ملک میں فرقہ پرستی کا راج۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ کھوکھلا ثابت ہوا
ملک کو سب سے زیادہ نقصان بھگواطاقتوں سے ہے...!
ڈاکٹر ابھے کمار، دلی
مہنگائی ، بے روزگاری اور بھکمری کی آوازاٹھانے والے صحافیوںپر ملک دشمنی کا لیبل
ان دنوں ملک کے مختلف حصوں سے خوفناک خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ جہاں قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں وہیں دائیں بازو کے عناصر مذہب کی آڑ میں فرقہ وارانہ تشدد برپا کر رہے ہیں۔ ایک سازش کے تحت مسلم علاقوں سے مسلح دہشت گردوں کے جلوس نکالے جا رہے ہیں۔ کئی مقامات پر مسلمانوں کے مذہبی مقامات پر حملے کیے گئے اور بھگوا جھنڈے لہرائے گئے۔ یہ فرقہ وارانہ فساد دارالحکومت دہلی سمیت ملک کے مختلف حصوں میں دیکھا جا رہا ہے، لیکن اب تک اسے روکنے اور ان سماج دشمن عناصر کو پکڑنے کی کوئی موثر کوشش نہیں کی گئی ہے۔ پولیس اور انتظامیہ کی نااہلی اور اہلکاروں کی خاموشی کے درمیان اپوزیشن نے اس معاملے پر مشترکہ بیان جاری کیا ہے۔ اپوزیشن بجا طور پر کہہ رہی ہے کہ ان سماج دشمن عناصر کو حکومت کا تحفظ حاصل ہے۔ ان حملوں پر وزیر اعظم نریندر مودی ابھی تک خاموش ہیں۔ انتخابات کے دوران وہ سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ دیتے ہیں، لیکن جب انہیں اس پر عمل کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ ملک میں فرقہ پرستی کا راج ہے۔ فرقہ پرستوں کے دلوں میں نہ پولیس کا خوف ہے اور نہ ہی قانون کا کوئی احترام ہے۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ جب ان کی حفاظت خود حکومت کرے گی تو انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ جب بھڑکتی ہوئی آگ کو بجھانے کے بجائے آگ کے وجود سے ہی انکار کیا جا رہا ہو تو سمجھ لیں کہ ملک کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ملک میں ہزاروں سالوں سے ہندو اور مسلمان ایک ساتھ رہتے آ رہے ہیں، لیکن ہندو مہاسبھا، آر ایس ایس اور بی جے پی کے بننے کے بعد سے مسلمان ہندوؤں کے لیے خطرہ بن گئے ہیں! کوئی بھگوا لیڈروں سے یہ پوچھے کہ جب تم نہیں تھے تو ہندوؤں کی حفاظت کون کر رہا تھا؟ جس ملک میں 80 فیصد ہندو ہوں وہاں 14 فیصد مسلمان کیسے خطرہ بن سکتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ ملک کے حالات بہت ہی مایوس کن ہیں۔ بھگوا طاقتیں اپنے آپ کو ملک اور ہندو سماج کا سب سے بڑا محافظ کہتی ہیں۔ لیکن جتنا نقصان انہوں نے ملک اور عوام کو پہنچایا ہے شاید ہی کسی اور نے پہنچایا ہو۔ نہ صرف مسلمان بلکہ زیادہ تر لوگ جو غریب اور معصوم ہیں وہ بھی بھگوا طاقتوں کی حکمرانی میں پریشان ہیں۔ ان لوگوں نے عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے نفرت کرنے والوں کی فوج تیار کی ہوئی ہے، عوام کے ذہنوں میں زہر گھولنے کے لیے سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز اور بڑے بڑے اخبارات خریدے ہوئے ہیں۔
فلاح و بہبود کا پیسہ اشتہارات پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ حکومت اور سرمایہ دار سے پیسہ کھانے والا میڈیا دن رات ہندو بمقابلہ مسلم کی بحث کر رہا ہے۔ پاکستان میں کسی کو سردی بھی لگ جائے تو مین اسٹریم میڈیا اسے بڑی خبر بنا دیتا ہے، جب کہ بھارت میں وہ صحافی سب سے بڑے ملک کے دشمن سمجھے جاتے ہیں جو مہنگائی، بے روزگاری اور بھوک مٹانے کی بات کرتے ہیں۔ خصوصاً ٹی وی چینلز کے اینکرز دن رات زہر اُگل رہے ہیں۔ ملک کی نام نہاد پریس کونسل مر چکی ہے اور عدلیہ سست ہے۔ غیر ذمہ دار آدمی بھی کچھ کہہ رہا ہے اور اس سے ذمہ داری کے بارے میں کوئی سوال کرنے والا نہیں۔
سب سے بڑی تشویش کی بات یہ ہے کہ ہندو سماج کے اندر طرح طرح کی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں۔ ان دنوں بہار سے میرے ایک رشتہ دار نے مجھ سے پوچھا کہ جے این یو میں ہندوؤں کو پوجا پاٹ سے کیوں روکا جا رہا ہے؟ جواب میں میں نے کہا کہ جے این یو میں عبادت کرنے سے کبھی کسی کو نہیں روکا گیا۔ میں نے جے این یو میں نو سال گزارے ہیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کیمپس میں برسوں سے سرسوتی، درگا اور کالی کی پوجا ہوتی ہے۔ لیکن اس سے پہلے کبھی کوئی ہنگامہ نہیں ہوا تھا۔ کچھ لوگ جان بوجھ کر مذہب کے نام پر ہنگامہ آرائی کر کے نفرت کی آگ میں ایندھن ڈالنا چاہتے ہیں۔ لوگوں نے جان بوجھ کر گوشت کا تنازعہ کھڑا کیا اور طلباء کی پٹائی کی۔ لیکن مجھے روکتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جے این یو کے طلباء کو جے شری رام کے نعرے سے مسئلہ ہے لیکن اللہ اکبر کا نعرہ لگانے میں انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ سن کر میں نے سر ہلایا۔ گھنٹوں سوچتا رہا کہ ملک کدھر جا رہا ہے۔ جے این یو کو لے کر کیا افواہ پھیلائی جا رہی ہے؟ جے این یو، لیفٹ، کانگریس کو مسلمانوں سے جوڑ کر بدنام کیا جا رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں پروپیگنڈا فلم کشمیر فائلز نے جے این یو، اپوزیشن اور مسلمانوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔
آئندہ عام انتخابات اور آئندہ اسمبلی انتخابات کے پیش نظر بھگوا طاقتیں نفرت کی اس آگ کو بھڑکانے کی پوری کوشش کر رہی ہیں۔ وہ دن رات کوشش کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کو کچھ کرنے پر اکسایا جائے اور پھر اس پر نفرت کی سیاست کی جائے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے اب تک بہت صبر کا مظاہرہ کیا ہے۔ جس طرح ہم حجاب اور اذان کے حوالے سے نوحہ کناں ہیں وہ ملک کی صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کو لگتا ہے کہ ان کی حکمت عملی ہمیشہ کامیاب رہے گی۔ بی جے پی اب تک اقلیتوں کو اکثریت کا کھلونا بنانے میں کامیاب رہی ہے لیکن یہ بھول رہی ہے کہ اس کی سیاسی جیت نے ہندوستان کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ آج صرف مسلمان ہی نہیں دلت بھی پریشان ہیں۔ قبائلیوں سے پانی، جنگلات اور زمینیں چھینی جا رہی ہیں۔ پسماندہ طبقے کو روزی روٹی کے لیے دن رات کام کرنا پڑتا ہے۔
مزدوروں کی اجرت کم ہوتی جا رہی ہے، کسانوں کی حالت اتنی خراب ہے کہ وہ کئی بار کھیتی پر خرچ ہونے والی رقم نکال نہیں پاتا۔ اعلی ذات کے لوگ اونچی پوزیشنوں پر ہونے کے باوجود ان کا بڑا حصہ غربت میں جی رہا ہے۔ کچھ دن پہلے جب میں گاؤں سے دہلی واپس آرہا تھا تو میں اپنی ایک خالہ سے ملاقات کے لیے گیا اور انہیں پرنام کیا یعنی سلام بجا لایا۔ جس کے جواب میں انہوں نے مجھ سے سر پر رکھنے کے لیے ٹھنڈے تیل کی بوتل خرید کر لانے کے لیے کہا۔ خالہ اعلی ذات کی ہیں لیکن ان کے پاس تیل خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ گاؤں کے نوجوان تعلیم کے حصول کے لیے مشکلات سے گزر رہے ہیں۔ غربت ایک زمینی حقیقت ہے، لیکن ہندو بمقابلہ مسلمانوں کو اصل جنگ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بھگوائیوں کے نزدیک مسلمانوں تشدد بھڑکانے کا ہدف ہیں۔ لیکن مسلمان یہ نہیں سمجھتے کہ غیر مسلموں کا حال بھی کچھ اچھا نہیں ہے۔ زیادہ تر لوگ حکومت کی پالیسی سے پریشان ہیں۔ پٹرول اور ڈیزل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے ہر چیز مہنگی کر دی ہے۔ معیشت بیمار ہے۔ لیکن حکومت صحیح حل پیش کرنے کے بجائے ہندو مسلم کا کھیل، کھیل کر عوام کی توجہ ہٹا رہی ہے۔ مسلمانوں پر حملوں کے خلاف غیر مسلموں کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ ان کا مقام دیگر محکوم طبقات سے مختلف نہیں ہے۔ اگر ہم یہ سمجھ گئے تو بھگوا فرقہ کی حکمرانی زیادہ دنوں تک نہیں چلے گی۔
(ڈاکٹر ابھے کمار دہلی میں مقیم ایک آزاد صحافی اور مصنف ہیں )
***
***
آئندہ عام انتخابات اور آئندہ اسمبلی انتخابات کے پیش نظر بھگوا طاقتیں نفرت کی اس آگ کو بھڑکانے کی پوری کوشش کر رہی ہیں۔ وہ دن رات کوشش کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کو کچھ کرنے پر اکسایا جائے اور پھر اس پر نفرت کی سیاست کی جائے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے اب تک بہت صبر کا مظاہرہ کیا ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 01 تا 07 مئی 2022