ملک کے دیہاتوں تک پہنچ گئی کورونا کی وبا
ضمیر فروشوں کا طبقہ ڈوبتی سانسوں پر تجارت میں مصروف !
شہاب حمزہ
آج جب عالمی وبا کی دوسری لہر نے قہر بن کر ملک کو اپنے آغوش میں لے رکھا ہے تو ہماری تباہی کی تصویریں ملک کی سرحدوں سے نکل کر پورے عالم کے لیے نشان عبرت بن گئی ہیں۔ اب یہ وبا شہروں کے دائرہ حدود سے نکل کر گاوؤں کی گلیوں تک اپنے وجود کا مستحکم احساس دلا چکی ہے۔ شہروں میں بے بسی کا وہ نظارہ ہے جو شاید پہلے کبھی نہ تھا تو گاوؤں میں بھی دہشت کے مناظر متحرک تصویروں کے مانند رقص کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اب یہ بات بڑے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ملک کا شاید ہی کوئی ایسا گاؤں ہو جہاں کووڈ۔19 کے وجود کی شہادتیں موجود نہ ہوں۔ اب ہمارے ملک میں اضلاع کے علاوہ بلاک سطح پر اور بہت حد تک پنچایت سطح پر کووڈ ٹیسٹ اور ٹیکہ کاری کا کام کیا جا رہا ہے۔ آج چھوٹے بڑے شہروں کی جو صورت حال سامنے آ رہی ہے اور جس قدر امراض کے معاملے میں اضافہ ہو رہا ہے وہ یقیناً چونکا دینے والا ہے۔ ہر روز تقریباً ساڑھے تین لاکھ سے زائد کورونا کے کیسز ملک کے متعدد حصوں سے سامنے آ رہے ہیں۔ روزانہ کی یہ تعداد ہر دن اپنے آپ میں ایک ورلڈ ریکارڈ ہے۔ حیرت انگیز طور پر مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ جس قدر ٹیسٹ کیے جارہے ہیں اتنے ہی مریض سامنے آ رہے ہیں۔ یہ صرف ایک دو ریاستوں کی بات نہیں بلکہ ملک کے تمام حصوں میں کم و بیش ایک ہی صورت حال ہے۔ پریشانیاں لوگوں کو گھیرے ہوئے ہیں۔ مصیبتوں کی گرفت سے عام طور پر صرف انہیں آزادی مل رہی ہے جن کے سانسوں کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ کرونا پر فتح پانے والوں کی تعداد ابھی صحرا میں پانی کے چشمے کی مانند ہے۔ موت کی تعداد میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔ نہ جانے کتنے لوگ اپنے عزیزوں سے بچھڑنے کا غم جھیل رہیں ہیں اور ہر روز ہزاروں لوگوں کا نام اس فہرست میں جڑتا چلا جارہا ہے۔ اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ پوری دنیا وطن عزیز کے حال پر اشکبار ہے۔ متعدد ممالک ہماری مدد کے لیے آگے آ رہے ہیں۔ بلاشبہ انسانیت کے تقاضے پورے کیے جا رہے ہیں لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہماری ریاستی اور مرکزی حکومت کس طرح اپنے فرائض کو انجام دے رہی ہے۔ ان کی کیا تیاریاں ہیں اور یہ کس حد تک کامیاب ہیں۔ ابھی جس طرح آکسیجن کی قلت دیکھی جا رہی ہے اور جس کی کمی کے سبب جس طرح لوگوں کی سانسوں کا سلسلہ ٹوٹ رہا ہے یہ تصویریں حیرانی اور پریشانی کا باعث ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ایسے نازک حالات میں بھی ضمیر فروشوں کا ایک طبقہ نفع کی تجارت میں مصروف ہے۔ صرف اسپتالوں میں بیڈ کا مسئلہ نہیں بلکہ بیڈ پر لیٹے اپنی ڈوبتی سانسوں کے سہارے موت کا انتظار کرنے والوں کے لیے آکسیجن، دوائیاں اور دیگر طبی ضروریات کا بھی مسئلہ ہے۔ جہاں سانسوں کے سوداگر وقت اور حالات کا فائدہ اٹھا کر بے بسوں کو لوٹنے میں اپنی صلاحیتیں صرف کر رہے ہیں۔ متعدد دوائیاں، آکسیجن اور دیگر طبی ضروریات کی چیزیں کئی گنا زیادہ قیمت پر فروخت کی جا رہی ہیں۔ ایسی شکایتوں پر متعدد شہروں کے کئی میڈیکل اسٹورز کو سیل بھی کیا گیا ہے۔ میڈیکل اسٹورز کو سیل کرنا مسئلہ کا حل نہیں بلکہ وقت کا تقاضہ ہے کہ سانسوں کے سوداگروں کو حکومت اپنی گرفت میں لے جو ایسے حالات کے ذمہ دار ہیں۔ ابھی ہمارا ملک نازک حالات سے گزر رہا ہے۔ ابھی نازکی امراض کی کچھ اور بڑھنی ہے کیوںکہ وبا نے گاوؤں کا رخ کر لیا ہے۔ اب وطن کے اکثر گاوؤں میں وبا کی دہشت ہے۔ غریبی کی دہلیز پر معمولی وسائل کے ساتھ زندگی گزارنے والے اپنے ماحول میں نہ صرف کرونا کے وجود کا احساس کر رہے ہیں بلکہ اس کی تباہ کاریوں کا مشاہدہ بھی کر رہے ہیں۔ ملک کے بے شمار گاؤں وبا کے سائے میں عزیزوں کی آخری رسوم ادا کر رہے ہیں۔ گاوؤں میں بھی آکسیجن کی قلت اور ضرورت دیکھی جانے لگی ہے۔ وبا کے پھیلنے کی جو رفتار ہے اس میں مزید اضافے کے اندیشے ہیں۔ اگر گاوؤں میں بھی ڈوبتی سانسوں پر تجارت ہونے لگی تو یقیناً وہاں کے مزدور، غریب اور کسانوں کے لیے یہ وبا مزید خطرناک صورت اختیار کر لے گی۔ سانسوں کے سوداگر گاوؤں میں بھی نفع کی تجارت کے امکانات تلاش کر رہے ہیں۔ بے بس عوام آکسیجن اور دوائیوں کے چکر میں اپنی غریبی بھی قربان کرنے پر آمادہ ہو رہے ہیں۔ ذرا غور کریں کہ بڑے شہروں میں جہاں سے وسائل کا بہت مختصر سا حصہ گاوؤں تک پہنچتا ہے ان شہروں میں اگر آکسیجن کی قلت کا یہ عالم ہے تو دور دراز کے گاوؤں میں آکسیجن اور دیگر طبی ضروریات کی چیزوں کا کیا حال ہوگا یہ اندازہ لگانا بہت مشکل نہیں۔ ایسے حالات میں سانسوں کے سوداگروں کا گاوؤں تک آنا کیا رنگ لائے گا۔ گاؤں کے مفلس، مزدور اور کسانوں کی بے بسی شاید وطن عزیز کو خون کے آنسو رلا دے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ گاوؤں پر انحصار کرنے والے ہمارے ملک کے لیے یہ کسی بڑے خسارے کا پیش خیمہ ثابت ہو۔ یقینیاً یہ حالات ہماری دم توڑتی انتظامیہ کی بدنظمی کے سبب ہے۔ وبا کے اس دور میں انتظامیہ کو مزید بہتر بنانے کا خواب دیکھنا صحراؤں کی تپتی دھوپ میں کسی دیوانے کے خواب سے زیادہ نہ ہو گا۔ بلکہ ہمارے پاس جو کچھ دستیاب ہے اس کا صحیح اور ایماندارانہ استعمال وقت کی اہم ضرورت ہے اور وقت رہتے اگر سانسوں کے سوداگروں پر لگام نہ لگائی گئی تو حالات پر قابو پانا شاید ممکن نہ ہو سکے گا جو وطن عزیز کے لیے خطرے کی علامت ہے۔
***
بڑے شہروں میں جہاں سے وسائل کا بہت مختصر سا حصہ گاوؤں تک پہنچتا ہے ان شہروں میں اگر آکسیجن کی قلت کا یہ عالم ہے تو دور دراز کے گاوؤں میں آکسیجن اور دیگر طبی ضروریات کی چیزوں کا کیا حال ہوگا یہ اندازہ لگانا بہت مشکل نہیں۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 9 مئی تا 15 مئی 2021