مولانا عبدالحسیب اصلاحی‘ جیسا میں نے ان کو دیکھا

ایک شفیق استاد جن کی زندگی قرآن کی تعلیم اور فکر اسلامی کی ترویج میں گزری

ڈاکٹر غلام نبی فلاحی۔ لندن

ایک مفسر‘ ایک ادیب اور مترجم‘ میرے استاد مولانا عبدالحسیب اصلاحی ہندوستان کی ریاست اتر پردیشن کے مشہور ضلع اعظم گڑھ سے چند کلو میٹر دور موضع علاءالدین پٹی میں 26 فروری کی صبح کو وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ اللہ تعالی انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے(آمین)۔ مولانا مرحوم 13 اگست 1928ء موضع علاءدین پٹی ضلع اعظم گڑھ میں ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے تھے جو علمی دولت سے مالا مال تھا۔
مولانا کی ابتدائی تعلیم گرچہ اپنے گاؤں میں ہی ہوئی تھی مگر اعلیٰ دینی تعلیم کے حصول کے لیے ان کے والد ماجد نے انہیں مشہور ومعروف دینی درسگاہ مدرستہ الاصلاح میں داخل کیا تھا جس سے مشہور مفسر قرآن علامہ حمیدالدین فراہی وابستہ تھے۔ علامہ حمیدالدین اپنے نام ساتھ فراہی لکھتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ وہ جس بستی کے باشندے تھے اس کا نام پھریہا ہے۔ اس نام کی تعریب کرکے انہوں نے اسے فراہ اور فراہی بنا لیا تھا۔ فراہی لکھنے والے وہ پہلے شخص تھے۔ انہیں عربی، انگلش اور اردو زبانوں کے ساتھ ساتھ عبرانی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔ مولانا عبدالحسیب اصلاحی اسی مدرسہ کے فارغ التحصیل تھے اور فراغت کے بعد انہیں بہار کے شہر دربھنگہ طلب کیا گیا۔ لیکن وہاں کی آب وہوا انہیں راس نہ آئی ۔ وہاں سے واپس آکر پہلے رامپور میں مرکز جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ہوئے پھر علی گڑھ میں تدریسی فرائض انجام دینے لگے۔ لیکن جلد ہی اپنے استاد مرحوم مولانا اختر احسن اصلاحی کی ایما پر مدرسة الاصلاح سے بحیثیت مدرس وابستگی ہوگئی جو ۱۶۹۱ تک برقرار رہی۔
مدرستہ الاصلاح تقسیم ہند سے پہلے ہی سے جماعت اسلامی کی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا تھا۔ یہ نہ صرف جماعت کو فکری غذا فراہم کرتا رہا بلکہ اس کے مردان کاربھی یہاں تیار ہوتے رہے۔ چناں چہ مولانا عبد الحسیب صاحب اپنی طالب علمی کے دوران ہی جماعت اسلامی سے نہ صرف واقف ہوئے بلکہ اس عظیم تحریک سے وابستہ ہو کر آخری دم تک اس کے ساتھ منسلک رہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مولانا مدرستہ الاصلاح سے کیوں الگ ہوئے اس کے کیا وجوہات تھیں اور جامعۃ الفلاح کیسے وجود میں آیا اس کے کیا محرکات تھے یہ ایک الگ موضوع ہے جس کا یہ محل نہیں۔ جامعۃ الفلاح مشرقی یو پی کے ضلع اعظم گڑھ سے چند کلو میٹر دور ایک بستی بلریا گنج میں واقع ہے۔ اس وقت ہندوستان کی مشہور ومعروف دینی اور علمی تربیت گاہ کی حیثیت سے جانی جاتی ہے۔ اس کی تعمیر وترقی اور اس کی تاسیس میں مولانا عبدالحسیب اصلاحی نے دوسری شخصیات کے ساتھ مل کر جو کلیدی رول ادا کیا ہے اس کو کسی بھی حیثیت سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا نہ ہی بھلایا جا سکتا ہے۔
جن دنوں جامعہ میں میرا ایڈمیشن ہوا تھا میری عمر پندرہ سال تھی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے کشمیر سے ایک ہزار میل دور ہندوستان کے ایک ایسے علاقے میں حصول تعلیم کے لیے بھیجا گیا تھا جو میرے لیے بالکل ہی اجنبی تھا۔ یہاں کے درو دیوار سے ہی نہیں بلکہ آسمان سے بھی آگ برستی محسوس ہوتی تھی۔ کہاں کشمیر کی معطر فضائیں اور مسحورکن ہوائیں کہاں یہاں کی باد سموم اور جھلسا دینے والی گرمی! اللہ توبہ۔ یہ میری زندگی کا پہلا تجربہ تھا اگر مجھے یہاں کی گرمی کا احساس ہوتا تو شاید ہی میں یہاں کا رخ کرتا۔جامعة الفلاح کے سفر کے وقت مجھے میرے ماموں مرحوم حسام الدین نے ہندوستان کے سابق امیر جماعت اسلامی مولانا ابواللیث اصلاحی وندوی مرحوم کے لیے سیپوں کا ایک ڈبہ بطور تحفہ اور ایک خط دیا تھا۔ مرحوم مولانا ابواللیث اصلاحی ان دنوں جامعة الفلاح کے ناظم تھے۔ وہ بھی اپنے گھر واقع چاند پٹی سے روز آیا جایا کرتے تھے۔ میرے ذہن میں یہی تھا یہ کہ مولانا کسی شان وشوکت والے مکان میں رہتے ہوں گے مکان کے باہر دربان پہرہ دے رہے ہوں گے۔ مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب نے میں مولانا کے گھر واقع چاند پٹی کو دیکھا جو مٹی کا ایک گھروندہ ہی محسوس ہو رہا تھا۔ میں نے جب اجازت مانگی تو کہنے لگے بیٹا اندر آجاؤ‘ میں جب اندر داخل ہوا تو ان کی لائیبریری تھی جہاں ایک لکڑی کی پرانی میز کے ساتھ ایک لکڑی کی پرانی کرسی پڑی ہوئی دیکھی جس پر بیٹھ کر مولانا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ یہ کمرہ کتابوں اور رسالوں سے بھرا پڑا تھا۔ تل رکھنے کی جگہ بھی نظر نہ آتی تھی۔ اتنے میں ایسی موسلا دھار بارش ہوئی کہ پانی کتابوں کے نیچے سے بہنے لگا۔ میں سوچ میں پڑ گیا یا اللہ یہ تو کوئی ولی اللہ ہی ہیں۔مشرقی یو پی کے دستور کے مطابق اتنی دیر میں مولانا خود ہی پانی کے ساتھ مکئی اور گُڑ لائے جسے کھا کر ہم نے پانی پی لیا۔ اس کے بعد عصر کا وقت ہوا تو مولانا نے نماز عصر کی امامت فرمائی۔ چونکہ بارش زور کی تھی اس لیے مسجد میں ہی تھوڑا سا توقف کرنا پڑا۔ لوگوں سے تعارف کرایا کہ یہ لوگ کشمیر سے آئے ہیں پھر پندرہ بیس منٹ تک کشمیر پر ہی بات کرتے رہے۔ مجھے پوری طرح سے یاد ہے کہ وہ لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ سب شیخ عبداللہ کا ہی کارنامہ ہے۔ میں گم سم سنتا رہا مجھے نہ تاریخ معلوم تھی اور نہ شیخ عبداللہ۔ بہر کیف بات آئی اور گئی ہوگئی۔ میں نے اجازت چاہی کہا بیٹے! بارش بہت ہی تیز ہے۔ یہ میری شیروانی ہے اس کو پہن لو اور کل جب میں جامعہ آوں گا تو وہاں مجھے دے دینا۔ قصہ مختصر یہ کہ مولانا ابو اللیث اصلاحی مرحوم جامعہ کے ناظم تھے ان کی دوبارہ امیر جماعت کی تقرری کے بعد جامعة الفلاح کی نظامت کی نشست خالی ہوگئی تو مولانا عبد الحسیب صاحب مرحوم کو نظامت پیش کی گئی مگر انہوں نے معذرت کی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے چند ماہ تک انہوں نے نظامت کی ذمہ داری سنبھالی تھی مگر کار نظامت ان کے مزاج سے میل نہیں کھاتا تھا۔ میرے خیال میں اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ یہ کام انجام نہیں دے سکتے تھے بلکہ ان کا مرکزی میدان خیرکم من تعلم القرآن سے جڑا ہوا تھا اور اخیر تک یہی منصب سنبھالتے رہے۔ چونکہ جامعہ میں ہر سال نئے طلبہ میں اضافہ ہوتا ہے جس کی بنا پر تمام طلبہ کو درجات اور کلاسوں کی مناسبت سے دوسرے ہوسٹلز میں منتقل کیا جاتا تھا۔ ہوسٹلز میں جگہ کی قلت کی بنا پر ایک ہی کمرے میں دس یا بارہ طلبہ کو رکھا جاتا تھا۔ مجھے بھی دوسرے لڑکوں طرح امسال مودودی ہوسٹل منتقل ہونا پڑا۔
مجھے یاد آ رہا ہے کہ ہم بارہ طلبہ ایک ہی کمرہ شئیر کرتے تھے۔ مجھے بھی بیچ میں کہیں جگہ مل گئی۔ مولانا مرحوم وقت کے پابند تھے اور صبح سویرے علاءالدین پٹی سے پیدل چل کر جامعہ تشریف لاتے تھے اور کلاس میں جانے سے پہلے ایک کپ چائے نوش فرماتے۔مولانا اپنے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے ادھر ادھر دیکھ لیتے اگر کوئی نظر نہ آتا تو مجھے نام لے کر بلاتے، میں بغیر کسی تامل کے فوراً پہنچ جاتا اور ان کے لیے پہلی فرصت میں چائے بنا لیتا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی مرحوم اپنی شیروانی کھونٹی پر لٹکاتے اور چارپائی پر دراز ہو جاتے۔ وہ ہمیشہ اپنا کھانا گھر سے لایا کرتے تھے میں نے کبھی بھی انہیں جامعہ کا کھانا کھاتے نہیں دیکھا ہاں کوئی خاص موقع ہو یا کوئی بڑا پروگرام تو مولانا پھر رات کو رک جاتے۔ مولانا چائے کے لیے دودھ بھی اپنے ساتھ لایا کرتے تھے۔ جمعہ کے دن وہ کچھ زیاہ ہی کھانا لاتے اور مجھے کھلاتے کہتے تھے بیٹا یہ تو میں آپ کے لیے ہی لایا ہوں۔ کھانا بہت ہی سادہ ہوتا تھا کبھی دو روٹیاں اور سالن کبھی روٹی اور تھوڑا سا چاول ہوتا تھا۔ مولانا بہت ہی کم کھانا کھاتے تھے۔ جس دن گوشت ہوتا تھا ایک بوٹی اور آدھا آلو میرے لیے رکھتے تھے۔
مولانا کو جو کمرہ الاٹ کیا گیا تھا وہ مودودی ہال کے اندر بائیں جانب واقع تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ وہ بلڈنگ ابھی موجود ہے کہ نہیں بس ایک چھوٹا سا کمرہ یا جس کو حجرہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس میں ایک چھوٹی سی الماری جس میں تدبر قرآن‘ تفسیر زمخشری ‘ تفسیر جلالین اور عربی لغت المنجد کے علاوہ چند اور کتابیں ہوا کرتی تھیں۔ یہ تمام کتابیں قرینے سے رکھی ہوئی ہوتی تھیں اور اس کا دروازہ ہمیشہ ایک معمولی تالے سے بند رہتا تھا۔ میں نے مولانا کو اکثر تدبر قرآن پڑھتے دیکھا۔ اپنی کتابیں دوسروں کو دینے میں وہ بہت ہی بخیل تھے۔ میں نے کئی بار تدبر مانگا تو لیت و لعل سے کام لیا۔ مگر جب میں درجہ پنجم میں پہنچا تو امتحان کے دوران چند ایام کے لیے مجھے اس شرط کے ساتھ تدبر کی چوتھی جلد عنایت فرمائی کہ میں اسے محفوظ رکھوں اور وقت پر اسے واپس کروں۔
مرحوم درجہ پنجم میں ہمیں تفسیر قرآن پڑھایا کرتے تھے۔ کلاس یا درجہ میں آنے سے پہلے وہ خود بھی تیاری کرتے تھے۔ مگر کبھی کبھی وہ مکمل تیاری نہ کر پاتے تھے جس کو ہم طلبہ محسوس کرلیتے تھے۔ جب کبھی طلبہ شرارت کرتے تو ہمیشہ یہ الفاظ استعمال کرتے ایش یا ولد ( میاں، یہ کیا ہورہا ہے۔)۔ میں نے انہیں کسی کو ڈانٹتے ہوئے نہیں دیکھا۔ البتہ ان کے چہرے کے تیور ہی سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ ناراض ہیں۔
مولانا کا وقت چونکہ گھر آنے جانے میں لگ جاتا تھا اور وہ پھر صدر مدرس بھی تھے اس لیے مطالعہ کا وقت بھی کم ملتا۔ ہمیشہ مولانا اختر احسن اصلاحی مرحوم اور مولانا مسعود عالم ندوی صاحب کا تذکرہ فرماتے کہ وہ کس طرح سے سمجھاتے اور پڑھاتے تھے۔ ایک بارخود ہی فرمایا کہ مجھے یاد ہے کہ آپ نے مجھ سے کئی بار تفسیر مانگی تو میں نے اس لیے نہیں دی کہ وہ مناسب وقت نہیں تھا کیونکہ اس وقت میں درجہ چہارم میں تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ عام طور طلبہ مطالعہ نہیں کرتے بلکہ ادھر ادھر کی تفاسیر پڑھ کر کلاس میں آتے ہیں۔ وہ ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ تفاسیر پڑھ کر کوئی علم حاصل نہیں کیا جا سکتا بلکہ تفاسیر دراصل کسی خاص اسکول کی ترجمان ہوتی ہیں یا وہ روایات اور اقوال سلف کا مجموعہ ہوتاہے۔ یہ دونوں چیزیں حقیقی طالب علم کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ اگر طالب علم تفاسیر کے چکروں میں رہا تو وہ قرآن پاک کی روح اور تہہ تک نہیں پہنچ سکتا۔فرماتے تھے کہ طلبہ کو چاہیے کہ مطالعہ قرآن کے وقت وہ لسان العرب یا المنجد سامنے رکھ کر مطالعہ کریں اور جو مشکل الفاظ ہوں ان کے معنی اور تشریح اپنی نوٹ بک میں لکھ لیا کریں۔ فرماتے تھے کہ لسان العرب لغت کی کتابوں میں سب سے عمدہ اور زیادہ مدد دینے والی لغت ہے کیونکہ اہل لغت کا تمام ماحصل اس میں یکجا ہے۔ مجھے یاد ہے قرآن پڑھاتے وقت وہ فرماتے تھے کہ اصلی چیزیں جن کی ایک طالب علم یا طالب قرآن کو ضرورت ہے وہ یہ ہیں کہ ایک لفظ کے صحیح حدود واطراف کیا ہیں‘ پھر اس کے اصل معنی کیا ہیں اور اس کے معنی میں سے کن پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس ضمن میں لغت بہت ہی ضروری ہے مگر لغت ہی سب کچھ نہیں ہے۔ بلکہ قرآن پاک کو سمجھنے کے لیے اس زمانے کی عربی زبان کی پہچان بھی ضروری ہے جس میں یہ قرآن نازل ہوا تھا اور اس زمانے کی تہذیب وتمدن اور جغرافیہ سے بھی واقفیت حاصل کرنا قرآن فہمی میں مدد دے سکتا ہے۔ مزید کہ آیات کس تناظر میں نازل ہوئی ہیں جس کو عرف عام میں شان نزول کہا جاتا ہے جاننا بہت ہی لازمی ہے۔
طلبہ جب کبھی مطالعہ نہیں کرتے تھے تو بہت ہی نارض ہوتے تھے۔ اور بہت ہی پیار سے سمجھاتے کہ وقت ضائع نہ کرو اور جتنا ممکن ہوسکے خود سے قرآن سیکھنے کی کوشش کرو یہ وقت تفاسیر پڑھنے کا نہیں تفسیر تو بعد کی چیز ہے اس کے لیے تو پوری عمر ہے جب یہاں سے فارغ ہو جاؤگے تو بعد میں تفاسیر پڑھتے رہنا۔
مولانا کو چونکہ عربی زبان پر عبور حاصل تھا یہی وجہ ہے انہوں مرحوم مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی چند کتابوں کا عربی میں ترجمہ بھی کیا۔ ایک بار کہا کہ جب میں نے اس کا ترجمہ کیا تو خواہش تھی کہ کوئی عربی ادیب اس کو دیکھتا۔ چنانچہ کہا کہ ایک بار جب مجھے جامعہ کی خدمت کے لیے سعودی عرب جانا پڑا ‘تو جہاز میں ایک مصری سے ملاقات ہوئی جن کا نام کمال ہلباوی ہے۔ وہ الاخوان المسلمون سے تعلق رکھتے تھے وہ پاکستان سے واپس مصر جا رہے تھے۔ انہوں نے جب میرا ترجمہ دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور چند بہترین مشوروں سے بھی نوازا۔
نفاست پسندی میں مولانا کا مذاق ہر معاملے میں ممتاز تھا ہر چیز نفاست سے رکھتے۔ اپنا علمی سفر بھی نفیس لوگوں سے شروع کیا۔ جب کبھی موقع ملتا تو اپنے اساتذہ کرام کا تذکرہ بہت ہی ادب واحترام سے کرتے۔ ان کا رہنا سہنا ‘ کھانا پینا‘ اٹھنا بیٹھنا‘ بول چال ‘ لکھنا پڑھنا غرض سفر حیات کا ہر قدم نفیس تھا۔ میں نے مولانا کے اندر بہت ہی سادگی دیکھی۔ مولانا زرق برق لباس نہیں پہنتے اور نہ اس کے شوقین ہی تھے۔ مگر آن بان کی شخصیت کے مالک تھے۔ اردو زبان کے بادشاہ تھے مگر اس میں بہت زیادہ عربی کی ملاوٹ ہوتی تھی۔ جب بولتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ الفاظ کو اندر ہی اندر سے چن لیتے تھے پھر اپنی زبان سے انہیں ادا کرتے۔ مجھے یاد ہے کہ اکثر اردو محاوروں کا استعمال کرتے تھے۔ وقت اور قرآن پاک کے ترجمہ کی مناسبت سے اردو محاورے بھی استعمال کرتے تھے۔ سورہ طہ کی آیت 96 جس میں قبضتہ من اثر الرسول وارد ہوئے ہیں۔ اس کا ترجہ بطور محاورہ یوں کرتے تھے۔ ’’نقش پائے رسل‘‘ اس کے علاوہ الفاظ کی مناسبت سے بہت سے محاورے استعمال کرتے تھے تاکہ طلبہ قرآن پاک کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔درس کے دوران ہم کبھی مولانا سے پوچھتے تھے کہ آپ کے اساتذہ میں سے کون کون ہیں کیا آپ مختصر سا تعارف کرائیں گے۔ کہتے تھے کہ بچو، اساتذہ کا احترام کیا کرو۔ اپنا وقت ادھر ادھر کی باتوں میں ضائع نہ کرو۔ ہم اپنے وقت میں بد زبان یا زبان دراز نہ تھے بلکہ اساتذہ کے سامنے سر جھکا کر رہتے تھے پھر اپنے اساتذہ کے نام اس طرح گنوائے:ولانا ابوبکر اصلاحی‘ مولانا داود اکبر اصلاحی‘ مولانا صدرالدین اصلاحی اور مولانا اختر صاحب۔کہتے تھے میں ان سے بہت ہی متاثر ہوں اور ان سے مستفید بھی ہوا ہوں۔ اللہ تعالی ان سب کو اپنی جوار رحمت میں جگہ عنایت فرمائے۔ (آمین)۔
پھر طلبہ سے مخاطب ہو کر فرماتے کہ ان کے قدر شناس بنو اور اپنے اساتذہ سے زیادہ سے زیادہ کسب فیض کرو۔ کہتے تھے کہ ایک طالب علم کی مثال ایک فقیر یا گداگر کی ہے جو اپنا کشکول لے کر ہر جگہ پہنچ جاتا ہے لہٰذا تم بھی اسی طرح ہر استاد سے فیض حاصل کرنے کی کوشش کرو۔
مولانا کی گفتگو یا درس وتدریس کے دوران محسوس ہوتا تھا کہ مولانا کو پہلے سے نحو صرف اور عربی زبان وادب سے دلچسپی تھی۔ اگر کبھی کبھار ہم میں سے کوئی دوسرا موضوع چھیڑ دیتا تو بہت ہی خوبی کے ساتھ اسے نظر انداز کر دیتے تھے۔ بہت ہی زور دے کر کہا کرتے تھے بچو! مطالعہ کرکے آیا کرو کیونکہ مطالعہ آدھا علم ہے۔ اپنا وقت ضائع نہ کرو۔ ایک مرتبہ بات چلی دارالمصنفین اور علاوہ شبلی مرحوم کی تو کہنے لگے بچو! تم نہیں جانتے اس سر زمین نے تین شبلیوں کو جنم دیا ہے۔ ایک متکلم‘ ایک مورخ اور ایک فقیہ۔ پھر اس کی تشریح کرتے کہ مولانا شبلی متکلم مدرسة الاصلاح کے علم کلام کے ممتاز استاذ تھے۔ علامہ شبلی مورخ اسلام تھے جنہوں نے سیرت النبی لکھی ہے اور تیسرے مولانا شبلی فقیہ جیراجپوری جو ندوة العلماء میں فقہ کے استاذ اور سلف صالحین کا ایک نمونہ تھے۔
مولانا میرے خیال میں سیاسی داو پیچ سے واقف تھے مگر اس میں کبھی حصہ نہیں لیتے تھے بلکہ سیاسی گفتگو سے دامن بچا کر چلتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ چیزیں اہل سیاست جانیں۔ انہوں نے حقیقی معنوں میں خیرکم من تعلم القرآن و علمہ کو اپنا شعار بنایا تھا اور اسی کو دعوت دین کی اصل سمجھتے تھے۔ وہ نیک نفس اور درویش صفت انسان تھے۔
میں نے کئی لوگوں سے سنا کہ جامعہ سے قانونی ضابطے کے مطابق ریٹائرمنٹ کے بعد مولانا اس کا قلق اور درد اور غم محسوس کرتے رہے اور اس کا اظہار بھی کیا اور کہتے تھے اے کاش یہ حدودو قیود نہ ہوتی تو پوری زندگی تعلیم قرآن میں ہی صرف کرتا۔ مگر اس کے بعد بھی مولانا جامعہ میں نہ صرف آتے رہے بلکہ ہر حیثیت میں ان کا ایک رول رہا۔ جامع کے ہر فنکشن اور پروگرام میں شریک ہوتے تھے۔
میرا ارادہ تھا کہ امسال میں اپنے بچوں کو ساتھ لے کر جامعة الفلاح جا کر مولانا کی خدمت میں بھی حاضر ہوں لیکن منشائے الٰہی کچھ اور ہی تھا۔ وہ اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے روپوش ہوگئے۔ مجھے یقین کامل ہے کہ دوسری دنیا میں ان سے ضرور ملاقات ہوگی۔ اللہ تعالی ان کی قبر کو پُر نور کرے ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے اور دین اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے انہوں نے جو خدمات انجام دی ہیں اللہ انہیں قبول فرمائے (آمین)۔
٭٭٭

***


جامعۃ الفلاح مشرقی یو پی کے ضلع اعظم گڑھ سے چند کلو میٹر دور ایک بستی بلریا گنج میں واقع ہے۔ اس وقت ہندوستان کی مشہور ومعروف دینی اور علمی تربیت گاہ کی حیثیت سے جانی جاتی ہے۔ اس کی تعمیر وترقی اور اس کی تاسیس میں مولانا عبدالحسیب اصلاحی نے دوسری شخصیات کے ساتھ مل کر جو کلیدی رول ادا کیا ہے اس کو کسی بھی حیثیت سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا