ملک کی جیلوں میں مسلمان اور ناخواندہ قیدیوں کی کثرت

ناقص نظام انصاف کے سبب بعض قیدی 14 سال بعد بے قصور ثابت ہوئے۔دعوت کی خاص رپورٹ

افروز عالم ساحل

سال 1994 کی بات ہے، پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ سرجیت سنگھ برنالہ لکھنؤ گئے ہوئے تھے۔ اس شہر سے ان کی پرانی یادیں وابستہ تھیں۔ اسی شہر سے تعلیم حاصل کر کے انہوں نے قانون کی ڈگری بھی حاصل کی تھی۔ سابق گورنر اور وزیر اعلیٰ رہے برنالہ 24 گھنٹے سکیورٹی میں گھرے رہنے سے اکتا گئے تھے۔ وہ اکیلے کھلی فضا میں سانس لینا چاہتے تھے اور طالب علمی کی زندگی کی پرانی یادوں کو تازہ کرنا چاہتے تھے۔ شہر کے امین آباد کے بازار میں بغیر سکیورٹی اہلکاروں کے وہ گھومنے نکلے ہی تھے کہ بس پولیس والوں کو ان پر ’دہشت گرد‘ ہونے کا شبہ ہوا اور وہ ان کا پیچھا کرنے لگے۔ کچھ ہی دیر بعد انہوں نے خود کو تھانے میں پایا جہاں ان سے شدید تفتیش کی جا رہی تھی۔ چونکہ پولیس اہلکاروں کو ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں مل پائے تھے، اس لیے ان سے دو مقامی لوگوں کی ضمانت مانگی گئی۔ برنالہ نے پولیس کو بتایا کہ لکھنؤ میں وہ صرف ملائم سنگھ یادو کو پہچانتے ہیں جو اس وقت اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ تھے۔ کئی گھنٹوں کی تفتیش کے بعد بالآخر پولیس نے انہیں چھوڑ دیا۔ برنالہ نے یہ واقعہ اپنی کتاب ’اسٹوری آف این اسکیپ‘ میں لکھی ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ برنالہ تعلیم یافتہ تھے اور انہوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری بھی لی تھی اس لیے پولیس والوں نے انہیں چھوڑ دیا مگر ہندوستان کی مختلف جیلوں میں بند قیدی اتنے خوش قسمت نہیں ہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ چھوٹے موٹے معمولی معاملات میں زیادہ تر لوگوں کو نہ تو ذاتی بانڈ پر رہا کیا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں وقت پر ضمانت مل پاتی ہے۔ زیادہ تر قیدیوں کے تعلیم یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے انہیں یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ ان کے خلاف کون سی دفعات درج کی گئی ہیں جس کی وجہ سے انہیں اپنے لیے وکیل رکھنے یا ضمانت کا بندوبست کرنے میں مشکلیں پیش آتی ہیں۔ جیلوں کی بڑھتی آبادی کی یہ ایک بڑی وجہ ہے۔

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق جیلوں میں قید 70 فیصد قیدی یا تو ناخواندہ ہیں یا پھر زیادہ سے زیادہ نویں جماعت تک پڑھے ہوئے ہیں۔ 21.7 فیصد نے میٹرک یا بارہویں تک تعلیم حاصل کی ہے۔ تو وہیں ان جیلوں میں 6.4 فیصد گریجویٹ، 1.7 فیصد پوسٹ گریجویٹ قیدی بھی ہیں۔

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق جیلوں میں گریجویٹ قیدیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جس طرح سے پڑھے لکھے نوجوانوں کی گرفتاریاں ہوئی ہیں یا ہو رہی ہیں، اس سے اس اعداد و شمار میں مزید اضافہ ہونے کے آثار نظر آرہے ہیں۔ 2019 کی جیل رپورٹ اس کی حقیقت بخوبی بیان کرے گی۔

کیا ہے ملک میں جیلوں کی حالت؟

ہندوستان کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ان قیدیوں میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو معاشی طور پر کمزور ہیں یا معاشرے کے پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ جیلوں میں درج شدہ ذات  (شیڈیولڈ کاسٹ)، درج شدہ قبائل (شیڈیولڈ ٹرائب)، پسماندہ طبقات اور اقلیتی طبقوں سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق ہندوستان کی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ تعداد میں  قیدی رکھے گئے ہیں۔ سال 2018 کی رپورٹ بتاتی ہے کہ  3،96،223 قیدیوں کو ہندوستان کی 1339 جیلوں میں رکھا جاسکتا ہے، لیکن 31 دسمبر، 2018 تک کے دستیاب اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ جیلوں میں قیدیوں کی تعداد 4،66،084 ہے۔ ان میں سے 1،39،488 قیدی سزا تافتہ ہیں۔ وہیں 3،23،537 یعنی 69.4 فیصد لوگ ابھی زیر سماعت ہیں۔ صرف شک کی بنیاد پر 2،384 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ وہیں 675 افراد جیلوں میں ایسے موجود ہیں، جن کے بارے میں جیل انتظامیہ کو یہ نہیں معلوم کہ وہ سزا یافتہ ہیں یا زیر سماعت یا پھر زیر حراست۔

انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم ‘اوریجین’ سے وابستہ شارق ندیم کا کہنا ہے، "ہندوستان قیدیوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ ہندوستان میں جیل کی آبادی پچھلے دس سالوں میں مستقل طور پر بڑھ رہی ہے۔”

جیلوں میں اقلیتی طبقہ کے افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کہتے ہیں کہ ملک کے کل قیدیوں میں تقریباً 27 فیصد قیدی اقلیتی طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ جبکہ ملک کی آبادی میں ان کا حصہ صرف 20 فیصد ہے۔ واضح رہے کہ اس میں مہاراشٹر کے اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔ این سی آر بی کے مطابق سال 2018 میں مہاراشٹر کی پھڈنویس حکومت نے مذہب کی بنیاد پر این سی آر بی کو ڈیٹا فراہم نہیں کرایا۔

جیلوں میں بند مذہبی اقلیتوں کی بات کی جائے تو مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور ہر سال ان کی آبادی جیلوں میں بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ دسمبر 2018 تک 19.7 فیصد مسلمان جیلوں میں بند ہیں۔ جبکہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ملک کی آبادی میں مسلمانوں کا حصہ 14.2 فیصد ہے۔

* اس میں حکومت مہاراشٹر کے اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔

عیسائی برادری کا 3.2 فیصد جیلوں میں بند ہیں جبکہ ہندوستان کی آبادی میں ان کا حصہ 2.30 فیصد ہے۔

* اس میں حکومت مہاراشٹر کے اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔

سکھ برادری کا 3.6 فیصد لوگ جیلوں میں بند ہیں، جبکہ آبادی کے لحاظ سے ملک میں ان کی آبادی صرف 1.72 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ دیگر اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے 1.08 فیصد لوگ ہندوستان کی جیلوں میں بند ہیں۔

* اس میں حکومت مہاراشٹر کے اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔

حال ہی میں شہریت ترمیمی ایکٹ پر مہاراشٹر میں آئی جی کے عہدے سےاستعفیٰ دینے والے آئی پی ایس عبد الرحمٰن ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں کہتے ہیں، ہمارے ملک کا کریمنل جسٹس سسٹم ہی کہیں نہ کہیں دلتوں، قبائلیوں اور اقلیتوں کے تئیں متعصب ہے۔ میرے علم میں عدلیہ میں اوپری سطح پر ابھی بھی ریزرویشن موجود نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں اپر کاسٹ کا غلبہ ہے۔

وہ آگے کہتے ہیں، ہمیشہ جیل ریفارم کی بات ہوتی ہے، لیکن ہوتا کچھ نہیں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ قیدیوں کے بطور قیدی ان کے جو حقوق ہیں وہ بھی انہیں حاصل نہیں ہے۔ جیل میں ان کے حقوق کی پامالی کھلے عام کی جارہی ہے۔

جیل ریفارم پر کام کر رہے انسانی حقوق کارکن محمد عامر خان کا کہنا ہے کہ جیلوں میں اقلیتوں کی بڑھتی آبادی کے پیچھے کافی حد تک سسٹم ذمہ دار ہے۔ امریکہ میں پولیس کا جو رویہ سیاہ فام لوگوں کے ساتھ ہے، اس سے بھی کئی گنا خراب رویہ ہمارے ملک کی پولیس کا یہاں کے  اقلیتوں بلکہ خاص طور پر مسلمانوں، دلتوں اور آدیواسیوں کے ساتھ ہے۔ ان پر کارروائی کرتے وقت ہماری پولیس انسانیت کو بالکل ہی نظرانداز کردیتی ہے۔

عامر مزید کہتے ہیں، ایک تو انتظامیہ میں اقلیتوں کی حصہ داری بہت کم ہے، دوسرا پولیس کی ذہنیت کا بھی سوال ہے۔ اگرچہ انتظامیہ میں چند اچھے لوگ بھی موجود ہیں۔ محمد عامر جیلوں میں اقلیتوں کی بڑھتی آبادی کے پیچھے تعلیم کی کمی، معاشی اور معاشرتی پسماندگی کو بھی ایک اہم وجہ مانتے ہیں۔

واضح رہے کہ سسٹم کے ظلم کے شکار ہوئے محمد عامر خان بھی بطور انڈرٹرائل قیدی جیل میں رہ چکے ہیں۔ انہیں بے قصور ثابت ہونے میں 14 سال لگ گئے۔ شاید عامر کا ملک میں ایسا پہلا معاملہ ہوگا، جس میں دہلی پولیس معاوضہ ادا کرنے پر مجبور ہوئی۔ قومی انسانی حقوق کمیشن نے سرکاری مشینری کے ذریعہ غلط قانونی کارروائی کرنے پر انہیں دہلی پولیس سے5 لاکھ روپے معاوضہ دلوایا۔ عامر فی الحال سماجی کارکن ہرش مندر کی تنظیم ’امن برادری’ سے وابستہ ہیں۔

اتر پردیش کی جیلوں میں ہیں سب سے زیادہ مسلمان

اترپردیش میں سب سے زیادہ مسلمان، درج شدہ ذات (ایس سی) اور دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) سے تعلق رکھنے والے لوگ جیلوں میں قید ہیں۔

31 دسمبر 2018 تک دستیاب اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اتر پردیش کی مختلف جیلوں میں 27،543 مسلمان قید ہیں۔ وہیں ، 24،503 درج شدہ ذات (ایس سی) اور دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کے 44،228 قیدی اتر پردیش کی مختلف جیلوں میں بند ہیں۔

اگر ان اعدادوشمار کو ملا کر بات کی جائے تو اتر پردیش کے مختلف جیلوں میں بند قیدیوں کی کل آبادی کا 26.5 فیصد قیدی مسلمانوں تو وہیں 66.1 فیصد قیدی درج شدہ ذات اور دیگر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔

اس سلسلے میں اتر پردیش کی سماجی و سیاسی تنظیم رہائی منچ کے جنرل سکریٹری راجیو یادو کا کہنا ہے کہ جب سے اترپردیش میں بی جے پی حکومت برسر اقتدار آئی ہے، جیلوں میں کیا، ہر جگہ مسلمانوں، دلتوں اور پسماندہ طبقات کے ساتھ سرکاری ظلم بڑھا ہے۔ اب جس ریاست کا  وزیر اعلی ہی ’ٹھوک دو …’ اور اب ‘بدلہ لیں گے …’ جیسی زبان کا استعمال کر رہا ہو، اس ریاست سے آپ امید کر بھی کیا سکتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ اتر پردیش میں صرف ہندو یووا واہینی، آر ایس ایس اور بی جے پی سے وابستہ افراد کے علاوہ صرف ٹھاکر ذات سے تعلق رکھنے والے افراد ہی محفوظ ہیں۔ اس ریاست میں باقیوں کی حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔

ان کا مزید کہتے ہیں، پہلے دن سے ہی یوپی کی حکومت اپنے مخصوص سیاسی ایجنڈے کے تحت کام کر رہی ہے اور یہاں مسلسل مسلمانوں، دلتوں اور پسماندہ طبقات کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ان کے خلاف خوب مقدمے درج ہوئے ہیں اور جیلوں میں ڈالا گیا ہے۔

واضح رہے کہ اتر پردیش کی 71 جیلوں میں 58،914 قیدیوں کورکھا جاسکتا ہے، لیکن 2018 کے آخر تک دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 1،04،011 قیدی جیلوں میں ہیں۔

زیر سماعت قیدیوں سے متعلق سپریم کورٹ کی ہدایت

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق ہندوستان کی جیلوں میں ان کی کیپیسٹی سے کہیں زیادہ قیدیوں کو رکھا گیا ہے اور ان میں سے بیشتر زیر سماعت قیدی ہیں۔

اسی وجہ سے سپریم کورٹ نے 4 ستمبر 2014 کو ایک اہم فیصلے میں ملک کے تمام ضلعی اور سیشن ججوں کو خصوصی ہدایت دی کہ وہ جیلوں کا معائنہ کریں اور ایسے قیدیوں کو ذاتی مچلکے پر رہا کریں جن کا معاملہ ایک طویل عرصے سے زیر غور ہے۔ اور انہوں نے جیل میں ممکنہ سزا کا آدھا وقت گزار دیا ہے۔

وہیں سی آر پی سی کی 436 اے کے تحت اس ضمن میں یہ شرائط موجود ہیں کہ اگر کسی قیدی نے مقدمے کی سماعت کے دوران ممکنہ سزا کا آدھا وقت گزار گیا ہے تو اسے ذاتی مچلکے پر ضمانت دی جاسکتی ہے۔ لیکن اس شق کے باوجود طویل عرصے سے کھینچتی ہوئی قانونی عمل کی وجہ سے زیر سماعت قیدی برسوں برس جیلوں میں بند رہتے ہیں اور انہیں راحت نہیں مل پاتی ہے۔


 

حال ہی میں شہریت ترمیمی ایکٹ پر مہاراشٹر میں آئی جی کے عہدے سے استعفیٰ دینے والے آئی پی ایس عبد الرحمن ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں کہتے ہیں، ہمارے ملک کا کریمنل جسٹس سسٹم ہی کہیں نہ کہیں دلتوں، قبائلیوں اور اقلیتوں کے تئیں متعصب ہے۔ میرے علم میں عدلیہ میں اوپری سطح پر ابھی بھی ریزرویشن موجود نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں اپر کاسٹ کا غلبہ ہے۔