ملک کے قبائلی علاقے اور ان کے حقوق

چالیس فیصد قبائیلی عوام غذا، تعلیم اور صحت کے لیے ترس رہے ہیں

زعیم الدین احمد ، حیدر آباد

ہمارے ملک کا دستور قبائلی علاقوں اور ان میں بسنے والے عوام کو کچھ مخصوص حقوق دیتا ہے اور انہیں تحفظات فراہم کرتا ہے، انہیں تحفظات کو ہم شیڈول ایرا اور شیڈول ٹرائبس کے حقوق کے نام سے جانتے ہیں۔ ملک کے دستور نے کچھ علاقوں کو پانچویں شیڈول میں اور کچھ علاقوں کو چھٹے شیڈول میں رکھا ہے۔ اس پانچویں اور چھٹے شیڈول کی تقسیم اس طرح ہے کہ جن علاقوں میں قبائلی اقلیت میں ہیں اس کو پانچویں شیڈول میں رکھا گیا ہے اور جن علاقوں میں قبائلی زیادہ تعداد میں ہیں اس کو چھٹے شیڈول میں رکھا گیا ہے۔ مثال کے طور شمال مشرقی علاقے جہاں قبائلی زیادہ تعداد میں بستے ہیں ان علاقوں کو چھٹے شیڈول شامل گیا ہے اور آندھرا پردیش، تلنگانہ، مہاراشٹرا جہاں قبائلی نسبتاً کم ہیں ان کو پانچویں شیڈول میں رکھا گیا ہے۔ اس شیڈول کے تحت آنے والے قبائلیوں کو اپنے علاقے کی زمینوں پر کچھ مخصوص حقوق حاصل تاکہ وہ اپنی تہذیب وثقافت اور قبائلی تشخص کی حفاظت کرسکیں۔ جبکہ چھٹے شیڈول کے تحت آنے والے قبائلیوں کو زمینی پر مخصوص حقوق کے ساتھ ساتھ اپنے طور پر نظم و انصرام کے حقوق بھی حاصل ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی ایک ضلع میں مکمل طور پر قبائلی عوام ہی رہتے ہوں تو اس ضلع میں انہیں یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ اپنے طور پر نظم چلائیں یعنی اس ضلع کی ایک خود اختیار باڈی ہو گی جو ضلع کا نظم ونسق چلائے گی۔ اگر کسی ضلع میں کچھ علاقے قبائلی عوام پر مشتمل ہوں گے تو وہاں ضلع کونسل بنائی جائے گی جسے یہ حقوق حاصل ہیں کہ وہ اپنے طور پر قانون سازی بھی کرسکتے ہیں اور ان قوانین کو نافذ بھی کر سکتے ہیں انہیں ٹیکس عائد کرنے کے حقوق بھی حاصل ہوں گے۔ اگر زمینوں پر تنازعات ہوجاتے ہیں تو انہیں اپنی عدالتیں بنانے کا بھی حق حاصل ہے۔ اس طرح اور بھی بہت سارے حقوق انہیں حاصل ہیں۔ یہاں کے گورنروں کو بھی الگ سے حقوق حاصل ہیں تاکہ قبائلیوں اور گریجنوں کے حقوق کا تحفظ کیا جاسکے۔
آپ کے ذہن میں یہ سوال اٹھ رہا ہو گا کہ آخر اس موضوع پر لکھنے کی کیا وجہ ہے؟ یہ بات جان کر آپ کو بھی بڑا تعجب ہو گا کہ ہندوستان میں اکثر قدرتی ذخائر انہیں پانچویں اور چھٹے شیڈول کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ جہاں قبائل اور گریجن کثیر تعداد میں بستے ہیں وہی علاقے قدرتی ذخائر سے مالا مال ہیں۔ ملک کا اکیس فیصد علاقہ جنگلات پر مشتمل ہے اس اکیس فیصد جنگلات میں سے تقریباً چالیس فیصد جنگلات اسی پانچویں اور چھٹے شیڈول میں پائے جاتے ہیں یعنی وہی علاقے جہاں قبائل اور گریجن بستے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک میں جتنے جنگلاتی علاقے ہیں ان میں سے تقریباً نصف علاقے گریجن اور قبائلی علاقوں میں ہیں۔ ان قدرتی ذخائر میں خاص طور پر معدنیات کے ذخائر انہیں قبائلی علاقوں میں کثرت سے پائے جاتے ہیں چاہے وہ کوئلے کی شکل میں ہوں یا لوہے کی شکل میں ہوں یا تانبے کی کانیں ہوں۔ ملک میں معدنیات کی جتنی پیداوار ہوتی ہے اس کی ستر فیصد پیدوار انہیں قبائلی علاقوں میں ہوتی ہے۔
اس معدنیات کی کان کنی سے ریاستوں کو رائلٹی بھی حاصل ہوتی ہے۔ جن علاقوں میں کان کنی ہوتی ہے ان ریاستوں کو رائلٹی بھی حاصل ہوتی ہے اور یہ رائلٹی کا تقریباً نوے فیصد حصہ یہی قبائلی اور گریجن علاقوں سے حاصل ہوتا ہے۔ سنٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ معدنیات نکالے جانے والے پچاس ضلعوں کی اگر فہرست بنائی جائے تو ان میں ستائیس اضلاع قبائلی علاقوں میں موجود ہیں۔ وہیں سنٹر فار پالیسی ریسرچ کے مطابق ملک میں معدنیات کی کانوں کا صرف تیرہ فیصد حصہ ہی ان قبائلی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ قدرتی ذخائر کا چالیس فیصد حصہ، معدنیاتی ذخائر کے تیرہ فیصد حصہ کے علاوہ آب پاشی کے بڑے بڑے منصوبوں کی تعمیر بھی انہیں قبائلی علاقوں میں کی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک کے بڑے بڑے ڈیموں کا پچیس فیصد حصہ انہی قبائلی علاقوں میں ہے۔ اسی طرح چھوٹے چھوٹے ڈیموں کا بھی تقریباً چالیس فیصد انہیں شیڈول علاقوں میں ہیں۔
کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ان علاقوں میں عظیم قدرتی ذخائر اور بڑے بڑے آب پاشی کے منصوبے ہونے کے باوجود کیوں قبائلی اور گریجن عوام اتنی غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ انہیں دستور میں اتنے حقوق حاصل ہونے کے باوجود وہ ذلت کی زندگی بسر کر رہے ہیں؟ ٹنڈولکر کمیٹی کے مطابق سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے تقریباً چالیس فیصد عوام دیہی علاقوں کے ہیں جبکہ پچاس فیصد قبائلی عوام سطح غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ چاہے وہ تعلیم کا میدان ہو، یا غذا کی کمی کا اشاریہ ہو یا صحت کا معاملہ ہو ان تمام چیزوں میں ان علاقوں کے عوام انتہائی بد ترین حالت میں ہیں۔ وہ علاقے جہاں قدرتی ذخائر کی بھرمار ہو، جہاں آب پاشی کے بڑے بڑے منصوبوں پر عمل درآمد کیا جاتا ہے، وہاں بسنے والی عوام غذا، تعلیم اور صحت کے لیے ترس رہے ہیں تو یہ صورت حال سمجھ سےباہر ہے۔ آخر اس سوال کا جواب ملنا چاہیے۔
قبائلی علاقوں کے تحفظ کے لیے دستور میں قوانین تو بنے ہوئے ہیں لیکن ان قوانین کو نافذ کرنے والے ادارے اور مفاد پرست حکمراں ان قوانین کے خلاف عمل پیرا ہیں۔ وہ ایک طرف قبائلی علاقے کی زمینوں کو تحفظ فراہم کرنے کے وعدے کرتے ہیں تو دوسری طرف زمین ترمیمی آرڈیننس جاری کرتے ہوئے ان سے ان کی زمینیں چھین لیتے ہیں۔ ایک طرف قبائلی عوام کو با اختیار بنانے کے جھوٹے وعدے کرتے ہیں تو دوسری طرف معدنیات کی کان کنی کے نام پر یا علاقائی ترقی کے نام پر بڑی بڑی کمپنیوں کو ان کے علاقے بیچ دیتے ہیں اور ان کو ان ہی کے علاقوں سے بے دخل کر دیا جاتا ہے۔ ملک میں جتنے لوگ بھی اپنے علاقوں سے بے دخل ہوتے ہیں یا نقل مکانی کرتے ہیں ان میں سے چالیس فیصد لوگ یہی قبائلی اور گریجن عوام ہوتے ہیں۔ یہ تو سرکاری اعداد وشمار ہیں، حقیقت میں تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ صورت حال کتنی بھیانک ہے اس کو سمجھنے کے لیے یہی ایک مثال کافی ہو گی کہ آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے علاقے میں بننے والے ایک پراجیکٹ کی وجہ سے دو لاکھ قبائلی عوام کو بے دخل کر دیا گیا ہے۔ گو کہ پولاورم پراجیکٹ ضروری ہو گا لیکن اس پراجیکٹ کی وجہ سے وہاں بسنے والے قبائلی عوام کو یکسر بے دخل کر دینا کہاں کا انصاف ہے؟ عوامی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے یہ قبائلی اور گریجن عوام اپنے جنگل، اپنی زمینیں اور اپنے معدنی ذخائر کی قربانیاں دے رہے ہیں لیکن کیا ہم ان کی قربانیوں کا پورا صلہ انہیں دے رہے ہیں؟
***

 

***

 صورت حال کتنی بھیانک ہے اس کو سمجھنے کے لیے یہی ایک مثال کافی ہو گی کہ آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے علاقے میں بننے والے ایک پراجیکٹ کی وجہ سے دو لاکھ قبائلی عوام کو بے دخل کر دیا گیا ہے۔ گو کہ پولاورم پراجیکٹ ضروری ہو گا لیکن اس پراجیکٹ کی وجہ سے وہاں بسنے والے قبائلی عوام کو یکسر بے دخل کر دینا کہاں کا انصاف ہے؟ عوامی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے یہ قبائلی اور گریجن عوام اپنے جنگل، اپنی زمینیں اور اپنے معدنی ذخائر کی قربانیاں دے رہے ہیں لیکن کیا ہم ان کی قربانیوں کا پورا ہورا صلہ انہیں دے رہے ہیں؟


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  21 نومبر تا 27 نومبر 2021