا میں پسند کی جاتی ہیں۔ ان کی شخصیت بارعب بھی تھی اور پرکشش بھی۔ جو بھی انہیں دیکھتا گرویدہ ہو جاتا، جو ان سے بات کرتا ان کا ہوجاتا۔ان کا انتقال میرے لیے ذاتی خسارہ ہے۔
کلیم الحفیظ، ایم ائی ایم، دلی
پوری عمر اللہ کی رضاجوئی میں صرف کی
مولانا محمد یوسف اصلاحی کی وفات سے ہم ایک بزرگ اور بلند مرتبہ عالم دین سے محروم ہو گئے ہیں۔ وہ ماضی کی متعدد اہم شخصیات کے صحبت یافتہ اور فیض یافتہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں لمبی عمر عطا فرمائی اور انہوں نے وہ پوری عمر اس کی رضا جوئی کے کاموں کے لیے صرف کر دی۔ رسول کریم ﷺ کے ارشاد گرامی کے مطابق ہم انہیں ان خوش نصیب افراد کی فہرست میں شامل کر سکتے ہیں جنہوں نے اللہ کی جانب سے ملی لمبی زندگی کو اس کی رضا کے لیے استعمال کر کے بہترین انسان ہونے کا پروانہ حاصل کیا۔ مولانا محمد یوسف اصلاحی گزشتہ نصف صدی سے دین وملت کی خدمت میں مصروف تھے۔ وہ ہند وبیرون ہند میں ایک ممتاز شناخت کے حامل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں زبان وقلم کی دولت سے نوازا تھا اسی لیے ان کی خطابت بڑی مؤثر اور تحریریں بڑی پُرسوز ہوتی تھیں۔ انہوں نے ان دونوں صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کیا اور ہندستان سے لے کر امریکا تک اور جاپان سے لے کر عرب ممالک تک عوام وخواص کو متأثر کیا۔
ڈاکٹر منظور عالم ،چیئرمین، انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز
مولانا محمد یوسف اصلاحیؒ کے ساتھ گزارے ہوئے چند لمحات
تقریباً 35 سال پرانی بات ہے مولانا محمد تقی الدین صاحب علیہ الرحمہ نے مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب کو حیدرآباد مدعو کیا تھا۔ مدرسہ نور مسجد اجالے شاہ اور مسجد باغ عامہ میں ان کے متعدد خطابات ہوئے تھے۔ مَیں اس وقت مدرسہ نور میں شعبہ حفظ قرآن کا طالب علم تھا۔ مولانا ہماری کلاس کے معائنے کے لیے تشریف لائے۔ گورے چٹّے دبلے پتلے انتہائی پر نور چہرہ، آتے ہی مجھے بلایا اور کہا:وَجَاءُوا عَلَىٰ قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ سے تلاوت شروع کرو۔ نام بھی یوسف چہرہ بھی حسن یوسفی کا رتَو اورسو رت بھی منتخب کی تو یوسف!! مولانا کا حیدرآباد میں کئی دن قیام رہا۔ بہت سا وقت ساتھ ان کے ساتھ گزارنے کا موقع ملا۔ واپس جاتے ہوئے فرمایا کہ جس طرح گنے کے رس والا گنے کو مروڑ کر بار بار مشین میں ڈالتا اور رس نکالتا ہے اسی طرح حیدرآباد والوں نے مجھے خوب استعمال کیا۔
مولانا حافظ قرآن بھی تھے اور نماز تروایح بھی پڑھایا کرتے تھے۔ مولانا کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ انہوں نے مولانا مودودی کے جسد خاکی کی وطن منتقلی کے دوران ایک مقام پر نماز جنازہ کی امامت کی تھی اور آخری دیدار کیا تھا۔ پڑوسی ملک کے ارکان کے قومی اجتماع میں مولانا نے ہندوستان کی تحریک اسلامی کا اس دلسوز انداز میں تعارف کرایا تھا کہ راوی بیان کرتے ہیں کہ سارا مجمع زار وقطار رو رہا تھا۔ برادر عبید اللہ شریف ذکی کے گھر پر ایک دعوت میں مولانا سے بڑی بے تکلف گفتگو ہوئی۔ میں نے سوال کیا کہ مولانا! آداب زندگی کا کتنی زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے؟ تو کہا کہ تقریباً 40 زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ میں نے پوچھا کہ رائلٹی کہاں کہاں سے ملتی ہے؟ فرمایا کہ ایک دلچسپ واقعہ سناتا ہوں۔ صوبہ سرحد کے ایک دور دراز مقام پر ایک پٹھان کے گھر دعوت ہوئی، طعام کے بعد میزبان نے کہا کہ آپ کے لیے ایک خاص تحفہ ہے اور ایک بڑی کشتی کو سلیقے سے سجا کر اس پر ایک خوبصورت کپڑا ڈھانک کر اسے مولانا کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ کپڑا ہٹانے پر معلوم ہوا کہ کشتی میں آداب زندگی کے سات مقامی غیر معروف زبانوں میں ترجمہ کے ایڈیشنز رکھے ہوئے ہیں۔ کہنے لگے کہ لوگ ترجمہ کر کے اسے شائع کرتے ہیں اور اجازت یا اطلاع دینا بھی گوارا نہیں کرتے تاہم، یہ میرے لیے اجرِ آخرت کا بہترین انتظام ہے۔ اللہ تعالی مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب کی مغفرت فرمائے اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
محمد فائز الدین، سابق صدر ایس آئی، او ، شہرحیدرآباد
میں نے کبھی وقت برباد نہیں کیا!!
ہمارےبچپن سے گاؤں کی جامع مسجد کے ممبر پر تین اہم کتابیں رکھی ہوتی تھیں، تفہیم القرآن جس کا درس بعد نماز فجر ہوتا، راہ عمل اور آداب زندگی جو ہر نماز عصر کے بعد پڑھ کر سنائی جاتی تھی۔آداب زندگی کچھ اس طرح مقبول و معروف کتاب تھی اور آج بھی ہے۔ تحریکی خاندان تو خاندان غیر تحریکی افراد میں بھی اس کتاب کو بڑے پیمانے پر تحفتاً دینے کا رواج عام ہے۔سن دو ہزار سات میں جب بغرض معاش پونا کالج جوائن کیا تو بڑے لوگ کتابوں سے نکل کر زمین پر ملنے لگے۔ سب سے پہلے بزرگ جو تھے وہ مولانا یوسف اصلاحی صاحب تھے۔اس وقت پونا میں محترم عزیز محی الدین صاحب نے دورس قرآن کا جو سلسلہ پورے شہر کے مختلف مقامات پر شروع کیا تھا ان کی تکمیل پر مولانا محترم کو مدعو کیا تھا۔ جب اطلاع ملی کہ مولانا محترم پونا تشریف لانے والے ہیں تو حیرت اور خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ مولانا کو پہلی مرتبہ مسجد اعظم، اعظم کیمپس پونا میں سنا، آپکی زبان نہایت ہی شستہ اور انداز دلفریب تھا،آپ بہت خوبصورت باوقار شخصیت کے مالک تھے۔تقریر کے بعد باہر نکل کر مولانا سے ملاقات کی ۔ چلتے چلتے میں نے مولانا سے پوچھا کہ مولانا زمانہ طالب علمی میں آپ کس طرح پڑھائی کرتے تھے، آپ کا شیڈول کیا تھا؟؟ ایک لمحے کے وقفے کے بعد مولانا نے میری طرف دیکھا اور بڑی ہی سادگی سے کہا،’’میں نے کبھی وقت برباد نہیں کیا‘‘
یہ اتنی بڑی بات تھی جو صرف مولانا جیسا ہی کوئی کہہ سکتا تھا۔
میرا سوال تو زمانہ طالب علمی کی حد تک تھا لیکن مولانا کا جواب ان کی پوری زنگی کے متعلق تھا۔اللہ تعالیٰ مولانا کی مغفرت فرمائے اور تحریک اسلامی کو انکا نعم البدل عطا فرمائے آمین
سید جاوید مزمل،پونا
’میں آپ کو یوسف اصلاحی صاحب کی یہ کتاب تحفہ کرتا ہوں‘
وہ اپنی نوعیت کا منفرد انسان تھا۔ بہت ہی منفرد۔اٹک شہر کا رہنے والا یہ نوجوان قیامِ پاکستان سے قبل حصول علم کے لئے ہند کے صوبے یو پی (سرائے میر) میں چلا گیا۔ مدرسہ الاصلاح سے تعلیم مکمل کی اور اسی سبب سے اصلاحی کہلایا۔ پاکستان بن رہا تھا۔ ہند سے لاکھوں مسلمان خاندان ہجرت کر کے جوق در جوق پاکستان آرہے تھے۔وہ ہفتوں نہیں مہینوں بے قرار رہا۔سوچتا رہا، ’’اگر ہند کے سارے پڑھے لکھے مسلمان ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے تو پیچھے رہ جانے والےبے وسیلہ اور ان پڑھ مسلمانوں کا سہارا کون بنے گا؟‘‘۔اُس کی راتیں جاگتے اور سوچتے گزرتے رہیں۔ بالآخر اُس کے عزم نے اُس سےایک مضبوط فیصلہ کروا لیا۔ وہ پیچھے رہ جانے والے بے بس ہندی مسلمانوں کا سہارا بنیں گا۔ لوگ ہند سے مہاجر ہو کر پاکستان آرہے ہیں، مگر وہ پاکستان کی شہریت ترک کر کے ایک بڑے مقصد کے لئے ہند میں ہجرت اختیار کرے گا اور بے سہاروں کے لئے رام پور ( یو پی) میں علمی و تعلیمی کام کی بنیاد رکھے گا۔ یہ جذباتی فیصلہ نہ تھا۔ اُس نے جو کچھ سوچا اسے سچ کر دکھایا۔ رامپور میں ہزاروں طالبات کے لئے بڑی سطح کا ایک خوبصورت ادارہ بنایا۔ذکریٰ کے نام سے ماہنامہ کا اجرا کیا۔ آدابِ زندگی اور آسان فقہ کی طرز پر درجنوں شہرۂ آفاق کتب لکھیں۔ ہند سے باہر نکل کر براعظم امریکہ، آسٹریلیا، افریقہ اور مڈل ایسٹ میں سینکڑوں تبلیغی و تربیتی پروگراموں میں لاکھوں انسانوں کا مربّی بنا اور ان کے دل و دماغ کو اسلامی آداب میں ڈھالا۔ وہ خوبصورت تحریریں لکھنے کے ساتھ ساتھ ایک بے بدل خطیب بھی تھا۔ مگر یہ سارے کام کرتے ہوئے متانت، دیانتوجاہت، سنجیدگی اور سادگی عمر بھر اُس کا پیرہن بنی رہیں۔
اس دبلے پتلے اور خوش قامت انسان سے میری ملاقات 1982 میں نیویارک کے ایک تربیتی پروگرام میں ہوئی۔ اُن کی ذہانت، سادگی اور خوش دلی نے دل میں ایسا گہرا نقش بنایا کہ آج تک کوئی دوسرا اُس کی جگہ نہ لے سکا۔ نیو یارک قیام کے دوران وہ جب بھی امریکہ تشریف لاتے اکثر میں ان کا میزبان ہوتا۔ پھر یہ جگہ ایچ ایچ آر ڈی کے بانی اور سابق صدر برادم فرخ رضا نے سنبھال لی اور ان کی خدمت کو حدِ کمال تک پہنچایا۔ پاکستان منتقلی کے بعد میں تقریباً ہر سال ہی امریکہ جاتا رہا۔ یہ خواہش ہمیشہ دل میں انگڑائیاں لیتی رہتی کہ کاش مولانا یوسف اصلاحی بھی امریکہ آئے ہوں اور ان سے شرفِ ملاقات ہو جائے۔ وہ کمال کے انسان تھے، آپ گھنٹوں ان کے پاس بیٹھے رہیں وہ آپ کو بوریت کا احساس تک نہ ہونے دیں گے۔ خوشگوار علمی گفتگو، پرُلطف اشعار اور برجستہ جملے ان کے دائیں بائیں خوشبو کے انبار لگاتے رہیں گے۔
میری خوش بختی کہ وہ میری سب سے چھوٹی بیٹی عائشہ کی تقریبِ نکاح میں میری دعوت پر میرے گھر تشریف لائے اور نکاح پڑھایا۔ تقریبِ نکاح میں، میں نے انہیں خوش آمدید کہتے اور خوشی سے نہال ہوتے کہا’’ مولانا میں آپ کو کیسے بتاؤں کہ آپ کی پاکستان اور پھر میرے گھر تشریف آوری میرے لئے کس قدر خوشی کا باعث بنی ہے‘‘اصلاحی صاحب سٹیج پر تشریف لائے اور کہا ’’ بد قسمتی سے دنیا میں ابھی ایسا کوئی آلہ ایجاد نہیں ہوا جو دل میں ہونے والی خوشی کو ماپ سکے۔ایسا کوئی آلہ اگر ایجاد ہو چکا ہوتا تو میں عزیزم عبدالشکور کو ماپ کر بتا دیتا کہ مجھے آپ کے ہاں حاضر ہو کر یقیناً آپ سے زیادہ خوشی ہوئی ہے‘‘۔ مولانا کا جملہ سن کر مجلس مُسکراہٹوں سے کشتِ زعفران بن گئی۔
ایک مجلس میں اصلاحی صاحب نے بتایا کہ وہ مڈل ایسٹ کے سفر پر تھے ۔ہوائی سفر کے دوران ان کے ساتھ والی نشست پر بیٹھے ، کوٹ ٹائی میں ملبوس ایک شخص سے بات چیت کا آغاز ہوا تو کئی قومی اور دینی موضوعات چِھڑ گئے۔ سفر اختتام کو پہنچنے لگا تو اُس نے ہینڈ بیگ کھولا اور اس میں سے ایک کتاب نکال کر مجھے دی اور کہا ’’ آپ پڑھے لکھے انسان لگتے ہیں، میں آپ کو یوسف اصلاحی صاحب کی یہ کتاب تحفہ کرتا ہوں۔ اسے ضرور پڑھیے گا۔ مجھے یقین ہے اسے پڑھ کر آپ کی دینی معلومات میں بھی اضافہ ہوگا اور آپ کے ادبی ذوق کو جِلا بھی ملے گی۔ میں نے اجنبی سے مسکراتے ہوئے اپنی ہی کتاب’’آداب زندگی‘‘ شکریے کے ساتھ وصول کی۔پھر دونوں نے معانقہ کیا اور دونوں اپنی اپنی منزلوں کو روانہ ہو گئے۔ مولانا اب اپنے اُس رب کے پاس پہنچ چُکے ہیں جس کو راضی کرنے اور راضی رکھنے میں انہوں نے مشقتیں جھیلیں، صبر و عزم کا دامن تھامے رکھا اور مسکراتے ہوئے اس کے دربار میں جا حاضر ہوئے۔مجھے بہت امید ہے موت کی یہ تلخیاں انکی آخری مشکل گھڑی ہو نگی اوراب وہ ابد الآباد تک راحتوں، روشنیوں، خوشبوؤں اور مسکراہٹوںکے لا متناہی سلسلے سے وابستہ ہو چکے ہونگے۔ محترم مولانا ! آپ کو آپ کی پسند کی وہ دنیا بہت بہت مبارک ہو۔
محمد عبدالشکور ،صدر الخدمت فاونڈیشن پاکستان
بھائی صاحب! معذرت۔ اس بار آداب زندگی کا کوئی نسخہ موجود نہیں ہے
حالیہ عرصہ میں نامور علمی ودینی ہندوستانی شخصیات میں ڈاکٹر لقمان سلفی، امیر شریعت، مولانا سید محمد ولی رحمانی کے بعد اب اس تیسری ممتاز مذہبی شخصیت نے دنیائے فانی کو الوداع کہا ہے۔
ذاتی طور پر مولانا سے میری غائبانہ واقفیت کوئی تین حوالوں سے رہی ہے۔ مدیر ’ذکریٰ‘ ڈائجسٹ، مصنفِ کتاب ’آدابِ زندگی‘ اور جماعت اسلامی سے وابستہ ایک ممتاز علمی ودینی شخصیت۔
اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن (70ء اور 80ء کی دہائی) میں ہمارے گھر ادارۂ الحسنات کے رسائل نور اور الحسنات کے ساتھ ذکریٰ بھی آتا تھا۔ پھر شعور آنے پر ایک قریبی بزرگ عزیز نے ’آدابِ زندگی‘ کا تحفہ دیا تو کتاب کے مطالعے نے اس قدر متاثر کیا کہ ازاں بعد میں نے اپنے کچھ دوستوں کو یہی کتاب (اردو/انگریزی ایڈیشن) ان کی شادی کی موقع پر تحفہ میں دی۔
سعودی عرب قیام کے دوران اکثر وبیشتر یہ طریقہ کار رہا کہ وہاں سے کچھ اردو کتب خرید لاتا تو انہیں حیدرآباد کے دوست احباب میں تقسیم کرتا اور اسی طرح حیدرآباد سے واپسی پر چھتہ بازار کے مکتبہ جماعت اسلامی سے خریدی گئی کتب ریاض کے اپنے کچھ دوست احباب کی خدمت میں پیش کرتا۔ مکتبہ جماعت اسلامی کی ہر وزٹ پر ’’آداب زندگی‘‘ کا ایک نسخہ ضرور خریدنے کی عادت رہی تھی۔ ایک مرتبہ مکتبہ میں داخل ہوا تو وہاں کے ایک اہلکار نے مجھے دیکھتے ہی بغیر سلام کلام کے کہہ دیا ’’معذرت بھائی صاحب! اس بار ’آداب زندگی‘ کا کوئی نسخہ موجود نہیں ہے!‘‘ یہ دلچسپ ’سانحہ‘ میں عرصے تک اپنے دوستوں کو مزے لے لے کر سناتا رہا۔
مکرم نیاز (حیدرآباد)
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 02 جنوری تا 08 جنوری 2022