ملک کے کروڑوں باشندوں پر قرض کا بوجھ
زراعت پیشہ لوگ بری طرح متاثر۔شہری باشندوں کی 22فیصد آبادی مقروض۔نیشنل سیمپل سروے
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
حالیہ نیشنل سیمپل سروے (این ایس ایس) 77ویں راونڈ کے مطابق دیہی علاقوں میں زراعت پیشہ اور غیر زرعی کنبوں کی حالت کافی خراب ہے۔یہ 2019کے اعداد وشمار ہیں۔ 2020کے کورونا قہر نے اسے مزید ابتر بنا دیا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے دیہی علاقوں کے لوگ روزگار کی تلاش میں شہروں کا رخ کیا کرتے تھے لیکن کورونا کو قابو میں کرنے کے لیے لگائے گئے سخت لاک ڈاون نے انہیں پھر اپنے اپنے گاوؤں کی طرف ہجرت پر مجبور کر دیا۔ ان مہاجر مزدوروں کی وجہ سے زرعی اور غیر زرعی کنبوں پر بہت زیادہ بوجھ پڑا۔ سروے کے مطابق 17کروڑ 24لاکھ دیہی کنبوں میں سے 9کروڑ 91لاکھ لوگ زارعت سے جڑے ہوئے ہیں جبکہ 7کروڑ 93لاکھ کنبے غیر کاشت کار ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ زراعت پیشہ کنبوں کے افراد 54فیصد ہیں جبکہ غیر زرعی شعبہ سے منسلک افراد کی تعداد 46فیصد ہے۔ اس میں سے 70.4فیصد آبادی کے پاس ایک ہیکٹر زمین سے بھی کم ہے۔ بہت چھوٹے رقبے کی زمین ہونے کی وجہ سے لوگوں کی زندگی تکالیف سے پر ہوتی ہے۔ 68.9فیصد زرعی کنبوں کا روزگار اناج کی پیداوار پر منحصر ہے۔ تقریباً 2.3فیصد کامیاب کاشت کار کنبوں میں سے 0.6فیصد ایسے ہیں جو زرعی سرگرمیوں کو اپنی معاش کا ہدف بناتے ہیں جبکہ 4.8فیصد لوگ غیر زرعی کاروبار کرتے ہیں۔ محض 7.7فیصد افراد ہی مستقل اجرت پر کام کرتے ہیں جبکہ 14.2فیصد عارضی محنت کش مزدور ہیں۔ اس طرح غیر زرعی کنبوں کی حالت بہت ہی ناگفتہ بہ ہے۔ خود روزگار افراد میں سے محض 14فیصد لوگ غیر زرعی کاروبار سے وابستہ ہیں جو نہایت کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارتے ہیں کیونکہ ان کے پاس محض اوسطاً 0.87ہیکٹر زمین ہی ہوتی ہے جبکہ ان میں سے 2.6فیصد لوگ بے زمین ہوگئے ہیں۔ اوسطاً غیر زرعی کنبوں کے پاس محض 0.086ہیکٹر زمین ہے۔ ان میں بھی 14.8فیصد لوگ بے زمین ہوگئے۔ اس طرح اوسطاً دیہی علاقوں میں 0.512ہیکٹر زمین ان کنبوں کے پاس ہے ان میں اب 8.2فیصد لوگ بے زمین ہوگئے ہیں جب اکثریت کے پاس زمین کم سے کم ہوتو ان کی حالت کیسی خراب ہوگی اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ اوسطاً ان کنبوں کے پاس 0.002ہیکٹر سے لے کر ایک ہیکٹر زمین ہی ہے۔ ان کی آبادی دیہی علاقوں میں 76.5فیصد ہے۔ محض 0.1فیصد کنبوں کے پاس بڑا قطعہ اراضی ہے ان کے پاس اوسطاً 10ہیکٹر زمین ہے۔ غیر کاشت کار کنبوں کی اکثریت زمین سے محروم ہے۔ جب حالات بگڑنے لگتے ہیں تو غریب کنبے اپنی زمین کو لیز پر دے دیتے ہیں۔ 2018کے جولائی تا دسمبر 3.20فیصد لوگوں نے اپنی زمینیں لیز پر دی تھیں جو 6ماہ بعد جنوری تا جون 2019تک وہ بڑھ کر 3.7فیصد ہوگئی۔ 55لاکھ لوگوں نے اس 6ماہ کی مدت میں اپنی زمین کو لیز پر دی تھی جو بقیہ 6ماہ میں بڑھ کر 64لاکھ ہوگئی۔ تقریباً 84فیصد زمین کو غلہ کی پیداوار کے لیے استعمال کیا گیا۔ 0.6فیصد جانوروں کی افزائش کے لیے 6فیصد مذکورہ دونوں مدات میں 0.7فیصد دیگر زرعی مقاصد میں اور 8.7فیصد غیر زرعی استعمال میں استعمال ہوتی ہے۔
ہمارے ملک میں رہنے والے کروڑوں باشندوں کے پاس خواہ شہری ہوں یا دیہی، کسی طرح کا طبعی اثاثہ ہے نہ مالی اثاثہ، بس وہ اپنے جسم کے بوجھ ڈھونے پر مجبور ہیں۔ شہری علاقوں میں رہنے والوں کا کوئی مستقل پتہ نہیں ہوتا کیونکہ ان کے پاس زمین یا گھر نہیں ہوتا اس لیے انہیں کسی طرح کی سماجی سلامتی بھی نہیں مل پاتی ہے۔ ان کو خیرات مل جاتی ہے جس پر ان کا گزارہ ہوتا ہے۔ شہری علاقوں سے 14.6فیصد کنبوں کے پاس کوئی حقیقی اثاثہ نہیں ہے اور 5.3فیصد کنبے ایسے ہیں جو مالی اثاثے سے بھی محروم ہیں۔ یہ اعداد وشمار کل ہند قرض وسرمایہ کاری سروے 2019 (All India Debt and Investment survey 2019) کے جاری کردہ ہیں جس سے غربا اور مفلسوں کی کسمپرسی کا پتہ چلتا ہے۔ یہاں حکومت کا رول بڑی بڑی جملہ بازی کے ساتھ بہت ہی ناقص ہے جب کہ مودی جی ملکی ترقی کا چہار دانگ عالم ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں مگر زمینی سطح پر حالات ناگفتہ بہ ہیں کیونکہ حاشیہ پر پڑے لوگوں تک کسی طرح کی راحت پہنچ نہیں پاتی۔
دیہی علاقوں کے کنبوں کے اثاثوں کی مالیت 15,92,000روپے ہے جس میں سے طبعی اثاثے اوسطاً 15,20,000روپے کے ہیں اور مالی اثاثے 7,26,000روپے کے ہوتے ہیں۔ شہری علاقوں کے کنبوں کے طبعی اثاثوں کی مالیت 24,65,000 روپے اور مالی اثاثے اوسطاً 25,18,000 روپے ہوتے ہیں۔ 69فیصد دیہی کنبوں کا اثاثہ زمین کی شکل میں ہے۔ 22فیصد مکانات اور 5فیصد بچت کی شکل میں ہے۔ موجودہ اعداد وشمار سے واضح ہوتا ہے کہ 35 فیصد دیہی آبادی پر اوسطاً 59,748 روپے قرض ہے۔ اس میں سے 40.3فیصد کاشت کار ہیں اور 28.2فیصد غیر کاشت کارہیں۔
شہری باشندوں کی 22فیصد آبادی مقروض ہے۔ یہاں فی کنبہ کا قرض 1,20,336روپے ہے۔ خود روزگار کنبوں کے 27.5فیصد لوگ شہروں میں قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں جبکہ دیگر قرض داروں کی تعداد 20.6فیصد ہے۔ اس طرح سروے کا ڈاٹا ملک کے دیہی اور شہری علاقوں کی سنگین صورتحال کو واضح کرتا ہے۔ اس سے پہلے کہ حالات مزید بدتر ہوجائیں حکومت کو بڑے بڑے دعووں کے بجائے لوگوں کو راحت پہنچانے کا انتظام کرنا چاہیے۔
***
ہمارے ملک میں رہنے والے کروڑوں باشندوں کے پاس خواہ شہری ہوں یا دیہی، کسی طرح کا طبعی اثاثہ ہے نہ مالی اثاثہ، بس وہ اپنے جسم کے بوجھ ڈھونے پر مجبور ہیں۔ شہری علاقوں میں رہنے والوں کا کوئی مستقل پتہ نہیں ہوتا کیونکہ ان کے پاس زمین یا گھر نہیں ہوتا اس لیے انہیں کسی طرح کی سماجی سلامتی بھی نہیں مل پاتی ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 10 تا 16 اکتوبر 2021