ملت کو خود کفیل بنانے کی خاطر اجتماعی نظام زکوۃ کی طرف پہل
معاشی بدحالی کا پائیدار حل نکالنے ’ زکوٰۃ سنٹر انڈیا ‘ کا قیام
وسیم احمد، دلی
ہر سطح پر ضرورت مندوں کا جائزہ لے کر کام شروع کیا جائے گا۔ چیئرمین ایس امین الحسن کی یقین دہانی
اسلام کے پانچ ستونوں میں پہلا ستون اقراری ہے یعنی شہادت دینا ہے۔ اس کے بعد چار عملی ستون نماز، روزہ ، زکوٰۃ اور حج ہیں۔نماز ایک ایسی عبادت ہے جس کے بارے میں امت میں کسی حد تک بیداری پائی جاتی ہے مگر زکوۃ کے تعلق سے بیداری میں کمی محسوس کی جاتی ہے جبکہ اللہ نے اپنے کلام میں جہاں جہاں نماز کا تذکرہ کیا ہے، ان میں سے بیشتر مقامات پر نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا بھی ذکر ہے۔ نماز حقوق اللہ کی ادائیگی کی دیگر علامتوں میں سے ایک اہم علامت ہے جبکہ انسانوں پر ایک اور بڑے حقوق کی ادائیگی کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے، اور وہ ہے حقوق العباد کی ادائیگی۔ حقوق العباد کی بہت سی نوعیتیں ہیں، ان میں سے ایک کے لیے شریعت مطہرہ نے جس علامتی لفظ کا انتخاب کیا ہے، وہ ہے زکوٰۃ ۔ قرآن کا نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا ذکر کرنا اشارہ کرتا ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی دین اسلام کا اہم ترین حصہ ہے۔
زکٰوۃ کوئی ٹیکس نہیں ہے اور نہ ہی چیاریٹی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ موزوں ہوگا کہ یہ ٹیکس اور چیریٹی کے درمیان کا ایک راستہ ہے جس کا تعلق روحانیت سے ہے۔ اس میں ایک مقررہ نصاب تک پہنچنے کے بعد صاحب نصاب پر اپنے مال میں سے مخصوص مقدار کو غرباء ومساکین اور فلاحی کاموں کے لیے مختص کرنے کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ جن ملکوں میں اسلامی نظام قائم ہے وہاں فلاح وبہبود کے کام میں زکوٰۃ کو شامل کر لیا جاتا ہے لیکن ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں وہ نظام نہیں ہے تو یہاں سماج کے باشعور اور غرباء و مساکین کے لیے درمند دل رکھنے والے لوگ کمزور طبقے کی فلاح کے لیے زکوٰۃ کو بہترین مصرف سمجھتے ہیں۔ ہمارے ملک میں مسلمانوں کی جو معاشی بد حالی ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ سچر کمیٹی رپورٹ میں اس کی پوری تفاصیل موجود ہیں۔اس بد حالی کو دور کرنے کے لیے ملک کے سرکردہ افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ کوئی مستحکم اور ٹھوس نظام قائم کریں ۔جس طرح نماز شریعت کا ایک اہم حصہ ہے اور اس کی ادائیگی کے لیے مساجد بنائی جاتی ہیں، اس کے لوازمات کا بندوبست کیا جاتا ہے ۔اسی طرح زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے بھی کچھ مطالبات ہیں جن کو پورا کرنا ان سرکردہ افراد کی بڑی ذمہ داری ہے ۔زکوٰۃ دینے والا جب زکوٰۃ ادا کرتا ہے تو اس کا آدھا کام پورا ہوجاتا ہے مگر آدھا کام باقی رہتا ہے اور یہ آدھا کام ہے مستحقین کو تلاش کرنا اور مناسب طریقے پر اس کو خرچ کرنا۔ اس کے لیے ایک نظام بنانے کی ضرورت ہے ۔منظم طریقہ کار اپنا کر ہی مستحقین تک پہنچا جا سکتا ہے۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ اپنی غربت وافلاس کی بہترین نمائش کرنے کے فن سے واقف ہوتے ہیں اور اپنی پریشان حالی کی ترجمانی انتہائی خوبصورت انداز میں کرتے ہیں جس سے متاثر ہو کر زکوۃ ادا کرنے والے کا دست تعاون ان کی طرف بڑھ جاتا ہے جبکہ اس کی ضرورت کتنی ہے اس طرف توجہ مبذول نہیں ہوپاتی ہے۔ دوسری طرف کچھ ایسے غیور لوگ ہوتے ہیں جو غربت و احتیاج کی تپش میں جھلس رہے ہوتے ہیں مگر غیرت اور شرم و حیا ان کی زبان پر قفل لگا دیتی ہے ، وہ اپنی غربت کا اظہار کسی کے سامنے نہیں کرتے۔ ایسے افراد کی انتہائی گہرائی کے ساتھ تلاش وجستجو کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں اسلام کا آئیڈیا نہایت ہی منفرد اور ممتاز ہے ۔اس نے کسی مخصوص صورت حال سے متاثر ہوکر زکوٰۃ ادا کرنے کے بجائے صاحب نصاب کے لیے مخصوص مقدار میں زکوٰۃ کی ادائیگی کو ایک نظام سے جوڑ دیا ہے ۔ اس نظام کے تحت زکوٰۃ کی ادائیگی عام طور پر عارضی ضرورتوں کو پوری کرنے کے لیے کی جاتی ہے جیسے کسی بھوکے کو کھانا کھلا دینا، کسی ننگے کو کپڑا پہنا دینا۔ لیکن اس کا ایک اور مصرف پائیدار اور تخلیقی نوعیت کا بھی ہے۔ عموما لوگ عارضی ضرورتوں کو مد نظر رکھ کر زکوٰۃ کی ادائیگی کر دیتے ہیں جبکہ مستحقین کی مدد کچھ ایسے نہج پر کی جانی چاہیے کہ ان کی ضرورتیں پائیدار طریقے پر حل ہو جائیں اور ان کی محتاجی دور ہو۔ اس مقصد کو بروئے کار لانے کے لیے ’’ زکوٰۃ سنٹر انڈیا ‘‘ نامی ایک ٹرسٹ قائم کیا گیا ہے۔ اس ٹرسٹ کے اغراض و مقاصد پر ایس امین الحسن صاحب نے جو کہ اس ٹرسٹ کے چیئرمین ہیں، بتایا کہ ’’ملت اسلامیہ ہند کو باوقار، خود کفیل اور غربت سے پاک امت بنانے کے لیے زکوٰۃ کا اجتماعی نظم قائم کرنے کے لیے ٹرسٹ کو رجسٹر کرایا گیا ہے۔ اس ٹرسٹ میں ملت کے فعال با اعتماد اور سماج کی نمائندگی کرنے والے لوگوں کو شریک کیا جا رہا ہے ۔یہ ٹرسٹ ملک گیر سطح پر ملت کے علماء کرام، ماہرین معاشیات، مالیات، تعلیم وسماجیات پر مشتمل ہو گا۔ ابتدائی طور پر اگلے کچھ ہفتوں میں ہم ملک کے دس سے بارہ شہروں میں جائیں گے۔ وہاں کے سرکردہ افراد سے ملاقاتیں کریں گے۔ پہلے سے جو تنظیمیں کام کر رہی ہیں، ان سے بھی رابطہ کریں گے اور باہمی مشوروں سے زکوٰۃ کی رقم کو اسی شہر کے ان آٹھ مصارف پر خرچ کریں گے جن کے بارے میں قرآن مجید میں بتایا گیا ہے۔ جس علاقے میں کام کیا جائے گا وہاں اس عزم کے ساتھ کام ہوگا کہ وہاں کے طلباء، خواتین اور مستحقین کو بااختیار بنایا جائے اور علاقے سے غربت کا خاتمہ ہو اور وہ خود کفیل بن جائیں۔ ہم زکوٰۃ کو مستحقین کی ضرورتوں کی نوعیتوں کا پتہ لگانے کے بعد ہی صرف کریں گے۔ ان کی عارضی ضرورتیں پوری کرنے کے علاوہ ہمارا فوکس اس بات پر بھی ہو گا کہ زکوٰۃ لینے والوں کی کچھ ایسی مدد کی جائے کہ وہ آئندہ سال تک زکوٰۃ مستحقین کے زمرے سے باہر نکل آئیں اور وہ خود کفیل بن جائیں۔ مثلاً انہیں کوئی چھوٹا سا کاروبار کرنے کے لیے تعاون دیا جائے ۔غریب طلباء کے لیے اسکالر شپ جاری کر دی جائے وغیرہ۔ ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے مستقل ایک ٹیم تشکیل دی گئی ہے جس میں جناب محی الدین شاکر کو ٹرسٹ کا خزانچی اور جناب عبد الجبار صدیقی کو سکریٹری مقرر کیا گیا ہے۔ اس ٹرسٹ کے ساتھ وابستگی اور اس کا تعاون کرکے ملت کو خوشحال بنانے میں ساتھ دینا ہر ایک فرد کو اپنا فریضہ سمجھنا چاہیے‘‘۔
***
***
ملت اسلامیہ ہند کو باوقار، خود کفیل اور غربت سے پاک امت بنانے کے لیے زکوٰۃ کا اجتماعی نظم قائم کرنے کے لیے ٹرسٹ کو رجسٹر کرایا گیا ہے۔ اس ٹرسٹ میں ملت کے فعال با اعتماد اور سماج کی نمائندگی کرنے والے لوگوں کو شریک کیا جا رہا ہے ۔یہ ٹرسٹ ملک گیر سطح پر ملت کے علماء کرام، ماہرین معاشیات، مالیات، تعلیم وسماجیات پر مشتمل ہو گا۔ ابتدائی طور پر اگلے کچھ ہفتوں میں ہم ملک کے دس سے بارہ شہروں میں جائیں گے۔ جس علاقے میں کام کیا جائے گا وہاں اس عزم کے ساتھ کام ہوگا کہ وہاں کے طلباء، خواتین اور مستحقین کو بااختیار بنایا جائے اور علاقے سے غربت کا خاتمہ ہو اور وہ خود کفیل بن جائیں۔ ہم زکوٰۃ کو مستحقین کی ضرورتوں کی نوعیتوں کا پتہ لگانے کے بعد ہی صرف کریں گے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 6 تا 12 مارچ 2022