ملکی معیشت میں ’کورونا راحت اکانومی پیکیج ‘کا رول

منظم طریقے سے اصلاحات کےبغیر معاشی بدحالی اورکساد بازاری کو روکا نہیں جاسکتا 21 روزہ لاک ڈاون کی وجہ سےبھارت کو 120 ارب ڈالر کا خسارہ

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

کورونا وائرس کے قہر نے پوری انسانی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس بلا کی پوری تصویر آنا ابھی باقی ہے۔ اس کے ٹریلر نے انسانوں کے محض نظریہ کو ہی نہیں بدلا بلکہ کس بل کو بھی نکال کر رکھ دیا۔ معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی مگر معاشی زوال کا اندازہ لگانا مشکل ہو رہا ہے۔ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا کسی کو نہیں معلوم ۔ کچھ اندازے سامنے ضرور آ رہے ہیں۔ موڈیز کا تخمینہ ہے کہ عالمی معیشت کی شرح نمو 0.5 فیصد کم ہو جائے گی۔ گزشتہ سا ل نومبر میں ریٹنگ ایجنسیاں دنیا کی معیشت کے 2.6 فیصد کی شرح سے بڑھنے کا اندازہ لگا رہی تھیں۔ گراوٹ کا اندازہ 2.7 ٹریلین ڈالر کے قریب ہے۔ فی الوقت ہمارے ملک کی کل جی ڈی پی بھی یہی ہے۔ G8 میں شامل جاپان، فرانس، اٹلی اور جرمنی جیسے مضبوط معیشتوں پر کورونا کی بھرپور مار پڑ رہی ہے۔ G8 کے باقی ممالک امریکہ، برطانیہ، کناڈا کی جی ڈی پی پر بھی یہی بات صادق آئے گی۔ فی الوقت معیشت کو معمول پر لانے کے لیے کافی وقت لگے گا۔ چین کورونا کی مار جھیل کر اپنی پیداوار کو بحال کرنے میں جٹ گیا ہے لیکن اس کی کھپت کے لیے جو بازار چاہیے وہ اس بلا کے قہر سے بدحال ہے۔ چین کا سب سے بڑا بازار تو بھارت ہی ہے۔ ہماری معیشت کرونا کے آنے سے قبل ہی سے سستی سے بدحال تھی۔ ایسے میں چین کی معیشت کی سستی اور کسل مندی بھارت کے لیے بڑی مصیبت کا باعث ہوگی۔ اس کا سب سے بڑا اشارہ موڈیز نے پیش کیا ہے۔ اس نے ملکی معیشت کے اضافہ کی شرح کو اپنے سابقہ اندازے 5.3 فیصد سے کم کر کے 2.5 فیصد کر دیا ہے۔ کیونکہ رئیل اسٹیٹ، آٹو موبائل، چھوٹے پیمانے کی صنعتیں سمیت غیر منظم اور نجی سیکٹر گزشتہ سال سے ہی گراوٹ کے شکار ہوتے آرہے ہیں۔ابھی ہمارا ملک مکمل تالہ بندی کی مار جھیل رہا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی تکالیف سے لوگوں کو نجات دلائی جائے ساتھ ہی عوام کے بڑے طبقے کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا جائے۔ جان ہے تو جہان ہے۔ مگر اس لاک ڈاون کے نقصانات بھی کم نہیں ہیں۔ لوگ گھروں میں مجبوراً محصور ہیں پیداوار بند ہے دکانوں پر تالے پڑ گئے ہیں۔ کئی شعبوں میں طلب بالکل ہی ختم ہو گئی ہے۔ اس طرح معیشت کا پہیہ بالکل ہی جام ہو کر رہ گیا۔ بارکلیج کے مطابق تالہ بندی کے بعد ملکی معیشت سے ۹ لاکھ کروڑ روپے کا صفایا ہو سکتا ہے۔ اس طرح اگر موڈیز کا اندازہ سچ ثابت ہوتا ہے تو گروتھ ریٹ کی سطح تین دہائی پہلے کی ہوگی۔ سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم نے کہا کہ اگر عالمی معیشت 2 فیصد کے حساب سے گرتی ہے تو ہماری معیشت میں 2 فیصد سستی آئے گی۔ اس کے باوجود کرونا سے جنگ میں ہماری حکمت عملی میں پہلے جن اور پھر دھن کا شور ہر طرف بپا ہے اس سے ہماری معیشت تقریباً تباہ ہوکر رہ جائے گی۔ اس کے لیے مرکزی حکومت نے صحت خدمات کی توسیع اور بہتری کے لیے 15 ہزار کروڑ روپے کے پیاکیج کا اعلان کیا ہے اور وزیر مالیات نے تالہ بندی کے چار دنوں بعد 1.7 لاکھ کروڑ روپے کے ایک اکانومی پیاکیج کا بھی اعلان کیا تاکہ کسانوں، بزرگوں، خواتین اور یومیہ مزدوروں کو ہونے والی روزی روٹی کی دقت کو راحت دے کر ان کے لیے آسانیاں پیدا کیا جا سکیں۔ اس کے علاوہ طبی عملے کو جو محاذ پر سب سے آگے ہیں ۵۰ لاکھ کا انشورنس کور، آر بی آئی کے ذریعے لون لینے والوں کو ای ایم آئی کی ادائیگی سے تین ماہ کی راحت دی گئی ہے۔ ایک سو تیس کروڑ آبادی والے ملک کے لیے 1.7 لاکھ کروڑ روپے کا ’’کورونا راحت اکانومی پیاکیج‘‘ دیا گیا ہے۔ یقیناً وہ ایک اچھی شروعات ہے مگر جو رقم مختص کی گئی ہے وہ محض اشک شوئی میں ہی ختم ہو جائے گی۔ اس کے لیے کم از کم تین گنا بڑا راحت پیاکیج ہونا چاہیے یعنی 5.6 لاکھ کروڑ کا، تاکہ اس بڑی مصیبت سے مقابلہ ہو سکے۔ موجودہ لاک ڈاون کی وجہ سے کروڑوں مزدور اور بے روزگار گھروں میں بیٹھ گئے تو ان کے خاندان والے کھائیں گے کیا؟ چونکہ یہ ایک عالمی بحران ہے۔ اس تکلیف دہ حالت میں ملک کو ایک مناسب اکانومی ریکوری یا معاشی بازیافت کا پیاکیج بنانا ہوگا جو پہلے حالیہ تالہ بندی سے ہونے والے مشکلات کا صدمہ جھیلے اور پھر معاشی بازیافت کر سکے۔ ملک کے سابق وزیر مالیات پی چدمبرم و دیگر ماہرین معاشیات کے درمیان متفق علیہ ہے کہ جو بھی پیاکیج ہو وہ چار ستونوں پر قائم ہو۔ اس وائرس سے متاثرین کے لیے سلامتی فراہم کرنے والا ہو۔ بنیادی معیشت کی حالت کو بہتر کرنے اور اسے تباہ ہونے سے بچا سکے۔ اس لیے معیشت کی بحالی کے لیے ملک کا ’’وائرس اکانومی ریکوری پیکیج‘‘ ہو۔ اس قہر سے تباہ شدہ روزگار والوں کو آمدنی اور کیفیت کے لیے براہ راست 3 ہزار روپے نقد چھ ماہ تک دینے کا انتظام کیا جائے۔ یہ رقم ملک کے 12 کروڑ معاشی طور سے بدحال خاندانوں کو فوری طور پر ادا کی جائے۔ اس پر 2.2 لاکھ کروڑ روپے کا صرفہ آئے گا اور 60 کروڑ افراد مستفید ہوسکیں گے۔ جس میں زرعی مزدور، کسان، یومیہ مزدور، نجی اور غیر منظم سیکٹر میں کام کرنے والے افراد و دیگر لوگ شامل ہیں۔ یہ محض تین ماہ کے لیے 3 ہزار روپے سے کام نہیں چلے گا بلکہ انہیں 3 ہزار روپے ماہانہ کے حساب سے چھ ماہ تک دینا ہوگا۔ سب سے خراب حالات جو 4 تا 6 ماہ میں آنے والے ہیں ان کے مقابلے کے لیے بھی ہمیں اکانومی پیاکیج 4 تا 6 ماہ کا بنانا چاہیے۔ اس پروگرام میں 4500 کروڑ روپے بجٹ کا پردھان منتری سمان بندھو کو ضم کرکے اور منیریگا کے بجٹ کو بڑھا کر اس سے ضروری ہاسپٹل، کلینک، دیہی سڑکیں اور بنیادی ڈھانچہ کو بنانا ہوگا۔ پردھان منتری سمان ندھی، منریگا اور پردھان منتری گرام سڑک یوجنا ان تینوں پروگرام کا بجٹ 1.5 لاکھ کروڑ روپے آتا ہے، حکومت اس کو دوگنا کرکے تین لاکھ کروڑ کر دے تاکہ تمام ضرورت مندوں کو ان اسکیموں سے بھر پور فائدہ مل سکے۔ دوسری طرف فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کے پاس چاول اور گیہوں کی کافی مقدار موجود ہے اس میں سے ہر خاندان کو 5 کلو گرام گیہوں اور چاول فراہم کرنے کے بجائے 10 کیلو گیہوں اور 10 کیلو چاول پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم سے مفت دیے جائیں۔ اس کے ساتھ 3 ہزار روپے ماہانہ بنیادی آمدنی اور حق مزدوری کے طور پر معاوضہ دیا جائے تاکہ لوگوں کے اندر خود اعتمادی اور سلامتی کا احساس پیدا ہو سکے۔ کووڈ 19 کی جانچ اور اس کے علاج میں کام آنے والے آلہ جات کو نجی شعبے تک اس طرح پھیلایا جائے کہ ہر مریض اس سے مستفید ہو سکے۔ اس مد میں 1.5 لاکھ کروڑ روپے لگیں گے جس سے ہمارے ملک کے 20 کروڑ عوام کی جانچ اور ان کا علاج ممکن ہو سکے گا۔ اس صحت عامہ کے نجی سیکٹر سے بڑی تعداد میں روزگار بھی فراہم ہوگا اور لوگوں کو فائدہ بھی۔ گزشتہ سال مرکزی حکومت نے معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے 1,76,000 کروڑ کا قرض آر بی آئی سے لیا تھا اسے بھی اس لاک ڈاون کے وقت لوگوں کی بڑی ضرورت کو پورا کرنے میں صرف کرے۔ اس کے علاوہ 40000 کروڑ روپے ٹیلیکام پبلک سیکٹر یونٹوں کی بہتری کا بجٹ اور ایک لاکھ کروڑ روپے ہائی وے، روڈس اور پلوں کے لیے مختص بجٹ کو ملا کر اس طرف منتقل کیا جاسکتا ہے۔سب سے بڑھ کر اس عالمی مصائب کے وقت خام تیل 40 ڈالر فی بیارل سے گرکر 20 ڈالر فی بیرل ہو جانے کی وجہ سے ملک کے خزانے میں 2 لاکھ کروڑ کی اضافی آمدنی ہوگی۔ یہ رقم اکانومی ریکوری پیکیج کے طور پر استعمال میں آنا چاہیے۔ ملکی معیشت ایک تاریک سمت کی طرف گامزن ہے اس لیے کورونا وائرس کے قہر سے مقابلے کی ذمہ داری ریاستوں پر ڈال کر مرکزی حکومت آرام سے نہیں بیٹھ سکتی۔ بہت ساری ریاستی حکومتیں اپنے دائرہ میں رہ کر لوگوں کو راحت پہونچانے اور وائرس کے خاتمے کے لیے قابل قدر کوششیں کر رہی ہیں۔غربا اور بے سہارا افراد کو سلامتی اور اعتماد مہیا کرنا حکومت اور نجی سیکٹر کی ذمہ داری ہے۔ وہ انہیں خیرات نہیں دے رہے ہیں یہ سب مزدور بڑے شہروں سے بے کسی کے عالم میں اپنے گاووں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں اس سے کورونا وائرس کا پھیلاو مزید بڑھے گا اس لیے ضروری ہے کہ حکومت ان لوگوں کو اپنے ٹھکانے پر پہنچنے کے لیے وسائل مہیا کرے۔ دہلی، اتر پردیش و دیگر ریاستی سرحدوں پر بے بس ومجبور انسانوں کا سیلاب بتاتا ہے کہ لاک ڈاون یا تالہ بندی کا فیصلہ بغیر سوچے سمجھے اور عجلت میں کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ بھی نوٹ بندی کی طرح کا فیصلہ ہے۔ اس کے اثرات بھی غربا اور مزدوروں پر بہت برے پڑے تھے۔
غرض ملک میں جاری لاک ڈاون نے پہلے سے آئی سی یو میں پڑی ملکی معیشت کو بستر مرگ پر ڈال دیا ہے۔ دیگر ترقی پذیر ملکوں کی طرح بھارت کو اکیس روزہ تالہ بندی کی وجہ سے ۱۲۰ ارب ڈالر یعنی ۹ لاکھ کروڑ روپے کا خسارہ ہوسکتا ہے ۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ۴۰ کروڑ نجی اور غیر منظم معیشت کے مزدوروں پر بے انتہا غربت کی تلوار لٹک رہی ہے۔ کیونکہ کورونا وائرس کے قہر نے بڑی تباہی مچا رکھی ہے۔ جس سے ۱۹ کروڑ ۵۰ لاکھ مستقل روزگار ختم ہو جائیں گے یا اس سال کے دوسرے سہ ماہی (اپریل تا جون) میں 7.6 فیصد عالمی پیمانے پر کام کے اوقات کا خاتمہ ہو جائے گا۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس کا قہر جنگ عظیم دوم کے بعد سب سے بدتر عالمی بحران ہے۔ رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کا غذائی خدمات، مینو فیکچرنگ ، ریٹیل کاروبار سے منسلک انتظامی امور پر سب سے زیادہ اثر ہوگا۔ آئی ایل او کے چیف گائی رائیڈر نے کہا ہے کہ مزدور اور کاروباری دونوں اس وقت بڑے خطرناک چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔ مصیبت کو ختم کرنے کے لیے تیزی سے صحیح قدم اٹھانے ہوں گے۔ اور صحیح سمت میں اٹھائے گئے قدم ہی فیصلہ کن ہوں گے۔
اس وقت ریاستی حکومتوں اور مرکزی حکومت کی طرف بہت ہی معمولی امداد مل رہی ہے۔ مگر بہت سارے سماجی وفلاحی ادارے بلا تفریق مذہب بڑے پیمانے پر رضاکارانہ طور پر کام کر رہے ہیں اور تالہ بندی میں پھنسے خاندانوں کی مدد کر رہے ہیں۔ الخلق عیال اللہ سمجھ کر مصیبت زدگان کی امداد کی جا رہی ہے۔ لاک ڈاون میں بعض غیر مسلم بھائی اپنی میت کو بے یارو مددگار چھوڑ دیتے ہیں ان کی آخری رسوم بھی اہل خیر افراد ان کے مذہب کے مطابق ادا کر رہے ہیں۔ مگر اس حال میں ملک کی سب سے بڑی نام نہاد سماجی اور رفاہی تنظیم راشٹریہ آر ایس ایس کا کہیں اتہ پتہ نہیں ہے جبکہ ملک کی سیاست میں اس کا پورا عمل دخل ہے، وزیر اعظم وزیر داخلہ، صدرِ جمہوریہ اور نائب صدرِ جمہوریہ اسی کے سپاہی ہیں۔ صرف خیرات پر لوگ کب تک زندہ رہیں گے؟ لوگوں کی ضرورت ہے کہ ان کو نوکریاں ملیں، ان کے ہاتھوں میں قوت خرید آئے تاکہ ان کے پیٹ کی آگ بجھے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون نے سارے جہاں میں زرعی اور غذائی سلامتی کو بھی صدمے میں ڈال دیا ہے فوڈ اینڈ اگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) نے غذائی بحران کے تعلق سے خبردار کیا ہے اور کہا ہے تالہ بندی سے پریشان ممالک کے شہریوں کو بھوک اور غدائیت کے فقدان سے حفاظت کرنا ہوگا۔ کسانوں کی مصیبت کم کرنے کے لیے انہیں کھیتوں میں جانے کے لیے سہولت فراہم کرنا ہوگا۔ لوگ بازار تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے روپیہ کمانے سے قاصر ہیں کیونکہ لاک ڈاون کی وجہ سے سے سارے جہاں میں کاشت کاری اور مارکٹنگ بہت بڑے بحران کے دور سے گزر رہی ہے۔ غلے کی سپلائی تھم سی گئی ہے۔ تاجروں کا کھلیان سے غلہ اٹھانا بند ہوگیا ہے۔ مزدور کاشتکاری کے لیے دستیاب نہیں ہیں۔ ٹرک ڈرائیورز کی کمی ہے۔ ہر طرح کی غذائی ترسیل میں رکاوٹ ہے۔ خوردہ بازار بند پڑا ہے۔
ماہرین اقتصادیات کے مطابق لاک ڈاون کی وجہ سے بے روزگاری کی شرح میں تیزی سے اضافہ محض بھارت میں نہیں ہوا بلکہ دنیا کے اکثر ممالک میں اس کے اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ پچھلے ہفتے امریکہ میں قریب ایک کروڑ لوگ بے روزگار ہوئے ہیں۔ مگر لاک ڈاون کے ختم ہونے کے بعد بے روزگاری میں کتنی تیزی آئے گی یہ دیکھنا اہم ہوگا۔ اس لیے پوری دنیا میں لاک ڈاون کے خاتمہ کے بعد جس معاشی بحران کی پیش گوئی کی جا رہی ہے اس کے اثرات سے جہاں گلوبل شیئر مارکیٹ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہے وہیں بیشتر اسٹاک ایکسچینج بھی منھ کے بل زمین پر آ پڑے ہیں۔ اس لیے ایسے بحران پر قابو پانے کے لیے امریکہ نے اپنی جی ڈی پی کا دس فیصد یعنی دو ٹریلین ڈالر مختص کیا ہے۔
یوروپی یونین کے ممالک نے بھی اس کے لیے بڑی خطیر رقم مختص کرکے اپنے شہریوں کو بچانے کی کوشش میں ہے۔ موجودہ بحران ۱۹۳۰کے گریٹ ڈپریشن کی یاد دہانی کرا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے دنیا بھر میں بہت سارے تغیرات واقع ہو رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں بے روزگاری ۱۹۳۰ کے زمانے کے حساب سے بڑھ جائے گی۔ کیوںکہ اس وقت امریکہ میں بے روزگاری ۲۵ فیصد درج کی گئی ہے۔ فی الوقت امریکہ میں ۱۳۰۰۰ اموات کے ساتھ بے روزگاری کی شرح ۱۳ فیصد کی اونچائی پر پہنچ گئی ہے۔
ابھی ہر طرف موت کا سا سناٹا ہے۔ لاک ڈاون میں گھروں میں بند رہنے کی وجہ سے لوگ موت کو قریب ہی دیکھ رہے ہیں جس سے ان کا نفسیاتی توازن بھی بگڑ رہا ہے۔ لوگ گھروں میں بیٹھے بیٹھے ذہنی تناو کی وجہ سے بچوں اور خواتین کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ بھارت کی نیشنل ویمن رائٹس کمیشن نے عورتوں پر ہونے والے تشدد اور جنسی زیادتی میں بڑے پیمانے پر اضافہ کی رپورٹ پیش کی ہے۔ اقوام متحدہ کے حقوق نسواں کے ادارے کے رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں گزشتہ ہفتہ تک ۲۴۳ ملین عورتوں اور لڑکیوں کو اپنے ساتھ رہنے والے لوگوں نے جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ کیونکہ سلامتی، صحت اور مالی تنگی نے ان کے اندر تالہ بندی کی حالت میں بہت زیادہ ہی ذہنی تناؤ پیدا کر دیا ہے۔ یو این او کی رپورٹ کے مطابق فرانس میں ۱۷ مارچ سے جاری ہونے والی تالہ بندی میں ۳۰ فیصد تشدد کا اضافہ، ارجنٹائن میں ۲۵ فیصد، قبرص میں ۳۰ فیصد سنگاپور میں ۳۰، امریکہ، برطانیہ اور کناڈا میں اسی رفتار سے گھریلو تشدد وجنسی زیادتی درج کی گئی ہے۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر کا کہنا ہے کہ کورونا کے منفی اثرات کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بجا کر بالخصوص امریکہ اور بالعموم پوری دنیا کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اس وائرس سے عمرانی معاہدوں کا شیرازہ بکھرتا دکھائی دے رہا ہے۔ کورونا وائرس کے بعد کی دنیا اس سے پہلے کی دنیا سے مختلف ہوگی اور میری نگاہ میں کورونا کے بعد آنے والا دور نیا ورلڈ آرڈر ثابت ہوگا امریکہ اور پوری دنیا میں معاشی افراتفری بڑے پیمانے پر پھیلنے کا اندیشہ ہے۔

***


کورونا وائرس کے قہر سے مقابلے کی ذمہ داری ریاستوں پر ڈال کر مرکزی حکومت آرام سے نہیں بیٹھ سکتی۔ بہت ساری ریاستی حکومتیں اپنے دائرہ میں رہ کر لوگوں کو راحت پہونچانے اور وائرس کے خاتمے کے لیے قابل قدر کوششیں کر رہی ہیں۔