ملک بندی، کورونا وائرس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے
ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک
یہ انتہائی اطمینان کی بات ہے کہ جس طرح عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے 24 مارچ کو ملک بندی نافذ کی گئی تھی مزید اسی طرح کی جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک بندی کو ختم نہیں کیا گیا۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے پہلے تمام وزرائے اعلیٰ سے بات چیت کی، ان سے تجاویز طلب کیں اور اب حکومت ملک بندی کو آہستہ آہستہ ختم کر رہی ہے۔ ملک بندی کے نفاذ پر دنیا بھر کی اعلیٰ خوشحال اور تعلیم یافتہ اقوام میں زبردست عوامی مظاہرے اور تشدد برپا ہو رہا ہے لیکن ہندوستانی جمہوریت کے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ یہاں لوگ آنکھ بند کر کے حکومتی ہدایات کی تعمیل کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود لاکھوں تارکین وطن مزدوروں کو وطن واپسی کے وقت دلخراش حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ چھوٹے دوکانداروں کا تقریبا دیوالیہ ہوچکا ہے ان کے مزدور کھانے کے لیے قطاروں میں لگے ہوئے ہیں اور بڑی فیکٹریوں میں مزدوروں کی عدم موجودگی کی بناء پر کام مکمل ٹھپ پڑا ہوا ہے۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ریاستوں کو یہ اختیارات دیے گئے ہیں کہ وہ فیصلہ کریں کہ وہ اپنے کس ضلع یا علاقے پر پابندی عائد کریں۔ اگر ریاستی حکومتیں بھی یہ ذمہ داری اپنے مقامی حکام کو دیتی ہیں تو پھر وہ جو بھی اقدام کریں گے وہ زیادہ عملی ہوں گے۔ اگر ٹرینیں، بسیں، ہوائی جہاز اور میٹرو ٹرینیں آہستہ آہستہ کھولی گئیں تو کروڑوں افراد کو آمد ورفت کی سہولت ملے گی۔ تارکین وطن مزدور جو اپنی فیکٹریوں اور دکانوں میں واپس جانا چاہتے ہیں انہیں اب سیکڑوں میل کی مسافت پیدل طے کرنا نہیں پڑے گا۔ اسی طرح کچھ ہفتوں کے بعد اسکول اور کالج بھی کھلنا شروع ہو جائیں گے۔ لیکن مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ مذہبی مقامات کو کھولنے میں اتنی عجلت کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے؟ کیا تنہائی میں خلوص اور عقیدت کے ساتھ اچھی عبادت نہیں جا سکتی؟ بھیڑ بھاڑ اور شور شرابے میں یکسوئی سے عبادت کرنا ممکن ہے؟ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سکھوں کے گردوارے کو ایک استثناء حاصل ہے لیکن ہمارے وفادار سنت، پانڈا، پجاری اور گرو گنٹھال کہاں چھپے ہیں؟ وہ بھوکوں کو کھانا کھلانے اور بے گھر افراد کو ان کے گھر پہنچانے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ جب جنازوں اور شادیوں میں 20 اور 50 کی پابندی ہے تو کیا ہزاروں افراد کو مزارات پر دیکھ کر ہی خدا خوش ہوگا؟ بڑی منڈیاں، ہوٹل، گفٹ ہاؤس، سینما گھر، سوئمنگ پول اور جمنازیم بھی آہستہ آہستہ کھولے جائیں گے۔ چلیں یہ بھی اچھی بات ہے۔ رات 9 بجے سے صبح پانچ بجے تک کرفیو بھی ٹھیک ہی ہے۔ لیکن اس دوران ملک میں ٹرک چلانے کی اجازت ہونی چاہیے، ان میں بیٹھنے والے مسافروں کا دوسرے مسافروں کی طرح کورونا وائرس کا معائنہ کیا جا سکتا ہے۔
حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ اگلے ایک ماہ میں مختلف علاقوں میں بتدریج نرمی لائی جائے گی۔ لیکن "پوت کے پگ پالنے میں دکھائی دینے لگے ہیں”۔ جس وقت ملک بندی میں نرمی کا اعلان کیا جا رہا تھا تبھی یہ معلوم ہو رہا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا اب تیز ترین رفتار سے پھیل رہی ہے۔ ایک ہی دن میں اب تک کے سب سے زیادہ افراد کے متاثر ہونے اور مرنے کا انکشاف کیا گیا ہے۔ ایک ہی دن میں 8380 نئے معاملات درج ہوئے جبکہ کیسوں کی مجموعی تعداد 1 لاکھ 85 ہزار اور ہلاکتوں کی جملہ تعداد 5 ہزار تک پہنچ گئی۔ یہاں تک کہ ابھی گرمی کا زور بھی شروع نہیں ہوا ہے اور مئی کے آخری 23 دنوں میں ہی جملہ 90 ہزار افراد متاثر ہوچکے ہیں۔ لیکن ہندوستان کی عوام کو مایوس ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ ہمارے یہاں کی طبی مستعدی، اور گھریلو نسخوں کی وجہ سے کورونا وائرس کے مریضوں کے رو بہ صحت ہونے کی رفتار تیز ترین ہے۔ گجرات اور مدھیہ پردیش کی حکومتیں اور پونے کے کچھ لوگ فوری طور پر کورونا مریضوں کو آیورویدک دوائیں اور ہومیوپیتھک گولیاں فراہم کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پوری دنیا کے ممالک کے مقابلے میں ہندوستان میں کورونا وائرس کا قہر بہت کمزور ہے۔
ان ممالک میں جن کی آبادی ہندوستان کے بڑے صوبوں سے بھی کم ہے متاثرہ افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے اور مرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اگر ہم آبادی کے تناسب کے مطابق حساب لگائیں تو بہت سارے ممالک ہندوستان سے پچاس اور سو فیصد سے زیادہ متاثر ہیں۔ اور یہ اعداد وشمار تب ہیں جب یہ چھوٹے ممالک اپنے عوام کی صحت پر ہندوستان سے آٹھ سے دس گنا زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ وہ ممالک ہندوستان سے کہیں زیادہ امیر، تعلیم یافتہ اور صاف ستھرے ہیں۔ پھر ہم یہ بھی نہیں بھولتے کہ ہندوستان میں دیگر بیماریوں سے مرنے والے افراد کی یومیہ تعداد 20 سے 25 ہزار ہے.
اس کے باوجود ہندوستان شاید واحد ملک ہے جو کورونا وائرس سے سب سے زیادہ خوفزدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہیں بھی ملک بندی یا حکومت کے خلاف کوئی بڑا احتجاج نہیں ہوا ہے۔ چاہے حزب مخالف رہنماؤں کی جانب سے کتنی ہی معقول تنقید کیوں نہ کی جائے یہ لوگوں کے سر کے اوپر سے گزر جاتی ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ نریندر مودی کی قیادت کے ساتھ عوام کی وفاداری کتنی گہری ہے۔ ہماری مرکزی اور ریاستی حکومتیں کورونا وائرس سے جنگ لڑنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔ وہ خود بھی اپنی غلطیوں کی اصلاحات کر رہی ہیں۔ لیکن ان کے پاس ابھی تک کوئی واضح راستہ موجود نہیں ہے جس پر چل کر ملک بندی کے نقصانات کو برداشت کیا جا سکتا ہے۔ کورونا کے اس دھکے کو ملک نے خاموشی سے برداشت کیا لیکن ملک بندی کا دھکا اتنا دھماکہ خیز ہونے والا ہے کہ ہماری حکومتیں لرز اٹھیں گی۔ بے روزگاری، فاقہ کشی، ڈکیتی اور قتل وغارت گری جیسی صورت حال ابھر سکتی ہے جو سن 1857 کی بغاوت یا 1947 میں تقسیم ہند کے دوران بھی نہیں ہوئی تھی۔ 20 لاکھ کروڑ روپیوں کی مرکزی راحت اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر بھی نہیں ہے۔
اس وقت سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت فوری طور پر کروڑوں کسانوں، مزدوروں، چھوٹے تاجروں اور متوسط طبقات کے لوگوں کو روزی روٹی کے لیے نقد الاؤنس جاری کرے تاکہ وہ دوبارہ متحرک ہو سکیں اور منڈیوں میں طلب میں اضافہ ہو سکے۔ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور جرمنی جیسے ممالک نے بے روزگاروں کے لیے اپنے خزانے کھول دیے ہیں۔ اگر ہندوستان کی حکومت اپنے ارب پتیوں کو تھوڑی نرمی کے لیے آمادہ کر سکے تو پھر موجودہ بحران پر قابو پانا مشکل نہیں ہوگا۔ ہندوستانی عوام کو اپنے دماغوں سے خوف دور کرنا ہوگا۔ ابھی صرف ایک نعرہ لگنا چاہیے "کورونا سے ڈرو نا” اب اگلے چند ماہ ہمیں کورونا کے ساتھ جینا ہے۔ اسی وجہ سے جسمانی فاصلے کی برقراری، منھ ہاتھ دھونے کی پابندی، کاڑھے کا استعمال اور گھروں میں بیٹھ رہنے کو اپنے روزمرہ کا لازمی جزو بنا لیں اور پوری طرح سے اپنے فرائض میں مشغول ہو جائیں۔
اتھر وید کے اس جملے کو یاد رکھیں’’اے خدا! ہم ہمیشہ دوست اور دشمن دونوں سے نڈر بنے رہیں… اور تمام سمتوں میں ہمارے دوست ہی دوست ہوں.‘‘
اس وقت سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت فوری طور پر کروڑوں کسانوں، مزدوروں، چھوٹے تاجروں اور متوسط طبقات کے لوگوں کو روزی روٹی کے لیے نقد الاؤنس جاری کرے تاکہ وہ دوبارہ متحرک ہو سکیں اور منڈیوں میں طلب میں اضافہ ہو سکے۔