منی پور تشدد: 54 افراد ہلاک، حالات سے نمٹنے کے لیے مزید فوج تعینات

امپھال،06مئی :۔
ایک طرف کرناٹک میں سلسلہ وار انتخابی جلسوں اور سیاسی سر گرمیوں کا دور جاری ہے وہیں ایک طرف ملک کی ایک ریاست آگ میں جل رہی ہے ۔وزیراعظم سے لےکر وزیر داخلہ تک کرناٹک الیکشن میں رائے دہندگان کو اپنے ترقیاتی حصولیابیاں شمار کرانے میں مصروف ہیں۔منی پور میں بھڑکنے والی تشدد کی آگ میں اب تک 54افراد کی موت ہو چکی ہے ۔ جن میں سے 16 کی لاشیں چوراچند پور ضلع اسپتال کے مردہ خانے میں رکھی گئی ہیں، جبکہ 15 لاشیں جواہر لال نہرو انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، امپھال ایسٹ میں ہیں۔ اس کے علاوہ امپھال ویسٹ میں لامفیل کے علاقائی انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز نے 23 لوگوں کی موت کی تصدیق کی ہے۔ صورتحال پر قابو پانے کے لیے ریاست میں فوج اور آسام رائفلز کے تقریباً 10 ہزار جوانوں کو تعینات کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق برادریوں کے درمیان لڑائی میں کئی لوگ مارے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً 100 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ حالانکہ پولیس اس کی تصدیق کرنے کو تیار نہیں۔ بتایا گیا کہ یہ لاشیں امپھال ایسٹ اینڈ ویسٹ، چوراچند پور اور بشن پور جیسے اضلاع سے لائی گئی تھیں۔ ساتھ ہی گولی لگنے سے زخمی ہونے والے کئی لوگوں کا علاج ریمس اور جواہر لال نہرو انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں جاری ہے۔
میڈیارپورٹوں کے مطابق دفاعی ترجمان نے کہا کہ کشیدہ علاقوں میں پھنسے کل 13000 افراد کو بحفاظت نکال کر فوجی کیمپوں میں بھیج دیا گیا ہے۔ آرمی پی آر او نے کہا کہ سیکورٹی فورسز کی فوری کارروائی کی وجہ سے تشدد سے متاثرہ علاقوں کے مختلف اقلیتی علاقوں سے لوگوں کو بچایا گیا۔ چورا چند پور، کانگپوکپی، مورہ اور کاکچنگ میں صورتحال اب مکمل طور پر قابو میں ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایک اور واقعہ میں، سنٹرل ریزرو پولیس فورس کے کوبرا یونٹ کا ایک کانسٹیبل، جو چورا چند پور ضلع میں اپنے گھر پر چھٹی پر تھا، جمعہ کو مسلح حملہ آوروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
واضح رہے کہ بدھ کو ریاست میں اس وقت تشدد پھوٹ پڑا جب بڑی تعداد میں قبائلی آل ٹرائبل اسٹوڈنٹس یونین آف منی پور کے زیر اہتمام احتجاجی مارچ میں شامل ہوئے۔ یہ مظاہرہ میتئی کمیونٹی کے مطالبے کی مزاحمت کے لیے کیا گیا تھا، جو کہ اکثریتی طبقے کو شیڈولڈ ٹرائب کے طور پر درجہ بندی کرنے کے لیے ہے۔
میتئی آبادی کا تقریباً 53 فیصد حصہ ہیں اور وہ زیادہ تر امپھال وادی میں رہتے ہیں۔ قبائلی، جن میں ناگا اور کوکی شامل ہیں، آبادی کا 40 فیصد حصہ ہیں اور زیادہ تر پہاڑی اضلاع میں رہتے ہیں جو وادی کے آس پاس ہے۔
دریں اثنا وادی امپھال کے تمام بڑے علاقوں اور سڑکوں پر آرمی یونٹس، ریپڈ ایکشن فورس اور سنٹرل پولیس فورس کو تعینات کیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اب وادی امپھال میں حالات قابو میں آنے لگے ہیں۔ زندگی معمول پر آنے لگی ہے۔