موجودہ حالات اور اصلاح ودعوت کی مطلوبہ جہتیں

انفرادی و اجتماعی سطح پر کرنے کے کام

محمد عبداللہ جاوید، رائچور

 

موجودہ حالات کا قہر اور اسکی سنگینی واضح ہے۔ وبائیں، بیماریاں، ظلم وبربریت نے انسانوں کی بے بسی اور لاچاری کا ایک نیا چہرہ ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ داعیان تحریک کے لیے حالات کی یہ سنگینی بہ عجلت میدان کار میں سرگرم عمل ہونے کی دعوت دیتی ہے۔ چونکہ معاشرہ میں نفسانفسی اور خوف وہراس کا ماحول عام ہے اس سے محفوظ رہتے ہوئے راہ خدامیں مثالی جدوجہد، غفلت کے پردوں کو چاک کرنے ہی سے ممکن ہے۔ حالات کو بہتر بنانے کا کوئی واضح عزم نہ ہونا اور میدان عمل کی سرگرمیوں سے دور رہنا یہ وہ پردے ہیں جو تحریکی کارکنان کی حرکیاتی شخصیت کو پوری آب وتاب کے ساتھ عیاں ہونے میں مانع ہو رہے ہیں۔ بلا تاخیر حرکت وعمل کا پیکر بننا، رب کی سخت گرفت اور اسکی تنبیہ سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔ اس ضمن میں تین مطلوبہ جہتوں سے حالات کی بہتری کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
پہلی جہت: کارکنان تحریک کے سامنے دو ٹوک انداز سے واضح کرنا چاہیے کہ رب کی رضا کا حصول، اپنے خول سے باہر نکل آنے اور حساسیت کا مظاہرہ کرنے میں ہے۔ وباء سے متاثرہ افراد اور اس سے جاں بحق ہونے والے، اصل یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہم ابھی مہلت زندگی کے امین بنے ہوئے ہیں۔ اس مہلت کو غنیمت جاننے سے مراد اس کے سوا کچھ نہیں کہ فریضہ اقامت دین کی ادائیگی کے لیے کمر کس لیں۔ رب سے قربت یقینی بناتے ہوئے اس کے بندوں کی خبر گیری کے لیے ان سے قریب تر ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت پیش نظر رہے کہ نازک حالات میں راہ خدا کی جدوجہد ہمیں انسانوں کی امامت کا مستحق بنا سکتی ہے اور غفلت کے نتیجے میں دنیا وآخرت کی ذلت ورسوائی حصہ میں آ سکتی ہے۔
دوسری جہت: کارکنان تحریک کی اس فکری اور عملی اصلاح کے بعد انہیں جس محاذ پر متحرک رکھنا ہے وہ اصلاح امت کا محاذ ہے۔ اس ضمن میں مختلف النوع سرگرمیاں انجام دی جا سکتی ہیں۔ افراد ملت، مردو خواتین کی ہمہ جہت اصلاح کے لیے حسب ذیل امور پیش نظر رہیں:
۱) اللہ تعالیٰ پر توکل، اس کا کثرت سے ذکر، استغفار اور دعاؤں کے اہتمام کی اہمیت اور طریق کار واضح کرنا۔
۲) امت مسلمہ کی خصوصی حیثیت کا شعور بیدار کرنا۔ انہیں فرض منصبی کی یاد دہانی کرانا اور اس کے لیے ہر حال میں جدوجہد کی اہمیت وضرورت بتانا۔
۳) درپیش حالات کی بنا پنپ رہے موت اور ہر طرح کی خوف کی نفسیات سے انہیں باہر نکالنا۔
۴) موت کی یاد دہانی صبح دوام زندگی اور رب سے ملاقات کے مقدمہ کے طور پر کرانا۔
۵) وباؤں اور بیماریوں کے مہیب سایوں کے درمیان اسوہ رسول ﷺ کی روشنی میں پورے عزم اور اعتماد کے ساتھ زندگی گزارنے کی ترغیب دلانا۔
۶) حتی الامکان بیماروں کی خدمت کرنے اور مجبور ولاچار افراد کی مدد کرنے کے لیے عملی راہیں سجھانا، ہر فرد کی کوشش ہو کہ وہ اپنے افراد خاندان اور ملنے جلنے والے دوست احباب سے مستقل ربط بنائے رکھے۔
۷) بے روزگار مزدوروں اور روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے افراد کی مدد کے لیے انفرادی اور اجتماعی کوشش کرنا۔
۸) تعلیمی میدان میں ہو رہی غفلت اور لاپروائی نے بچوں کی تعلیم، والدین اور سرپرستوں کی ذمہ داری اور اساتذہ کے رول کو بڑی حد تک متاثر کر دیا ہے، مابعد کرونا کا منظر نامہ کیسا ہو گا اسکا زیادہ تر انحصار اب کی جانے والی کوششوں سے تعلق رکھتا ہے، اس ضمن میں افراد ملت کی خصوصی رہنمائی کرنا اور متعین نکات کے تحت لائحہ عمل تجویز کرنا۔
۹) محدود اور مشروط سماجی تعلقات کی بنا، مختلف نفسیاتی مسائل پیدا ہوئے ہیں، اس سلسلہ میں بطور خاص ازدواجی تعلقات اور بچوں کی تربیت کے پیش نظر خصوصی کونسلنگ کا اہتمام کرنا۔
۱۰) ریلیف اور دیگر بازآباد کاری کے کاموں میں برادران وطن کے تعاون واشتراک کے ساتھ کام کرنے کی ترغیب دلانا۔
تیسری جہت: دعوت دین ہر طرح کے حالات سے بے نیاز ہو کر صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور بندگان خدا کی دنیا وآخرت سنوارنے کے لیے دی جاتی ہے۔ اس کار عظیم کا معاملہ اس وقت بہت زیادہ نازک اور اہم ہو جاتا ہے جب بندگان خدا، فکری، عملی اور نفسیاتی اعتبار سے اپنے خالق سے قریب ہونے کی چاہ اپنے پہلو میں لیے ہوئے ہوتے ہیں جیسا کہ ان دنوں یہ معاملہ ہے۔
لہذا ہر ایک تحریکی کارکن:
۱) اپنے قریبی برادران وطن اور ملنے جلنے والوں سے مستقل ربط میں رہے۔ وباء سے متاثرہ افراد کے علاج معالجہ کی بھرپور کوشش کرے۔
۲) جن برادران وطن کو مالی مشکلات کا سامنا ہے، انہیں اشیائے خورد ونوش اور حسب ضرورت مالی امداد دینے کی کوشش کرے۔
۳) ایسے گھروں سے تعلق بنائے رکھنا اور مسائل کو حل کرنے کی بھرپور کوشش کرنا جومتاثرہ افراد کے دواخانہ میں شریک ہونے یا ان کے قرنطینہ میں چلے جانے سے مختلف مسائل سے دوچار ہیں ۔
۴) اپنے محلہ کے برادران وطن کے تعاون واشتراک سے ایک ایسے خوش گوار ماحول کے فروغ کی کوشش کرنا جہاں باہمی تعاون اور ہمدردی کا چلن عام ہو۔
۵) برادران وطن کی نفسیاتی اور عملی صورت حال کے پیش نظر ان کے سامنے زندگی اور موت کی حقیقت، دنیا کی بے ثباتی، مقصد زندگی، انسانوں کی بے لوث خدمت کی اہمیت وضرورت کے علاوہ ان کے خالق ومالک کا بھرپور تعارف کرانا۔ نیز یہ بھی واضح کرنا کہ ایسے سنگین حالات میں بھی بعض لوگوں کا طرز عمل کیوں خود غرضی، بے حسی اور انسانی ہمدردی سے عاری ہے؟
جب کہ اجتماعی حیثیت سے حسب ذیل دعوتی کام انجام دیے جا سکتے ہیں:
۱) وباء سے متاثرہ افراد کے لیے مقامی سطح پر ریلیف اور امداد بہم پہنچانے کی کوشش کرنا۔ اس غرض کے لیے برادران وطن کے تعاون سے کسی عارضی مرکز کا قیام یا ہیلپ ڈیسک وغیرہ کا اہتمام کرنا۔
۲) لوگوں میں عزم وحوصلہ پیدا کرنے، وباء سے متعلق شعور بیدار کرنے نیز موت اور اس جیسی دیگر نفسیاتی بیماریوں کے خوف سے انہیں محفوظ رکھنے کے لیے بیداری شعور کا خصوصی اہتمام کرنا۔
۳) موت کی حقیقت، وبائیں اور بیماریاں، مصیبتیں اور پریشانیاں، خدمت خلق، آپسی ہمدردی اور حسن تعاون، بے یار ومددگار افراد کی سرپرستی جیسے امور پر باہم تبادلہ خیال کا ماحول بنانا۔ نیز ان سے متعلق ویڈیوز بنانا، آن لائن پروگرام منعقد کرنا اور حسب ضرورت علاقائی زبانوں میں خصوصی مضامین شائع کرنے کا اہتمام کرنا۔
۴) مختلف مذہبی اور سماجی سرکردہ شخصیات، خدمت میں مصروف این جی اوز کے تعاون واشتراک سے ہر مقام پر ایسا نظم بنانا کہ نہ وباء سے متاثرہ افراد لاپروائی سے اپنی جان گنوا بیٹھے اور نہ ہی عام انسانوں کو کسی قسم کی تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑے۔
۵) حکومتی ذمہ داران کو صحیح صورت حال سے واقف کرانا، متاثرہ افراد کے لیے تمام سہولیات بہم پہنچانے پر انہیں متوجہ کرنا اور حکومتی انتظامیہ کے عوامی نوعیت کے کاموں میں شرکت اور تعاون کی پیش کش کرنا۔
ان امور کی وضاحت مجموعی صورت حال کے پیش نظر کی گئی ہے۔ یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ ایسے نازک حالات میں بھی بعض تحریکی کارکنان میدان عمل میں مصروف ہیں۔ لیکن تحریکی مقصد کا تقاضہ ہے کہ حرکت وعمل کا یہ معاملہ استثنائی صورت حال کو چھوڑ کر تمام ہی تحریکی کارکنان کے ساتھ یکساں رہنا چاہیے اسی صورت میں معاشرہ میں مطلوبہ تبدیلی ممکن ہے۔
انفرادی واجتماعی دعوتی کاموں کے لیے آج کے سلگتے ایشوز:
انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں انجام دیے جانے والے دعوتی کاموں میں حسب ذیل ایشوز پر بطور خاص گفتگو ہونی چاہیے اور ان سے متعلق رائے عامہ کی ہمواری کی کوشش ہونی چاہیے:
۱) تصور انسانیت: انسانیت کا دم بھرنے والی دنیا آج کیوں انسانیت نواز طرز عمل سے کوسوں دور نظر آتی ہے؟
یہ بات واضح کی جائے کہ انسانوں سے انسانوں جیسا سلوک، ان کی بے لوث خدمت، صرف ایک خدا کے تصور اور اس کی رضا کے حصول کی کوشش سے ممکن ہے۔
۲) طرز حکمرانی: انسانوں کی خدمت اور ان کے مسائل کے حل کے وعدہ سے اقتدار حاصل کرنے والے افراد کے قول وعمل میں آج کیوں بڑا نمایاں تضاد ظاہر ہو رہا ہے؟
اصول حکمرانی اور طرز حکمرانی سے متعلق اسلام کی انسانیت نواز تعلیمات کی اشاعت کا ببانگ دہل اہتمام ہونا چاہیے۔
۳) حقیقی ترقی کا معیار: مختلف میدانوں میں حیرت انگیز ترقیوں کے باوجود آج دنیا کیوں ایک معمولی سے جرثومے کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی ہے؟
اس تناظر میں واضح کرنا چاہیے کہ…. انسانی ترقی کا منہج اور اس کی تمام تر کامیابیاں اصل میں اللہ تعالیٰ کے قادر مطلق ہونے کے احساس سے وابستہ ہیں۔ اس خالق ومالک کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے ہی میں انسانیت کی حقیقی معراج ہے۔
۴) موت کی حقیقت: موت کو ایک اٹل حقیقت جانتے ہوئے بھی انسان آج کیوں اس قدر خوفزدہ ہو گیا ہے؟
دراصل موت سے بے خوفی کی صورت اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جبکہ یہ احساس قلب وذہن پر چھا جائے کہ دنیا کی زندگی عارضی اور آخرت کی زندگی ابدی ہے اور موت دراصل اپنے رب سے ملاقات کی ابتدا ہے۔
۵) حالات کے نشیب وفراز کا شعور: وباء سے بے شمار اموات اور اس سے متاثرہ افراد کی دگرگوں حالت دیکھ کر کیوں انسان مختلف نفسیاتی اور جسمانی امراض کا شکار ہو رہا ہے؟
یہ واضح کرنا چاہیے کہ دنیوی زندگی کے اتار چڑھاؤ میں صبر وثبات کا پیکر بنے رہنا اور اپنے خالق کا شکر ادا کرنا اسی وقت ممکن ہے جبکہ دنیا کی حقیقت، ابتلاء وآزمائش کا تصور اور آخرت میں ملنے والے اجر کے سلسلہ میں تصورات بالکل واضح ہوں۔
مندرجہ بالا معروضات میں صرف اشارے ہیں، ان کے پیش نظر مزید امور کا احاطہ کرتے ہوئے ایک ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی وناصر ہو۔
***

دنیوی زندگی کے اتار چڑھاؤ میں صبر وثبات کا پیکر بنے رہنا اور اپنے خالق کا شکر ادا کرنا اسی وقت ممکن ہے جبکہ دنیا کی حقیقت، ابتلاء وآزمائش کا تصور اور آخرت میں ملنے والے اجر کے سلسلہ میں تصورات بالکل واضح ہوں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 23 مئی تا 29 مئی 2021