معراج کا پیغام:الٰہی نظام اطاعت کا قیام
اسلامی ریاست کے اصول ومبادی سورہ بنی اسرائیل کی روشنی میں
ڈاکٹر ساجد عباسی،حیدرآباد
سفرِ معراج کا پہلا حصہ وہ ہے جو مسجدِ حرام سے مسجد اقصیٰ تک تھا جس کا ذکر سورہ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیات میں آیا ہے۔ اور اسی سورۃ کی آیات 23 تا 37 میں اللہ تعالیٰ نے وہ اہم اصول بیان فرمائے ہیں جس کی بنیاد پر ایک اسلامی ریاست کو قائم کیا جاسکتا ہے۔ ان ہی اصولوں پر افراد کی تربیت کی جانی چاہیے اور ان ہی پر اسلامی معاشرہ کی تعمیر ہونی چاہیے اور ان ہی اصولوں پر اسلامی ریاست کی تشکیل عمل میں آسکتی ہے۔ چونکہ یہ آیات ہجرت سے ایک سال قبل نازل ہوئی تھیں اس لیے مدینے میں ایک نوخیز اسلامی ریاست کے قیام سے قبل ہی اس کے اصول و مبادی پیشگی دے دیے گئے۔ یہ جملہ 14اصول ہیں جن کو مختصراً یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔
1۔ ایک اللہ کی بندگی و عبادت: اسلامی معاشرے کا سب سے اہم ترین بنیادی نکتہ یہ ہے کہ خدائے واحد کی بندگی وعبادت کی جائے اور طاغوت کا انکار کیا جائے۔ اسلامی معاشرے کی اساس توحید Monotheism ہے جو اس کائنات کی سب سے بڑی سچائی ہے۔ اگر کسی معاشرے کی بنیاد ہی جھوٹ پر ہو تو اس کے تمام اجزاء بھی ہر لحاظ سے حقیقت سے متصادم ہوں گے اور بالآخر وہ معاشرہ ناکام ثابت ہوگا۔ چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وہ تمام معاشرے ناکام ہیں جہاں اللہ کی بندگی نہیں کی جاتی بلکہ طاغوت کی بندگی کی جاتی ہے۔ اسلامی معاشرے میں سیاست اس اصول پر ہوگی کہ ایک اللہ کی حاکمیت ہو۔ اللہ کے بنائے ہوئے قانون کو اسلامی ریاست کا قانون مانا جائے جو خالق کائنات بھی ہے اور خالقِ انسان بھی۔ وہی انسان کی بھلائی کا قانون بنا سکتا ہے۔انسان نے جب بھی اللہ کے قانون سےبےنیا ز ہوکر خود سے قانون سازی کی حماقت کی تو انسانی معاشرہ افراط و تفریط اور فساد و انتشار کا شکار ہوا۔ فرد کا ارتقاء اس اصول پر ہو کہ وہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرے اور اللہ کے سوا ہر ایک کا خوف دل سے نکال دے۔ اس کی زندگی میں اللہ کی محبت اور اسی کی رضا ہر دوسری چیزپر مقدم ہو۔ چاہے وسائل کا انبار ہو یا فقدان، اس کا بھروسہ وتوکل صرف اللہ کی ذات پر ہو۔ ایسے افراد سے بننے والے معاشرے میں ہی حقیقی امن پیدا ہوسکتا ہے۔ اور ایک اللہ کی جوابدہی کی بنیاد پر بننے والا معاشرہ ہی اصلاحی معاشرہ بن سکتا ہے۔ ایسے معاشرے کے افراد جہاں خود نیکی پر عامل ہوں گے وہیں وہ دنیا میں خیر کے بھی علمبردار ہوں گے اور دنیا سے شر اور فتنہ وفساد کو دور کرنے کی ذمہ داری کو محسوس کرنے والے ہوں گے۔
2۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک: اسلامی معاشرے کی دوسری بنیاد یہ ہے کہ معاشرے کے اندر شُکر کا کلچر ہو۔ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ شکر کی مستحق ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اس کے بعد شکر کے مستحق والدین ہیں جو نہ صرف ہمارے اس دنیا میں آنے کا ذریعہ بنے ہیں بلکہ انہوں نے ہماری اس حالت میں پرورش خبرگیری اور تربیت کی جب ہم دنیا کی کمزور ترین مخلوق تھے۔ اس شکر گزاری کا تقاضا ہے کہ ہم اس احسان کو اس وقت بھی یاد رکھیں جب وہ خود کمزوری یعنی بڑھاپے کی حالت کو پہنچ جائیں۔ ہمارے کسی قول وعمل سے انہیں یہ احساس تک نہ ہونے دیں کہ وہ ہم پر بوجھ ہیں۔ بلکہ ان کی خدمت کو سب سے بڑی سعادت سمجھیں۔ چنانچہ اسلام حکم دیتا ہے کہ تم ان کو اف تک نہ کہو اور دعا کرتے رہو کہ خدایا! تو ہمارے والدین پر اس طرح رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں ہمارے اوپر رحم کھا کر ہمیں پالا پوسا۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم کچھ بھی خدمت کر کے والدین کا حق ادا نہیں کر سکتے اس لیے ہم خدا سے ہی عرض کرتے ہیں کہ تو ہی ان کو بدلہ عطا فرما۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ غیر اسلامی معاشروں میں اولاد اپنے والدین کو بوجھ سمجھ کر اولڈ ایج ہومس میں داخل کرادیتی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مادہ پرستی نے انسانی سوچ کو اتنا پست کر دیا ہے کہ انسان ہر چیز کو اپنے مفاد کی نظر سے دیکھتا ہے اور جب کوئی چیز فائدے کی نہیں رہتی تب وہ اس سے اٹھا کر پھینک دیتا ہے۔ والدین چونکہ انسان ہیں ان کو اٹھا کر پھینکا نہیں جا سکتا اس لیے ان کو اولڈ ایج ہومس میں داخل کرا دیا جاتا ہے۔ جبکہ اسلام نے والدین کی خدمت کو جنت کے حصول کا لازمی ذریعہ بنایا ہے۔ جہاں والدین کی عزت ہوتی ہے وہاں خاندانی نظام بھی باقی رہتا ہے کیونکہ وہی خاندان کے سرپرست ہوتے ہیں۔ مغرب میں خاندانی نظام کے بکھر جانے کا سبب اولاد کا اپنے والدین سے کٹ جانا ہے۔ اسلام نے اولاد کو والدین کے احترام کا حکم دے کر خاندانی نظام کی جڑوں کو پانی پہنچایا ہے۔ چنانچہ وہ گھر بابرکت قرار پایا جس میں والدین کے اچھا سلوک کیا جاتا ہے۔
3۔ رشتہ داروں مساکین اور مسافر کے حقوق: یہ اسلامی معاشرے کی تیسری بنیاد ہے معاشرے کے وہ افراد جو معاش کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہوں ان کی مدد کرکے ان کو باعزت زندگی گزارنے کا موقعہ فراہم کرنا۔ اس معاملہ میں سب سے زیادہ مدد کے مستحق وہ نادار لوگ ہیں جو رشتہ داروں میں پائے جاتے ہوں۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو تمام انسانوں کو یکساں صلاحیتوں اور یکساں حالات کے ساتھ پیدا فرماتا لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو امتحان کے لیے دنیا میں بھیجا اور امتحان کا تقاضا یہ ہے کہ ہر آدمی کو الگ الگ حالات اور صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے جن کو ان کی ضرورت سے زیادہ مال دیا ہے ان کے شُکر کا امتحان ہے اور شکر کا طریقہ یہ ہےکہ ہم ہمارے اموال میں ان کا حق پہچانیں جو معاشی طور پر کمزور ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے معاشرتی فلاح کا نظام قائم کردیا۔ زندگی کی اس دوڑ میں ایک خوشحال خاندان بھی بدحالی کا شکار ہو سکتا ہے۔ باہمی ہمدردی کے اس نظام سے پورا معاشرہ معاشی طور پر Secure محفوظ ہوجاتا ہے۔ اسلام ایک ایسی فلاحی ریاست کا تصور پیش کرتا ہےجہاں کوئی اپنے آپ کو بے سہارا نہ سمجھے۔ اس انفرادی انفاق کے علاوہ اسلام میں حکومت کی سطح پر زکوٰۃ وصدقات کے حصول وتقسیم کا نظام بھی ہے جس سے اسلامی معاشرہ معاشی طور پر تمام افراد کی فلاح کا ضامن ہو جاتا ہے۔
4۔ فضول خرچی سے پرہیز: معاشرے میں دولت کے بے جا استعمال پر روک لگائی گئی ہے۔ دولت انفرادی ملکیت ہونے کے ساتھ ساتھ پورے اسلامی معاشرہ کی اجتماعی معاشی طاقت ہے۔ ایک اسلامی ریاست میں یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک فرد دولت کا مالک ہونے کی بناء پر اس کو نام ونمود اور اپنی بڑائی کو ثابت کرنے کے لیے بے جا خرچ کرے۔ فضول خرچ کو شیطان سے اس لیے تشبیہ دی گئی ہے کہ اس کا اصل وصف استکبار ہے اور فضول خرچی میں یہی جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔
5۔عزت نفس کا پاس و لحاظ: اسلامی معاشرے میں ایک فرد کی عزتِ نفس کی بڑی اہمیت ہے۔ اگر کوئی شخص اس قابل نہ ہو کہ وہ کسی محتاج کی مدد کر سکے تو اسے چاہیے کہ وہ مسکینوں اور محتاجوں کو نرمی سے جواب دے اور اپنی پوزیشن اس پر واضح کر دے۔یہ نہ ہو کہ وہ ایک مجبور کی مجبوری کو حقارت سے دیکھے اور اس کے ساتھ اس کی دل آزاری بھی کرے۔
6۔خرچ میں میانہ روی: اسلامی معاشرہ دو انتہاووں کے درمیان توازن کی راہ دکھاتا ہے۔ جہاں نمود ونمایش نہ ہو اسراف و فضول خرچی نہ ہو وہیں ایک فرد اتنا بخل بھی نہ کرے کہ بنیادی ضروریات پر بھی وہ اپنے ہاتھ گردن سے باندھے رکھے اور اپنی دولت کو جمع کرتا چلا جائے۔ جہاں بندہ تکبر میں آکر مال اڑاتا ہے وہیں اللہ پر عدم توکل کی وجہ سے بخل کرتا ہے۔ جو رب آج ہم کو دے رہا ہے کل بھی ہمیں دے گا اگر اس بات پر یقین نہ ہو تو انسان پائی پائی کو جمع کرکے رکھتا ہے اور خود اپنی ذات پر اپنے اہل و عیال پر بھی خرچ نہیں کرتا کُجا کہ وہ دوسروں پر خرچ کرنے کے بارے میں سوچے۔
7۔ افلاس کے ڈر سے قتلِ اولاد نہ کریں: اس آیت میں انسانی سوچ کی وہ پستی اور اس کے گھناؤنے اثرات کو بیان کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ایک انسان اپنی اولاد کو بوجھ سمجھتا ہے اور اس کی جان لینے کے درپے ہو جاتاہے۔ جب انسان کو اللہ تعالیٰ کی ذات کے رب ہونے کا یقین نہ ہو تو وہ اس پر توکل بھی نہیں کرے گا یہی مادہ پرستانہ سوچ ہے۔ چنانچہ اُس زمانےمیں لوگ اپنی اولاد کو پیدائش کے بعد قتل کرتے تھے بالخصوص لڑکیوں کو وہ معاشی بوجھ سمجھتے تھے۔ آج فیملی پلاننگ کے نت نئے طریقے ایجاد کیے گئے ہیں جس کے پیچھے یہی ذہنیت کار فرما ہے کہ population explosion سے انسانیت بھوک وافلاس کا شکار ہو کر ختم ہو جائے گی۔ جبکہ مشاہدات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ انسانی آبادی کے ساتھ سائنس کی ترقی بھی ہوتی رہی اور اللہ کی زمین سے نئے ذخائر بھی دریافت ہوتے رہے۔ آج مادہ پرستانہ سوچ نے بچوں کی پیدائش کو اتنا کم کر دیا ہے کہ مستقبل میں بعض قوموں کے بارے میں اندیشہ ہے کہ وہ ناپید ہوجائیں گی چنانچہ ان ملکوں میں حکومت کی طرف سے incentives دیے جا رہے ہیں کہ وہ شادی کریں اور اتنے بچے پیدا کریں کہ معاشرہ survive ہو سکے۔
8۔زنا کے قریب نہ پھٹکو: انسانی معاشرے کی بقاء کے ایک اہم اصول کو پیش کیا جا رہا ہے کہ نسلِ انسانی کو جاری رکھنے کے لیے خاندان جیسا ادارہ موجود ہو اور وہ مستحکم بھی ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ ایک انسان کا بچہ تمام حیوانات کی جنس میں سب سے زیادہ کمزور ہوتا ہے۔اس کی ہر آن اور مسلسل دیکھ بھال پرورش خبرگیری اور تربیت کے لیے حساس اور ذمہ دار والدین کا ہونا لازمی ہے۔ اس کے لیے نکاح کی قید سے تعلق زن و شو کو مقید disciplined کیا جانا لازمی ہے۔ اس کے بجائے آزاد شہوت رانی رائج ہو جائے تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کی ذمے داری کون قبول کرے گا؟ کوئی نہیں۔ لہذا ایسے افراد کی تعداد بڑھنے لگے گی جن کو اپنی ماں کا پتہ ہوگا نہ باپ کا۔ یہ زندگی بھر احساسِ محرومی بلکہ احساسِ جرم کا شکار رہیں گے یا تو خود بھی مجرم بن جائیں گے یا گھٹ گھٹ کر مر جائیں گے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ زنا کے تمام عوامل سے دور رہا جائے جیسے بے پردگی، مرد وخواتین کا اختلاط وغیرہ۔ اس طرح اسلام نے نہ صرف خاندانی ادارے institution کا تحفظ کیا ہے بلکہ عورت کی عزت وناموس کی حفاظت بھی کی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ پردہ جس سے عورت کی عزت کی حفاظت ہوتی ہے اسی کو عورت کے لیے repressive backwardness رجعت قہقری قرار دیا گیا۔ آج مغربی معاشرے نے عورت کو انسان کے درجے سے گرا کر اسے ایک commodity بنا کر رکھ دیا ہے۔
9۔قتلِ نفس کا ارتکاب نہ کرو: کسی بھی انسانی معاشرے کی بقاء کے لیے لازم ہے کہ انسانی جان کو محترم ٹھیرایا جائے اور کسی صورت میں اس حق کو پامال نہ ہونے دیا جائے۔ اسلام میں قتلِ ناحق ایک گھناؤنا عمل ہے جس کی سزا قصاص ہے۔ قصاص سے انسانی جانوں کی حفاظت ہو سکتی ہے۔ جن معاشروں میں قصاص کا تصور نہیں یعنی جان کے بدلے جان نہ ہو ان معاشروں میں ایک مجرم کی جان کو سارے معاشرہ کے تحفظ پر فوقیت دی جاتی ہے۔ جس دین میں انسانی جان کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا ہو اسی معاشرے کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ یہ دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے۔
10۔مالِ یتیم کے پاس نہ پھٹکو: یعنی معاشرے کے کمزور ترین افراد کے حقوق بھی محفوظ ہوں۔ جہاں اسلام افراد کی اس طرح سے تربیت کرتا ہے کہ معاشرے کے کمزور ترین افراد جیسے یتیم ہیں ان کے حقوق کی حفاظت کی جائے وہیں یتیموں کی کفالت کرنے پر بھی ابھارا گیا ہے۔ ایسے معاشرے میں ایک کمزور بھی اپنے کو کمزور سمجھ کر احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہوگا۔ مادہ پرستانہ معاشروں میں کمزور under privelleged افراد ہمیشہ احساسِ کمتری کا شکار ہوکر جرائم پیشہ بن جاتے ہیں۔ اسلامی ریاست ایسے کمزور لوگوں کی حامی بن جاتی ہے تاکہ کوئی کمزور ترین بھی قانون کی بالادستی کی بناء پر اپنے آپ کو طاقتور اور طاقتور ترین بھی قانون کے سامنے اپنے آپ کو سب سے کمزور سمجھے۔
11۔ عہد کی پابندی کرو: عہد چاہے دو افراد کے درمیان ہو یا گروہوں کے درمیان تمام قسم کے عہد ومعاہدے contracts and agreements کی پاسداری کی جائے۔ اسی سے ایک صحتمند معاشرہ وجود میں آسکتا ہے جہاں افراد ایک دوسرے پر اعتماد و بھروسہ کرسکتے ہوں۔ اگر اعتماد کی فضا ختم ہو تو ایسا معاشرہ تنزلی کا شکار ہو جائے گا جس سے اخلاقی معاشی ومعاشرتی بحران پیداہوگا۔
12۔ناپ تول میں کمی نہ کرو: اس آیت میں social justice کے ساتھ economic and commercial justice کا اہم اصول دیا جا رہا ہے تاکہ استحصال exploitation کے سب راستے بند ہوں۔ اس اصول کے حدود معاشی استحصال و ناانصافی تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ ہر طرح کے استحصال پر محیط ہیں جیسے ایک آجراپنے ملازم کے ساتھ ناانصافی نہ کرے اور نہ ہی ایک ملازم اپنے آجر کے ساتھ ۔
13۔بدگمانی سے بچو: یہاں پر یہ اصول دیا جا رہا ہے کہ ہر انسان محدود علم رکھتا ہےاور وہ ساری چیزوں کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ وہ دوسرے افراد کے بارے میں بدگمان نہ ہو۔ ان کو اتنی رعایت دے جتنی وہ خود دوسروں سے اپنے لیے چاہتا ہے۔
14۔زمین میں تکبر نہ کرو: اور سب سے آخر میں اس اہم ترین برائی کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے جو بے شمار برائیوں کی جڑ ہے اور وہ ہے استکبار) (arrogance جس کی خاطر ایک انسان دوسروں کو غلام بناتا ہے ان کا استحصال کرتا ہے دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتا ہے ان سے انتقام لیتا ہے اور اجتماعی زندگی میں جنگوں کو مسلط کر کے انسانی جانوں اور اموال کو تباہی سے دوچار کر دیتا ہے۔ چاہے وہ فرد کا تکبر ہو یا نسلی تفاخر یہ ہمیشہ انسانی آبادیوں کی تباہی کا سبب بنا ہے اور آج بھی بنا ہوا ہے۔