منریگا اسکیم میں ذاتپات کا دخل خطرناکرجحان
معیشت کی بحالی کے لیے اسکیم کا موثر نفاذ ضروری
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
پی اے ای جی اور لِب ٹیک انڈیا کی رپورٹ میں بجٹ میں بتدریج کمی کی نشاندہی
انتیس اکتوبر کو دو اداروں پیوپلز ایکشن فار ایمپلائمنٹ گارنٹی (PAEG ) اور لِب ٹیک انڈیا (LibTech India) کی طرف سے مہاتما گاندھی نیشنل رورل امپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ (MGNREGA) سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی جسے منریگا ٹریکر کا نام دیا گیا جو حکومت کے مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (M.I.S)کے اعداد وشمار پر مبنی ہے۔ پی اے ای جی کے مطابق منریگا کا امسال کا کل مفوضہ بجٹ 2020-21کے نظر ثانی شدہ بجٹ سے چونتیس فیصد کم ہے۔ جس کی وجہ سے ریاستی حکومت کے ہاتھوں ستمبر کے اخیر تک منریگا کے بجٹ کا کل نوے فیصد خرچ ہوگیا۔ اگرچہ امسال دیہی روزگار گزشتہ سال کے مقابلے پچیس فیصد کم ہے۔ دیہی علاقوں میں روزگار کی طلب کورونا قہر کے پہلے سے ہی زیادہ درج کی گئی تھی۔ بہت ساری ریاستوں، مغربی بنگال، تمل ناڈو اور آندھراپردیش میں مختص کردہ فنڈ سے زیادہ ہی خرچ ہوگیا ہے۔ اب مالی سال مارچ 2022تک منریگا کو ریاستوں میں موثر طریقے سے نافذ کرنے کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے
منریگا وہ اسکیم ہے جس پر تنقید تمام جماعتوں کی طرف سے ہوئی۔ یو پی اے کے دور اقتدار میں 2005 میں اس بل کا عملاً نفاذ عمل میں آیا۔ اس کی مخالفت حکمراں جماعت اور کانگریس کے ایک دھڑے نے خوب کی مگر دیہی بھارت میں اس کی افادیت اور اہمیت بیمار معیشت کی بحالی میں کافی اہم ہے۔ کورونا وبا کے بعد شہروں میں بے روزگاری آسمان چھونے لگی ہے کیونکہ وہاں لوگوں کے لیے روزگار تھا ہی نہیں مگر دیہی علاقوں میں منریگا نے کمترین اجرت پر ہنر مند مزدوروں کو ایک سال میں کم از کم سو دنوں کے لیے روزگارکی ضمانت فراہم کرنے ہدف رکھا جس کی وجہ سے منریگا اکانومی کی صحت کے لیے ایک بہترین ذریعہ بن گیا۔ اس کی دیہی بھارت میں کافی شہرت اور پذیرائی ہوئی کیونکہ کروڑوں مہاجر مزدوروں اور حاشیے پر رہنے والے غریبوں کے لیے پیٹ کی آگ بجھانے کا واحد ذریعہ بن گیا۔ اسی اثناء میں وزیر اعظم مودی نے حکومت بنائی ۔ لوک سبھا میں مودی جی نے منریگا اور نیشنل فوڈ سیکوریٹی ایکٹ (NFSA) کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں سیاسی کھلونے ہیں۔ انہوں نے فروری 2015میں کہا کہ یہ اسکیم کانگریس کی کھلی ناکامی کا مینارہ ہے جہاں ساٹھ سالوں کے بعد آپ لوگوں کو گڈھا کھودنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ مودی جی نے بھارتی معیشت کی تلخ حقیقت کو بیان کیا ہے جو منریگا کے سلسلے میں کسی حد تک صحیح اور بروقت ہے۔ درحقیقت منریگا اور این ایف ایس اے ایسی اسکیمیں ہیں جو وقتاً فوقتاً مرکزی حکومت کو معاشی بحران سے نبرد آزما ہونے کا راستہ بھی دکھاتی رہی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب سے یو پی اے حکومت نے منریگا کو نافذ کیا یہ اسکیم ہر حکومت کے لیے اہم سماجی تحفظ کی اسٹریٹیجی بن گئی ہے کیونکہ اس ایکٹ کے ذریعہ حکومت پر لازم ہے کہ غیر ہنر مند مزدوروں کو سالانہ ایک کنبہ کے لیے کمترین اجرت دے کر روزگار مہیا کرائے لیکن زمینی سطح پر کام کرنے والے جہد کاروں اور محققوں کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے منریگا کے لیے نہایت کم بجٹ رکھا اور حسب ضرورت نہیں رکھا ہے۔ سب سے زیادہ چونکا دینے والی یہ حقیقت ہے کہ منریگا کے بجٹ کے مفوضہ 73000کروڑ روپے میں سے 17000کروڑ روپے بقایہ اجرت کو لوٹانے میں لگ گئے۔ دس ریاستوں سے اٹھارہ لاکھ آواز کے سیمپل کی بنیاد پر ریسرچر نے نتیجہ اخذ کیا کہ اکہتر فیصد مزدوروں کی اجرت کی ادائیگی میں تاخیر ہوئی ہے جبکہ دستوری طور پر سات دنوں کے اندر ادائیگی لازمی ہے۔ چوالیس فیصد لوگوں کی ادائیگی میں پندرہ دنوں سے زیادہ کی تاخیر ہوئی ہے۔ جس سے مزدوروں کے جائز مطالبات ملنے سے رہ گئے۔ نتیجتاً ان میں سے بہت سارے لوگوں کے جائز مطالبات رد کیے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ مرکزی حکومت نے مارچ 2021میں سرکلر جاری کرکے ریاستوں سے مطالبہ کیا ہے کہ ذات کی بنیاد پر مزدوروں کے اجرت کا علیحدہ بل تیار کرکے پیش کرے اس سے نچلی سطح پر ملازمین کے کام مزید پیچیدہ ہوگئے۔ اور رپورٹ کی پیشی میں مزید تاخیر ہونے لگی۔ اب یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ غیر ایس سی اور ایس ٹی مزدوروں کی اجرت کی ادائیگی میں کافی تاخیر ہوئی ہے بعد میں حکومت نے ذات کی بنیاد پر الگ سے تیار کر رہے پے منٹ آرڈر سرکلر کو واپس لے لیا۔ اب تو صحیح طلب اور ادائیگی میں تاخیر والے سوالات جواب کے بغیر رہ گئے۔ ہر طرف سے یہ مژدہ سنایا جارہا ہے کہ منظم معیشت (فارمل اکانومی) میں کورونا قہر کے بعد تیزی سے ترقی ہورہی ہے۔ مگر غیر منظم (Informal) شعبوں کے متعلق ایسی کوئی بات سامنے نہیں آرہی ہے۔ منریگا میں زیادہ طلب دراصل ایسے ہی غیر منظم شعبوں میں تنزلی کا غماز ہے۔ اگر وقت رہتے ہوئے منریگا کے مسئلہ کو حل نہیں کیا گیا تو کمزور دیہی طلب ہماری معاشی بہتری کو تنزلی کی طرف دھکیل دیے جانے کا باعث بنے گی۔
محترمہ جیتی گھوش جو مساچوسیٹ یونیورسٹی میں اکانومکس کی پروفسیر ہیں کہتی ہیں کہ بھارت کی معیشت میں اس وقت تک بہتری ممکن نہیں ہے جب تک گھریلو طلب میں بہتری نہ آئے اور عوامی کھپت نہ بڑھے جو کہیں دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ ایسی صورتحال ملک میں ماقبل کورونا قہر سے ہی ہے۔ منریگا دیہی علاقوں میں معیشت کی بحالی میں اہم رول ادا کرسکتا ہے کیونکہ یہیں سے شہروں میں غذا کی سپلائی ہوئی ہے۔ فی الحال منریگا میں بروقت اجرت کی عدم ادائیگی ایک گمبھیر مسئلہ ہے اور ایسے مسائل لِب ٹیک جیسے اداروں کی وجہ سے سامنے آپائے ہیں۔ ذات پات پر مبنی اجرت کی ادائیگی کی کوئی حقیقت نہیں ہونی چاہیے اور دیگر طبقوں کی ادائیگی میں تاخیر دراصل نچلی سطح پر انتظامی ناکامی ہے جس سے خوامخواہ طبقاتی کشمکش اور تناو میں اضافہ ہوگا۔ منریگا کے متعلق دو بہت ہی اہم قانونی نکات ہیں۔ پہلا، مزدوروں کو پندرہ دنوں کے اندر طلب کے مطابق روزگار مہیا کرنا ہوگا یا ان کو بے روزگاری بھتا دینا ہوگا۔ دوسرا، مزدوروں کو پندرہ دنوں کے اندر ہی پورے کیے گئے کام کی اجرت دینی ہوگی یا تاخیر سے ادائیگی کا معاوضہ دینا ہوگا۔ اگر مفوضہ ناکافی اور کم بجٹ کی وجہ سے دیہی مزدور اپنی اجرت بروقت پاتے ہیں تو اس سے ان کی ہمت شکنی ہوگی اور مزدور مزید روزگار کا مطالبہ نہیں کرسکیں گے۔ یو پی اے اور این ڈی اے کی حکومتیں اس مسئلہ پر بحث کرتی رہی ہیں کہ منریگا طلب پر مبنی اسکیم ہے۔ اگر زیادہ طلب بڑھے گی تو فنڈ بھی زیادہ ہی مہیا کرنا ہوگا مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ فنڈ کی کمی اور انتظامیہ کی نا اہلی کی وجہ سے ادائیگی میں تاخیر سے طلب کی اہمیت کم کردے گی۔
ہمارے ملک میں ذات پات کا ناسور ہر شعبہ حیات میں بری طرح سرایت کر گیا ہے یہاں تک کہ منریگا میں بھی اس کا عمل دخل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایک خاص طبقہ کو منریگا کے تحت اجرت کی ادائیگی جلد ہو جاتی ہے جبکہ دیگر طبقوں کی ادائیگی میں تاخیر دیکھنے کو مل رہی ہے اگرچہ دونوں ذاتوں کے لوگ ایک ساتھ ہی منریگا اسکیم میں مزدوری کرتے ہیں۔ کام بھی یکساں دنوں تک ہی کرتے ہیں۔ بعض علاقوں میں ایس سی اور ایس ٹی ذات کے لوگوں کو اجرات پندرہ تا بیس دنوں میں دی جارہی ہے اور دیگر ذات طبقہ کے مزدوروں کو اجرت کے لیے مہینوں انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔ راجستھان اسنگھٹھت مزدور یونین کے کوآرڈینیٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ اس تفریق سے گاوں کے افراد کے اندر شبہات اور تناو پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ سارا بگاڑ اوپر سے آ رہا ہے۔ گیارہ اکتوبر کو سکریٹری مالیات اور رورل ڈیولپمنٹ آفیشل کی میٹنگ میں وزارت سماجی انصاف نے اس مسئلہ پر بڑی خفگی کا اظہار کیا ہے۔ اس طرح کی ذات پات کی بنیاد پر تفریق منریگا اسکیم کی روح کو مجروح کرتی ہے۔ ہندی بیلٹ میں ایس سی، ایس ٹی مزدوروں کی اجرت کی ادائیگی ترجیحات میں رکھ کر جلد کری جارہی ہے۔ اس کے برخلاف تمل ناڈو میں نچلے طبقہ کی اجرت کی ادائیگی عام مزدوروں کے مقابلے میں تاخیر سے کی جاتی ہے۔ بعض ریاستوں میں ذات پات کے معاملے میں ہم آہنگی بھی دیکھی جارہی ہے۔ کرناٹک میں منریگا ورکرس یونین نے ذات پات کی لعنت کو ختم کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ اس طرح وہاں سبھی طبقوں کے اندر اجرت کی ادائیگی میں کافی ہم آہنگی دیکھی گئی۔ مگر مرکزی حکومت کے سرکلر سے مزدوروں کے درمیان اختلافات اور دوریاں بڑھی اور کہا جانے لگا کہ اسّی فیصد ایس سی مزدوروں کی اجرت دیگرطبقوں کے مقابلے میں پہلے مل جاتی ہے۔ پہلے لوگ’ ہم‘ استعمال کرتے تھے مگر ’ہم‘ بمقابلہ وہ لوگ ہو گئے جو مزدوروں کے لیے بہت خطرناک ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 21 نومبر تا 27 نومبر 2021