مندر کے آکسیجن سے الیکشن جیتنے کا خواب…!

کاشی وشوناتھ دھام راہداری کے پہلے نامکمل مرحلے کے افتتاح میں اتنی جلد بازی کیوں؟

حسن آزاد

’وکاس کے نام پر سیکڑوں مندروں کو کیا گیا مسمار، میڈیا خاموش، ہندوتو کے ٹھیکیداروں کا بھی اپنے بل سے باہر نہ آنا چہ معنی دارد؟
’جس طرح سسکیاں آواز میں دب جاتی ہیں‘ اسی طرح اکثر اہم خبریں بھی جانبدار میڈیا کی چیخ پکار میں گم ہو جاتی ہیں جس کے بعد حکومت اپنی پیٹھ تھپتھپانے لگ جاتی ہے اور بھولے بھالے عوام سب کچھ بھلا کر پھر اسی مجرم حکومت کی حمایت میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ رام مندر کی تعمیر کے لیے ‘جنم استھان’ مندر کو 27 اگست 2020ء میں منہدم کر دیا گیا۔ رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ کی تعمیراتی کمیٹی نے نئے رام مندر کی توسیع کے لیے لگ بھگ سوا تین سو سال پرانے ‘جنم استھان مندر’ کو نیست ونابود کر دیا، لیکن نہ اس کے خلاف عوام میں آواز اٹھی اور نہ میڈیا نے ہی اسے اٹھایا جبکہ رپورٹ کے مطابق جنم استھان کے لیے ایک مسلمان زمیندار میر معصوم علی نے زمین عطیہ کی تھی۔ یہ مندر ایودھیا میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے بھی معروف تھا لیکن اس معاملے پر اس وقت شدت پسند ہندو تنظیموں کے ہونٹ سل گئے تھے چنانچہ وہ سیکڑوں سال پرانے ’جنم استھان مندر‘ کو منہدم ہوتے ہوئے دیکھتے رہے۔
ملک میں کچھ سیاسی پارٹیاں ایسی ہیں جو مندر کے آکسیجن سے الیکشن جیتنے کا خواب دیکھتی ہیں چاہے اس کے لیے درجنوں مندر توڑ دیے جائیں پچاسوں مکانات کو منہدم کر دیا جائے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہیں تو ایسا مندر چاہیے جس سے ہندوتوا کا کارڈ کھیلا جا سکے چنانچہ واراناسی میں وشوناتھ کوریڈور کے آس پاس چار سو کے قریب مکانات اور مندر توڑے دیے گیے لیکن کہیں سے آوازیں نہیں اٹھیں۔ میڈیا نے بھی نظریں نیچی کر لیں۔ مقامی لوگوں نے احتجاج کیا، دھرنے پر بیٹھے اور بھوک ہڑتال بھی کیا مگر وہ سرخیوں میں نہیں آ سکے۔ اس تعلق سے یوٹیوب چینل ناکنگ نیوز (Knocking News) کے معروف صحافی گریجیش وشیسٹ نے منجھے ہوئے صحافیوں کو اپنے پروگرام میں شامل کیا جنہوں نے حقیقت کھول کر سامنے رکھ دی۔ ان میں بی بی سی کے سابق صحافی اور یوٹیوب چینل ’گراؤنڈ رپورٹ‘ کے بانی سمیراتمج مشرا (smiratmaj mishra) بھی شریک ہوئے جنہوں نے کہا کہ ’’وشوناتھ مندر کے آس پاس کا علاقہ تنگ گلیوں پر مشتمل ہے اور ہر گھر میں ایک نہ ایک مندر ضرور ہے لیکن ترقیاتی پراجیکٹ کے نام پر سیکڑوں مندروں کو منہدم کیا گیا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’2018 میں اس پراجیکٹ کا آغاز ہوا اور اچانک مکانات خالی کروائے گئے۔ لوگوں نے اس کی مخالفت کی تب معاوضہ بڑھا کر دیا گیا اور دباؤ ڈال کر انہیں ہٹایا گیا اور رہائشی مکانوں پر بلڈوزر چڑھا دیے گئے۔ اس دوران گنیش مندر کو بھی منہدم کیا گیا‘‘۔ غور کرنے والی بات ہے کہ اگر یہی کام بی جے پی کے علاوہ دوسری حکومتی کرتیں تو بات کیا سے کیا ہو جاتی۔ یہاں تو وارانسی کی اصل پہچان کو ہی مٹی میں ملانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
واضح ہو کہ 13 دسمبر 2021 کو تقریباً 33 مہینوں میں کاشی وشوناتھ دھام راہداری کے پراجیکٹ کے نامکمل پہلے مرحلے کا افتتاح وزیر اعظم نریندر مودی نے کیا۔ پہلا مرحلہ تقریباً 5 لاکھ مربع فٹ کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے جس میں 23 عمارتیں شامل ہیں۔ اس پراجیکٹ کا سنگ بنیاد 2019ء میں رکھا گیا تھا، اس پر مجموعی طور پر تقریباً 800 کروڑ روپے لاگت آئے گی۔ اس بڑے پلان کو نافذ کرنے کے لیے 300 سے زیادہ جائیدادیں حاصل کی گئی ہیں۔ وزیر اعظم کے دفتر (PMO) کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ تقریباً 1,400 دکانداروں، کرایہ داروں اور مکانات کے مالکوں کو نئے سرے سے بسایا گیا ہے۔ وہیں منصوبے پر کام کے دوران 40 سے زائد قدیم مندروں کو دوبارہ دریافت کیا گیا۔ پی ایم او کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اصل ڈھانچے میں کوئی تبدیلی لائے بغیر بحال کیا جائے گا۔
ناکنگ نیوز (Knocking News) کے پروگرام میں مدھیہ پردیش کے نامور صحافی راکیش اچل نے کہا کہ گوالیار میں بی جے پی کی پچھلی پندرہ سالہ حکومت میں درجنوں مندر منہدم کیے گیے۔مورتیوں کو ویران پہاڑوں پر رکھ دیا گیا اور اس دوران نہ آر ایس ایس اور نہ ہی بی جے پی کا کوئی کارکن سامنے آیا۔ انہوں نے کہا کہ انگریزوں نے بھی کسی مذہبی مقام کو ہاتھ نہیں لگایا تھا لیکن بی جے پی حکومت پہ در پہ مندروں کو منہدم کروا رہی ہے‘‘۔
ایودھیا کے ہنومان گڑھی کے بھی کچھ اسی طرح کے حالات ہیں۔ اُلٹا چشمہ یو ٹیوب چینل کے تحت پرگیا مشرا نے رپورٹنگ کے دوران مقامی لوگوں کا درد دنیا کے سامنے لایا۔ جہاں سیکڑوں دکانوں کی نشان دہی کی گئی ہے کہ چند دنوں کے اندر ان کے مکمل یا کچھ حصے منہدم کردیے جائیں گے جس کی وجہ سے ہزاروں افراد بے روزگار ہو جائیں گے۔ چونکہ اکثر دکاندار کرائے کی دکانوں میں تجارت کر رہے ہیں اس لیے دکانات کے مالکین کو تو فائدہ ہو جائے گا مگر کرائے دار مجبور و لاچار ہو جائیں گے۔ لیکن حکومت کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے اور نہ ہی مین اسٹریم میڈیا ان خبروں کو اہمیت دے رہا ہے۔
کاشی وشوناتھ دھام راہداری کے پہلے نامکمل مرحلے کے افتتاحی پروگرام کو کئی دنوں تک ایک ’ایونٹ‘ کے طور پر پیش کیا گیا گویا یو پی میں ترقی کی دریا بہہ رہی ہو۔ اپوزیشن پارٹیاں سوال اٹھا رہی ہیں کہ ابھی پراجیکٹ کا پہلا مرحلہ تیار ہی نہیں ہوا تھا تو افتتاحی پروگرام رکھنےکا کیا مطلب ہے؟
پچھلے سال وزیر اعظم نے بڑے طمطراق سے ایودھیا میں رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ اس کو بھی ٹیلی ویژن پر اس طرح دکھایا تھا گیا گویا ہندوستان میں رام راج آگیا ہو اور ہندوتوا کا کنول پوری طرح کھل چکا ہو لیکن پنچایت انتخابات کے نتائج نے ظاہر کردیا کہ خود ایودھیا کے لوگوں نے اس خوش فہمی کو دور کر دیا۔ اب آنے والے یو پی اسمبلی انتخابات 2022ء کے نتائج پر سب کی نظریں ٹکی ہوئی ہیں کہ رائے دہندگان کاشی وشوناتھ راہداری کو وکاس کی عینک سے دیکھیں گے یا سیاسی چشمے سے تجزیہ کریں گے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  26  دسمبر تا 1 جنوری 2021