مغربی بنگال: انتہائی پسماندہ ضلع کی مسلم لڑکی نے حاصل کی شاندار کامیابی
حزب مخالف کو تعلیمی کامیابی سے زیادہ سیاست وفرقہ واریت میں دلچسپی؟
’بیٹی پڑھاؤ ‘کا نعرہ لگانے والوں کو ہی راس نہیں آئی بیٹی کی پڑھائی !
ایک ایسے وقت میں جبکہ ملک میں مسلمانوں کے حالات انتہائی مایوس کن ہیں اور ہر طرف سے منفی خبریں آ رہی ہیں ملک کے سب سے پسماندہ ضلع مرشد آباد سے ایک خوش کن خبر آ ئی ہے جہاں بارہویں کے امتحان میں ایک مسلم طالبہ نے پوری ریاست میں ٹاپ کیا ہے۔ نتائج کا اعلان کرتے ہوئے مغربی بنگال کونسل آف ہائر سیکنڈری ایجوکیشن (ڈبلیو بی سی ایچ ایس ای) کی صدر مہوا داس کو ٹاپر کی مذہبی شناخت اجاگر کرنے کے لیےشدید تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک طالبہ کی شاندار کامیابی کے بعد اس کے سماجی اور علاقائی حالات کے پیش نظر اس کی حوصلہ افزائی اور ستائش کرنے کے بجائے مغربی بنگال کی اپوزیشن جماعتوں نےاسے سیاسی محاذ آرائی کا ذریعہ بنالیا اور سیاسی جنگ چھیڑنے کی کوشش کی جو کہ سیاست کی گرتی ہوئی سطح کی عکاس ہے۔
مغربی بنگال کونسل آف ہائر سیکنڈری ایجوکیشن کی صدر نے لڑکی کے پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے بتانا چاہا کہ انتہائی پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے کے باوجود ایک مسلم لڑکی نے ایسا عظیم الشان کارنامہ انجام دیا لیکن اپوزیشن نے اس کو مذہبی رنگ دے کر سیاست کرنا شروع کر دیا ۔
حزب مخالف کے سیاسی رہنماؤں نے مہواداس پر شدید تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ حکومت کی خوشامد کرنے کے لیے انہوں نےایسا کیا ہے۔ تاہم ، کونسل کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ مہوا داس صرف اس حقیقت کو واضح کرنا چاہتی تھی کہ ایک اقلیتی برادری کی لڑکی نے ٹاپر بننے کے لیے ’’سماجی اور معاشی رکاوٹوں کا مقابلہ کیا ہے‘‘۔ مہوا داس نے لڑکی کا نام لیے بغیر کہا کہ مرشد آباد ضلع کی ایک مسلمان لڑکی نے پانچ سو میں سے چار سو ننانوے نشانات حاصل کیے اور بارہویں کے نتائج میں ٹاپر بن کر ابھری۔
بی جے پی آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ نےٹویٹ کر کے کہا کہ ’’ممتا بنرجی کے بنگال میں ، چاپلوسی کی سیاست انتہائی نچلی سطح پر پہنچ گئی ، جب بورڈ کے ایک عہدیدار نے بارہویں جماعت کی طالبہ کی تعلیمی کامیابی کو اس کی مذہبی شناخت سے ظاہرکردیا۔ اسی طرح کانگریس کے رہنما ادھیر رنجن چودھری نے کہا کہ انہیں اس وقت جھنجھلاہٹ ہوئی جب کونسل نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ایک مسلمان لڑکی نے پہلا مقام حاصل کیا ہے ۔ انہوں نےکہاکہ اگر طالبہ کی مذہبی شناخت کوظاہر نہ کیا جاتا تو اچھا تھا۔رنجن چودھری نے کہا کہ یہ ’قابل تعریف امرہے کہ ایک طالبہ نے لڑکوں کو پیچھے چھوڑ کر پہلا درجہ حاصل کیا۔‘‘
اس دوران کانگریس طلباء تنظیم کے ریاستی صدر سوربھ پرساد نے مطالبہ کیا کہ مہو داس کو اپنے تبصرے کے لیے معافی مانگنا چاہیے ورنہ انہیں ان کے عہدے سے برخواست کردینا چاہیے ۔ دوسری جانب نامور ماہرین تعلیم نے بھی مہوا داس کو’’میرٹ کو مذہب کے ساتھ ملانے‘‘ پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ پریذیڈنسی کالج کے سابق پرنسپل امل مکھوپادھیائے نے کہا ’’ مہوا داس نےنادانستہ طور پر یہ تبصرہ کیا ہوگا ، لیکن اس نے میرٹ کو مذہب کے ساتھ ملا کر غلطی کی‘‘۔ خیال رہے کہ داخلہ کے دوران بھی بہت سے طلبا و طالبات درخواست فارم میں مذہب کےخانہ پر اعتراض کرتے رہے ہیں۔مغربی بنگال کے حالیہ انتخابات میں ممتا بنرجی کو ملی شاندار جیت کے بعد اپوزیشن کا اس طرح جھلّا جانا قابل فہم ہے مگر ایک مسلم طالبہ کو اس کی شاندار کامیابی پر حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے سیاست کرنا افسوسناک ہے ۔ بہتر ہوتا کہ اپوزیشن پارٹیاں طالبہ کی حوصلہ افزائی کرتیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔بیٹی پڑھاو کا نعرہ اچھا لنے والا بھگوا ٹولہ سیاسی دشمنی میں اس قدر اندھا ہوگیا ہے اسے کسی مسلمان لڑکی کا محنت کے ذریعہ تعلیم کے میدان میں نام کمانا بھی برداشت نہیں ہوا اور وہ اس واقعہ کو منفی رخ دینے کی کوشش کرنے لگا۔
***
ایک طالبہ کی شاندار کامیابی کے بعد اس کے سماجی اور علاقائی حالات کے پیش نظر اس کی حوصلہ افزائی اور ستائش کرنے کے بجائے مغربی بنگال کی اپوزیشن جماعتوں نےاسے سیاسی محاذ آرائی کا ذریعہ بنالیا اور سیاسی جنگ چھیڑنے کی کوشش کی جو کہ سیاست کی گرتی ہوئی سطح کی عکاس ہے
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 اگست تا 21 اگست 2021