مرکز نے لوک سبھا میں خواتین کی شادی کی عمر بڑھانے کا بل پیش کیا، اپوزیشن نے اس اقدام کی مخالفت کی

نئی دہلی، دسمبر 22: مرکز نے منگل کے روز بچوں کی شادی پر پابندی (ترمیمی) بل پیش کیا، جس میں خواتین کے لیے شادی کی کم از کم عمر 21 سال کر دی گئی ہے۔ اس وقت ملک میں شادی کی کم از کم عمر مردوں کے لیے 21 اور خواتین کے لیے 18 سال ہے۔

خواتین اور بچوں کی ترقی کی مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے ایوان زیریں میں بل پیش کیا اور چیئر سے درخواست کی کہ اسے اسٹینڈنگ کمیٹی کے پاس بھیج دیا جائے۔ مجوزہ قانون کو متعارف کرواتے ہوئے ایرانی نے کہا کہ جو آوازیں سامنے آئی ہیں ان سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ شادی کے لیے برابری ہونی چاہیے۔

اے این آئی کے مطابق وزیر نے کہا کہ ہم مردوں اور عورتوں کو شادی کے مساوی حقوق دینے میں ’’75 سال پیچھے‘‘ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس ترمیم کے ذریعے پہلی بار مرد اور خواتین برابری کے حق کو مدنظر رکھتے ہوئے 21 سال کی عمر میں شادی کا فیصلہ کر سکیں گے۔

تاہم اپوزیشن لیڈران بشمول کانگریس کے ادھیر رنجن چودھری، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کی رکن پارلیمنٹ سپریا سولے، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی اور ترنمول کانگریس کے سوگتا رائے نے بل پر اپنے اعتراضات اٹھائے۔

کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ادھیر رنجن چودھری نے کہا کہ بل کی کاپیاں پہلے سے گردش نہیں کی گئی تھیں اور یہ معاملہ آج صرف سپلیمنٹری لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔

اے این آئی کے مطابق انھوں نے مزید کہا ’’ہم حکومت کو مشورہ دینا چاہتے ہیں کہ جب کام جلد بازی میں کیا جائے تو غلطیاں ہوتی ہیں۔ حکومت نے نہ تو کسی اسٹیک ہولڈر سے بات کی ہے اور نہ ہی کسی ریاست سے مشورہ کیا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ بل کو قائمہ کمیٹی کے پاس بھیج دیا جائے۔‘‘

اویسی نے بھی اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اگر 18 سال کی لڑکی ووٹ دے سکتی ہے تو وہ شادی کیوں نہیں کر سکتی۔

انھوں نے پوچھا ’’آپ نے [حکومت] نے 18 سال کے بچوں کے لیے کیا کیا ہے؟ ہندوستان میں خواتین کی لیبر فورس کی شرکت صومالیہ سے کم ہے۔‘‘

نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کی سپریا سولے اور ڈی ایم کے کی کنیموزی نے کہا کہ مرکز نے مجوزہ قانون کو متعارف کرانے سے پہلے اپوزیشن یا سول سوسائٹی گروپس سے مشورہ نہیں کیا۔

دی ہندو کے مطابق سولے نے کہا ’’بل کی جانچ پڑتال کی ضرورت ہے، میں اس حکومت کے تمام بل لانے کے طریقے کی مذمت کرتی ہوں۔‘‘

ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمنٹ سوگتا رائے نے کہا کہ اقلیتوں کے لوگ اس بل کے ’’مکمل مخالف‘‘ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں اس کی مخالفت کرتا ہوں جس طرح حکومت نے جلد بازی میں یہ بل پیش کیا ہے۔ ’’اس بل پر تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان مکمل بحث کی ضرورت ہے۔‘‘

جس کے بعد بل کو اسٹینڈنگ کمیٹی کو بھیج دیا گیا اور لوک سبھا کی کارروائی دن بھر کے لیے ملتوی کر دی گئی۔

دریں اثنا وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اتر پردیش کے پریاگ راج میں ایک ریلی کے دوران اس بل کے بارے میں مختصر بات کی۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ خواتین شادی کی کم از کم عمر 21 سال کرنے کی تجویز سے خوش ہیں، حالاں کہ اس سے کچھ لوگوں کو تکلیف ہوئی ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ’’ہم خواتین کی شادی کی عمر کو 21 سال تک بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ انھیں تعلیم حاصل کرنے اور ترقی کرنے کا وقت مل سکے۔ ملک یہ فیصلہ اپنی بیٹیوں کے لیے کر رہا ہے۔ ہر کوئی دیکھ رہا ہے کہ کس کو اس سے پریشانی ہو رہی ہے… اس سے کچھ کو تکلیف ہوئی ہے۔‘‘