فاروق طاہر۔حیدرآباد
34سال کے طویل انتظاراور تعلیمی میدان میں بہت زیادہ شکست و ریخت کے بعد 29جولائی2020کواس صدی کی پہلی ملک کی تعلیمی پالیسی کو منظوری دے دی گئی ۔پالیسی سازوں کے دعوؤں کے مطابق یہ ہمارے تعلیمی نظام کو نئی بلندیوں پر لے جائے گی۔ طلباء و اساتذہ، والدین اور تعلیم سے محبت رکھنے والوں کوجہاں اس پالیسی سے کئی توقعات وابستہ ہیں وہیں چندباتیں عوامی اضطراب اور بے چینی کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ اول تعلیم کو آزاد ،قابل رسا اور آفاقی بنانے کے بین الاقوامی نظریوں پر قدغن لگاتے ہوئے اسے پابندیوں میں جکڑدیا گیاہے۔دوم تعلیمی مواد کو ایک خاص مذہبی فکر دینے اور تاریخ کو مسخ کر تے ہوئے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔سوم ،تعلیمی میدان کے دروازے منافع خور استحصالی تاجرانہ طاقتوں کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔چہارم ،ملک میں بسنے والے درج فہرست طبقات،درج فہرست قبائل دیگرپسماندہ طبقات بالخصوص اقلیتوں کے تعلیمی حقوق کا کہیں بھی خاص تذکرہ نہیں ملتا جیسا کہ اس سے پہلے کی تعلیمی پالیسیوں1968کے کوٹھاری کمیشن،1986کی قومی تعلیمی پالیسی،اس کاترمیم شدہ لائحہ عمل اور 1992کے پروگرام آف ایکشن میں واضح طور پردیکھنے کو ملتا ہے۔
دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ پالیسی بالکل’’نئی‘‘ ہے ۔ جب کہ حقیقتاً یہ اپنی پیش رو پالیسیوں سے برائے نام مختلف ہے ۔ اس پالیسی سے تنازعات کو مزید فروغ ملنے کے اندیشے ہیں۔1954کے یوجی سی چیئرمین سی ڈی دیشمکھ نے تعلیمی نقشے کے متعلق حکمراں جماعت کے رویوں کو اپنے ایک بیان سے یوں واضح کیا تھا ’’ہم تعلیم یافتہ بیروزگاروں کی تعداد کو محدود کرنے کے لیے تعلیم کو ہی محدود کرنا چاہتے ہیں
ملک کی تمام تعلیمی پالیسیاں سوائے یونیورسٹی ایجوکیشن کمیشن 1948کے(جس کے چیئرمین نامور ماہرتعلیم ڈاکٹر سروے پلی رادھا کرشنن تھے) مجاہدین آزادی اور سماجی مصلحین کے آرزوؤں،ارمانوں اورخوابوں کے مغائر ہے۔ سی ڈی دیشمکھ کا اشارہ اسی تعلیمی ڈیزائن کی جانب ہے۔ملک کے تعلیمی نظام پر سب سے بڑامہلک حملہ قومی تعلیمی پالیسی 1986کے ذریعے کیا گیا جس سے تعلیمی نجی کرن(privatisation) اور تعلیمی تجارت کی راہیں ہموار ہوگئیں۔واجپئی حکومت کے دوران تعلیم کو فرقہ وارنہ رنگ دینے کی کوششیں تیز تر ہوگئی تھیں۔ واجپئی حکوت کی جانب سے کمار منگلم اور مکیش امبانی جیسے صرف دو صنعت کاروں پرمشتمل ایک ایجوکیشن کمیٹی کی تشکیل اس بات کاواضح اشارہ تھا کہ ہمارے ملک میں تعلیم اور ماہرین تعلیم کی کمی ہے یا پھر ہم انہیں درخور اعتناء ہی نہیں سمجھتے ۔ اگر ایسا نہیں تھاتو پھر کیوں ایک ایسے ملک میں جسے ’’قدیم علمی خزانوں سے مالامال ملک‘‘(Rich Ancient Knowledge Country)کہاجاتا ہے وہاں تاجروں کو تعلیمی کمیٹی کے اراکین کے طور پر مقررکیا گیا۔تعلیمی تجارت اور صنعت کاری کی راہیں ہموار کرنے کے دعوؤں کو مزید تقویت اس وقت مل گئی جب ہندوستان تجارت اور خدمات کے معاہدے،جی اے ٹی ایس(General Agreement on Trade and Services-GATS)پر دستخط کرنے والے ممالک میں شامل ہوگیا۔اس معاہدے کا مقصد ملک میں بشمول ایجوکیشنل فارانٹرنیشنل ٹریڈ کے تمام سروس سیکٹرس کے دروازوں کو کھول دینا تھا۔حالیہ نئی قومی تعلیمی پالیسی(NEP-2020)بھی اسی معاہدے کے مطابق تیار کی گئی ہے۔ہمیں اپنی روایات سے وابستگی کے لیے 24مارچ 1930کو کلکتہ یونیورسٹی کے کانووکیشن میں سر آشوتوش مکھرجی کے کہے گئے اس قول کودہرانے کی ضرورت ہے ’’یونیورسٹیز کو مضامین،درس و تدریس اور تحقیق کے طریقوں میں بیرونی کنٹرول سے مکمل آزاد ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیں ہمیں دیگر سمتوں سے پھینکے جانے والے جالوں ، حکومت کے سیاسی پھندوں، مذہبی اداروں کی مقدس زنجیروں سے تعلیم کوآزاد رکھنے کے لیے یکساں طورپر ہوشیار رہنا چاہیے۔‘‘
حکم راں افراد کاتعلیمی پالیسیوں کے ذریعے تاریخ کو توڑمروڑ کر پیش کرنے کا طریقہ ملک کے لیے بہت زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ثابت ہورہا ہے۔ معروف مورخ ایرک ہوبس بان نے 1992 میں بڈاپسٹ سنٹرل یونیورسٹی میں کہا تھا ، ’’تاریخ کا پیشہ طبیعیات کی طرح مضر نہیں ہے۔ لیکن اب میں سمجھ گیا ہوں کہ تاریخ بھی خطرناک ہوسکتی ہے۔ تاریخ کبھی بھی بم فیکٹری میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ان باتوں کا ہم آج مشاہدہ کررہے ہیں۔ہماری روزمرہ کی زندگی، رویوں، لباس اور ٹیکنالوجی کی جدت طرازیوں کے باوجود نوجوان نسل مسخ کردہ تاریخ پڑھنے سے جہالت، قدامت پرستی، بنیادپرستی،جنونی وجارحانہ وطن پرستی، تعصب اور فرقہ پرستی کی جانب جارہی ہے۔‘‘ نئی قومی تعلیمی پالیسی سے قدیم اقدار، روایات اور قدیم زبانوں پر بہت سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جس سے انحطاط کی راہیں وا ہوں گی۔ عظیم اسکالر ایشور چند ودیا ساگر جو خود سنسکرت کے ایک مایہ ناز عالم تھے انہوں نے جدید انگریزی تعلیم کی حمایت کی تھی وہ ویدانت اور سمکھیا جیسے فلسفے کے کٹر ناقدتھے۔ ملک کے نشاۃ ثانیہ میں کلیدی کردار انجام دینے والے اور ملک و قوم کو عہدقدیم و عہد وسطیٰ کی تاریکیوں سے نکال کرعہد جدید کی روشنیوں سے متعارف کرنے والے ایسے عظیم رہنماؤں کا اس پالیسی میں کہیں تذکرہ نہیں ملتا۔سائنس اور ٹیکنالوجی کو غیر سائنسی انداز میں مذہب سے جوڑ کرتعلیم کے میدان میں نئی قومی تعلیمی پالیسی کے ذریعے فسطائیت کی راہیں ہموار کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں۔ آج جمہوری،سائنسی و سیکولر تعلیم، انسانی تمدن و تہذیب کی بقاء و تحفظ کے لیے وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جمہوری فکر کے حامل تعلیم پسند تمام افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسی تعلیمی پالیسی کے خلاف متحد اور ثابت قدم رہیں۔
تعلیم کے ذریعے اقتدار کا حصول
بی جے پی حکومت کی جانب سے حالیہ منظور کردہ قومی تعلیمی پالیسی کی تدوین کا عمل یوں تو اس کے 2014 میں برسر اقتدار آنے کے بعد سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ لیکن ملک کے طول و عرض میں ایک مخصوص نظریے کو فروغ اور رائج کرنے کی نیت سے آرایس ایس کی تعلیمی منصوبہ بندی کا عملی طور پر آغاز گولوالکر کے 1944 میں قائم کردہ گیتا اسکول سے ہوتا ہے۔ 29 جولائی 2020 کو بی جے پی حکومت کی مرکزی کابینہ کی جانب سے منظور شدہ تعلیمی پالیسی دراصل آر ایس ایس کے 100سال سے پردہ اخفاء میں چھپے تعلیمی منصوبوں کو آشکار کرتی ہے۔ یہ آرایس ایس کے اپنے فلسفے، نظریات پر مضبوطی سے جمے رہنے، اپنی فکر کے حامل افراد کی تیاری اور ذہن سازی کے ایک سو سالہ خاموش محنت اور جستجو کا نتیجہ ہے۔ اس مشقت نے نہ صرف اس کو اقتدار بلکہ اپنے ایجنڈے اور نظریات کو ملک پر مسلط کرنے کا بھی سنہری موقع فراہم کردیا ہے۔ بی جے پی کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے میں آر ایس ایس کے قائم کردہ تعلیمی اداروں نے کلیدی کردار انجام دیا ہے۔حصول اقتدار میں متعد د ہتھکنڈوں کی ناکامی پر آرایس ایس نے مدرسوں اور تعلیمی اداروں کے ذریعے اپنے نظریات کے پرچار اور فکر سازی کی جانب توجہ مرکوز کی۔اپنی مخصوص فکر کے حامل تعلیمی اداروں کے قیام کے ذریعے ذہن سازی کے عمل نے بی جے پی کے حصول اقتدارکے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کردیا ہے۔ آج ملک بھر میں آر ایس ایس کی ذیلی تعلیمی تنظیم ودیا بھارتی کے تقریباً 30000 اسکول کام کرتے ہیں جہاں 4 کروڑ 50 لاکھ طلبہ زیر تعلیم ہیں۔
آزاد ہندوستان کی تعلیمی پالیسیاں اور مسلمان
اقلیتوں کی تعلیمی ترقی کے لیے آزادی ہند کے بعد ہی کوششوں کا آغاز کردیا گیا تھا۔ 1970 کے اواخر میں قومی تعلیمی پالیسی 1968(کوٹھاری کمیشن) قومی تعلیمی پالیسی1986 اور اسی پالیسی پر عمل آوری کے لیے ترمیم شدہ عملی پروگرام جیسے اقدامات شامل ہیں۔ان پالیسیوں نے ایسے اقدامات کی پرزور سفارش کی جو ’’تعلیمی طور پر پسماندہ اقلیتوں بشمول مسلمانوں کو سماج کے دیگر طبقات کی طرح قومی ترقیاتی سرگرمیوں میں برابرکا حصہ فراہم کرسکیں۔
کئی طویل مدتی اور قلیل مدتی پروگراموں کو مثبت اقدامات کی شکل میں شروع کیا گیا تھا۔ اقلیتوں کی بہبود اور تعلیمی حالت کو بہتر بنانے کے لیے وزیر اعظم کا پندرہ نکاتی پروگرام (1983) تعلیمی طور پرپسماندہ اقلیتوں کے لیے مخصوص علاقائی پروگرام، دینی مدارس کی جدید کاری، مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن اسکیم (1989) کتابوں کی مفت فراہمی، اسٹیشنری اور میرٹ اسکالرشپ کی فراہمی اس کے علاوہ کمرزور طبقات کے لیے ماقبل امتحانات کوچنگ(Pre Examination Coaching) اسیکم جیسے اقدامات شامل ہیں۔
یہ بات باعث تشویش ہے کہ آزادی ہند سے آج تک ان پالیسیوں، پروگرام اور اسکیمات کے (بالخصوص مسلم اقلیت کی بہتری کے لیے) نفاذ میں حکومت نے کبھی نیک نیتی اور خلوص دل سے کام نہیں لیا۔ پروگرامس، پالیسیاں اور اسیکمات آتی رہیں لیکن پالیسیوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی پسماندگی (Marginalisation) میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ قومی اقلیتی کمیشن کے مطابق مذہبی اقلیت(مسلمان، کرسچن، سکھ، بودھسٹ اور جین) ملک کی کل آبادی کا 18فیصد ہیں۔ اقلیتی طبقات میں مسلمان سب سے بڑی اکثریت کا درجہ رکھتے ہیں اور2001 کی مردم شماری کے مطابق ان کی آبادی 13.4فیصد ہے ۔سب سے بڑی اقلیت ہونے کے باوجود تمام مذہبی اقلیتوں میں مسلمانوں کا شرح خواندگی سب سے کم ہے۔اقلیتوں کی خراب تعلیمی صور تحال نہ صرف حکومت کی جانب سے وضع کردہ ناقص پالیسیوں، بلکہ اقلیتوں کی پالیسیوں سے لاعلمی، پالیسی کا محدود فہم یا فقدان، فوائد سے عدم آگہی کے علاوہ حکومت کا اسکیمات کے نفاذ میں نیک نیتی اور مثبت اقدامات سے گریز کا نتیجہ ہے۔
مسلمانوں کی تعلیمی، سماجی، معاشی پسماندگی اور محرومیوں کی داستان
آزادی کے بعد مسلمانوں پر کی جانے والی متعدد تحقیقاتی رپورٹس کے نتیجے میں ان کی تعلیمی پسماندگی کا انکشاف ہوا۔ 1990میں منڈل کمیشن تحریک کے نتیجے میں نچلے اور اعلیٰ طبقات کے مابین بڑھتے فرق کے متعلق متعدد رپورٹس کے منظر عام پر آنے کے بعدحکومت نے اقلیتوں کی ترقی وبہبود کی جانب پیش قدمی کی کوشش کی لیکن یہ مسئلہ 2001کے بعد گرماگرم
بحث اورسیاسی قائدین کی توجہ کا مرکز بنا۔ آزادی کے بعد بالکل پہلی مرتبہ 2001میں مذہبی بنیادوں پر مردم شماری کا کام انجام دیا گیا تھا جس نے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی اور بدحالی کو آشکار کر دیا۔ 2001 کی مردم شماری نے پالیسی ساز اداروں اور اسے نافذ کرنے والی وزارتوں کی دیانت اور اخلاص کی قلعی بھی کھول کر رکھ دی۔ ان حقائق کے منظر عام پر آنے کے بعد نیم دلی سے سہی مسلم اقلیت کی تعلیم کے حق میں چند اقدامات کیے گئے۔2006 میں سچر کمیٹی کی تشکیل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ سچرکمیٹی رپورٹ ہندوستانی مسلمانوں کی پسماندگی کے لیے ذمہ دار حکومتوں کی مجرمانہ غفلت اور منظم طریقے سے انہیں قومی دھارے سے کاٹ دینے کا سرکاری اعتراف ہے۔ اس کمیٹی نے مسلمانوں کو ہندوستان کا سب سے پسماندہ طبقہ تسلیم کیا ہے۔ سچر کمیٹی کی پیش کردہ سفارشات پر 14سال کا طویل وقت گزرجانے کے باوجود اس پر عمل آوری کی خلوص دل اور نیک نیتی سے کوشش نہیں کی گئی۔نیم دلی سے جو اقدامات کیے گئے ان میں 1983 کے وزیر اعظم کے 15 نکاتی پروگرام کی تجدید کے علاوہ وزیر اعظم کے زیر نگرانی مسلمانوں کی سماجی، معاشی اور تعلیمی حالات کا جائزہ و بہتری کے لیے اعلیٰ سطحی کمیٹی کا قیام بھی شامل ہے۔ 2004 میں آرڈیننس کے ذریعے ایک مرکزی ادارہ نیشنل کمیشن فارمیناریٹی ایجوکیشنل انسٹیٹویشنس(NCMEI) کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ اس ادارے کے دائرے اختیار میں مرکز ی وریاستی حکومتوں کو مسلم اقلیت کی تعلیم سے متعلق کسی بھی معاملے جیسے ان کی پسند کے تعلیمی اداروں کے قیام و انتظام کے امور پر مشورہ دینا شامل ہے۔ اس ادارے کی فعالیت آج بھی شکوک کے دائرے میں ہے ۔اب تو شدت پسندوں نے اسے بند کرنے کا بھی مطالبہ کر دیا ہے۔ 2006 میں نیشنل مانیٹرینگ کمیٹی فار میناریٹی ایجوکیشن (NMCME) کی تشکیل نو عمل میں لائی گئی۔ اس کمیٹی کا کام اقلیتوں کی تعلیم سے متعلق امور کی تکمیل و مسلسل نگرانی تھا۔ 2006 میں NCMEI کے اختیارات میں اقلیتوں کے لیے خصوصی وزرات، وزارت برائے اقلیتی امور (Ministry of Minority Affairs) کے قیام سے اضافہ کیا گیا۔ یہ وزارت اقلیتی طبقات کی فلاح و بہبود کی منصوبہ بندی، منصوبوں پر عمل آوری (کوآرڈینیشن) اور ترقیاتی پروگرام جیسے کلیدی کام انجام دیتی ہے۔ حکومت ہند نے پسماندہ اضلاع جہاں خواتین کی خواندگی قومی اوسط سے کم اور جہاں صنفی امتیاز وسیع پایا جاتا ہے ان علاقوں میں درج فہرست طبقات (SCs) درج فہرست قبائل (STs) دیگر پسماندہ طبقات (OBCs) اور اقلیتی طبقات سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کے لیے کستوربا گاندھی بالیکا ودیالیہ کے نام سے رہائشی اسکولوں کا قیام عمل میں لایا۔حکومت کے ان تمام اقدامات و مداخلت کے باوجود مسلمانوں کی تعلیمی پیشرفت ممکن نہیں ہوسکی۔ NCMEI-2004 اور نیشنل کمیشن فار میناریٹی، وزارت اقلیتی امور (2006) کے قیام کے ہی بعد اقلیتوں کے تعلیمی مسائل قومی سطح پر بحث کا موضوع بنے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت اقلیتوں کی تعلیم، روزگار اور فلاح وبہبو د پر مبنی رپورٹس تک عام شہریوں کی رسائی ممکن ہوئی۔ ان حقائق کی روشنی میں مسلمانوں کی پسماندگی کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کا حل پیش کیا جا سکتا ہے تاکہ مسلمان ملک کے قومی ترقی کے اصل دھارے میں شامل ہو سکیں۔
مسلمانوں میں خواندگی کا فیصد
خواندگی کی شرح کو تعلیمی ترقی کی پیمائش کا بنیادی جزو کہاجاتا ہے۔ مردم شماری 2001 کی پورٹ کے مطابق گزشتہ 60 برسوں کی کوششوں کے باوجود تعلیم تک مسلمانوں کی رسائی تسلی بخش سطح تک نہیں پہنچی سکی ہے۔ ہندوستان میں مسلم اقلیت کی شرح خواندگی قومی خواندگی کی شرح (%65.4) کے مقابلے میں (%59.1) پائی گئی ہے۔ مختلف مذہبی گروہوں کی شرح خواندگی سے اگر مسلمانوں کا موازنہ کیا جائے تو ان کی شرح خواندگی سب سے کم ہے۔ مختلف مذاہب، ہندوؤں میں %65.1، مسلمان %59.1، عیسائی%80.3، سکھ 69.4، بدھسٹ72.7 اور جینیوں میں%94.1 خواندگی کی شرح پائی گئی ہے۔ دیہی اور شہری شرح خواندگی کے معاملے میں مختلف مذاہب کے درمیان بہت زیادہ فرق دیکھا گیا ہے جسے Rural-Urban Differential Index کے ذریعے ظاہر کیا جاتا ہے۔ دیہی اور شہری خواندگی کی شرح میں تفاوت سب سے زیادہ ہندوؤں اور سب سے کم جین مت میں پایا گیا جب کہ مسلمانوں کی شرح خواندگی دیہات اور شہروں دونوں جگہوں پر دیگر مذاہب کے مقابلے میں تشویشناک حد تک کم پائی گئی ہے ۔ ایک سطح سے دوسری سطح تک کامیاب منتقلی کو (Transition Rate )کہاجاتا ہے اور جسے فیصد میں ظاہر کیا جاتا ہے۔ آسان منتقلی سے نظام کے معیار اور قابلیت کا اظہار ہوتا ہے۔ مسلم طلبہ کی پرائمری سطح سے اپر پرائمری اور اپر پرائمری سے سیکنڈری سطح تک منتقلی نہ صرف کم ہے بلکہ یہ تعداد بہت تیزی سے کم ہوتی جارہی ہے۔ سچر رپورٹ 2006 کے مطابق مسلم طلبہ کا پرائمری سطح کا فیصد 60.9 تھا جو اپرپرائمری میں گھٹ کر 40.5 اور سیکنڈری سطح پر تشویشناک حدتک گھٹ کر 23.9 ہو گیا۔ سچر کمیٹی کے مطابق مسلمانوں کے %40 بچے ساتویں جماعت کے بعد اسکول چھوڑدیتے ہیں ۔یہ بات جان کر بھی حیرت ہوگی کہ تقریباً %80 طلبہ بارہویں جماعت کے تکمیل کے بعد اعلیٰ تعلیم کی جانب رخ ہی نہیں کرتے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ طلبہ جاتے کہاں ہیں اور کیا کرتے ہیں؟حقیقت یہ ہے کہ یہ بچے مختلف معاشرتی وجوہات جیسے اپنے خاندان کی مدد (کنبہ پروری) اسکولوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کی عدم دستیابی، والدین کے روزگار کی تلاش میں گھر سے باہر رہنے کی وجہ اپنے بھائی بہنوں کی دیکھ بھال کرنے یا پھر کم سنی میں شادی کی وجہ سے کم عمر ی میں ہی اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ مسلمان لڑکیوں کی شرح تعلیم بھی تشویشناک حد تک کم ہے۔ 2001 کی مردم شماری میں مسلمان لڑکیوں کا شرح خواندگی 50.01 تھا اور 2011 کی مردم شماری میں یہ 50.03 تک پہنچا یعنی دس سالوں میں صرف0.02 فیصد کا ہی اضافہ ہوا۔ کوئی بھی قوم اپنی خواتین کی ترقی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی۔ اعلیٰ تعلیم میں بھی مسلمانوں کی شرح بدترین حد تک تنزلی کا شکارہے۔ نیشنل سیمپل سروے آفس (NSSO) کے 66 ویں مرحلے(2009-2010) کے اعداد و شمار کے مطابق مسلمانوں کی اعلیٰ تعلیم کا گراس انرولمنٹ تناسب(GER)،%11.3ہے جو دیگر اقلیتی طبقات سے بہت زیادہ کم ہے۔ جین مت میں GER کا تناسب 54.6 عیسائیوں کا 31.3، سکھوں کا23.1 اور بدھ مت والوں کی اعلیٰ تعلیم کا گراس انرولمنٹ تناسب 17.9ہے۔ مختصر یہ کہ حکومتوں کے معاندانہ رویوں، کوتاہیوں اور نیک نیتی کے فقدان نے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی میں اضافہ کیا ہے۔ مسلمانوں کی سیاسی خوشامدی کاالزام لگانے والوں کو حکومت کی مختلف رپورٹس اور کمیشنوں کے اعداد وشمار کی روشنی میں معافی مانگنا چاہیے کیونکہ کبھی مسلمانوں کی خوشامد نہیں کی گئی بلکہ ہر بار ان کا استحصال ہی ہوا ہے۔ سچر کمیٹی رپورٹ کی پیش کردہ چشم کشا حقائق کی روشنی میں ملک بھر میں اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کی تعلیمی پسماندگی کے ازالے کے لیے از سر نو غور کرنے اور تعلیمی منصوبہ بندی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
مسلمانوں کی تعلیمی بہتری کے جھوٹے دعوے
دنیا کے سب بڑے جمہوری ملک ہندوستان میں بسنے والی سب سے بڑی اقلیت (مسلمانوں) کی تعلیمی فراہمی کو یقینی بنانے کی غرض سے قومی پالیسیوں 1968, 1986 اور بالخصوص 1992میں متعدد مراعات و تیقنات کو شامل کیا گیا۔ ان پالیسیوں کے ذریعے مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال کو بہتر بنانے، مختلف پروگرامس اور مدرسوں کی جدید صورت گری کے لیے اسکیمات کی تجاویز پیش کی گئیں۔ لیکن یہ تمام تجاویز مراعات کی کمی، نظریہ اور عمل کے مابین واضح فرق، قول و فعل میں تضاد، حکومت کی لاتعلقی اور نیک نیتی کے فقدان وغیرہ جیسی متعدد وجوہات کی بنا پر نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکیں جس کی وجہ سے حقیقی صورت حال میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اور مسلمان تعلیمی طور پر مزید پسماندہ ہوتے چلے گئے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وزیر اعظم کے 15 نکاتی پروگرام میں بیان کردہ رہنمایانہ خطوط 11 اور 12 کے باوجود بھی سوائے اعداد و شمار کے کوئی اور تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ جہاں تک وزیر اعظم کے 15 نکاتی پروگرام کا تعلق ہے تو اسے حتمی اختیارات (Mandatory Powers) حاصل نہیں ہیں اور اس کا وجود صرف مشوروں تک ہی محدود ہے۔ مذہبی اقلیتوں کے مسائل و معاملات حل کرنے کے لیے اقلیتی کمیشن کو قانونی اختیارات تفویض نہیں کیے گئے۔
مسلمانوں کی معاشی اور تعلیمی حالت کو بہتر بنانے کے لیے بنائی گئی اکثر وبیشتر اسیکمات کاغذی صفحات تک ہی محدود رہیں۔ کیونکہ مؤثر نفاذ کے لیے واضح ہدایت پر مبنی پالیسیوں کی موجودگی، نفاذ وعمل آور ی کے لیے ر یاستوں میں شدید خواہش، مضبوط سیاسی ارادوں، دیانت، نیک نیتی اور استقامت کا ہونا بے حدضروری ہے۔مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا سراغ لگانے کے لیے مختلف تحقیقاتی مطالعے بھی انجام دیے گئے۔جن میں قابل ذکر گوپال سنگھ اقلیتی پیانل رپورٹ (1980) 43واں (1987-1988) 55واں (1999-2000) قومی سیمپل سروے، قومی تعلیمی پالیسی 1986(لائحہ عمل) نظر ثانی شدہ قومی تعلیمی پالیسی 1992(پروگرام آف ایکشن) 2006 سچر کمیٹی رپورٹ 2007 جسٹس رنگا ناتھ مشرا کمیشن رپورٹ وغیرہ شامل ہیں۔ جن سے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی نمایاں طور پر سامنے آتی ہے۔2006 گورنمنٹ آف انڈیا رپورٹ کے مطابق گزشتہ سات دہائیوں سے آئینی ضمانت کے باوجود مسلم اکثریتی علاقوں میں اسکولوں کا نہ ہونا، قلت اور بنیادی سہولیات کی کمی (جس کی تعلیمی پالیسیوں میں وضاحت ملتی ہے) اور متعلقہ میڈیم میں تربیت یافتہ عملہ کا فقدان مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کی بڑی وجوہات ہیں۔ 2013 میں وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کی جانب سے 196 اضلاع میں بلاک انسٹیٹیوٹس آف ٹیچرس ایجوکیشن (BITE) کے قیام کی تجویز کے باوجود صرف 25 (BITES) مسلم اکثریتی آبادی والے اضلاع میں قائم کیے گئے۔ اردو میڈیم سے معیاری تعلیم کا حصول سہولتوں کے فقدان کے سبب بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ سروے کے اعداد و شمار سے ترک تعلیم کی وجوہات، باقاعدگی سے اسکول جانے اور ایک جماعت سے دوسری جماعت میں ترقی کے باوجود کم یا ابتر شرح اکتساب کی وجوہات پر ہمیشہ روشنی نہیں پڑتی۔ لیکن سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن رپورٹس نے ان حقائق سے بھی پردہ اٹھا کر آزادی سے لے کر آج تک مسلمانوں سے کیے جانے والے تعصب، امتیازی سلوک، استحصال اور محرومیوں کو آشکار کر دیا ہے۔ ماضی کی تعلیمی پالیسیوں کی اتنی واضح ہدایات کے باوجود تعلیمی اسکیمات کی ناکامی اور مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی سے مزید ایسے اندیشوں کو بہت زیادہ تقویت ملتی ہے کہ نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 جس میں مسلمانوں کے تذکرے سے ہی گریز کیا گیا ہے وہاں ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا جائے گا؟ موجودہ حکومت کی جانب سے مسلمانوں کے تئیں اختیار کردہ روش کو دیکھتے ہوئے کسی خوش فہمی کو ہرگز جگہ نہیں دی جاسکتی۔ مسلمانوں کو اپنی تعلیمی، سماجی اور معاشی فلاح و بہبود کے لیے دستوری جدوجہد کے ساتھ اپنے طور پر فکر و عمل سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
دستور ہند کی جانب سے اقلیتوں کو فراہم کردہ مراعات و حقوق
تعلیم، سماجی اور معاشی تبدیلی کا محرک ہوتی ہے۔ بارہویں پنچ سالہ منصوبے (2012-2017) میں یہ بات بڑے شد ومد سے بیان کی گئی ہے کہ ’’ایک تعلیم یافتہ آبادی جو مناسب علم و ہنر سے لیس ہوتی ہے نہ صرف ملک کی معاشی ترقی میں مددگار ہوتی ہے بلکہ فرد کی ترقی کے لیے بھی یہ ایک لازمی شرط ہے۔ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد روزگار کے مواقعوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں جس سے ملک کے ساتھ قوم کی بھی ترقی ہوتی ہے۔ ہندوستان دنیا کا ایک ایسا واحد ملک ہے جس میں مختلف نسل، ثقافت، تہذیبوں، زبانوں اور مذاہب کے ماننے والے لوگ بستے ہیں۔ ملک کے ان تمام گروہوں کی تعلیمی ترقی پر نگاہ ڈالیں تو یہ بہت زیادہ مختلف اور اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کے معاملے میں بہت زیادہ تفاوت و تعصب دیکھنے میں آتا ہے۔ دستور ہند معاشرے کے اس خلا اور خامیوں کو دور کرنے تمام شہریوں کو برابری کا درجہ دیتے ہوئے انہیں بااختیار بنانے کے یکساں مواقع فراہم کرتا ہے۔ دستور ہند کی مختلف دفعات 14(تمام شہریوں کو یکساں قانونی سلوک و تحفظ کی فراہمی) 15(مذہب، نسل، ذات، صنف اور جائے پیدائش کے نام پر امتیازی سلوک کی ممانعت) 19( اظہار رائے کی آزادی، اجتماع کی آزادی، تنظیمیں اور یونینیں قائم کرنے کی آزادی، ملک میں سفر کرنے کی آزادی، ملک کے کسی بھی خطے میں سکونت اختیار کرنے کی آزادی اور کوئی بھی پیشہ اختیار کرنے یا تجارت کی آزادی) 21 (قانون کے ذریعے کسی بھی شخص کو اس کی زندگی یا ذاتی آزادی سے محروم کردینے کی ممانعت) 25 (مذہبی آزادی، اپنے مذہب و عقیدے پر چلنے اور اس کی تبلیغ کی آزادی) 26 (نظم وضبط برقرار رکھتے ہوئے مذہبی تعلیمی ادارے چلانے اور مذہبی امور کی انجام دہی کا حق) 27 (کسی بھی مذہب کے فروغ کے لیے چندہ دینے کی آزادی) 28 (تعلیمی اداروں میں مذہبی تعلیم و عبادت میں شرکت کی آزادی) 29/1(عوام کو اپنی زبان، زبان کی عبارت اور کلچرل کے تحفظ کی آزادی) 29/2 (مذہب، نسل، ذات، زبان یا ان میں سے کسی بنیاد پر ریاست کی زیر نگرانی چلائے جانے والے کسی بھی تعلیمی ادارے میں داخلے میں امتیازی سلوک سے ممانعت) 30 (اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کو چلانے کا حق) 350A (پرائمری سطح پر اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا حق) وغیرہ سے تمام شہریوں کو یکساں سلوک اور برابری کا درجہ فراہم کرنے والے دستوری مراعات کا اظہار ہوتا ہے۔ ان بنیادی حقوق کو پیش نظر رکھتے ہوئے ماضی میں مختلف حکومتوں نے مختلف پالیسیوں، پروگرام اور اسکیموں کو رائج کیا لیکن اس پر عمل آوری کی داستان سطور بالا میں بیان کردی گئی ہیں۔کوئی بھی پالیسی خواہ تعلیمی ہو یا کوئی اور اگر وہ دستورکے بنیادی ڈھانچے کے خلاف جاتی ہے تو اسے عدالت میں چیلنج کرتے ہوئے کالعدم یا تبدیل کیا جاسکتا ہے جس کے لیے دستور سے آگہی اور دستور کی بالادستی کے لیے جدوجہد سے کام لینا ضروری ہے۔
قومی تعلیمی پالیسی (NEP-2020)مسلم ایجنڈا
قوموں کی تعمیر و ترقی میں اخلاص، جذبہ ایثار و قربانی اور احتسابی عمل نمایاں ہوتا ہے۔ وہ قوم جو اپنی تعمیر و ترقی اور صلاح و فلاح کے لیے اغیار و حکومتوں پر تکیہ کرتی ہیں اس کا مقدر ذلت، رسوائی، محرومی اور ناکامی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ قوموں کی تعمیر میں جذبہ حریت اور عزت نفس کا بہت زیادہ دخل ہوتا ہے۔ ہر مشکل، پریشانی اور طوفان سے عزم و حوصلے اور استقامت سے لڑنے والی قومیں ہی دنیا میں باقی اور زندہ رہتی ہیں۔ وقار اور عزت بھی ان ہی کے حصے میں آتی ہے۔ حکومت کی پالیسیوں اور اسیکمات پر تکیہ کرنے سے ہرگز دستوری مراعات و حقوق سے دستبرداری مراد نہ لی جائے۔ دستوری مراعات اور حقوق کے حصول کے ساتھ اپنے طور پر ملی شیرازہ بندی اور تعمیر کی کوشش وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اسلام اور جہالت دو متضاد چیزیں ہیں۔ جہاں اسلام ہوگا وہاں جہالت نہیں ہوگی۔ اسلام نے سب سے پہلے دنیا کو اقرا کا پیغام دیا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اقرا کے حاملین میں جہالت داخل ہو۔ نبی کریمؐ نے جب اقرا کا پیغام بلند کیا تب مکہ میں بمشکل 17 افراد پڑھے لکھے تھے۔ لیکن بعد کے 23 سالوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ علم و ہنر اور حکمت و دانش کے سرچشمے عرب سے ایسے پھوٹے کہ ساری دنیا علم کی روشنی سے منور ہوگئی۔ یورپ جب جہالت کے تاریک دور میں تھا تب مسلمانوں نے ان کو علم کی راہ دکھائی۔ 24×7 علمی خدمات انجام دینے والی دنیا کی پہلی یونیورسٹی مسجد نبوی کا مدرسہ صفہ تھی۔ اسلام کا ہی فیض تھا کہ دنیا نے ایک عظیم تعلیمی انقلاب کا دیدار کیا۔ آج ہمیں اپنے ماضی پر فخر کرنے کے بجائے اپنے حال کو درست کرتے ہوئے بہتر مستقبل کی بنیادوں کو استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی جانب سے ہندوستانی مسلمانوں سے تعصب، امتیازی سلوک اور دستوری مراعات سے محروم کردینا اپنی جگہ درست لیکن اشک شوئی، شکایتی رویہ اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہنے کے بجائے مسلمانوں کی فلاحی تنظیموں (NGOs) مسلم ماہرین تعلیم، سیاستدان اور سماجی جہدکار ملت کی فلاح و بہبود اور تعلیمی بہتری کے لیے ایک منظم و مبسوط ایجنڈا تیار کرتے ہوئے اپنے طور پر جد وجہد کا آغاز کریں۔ مسلمان عید کی نماز ادا کرنے والے، ٹوپی لگانے اور افطار پارٹیوں میں شریک ہو کر روز افطار کرنے والے سیاستدانوں کے فریبی جال میں نہ پھنسیں۔ ان کے اس طرح سوانگ بھرنے سے ہماری پسماندگی دور نہیں ہوگی۔ مسلمان سیاست دانوں کو بھی ملی مفادات کے تحفظ کے لیے دیانت داری، خلوص دل اور بڑی دانش مندی سے کام کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنے ایسے سیاسی، سماجی و مذہبی رہنماؤں سے سخت گریز کی ضرورت ہے جو اقتدار پر فائز طاقتوں کا آلہ کار بنتے ہوئے ملت کا استحصال کرتے ہیں۔ جو ملت کی پسماندگی کا رونا رو کر اپنی سیاسی دکان چمکاتے ہیں اور ملت کی زبوں حالی کا دم بھرتے ہوئے خود مرفع حال ہوجاتے ہیں۔ملت کی ترقی کے لیے سیاست دانوں کو اپنا رویہ اور علماء کو اپنا طریقہ کار بدلنا ضروری ہے۔ مسلمانوں کے مذہبی، سیاسی، سماجی اور دیگر رہنماؤں کو اپنی حکمت عملیوں (Strategies) میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ ملک کے موجودہ تناظر میں مسلمانوں کو اپنے ایجنڈے میں تعلیم کو سرفہرست جگہ دینی ہوگی۔ دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد بمشکل چار تا پانچ فیصد ہے۔ دینی مدارس کی جدید کاری کے لیے سرکاری فنڈس کے حصول سے اجتناب کریں۔ یہ ادارے مسلمان اپنے طور پر چلائیں۔ 95 فیصد بچے جو عصری مدارس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا جو تعلیم سے محروم ہیں ان کو عصری تعلیم کے قومی دھارے میں شامل کرنے اور ترک تعلیم سے باز رکھنے کے لیے تعلیمی وظائف اور والدین کی معاشی مدد کی جانب ملت کے فلاحی ادارے اور مخیر صاحب ثروت افراد متوجہ ہوں۔ دیگر مذاہب کی بہ نسبت مسلمانوں میں ملی وحدت اور اجتماعیت کا جذبہ زیادہ پایا جاتا ہے۔ پنچ وقتہ نمازوں سے بھی ہماری اجتماعیت کا اظہار ہوتا ہے۔ مسلمان اپنی مساجد کو عبادت گاہ کے علاوہ تعلیمی مراکز میں تبدیل کریں۔ ہر مسلم محلے میں کم سے کم ایک یا اس سے زیادہ مساجد پائی جاتی ہیں۔مساجد کی تعمیر میں لاکھوں کروڑوں روپے کے مصارف بھی ہم برداشت کرتے ہیں۔اکثر مساجد اوقات نماز کے بعد بند رہتی ہیں۔ فجر کی نماز سے ظہر کی نماز کے درمیان 5 تا 7 گھنٹوں کے وقفے میں مساجد میں قرآن، حدیث، اردو، علاقائی زبان، انگریزی، سائنس اور ریاضی کی تعلیم کا انگریزی یا اپنی پسندیدہ میڈیم میں اہتمام کریں۔ ایسا محلہ جہاں ایک سے زیادہ مساجد ہوں وہاں ایک سے زیادہ پرائمری اور کم از کم ایک ہائی اسکول قائم کیا جائے۔ جہاں ایک ہی مسجد ہو وہاں شفٹ کے طریقہ پر پرائمری اور ہائی اسکول چلائے جائیں۔ منتخب مساجد میں صنعت و حرفت، دست کاری (اسکل ڈیولپمنٹ) سے طلبہ کو آراستہ کیا جائے۔ مسلمان علم کی تقسیم (دینی و دنیاوی) کے غیر اسلامی رویے کو ترک کر دیں۔ نوخیز نسل کی تعلیم وتربیت کے لیے اساتذہ کی تیاری کی جانب توجہ کریں۔ ملی درد کے حامل دیانت دار قابل اساتذہ کی تیاری کے لیے ٹیچرس ٹرینگ کالجس کا قیام عمل میں لائیں۔ شخصی ادارے ملت کی زبوں حالی کو دور کرنے کے بجائے نفع خوری اور تاجرانہ فکر کو فروغ دیتے ہیں۔ اس لیے شخصی اداروں کو فروغ دینے کے بجائے ملی اداروں کے قیام کی جستجو کریں۔ شخصی یا ملی ادارے جو ملت کی تعمیر میں مصروف ہیں ان کا تحفظ کریں۔ آج مسلمانوں کو سیاسی رہنمائی سے زیادہ تعلیمی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ تعلیم سے آدمی میں ملی، سیاسی، سماجی شعور اپنے آپ بیدار ہو جاتا ہے۔ ملی اداروں کو غاصبوں سے پاک کریں۔ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات پر فضول خرچی کے بجائے سادگی سے کام لیں۔ ملت کی تعمیر میں ہر فرد بساط بھر تعاون دے۔ تعلیمی والنٹیئرس کو تیار کریں۔ہر مسجد میں لائبریری اور بک بینکس کو قائم کریں۔ اسلامی ادب و ثقافت اور اردو زبان کے تحفظ کے لیے سنڈے کمیونٹی اسکولس کا قیام عمل میں لائیں۔ ترک تعلیم کرنے والے طلبہ کو خواہ کم سن ہوں یا ادھیڑ عمر انہیں فاصلاتی ذریعے تعلیم سے جوڑیں۔ شام کے وقت تعلیم بالغان اور دیگر مسابقتی امتحانات کی تیاری کے لیے فری کوچنگ سنٹرس بھی قائم کریں۔ ضامن روزگار کورسس کی تعلیم و تربیت کے لیے بڑے شہروں میں کم از کم ایک ٹکنیکل ادارہ قائم کریں۔ ہر شہر و گاؤں میں بچوں کی رہنمائی و رہبری کے لیے کیمپس کا انعقاد عمل میں لائیں۔ دینی مدارس میں سائنس، ریاضی اور انگریزی کی تعلیم کو لازمی طور پر جگہ دیں۔ عصری ادارے نام نہاد دینی تعلیم کے بجائے موثر دینی تعلیم کی فرہمی کو یقینی بنائیں۔ تعلیمی ادارہ جات کی حکومت سے منظوری حاصل کریں تاکہ اسنادات روزگار کے حصول میں کام آسکیں۔تعلیمی اداروں کے لیے اقلیتی موقف حاصل کریں تاکہ دستوری مراعات سے فیض اٹھایا جاسکے۔ تعلیمی کاز کی انجام دہی کے لیے ملت کے مخیر حضرات اور محلے کے ہر فرد سے اس کی حیثیت کے مطابق زر تعاون حاصل کریں۔ شکایت، وسائل کی کمی اور مظلومیت کے دائرے سے باہر نکل کر مرد مومن کا تعمیر ی کردار پیش کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے (سورہ رعد)۔ ناسازگار حالات سے مایوس نہ ہوں۔ وسائل کی کمی کو زیادہ محنت سے دور کیا جا سکتا ہے۔ وسائل کم ہوں تو اضافی محنت سے کام لیں۔ سسکتی بلکتی انسانیت کی مسیحائی کے لیے کمربستہ ہو جائیں۔ صفوں کی کجی اور دلوں کے میل دور کریں اور اللہ کی خوشنودی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ اپنے اندر تقوی پیدا کریں۔ اللہ اور رسول کے اطاعت گزار بن جائیں۔ ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب اللہ کی نصرت آ جائے اور غموں کو خوشیوں اور مشکلوں کو راحتوں میں بدل دے۔
کتابِ ملتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھربرگ و بر پیدا
[email protected]
***
حکم راں افراد کاتعلیمی پالیسیوں کے ذریعے تاریخ کو توڑمروڑ کر پیش کرنے کا طریقہ ملک کے لیے بہت زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ثابت ہورہا ہے۔ معروف مورخ ایرک ہوبس بان نے 1992 میں بڈاپسٹ سنٹرل یونیورسٹی میں کہا تھا ، "تاریخ کا پیشہ طبیعیات کی طرح مضر نہیں ہے۔ لیکن اب میں سمجھ گیا ہوں کہ تاریخ بھی خطرناک ہوسکتی ہے۔ تاریخ کبھی بھی بم فیکٹری میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ان باتوں کا ہم آج مشاہدہ کررہے ہیں‘‘
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18-24 اکتوبر، 2020