اسلامی تحریکات: معاصر اسلامی تحریکات کے کچھ اصلاح طلب پہلو
ڈاکٹر محمد عمارہؒ
(اسلامی تحریک کے لیے اپنے ذاتی احتساب کے نتائج بہت اہمیت رکھتے ہیں، تاہم تحریک کے باہر سے خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ لیا ہوا تحریک کا جائزہ اپنی جداگانہ اہمیت رکھتا ہے۔ سینکڑوں عظیم فکری کتابوں کے مصنف ڈاکٹر محمد عمارہ کا شمار نہ صرف اپنے ملک مصر بلکہ پورے عالم اسلام کے چوٹی کے علما میں ہوتا ہے، علامہ یوسف قرضاوی نے ان کی شخصیت پر کتاب لکھی اور انھیں اسلامی فکر کی سرحدوں پر ہر وقت بیدار اور چاق چوبند رہنے والا پاسبان قرار دیا۔ ڈاکٹر محمد عمارہؒ نے عالمی اسلامی تحریکات کو سامنے رکھ کر کچھ اصلاح طلب پہلووں کی نشان دہی کی ہے، جنھیں زندگی نو میں قسط وار پیش کیا جائے گا۔ ہم اہل فکر ونظر کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ہندوستان کی اسلامی تحریک کے پس منظر میں ان پہلووں کے تعلق سے اپنی قیمتی آرا سے نوازیں۔)
اس موضوع سے میرا تعلق
راقم تنظیمی طور پر کسی بھی معاصر اسلامی تحریک سے وابستہ نہیں تاہم اسے لگتا ہے کہ وہ اس موضوع پر گفتگو کرنے کا اہل ہے۔
میرے لیے معاصر اسلامی تحریکات کی سرگرمیوں اور افکار سے دل چسپی محض ایک مطالعہ تک محدود ہونے کی چیز نہیں ہے جو شائع ہو کر کسی کتاب یا تحقیقاتی رسائل وجرائد کی زینت بن جائے، بلکہ یہ اس مجاہد کی فکرمندی ہے جو ایک ہی معرکہ کے تمام دم سازوں اور جاری کشمکش میں شامل ایک ہی خندق کے تمام ساتھیوں کی فکر کو اپنا ہتھیار سمجھتا ہے۔ آخر ہم سبھی کی جدوجہد تو اسی لیے ہے کہ اس امت کو بیدار کریں، آزادی کی جو متاع اس سے چھین لی گئی ہے اسے بازیاب کریں اور اسلام کو سینے سے لگا کر اسے بلندیوں سے ہم کنار کریں۔ یہ فکر مندی محض علمی نوعیت کی نہیں ہے بلکہ یہ اس رفیقِ کار کے دل کی دھڑکن ہے جو ہم فکر بھی ہے اور امت کے جسم کے سلسلے میں بہت زیادہ حساس بھی۔ یہاں جسم سے ہماری مراد وہ ہراول دستے ہیں جو نئی اسلامی بیداری کے لیے میدانِ کارزار میں ڈٹے ہوئے ہیں۔
اسلامی تحریکات کی عظیم حیثیت
میرے لیے ان معاصر اسلامی تحریکات کی حیثیت محض مطالعہ کے ایک مضمون کی نہیں ہے، میری نگاہ میں تو یہ اسلامی بیداری کی امیدوں کا مرکز ہیں، اور اسلامی خطوط پر اس امت کو صبحِ نو کے راستے پر لے کر چلنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ ہماری آرزو ہے کہ یہ تحریکات امت کو اس کی حقیقی آزادی، سچی سربلندی اور قیامِ عدل کے لیے مطلوبہ قوت کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں تاکہ یہ امت ایک بار پھر دنیا کی قیادت اور عالم کی سربراہی کی ذمہ داری انجام دے اور ساری انسانیت کو راستہ دکھانے میں اپنا بھر پور فطری کردار ادا کرے۔
واقعہ یہ ہے کہ صرف یہی تحریکات فکری شوکت کی مالک ہیں، یعنی اس فکر سے مالا مال ہیں جو تنہا، کسی اور فکر سے بے نیاز ہو کر افرادِ امت کو متحد کرنے اور فعال بنانے کی قدرت رکھتی ہے، تاکہ امت کے اندر خود شناسی پیدا ہو، وہ اپنے اوپر ہونے والی یلغار کا مقابلہ کرسکے، اور تمدنی ترقی کی اس منزل کو پالے جہاں امت کی شناخت محفوظ ہو اور وہ اچھی طرح پھولے پھلے۔ ان تحریکات کے پاس یہ فکری شوکت موجود ہے، اور بحیثیتِ مجموعی اسلامی تمدنی شناخت کے لیے یہ اپنی راہ پر ثابت قدم ہیں۔ ان تحریکات کے ہاتھ میں مسلم عوام کی حرکت وتحریک کی زمام ہے، مسلم عوام ہی تبدیلی کی جد وجہد کے اصل دست وبازو اور مطلوبہ اسلامی تبدیلی کے اول حصہ دار ہیں…. یہی وجہ ہے کہ ان تحریکات کو لوگوں کی بھر پور محبت ملتی رہی اورلوگ بڑی تعداد میں ان کے گرویدہ ہوتے رہے اور ہوتے رہیں گے۔
یہ اسلامی تحریکات اسلام کی طرف سے عائد فرضِ کفایہ کی انجام دہی اور شرعی اور اجتماعی ذمہ داری یعنی امر بالمعروف اور نھی عن المنکر، تواصی بالحق، ایک دوسرے کوراہِ حق کی مشقتوں اور آزمائشوں پر صبر کی تلقین کا فریضہ ادا کرنے میں مصروف ہیں۔ غرض اسلامی تحریکات وہ دستے ہیں جو امت اور عوام کی مدد سے اس فریضہ کو انجام دینے کے لیے امت اور عوام کی نیابت کر رہے ہیں۔
یہ اسلامی تحریکات ایسا تنظیمی نظام فراہم کرتی ہیں جو اسلامی معاشرہ کی متحرک اور فعال قوتوں کو اپنے اندر جذب کر کے انھیں مناسب اور نفع بخش محاذ پر لگاتا اور انھیں لادینیت، مغرب پرستی، اپنے تمدن سے نفرت، دین بے زاری، الحاد، اباحیت پسندی اور بے حسی کی لہروں کا شکار ہونے سے بچاتا ہے۔ یہ امت کے نوجوانوں کو جو ہمارا مستقبل اور ہماری قوت کا مرکز ہیں، دوسروں کی تقلید، راستے سے انحراف اور دلدل میں گرنے سے بچاتی ہیں۔ جہاں سے لادینیت کی داعی تنظیموں کو نئی کمک اور نیا خون ملتا رہتا ہے۔
یہ تحریکات ہم ہی ہیں .. ہم ان کا حصہ ہیں … ہم ان کے دم سے اور ان کےساتھ ساتھ ہیں۔ یہ سب ایک ساتھ کھڑی ہیں، سب ایک ہی میدان اور ایک ہی ستیزہ گاہِ عمل میں مصروف ہیں۔ ہم اس جدوجہد اور معرکے میں ایک ہی خندق میں شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔ خواہ ہم اختلاف کریں اور بعض افکار، کچھ طریقوں، تصورات اور متبادل امور میں ہم ان میں سے بعض سے اتفاق نہ کریں۔
یہ چند باتیں معاصر اسلامی تحریکات کے ساتھ راقم کے تعلق، اس کے نزدیک ان تحریکات کے مقام اور ان تحریکات میں راقم کی پوزیشن سے متعلق ہیں۔
تنقید کا محرک خیرخواہی
اس بنا پر، ان صفحات میں ان تحریکوں کے بعض پہلووں پر جو تنقید کی گئی ہے، اس کی حیثیت راقم کی طرف سے محض خیرخواہی اور باہم نصیحت کے اسلامی فریضہ کی ادائی ہے۔ یہ وہ فرضِ کفایہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان تحریکات کے سلسلے میں اجتماعی شرعی ذمہ داری کے طور پر ہمارے اوپر عائد کیا ہے… جن کے اندر بھی یہ مہارت اور اس کام کو انجام دینے کی صلاحیت ہے ان کی یہ ذمہ داری ہے ،تاکہ قافلہ درست سمت میں گامزن رہے، کوششیں صحیح رخ پر لگیں اور اہداف کا حصول یقینی بنایا جاسکے۔ اللہ، اس کے رسول اور مسلمانوں کے حاکموں اور افراد کے لیے خیر خواہی دین ہے (بخاری و مسلم)۔ معاصر اسلامی تحریکات کافی زیادہ عوامی مقبولیت کی وجہ سے امتِ مسلمہ اور افرادِ امت کی سیاسی، سماجی اور فکری امامت کے منصب پر فائز ہیں۔
ان سطور کے راقم نے بعض معاصر اسلامی تحریکات پر جو تنقیدیں کی ہیں ان میں تنقید کے لیے جو اصول وضوابط بطورِ معیار سامنے رکھے ہیں وہ وہی ہیں جو اسلامی معیارِ تنقید اور اسلامی نظریہ کی خصوصیات کی نمائندگی کرتے ہیں: یعنی امتِ وسط کے راستے کی ہمہ گیریت، جس کا مطلب ہے افراط وتفریط جیسے ہر دو ظلم کے درمیان عدل کا راستہ، ہر دو باطل کے درمیان حق کا راستہ، ہر دو انتہاؤں کے درمیان اعتدال کا راستہ، جو توازن سے آراستہ اور بد ہیئتی سے اس طرح پاک ہو کہ اس میں خرابی اور خامی کا گزر نہ ہو سکے، جہاں یقینی طور پر جانب داری اور انتہا پسندی سے پاک ایسی ہمہ گیر نظر ہو جو معاملات کے صرف ایک رخ کو دیکھنے کی عادی نہ ہو، جو صرف ایک ظاہری پہلو کو دیکھ کر پورا نتیجہ اخذ نہ کرے، ایسی نگاہ نہ ہو جو کسی مخصوص رجحان، خواہشِ نفس، یا انحراف کے بغیر حق کے عناصر واجزاء کو جمع اور یکجا کرنے سے قاصر ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک امت وسط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ رہیں (البقرۃ 143) اور رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے: امتِ وسط سے مراد راہِ اعتدال والی امت ہے (احمد)۔ ان سطور میں جن خامیوں کی نشان دہی اور ان پر تنقید کی گئی ہے وہ ایسے پہلو ہیں جہاں معاصر اسلامی تحریکات سے امتِ وسط کے ہمہ گیر راستے کے معیارات کو نظر انداز ہوگئے ہیں، ان کا تعلق اسلامی تحریکات کی فکر اور سرگرمیوں دونوں ہی سے ہے۔ میں صرف مثال کے طور پر ان خامیوں میں سے چند کا یہاں تذکرہ کروں گا:
پہلی خامی: تعددیت کے شعور اور اس کی افادیت پر یقین کی کمی
بہت سی معاصر اسلامی تحریکات … اگر ہم اکثر کہیں تو یہ مبالغہ نہ ہوگا … تعددیت (ایک سے زیادہ کی گنجائش ہونے)کے اصول سے ناآشنا ہیں۔ ایسا فکری محاذ پر بھی ہے، نظامِ تنظیم میں بھی اور سرگرمیوں میں بھی۔ تعددیت کے جواز، اس کی ضرورت، اور اس کے مفید مطلب ہونے پر ان کا سخت انکارانہ موقف، اور اسے بہت زیادہ شک کی نگاہ سے دیکھنا اس کا نمایاں مظہر ہے۔
تعددیت کے تئیں اس انکارانہ رویہ کا سرا محض اسلامی محاذ میں سرگرمیوں، فیصلوں اور وابستگان کے تئیں ایک متحد ممتاز موقف اختیار کرنے کی چاہت میں نہیں ملتا ہے، اگر کوئی ایسی چاہت ہوتی تو یہ بات سمجھ میں بھی آتی اور کبھی قابلِ قبول بھی ہوسکتی تھی۔ لیکن انکار کے اس رویہ کا سبب ایک خرابی ہے اور وہ یہ کہ یہ تحریکات ان اسلامی اصول ومبادی اور قواعد وضوابط کی امتیازی حیثیت کو نہیں سمجھ پاتیں جن میں اختلاف جائز نہیں ہے، جو ناقابلِ تبدیل اور بہت ہی اہم کلیات کی حیثیت رکھتی ہیں، جو عقیدہ، شریعت، اور روحِ تمدن کے معاملات میں امت کی وحدت کے ضامن ہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان کے یہاں جامع اصولوں کے اور ان کے علاوہ باقی فروعی و جزئی، اور تغیر پذیر معاملات، بطورِ خاص دنیوی امور میں ہر دم بدلتے معاملات سے متعلق وسائل وذرائع کے درمیان فرق کو سمجھنے کی کمی پائی جاتی ہے۔ بے شک ان فروعی معاملات میں، فکر ونظر اور منہج کے اعتبار سے تعددیت اور دعوتی وتنظیمی امور میں تعددیت نقصان دہ نہیں ہے، بلکہ مذکورہ دائرہ میں تعددیت فکری سرمایہ میں اضافہ کا ذریعہ، قوتِ فکر و تدبر کو اجتہاد و تخلیقیت کی راہ دکھانے کا محرک اور غلطیوں اور انحرافات سے بچانے کا آلہ بن سکتی ہے۔ یہ وہ آئینہ بن سکتی ہے جس میں سب اپنے عیوب وامراض دیکھ کر ان کے علاج کی تدبیر اور انھیں بڑھنے سے روکنے کی سعی کرسکتے ہیں۔
فکرِ اسلامی کی تاریخ نے بالکل ابتدائی زمانے سے ہی ہمارے لیے ایک بہترین طریقہ مقرر کیا ہے، جو جامع اسلامی فکر کو سمجھنے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ وہ یہ کہ جب ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ ان اصول، قواعد اور مبادی کے سلسلے میں اجتہاد نہیں ہوسکتا جن پر اسلام کی عمارت کھڑی ہے، تو مان لینا چاہیے کہ یہ امت کی وحدت کے لیے طے شدہ دائرہ اور حد ہے جس میں اختلاف نہیں کیا جاسکتا، چناں چہ اس دائرہ میں تعددیت کو بھی قبول نہیں کیا جاسکتا۔
البتہ وہ فروعی معاملات جن کی عمارت انھی قواعد پر تعمیر ہوتی ہے ان میں اجتہاد نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے۔ ان فکری معاملات، ان کی تطبیقات، اور ان سے متعلق لازمی امور، مثلاً تنظیمی معاملات میں اسلامی تعددیت کے جواز اور لزوم کے سلسلے میں یہ اسلامی سنت ہی اسلامی چارٹر کی حیثیت رکھتی ہے۔
یہی وہ اسلامی سنت ہے جس نے اسلام کے دورِ آغاز سے ہی فکرِ اسلامی اور اسلام کی خاطر جدوجہد کے اندر تعددیت کے اصول کو شرعی اور قانونی درجہ عطا کیا۔ اسی اصول اور اسی منہج کی وجہ سے امت کے اندر پیدا ہونے والے اجتہاد کے مختلف مکاتب جمود وہزیمت کے دور سے پہلے تمدنی سربلندی کے عہد میں فکرِ اسلامی کے ذخیرہ کو مالا مال کرنے کا ذریعہ ثابت ہوئے۔
میرے خیال میں، بعض معاصر اسلامی تحریکات کے شعور سے اس خوبصورت اور ممتاز اسلامی سنت کا غائب ہوجانا ہی اس خامی کی پہلی وجہ ہے جس نے ان تحریکات کو تعددیت کے سلسلے میں حرمت، عداوت، انکار، شک اور بے زاری جیسے رویے اختیار کرنے پر آمادہ کیا۔ اس معاملہ میں نسبتاً آگہی پر مبنی صحیح نقطۂ نظر نے بعض معاصر اسلامی تحریکات کو تعددیت کے ضمن میں منفی رویے سے محفوظ رکھا، جیسے سوڈان اور تیونس میں جو صورتِ حال ہے، اسی طرح مصر میں جمعیتِ شرعیہ کے ساتھ اخوان المسلمون کے تعاون کا بھی ایک تجربہ ہے جس کا محرک تعددیت پر ویسا یقین تو نہیں ہے جس پر میں اپنی گفتگو میں زور دے رہا ہوں، لیکن یہ تجربات اس بات کے حق دار ہیں کہ ایک کشادہ تر افق کی مثال کے طور پر ان کا مطالعہ کیا جائے، تاکہ وہ اسلامی تحریکات جن میں سے ہر ایک کا مرکزِ توجہ دوسرے کے خصوصی میدان سے مختلف ہے ، اسلامی سرگرمیوں کے دائرہ کو وسیع کرنے کے لیے اپنے اندر تعددیت کو جذب کریں۔
یہ مثبت مثالیں ہیں لیکن پھر بھی یہ استثنائی اور جزئی نوعیت کی ہیں، جن سے اس بات کی بھی توثیق ہوجاتی ہے کہ فکر وتنظیم میں تعددیت کے معاملے میں معاصر اسلامی تحریکات کے موقف میں خامی رہی ہے جو اب بھی برقرار ہے، اور اسے موجودہ دور میں ایک اسلامی ضرورت نہیں سمجھا جارہا ہے۔
دوسری خامی: ’ہم‘ اور ’دیگر‘ کے درمیان نامعقول حد تک دوری
اگراسلامی ممالک عملی طور پر خالص اسلامی معاشرہ ہوتے اور ان کے ہاں اسلام کے عہدِ اول کی طرح نبوی طریقۂ کار کی حکم رانی ہوتی تو اسلامی تحریکات کے قیام کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی، لیکن یہ ایسی حسرت ہے جو کسی بھی معاشرہ کے تاریخی سفر کے سلسلے میں اللہ کی سنت سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
اسلامی معاشرہ کی صورتِ حال یہ ہے کہ نئی فتوحات کے نتیجے میں امت، ریاست، اور فکر کے اندر ایسے ’دیگر‘عناصر داخل ہوئے جنھوں نے اسلام کے شفاف چشمے میں بہت سی ایسی چیزوں کی آمیزش کی جن میں کچھ نافع تھیں تو کچھ نقصان دہ۔ ان کی وجہ سے اسلامی تصورات اور مسلم معاشرہ میں بہت سی گندگی اور آلودگی در آئی جن کے نقصانات اور اثرات مختلف نوعیت کے تھے۔
فتوحات کے نتیجہ میں آنے والے اس نووارد اور مفتوحہ علاقوں کی قوموں کی ناپسندیدہ میراث کے ساتھ مسلسل کئی صدیوں کے انحراف کے وہ کڑوے پھل بھی بدعت اور خرافات کی شکل میں داخل ہوئے، جنھوں نے عقائد اور شریعت میں اضافہ، کمی، اور انحراف کی صورت میں برے اثرات مرتب کیے۔ ان سب کے نتیجے میں پھولتا پھلتا اسلامی تمدن پس ماندگی، جمود اور تخلیقیت سے محرومی کے دور میں داخل ہوا۔ مزید یہ ہوا کہ اس موڑ پر ترک جنگجوؤں اور ممالیک کی حکم رانی قائم ہوئی جس نے کئی صدیوں تک ہمارے تمدن پرگوناگوں منفی اثرات چھوڑے جو آج جدید اور معاصر اسلامی تحریکات کے سامنے ’موروثی پس ماندگی‘ کی صورت میں ایک چیلنج بن کر کھڑے ہیں۔ اس کے بعد جدید مغربی استعمار نے اسلامی اجتہاد کی بیداری کی اس طلوع ہوتی صبح پر تیز یلغار کی جو امت کو اس ’موروثی پس ماندگی ‘سے نجات دلانے کے لیے نمودار ہو رہی تھی۔ اس استعماری حملہ نے اسلامی بیداری پر شب خون مار کر اسے فنا کے گھاٹ اتار دیا، اور اس موروثی پس ماندگی میں مزید مغرب پرستی کی آلائشوں کا اضافہ کیا جسے قابض قوتوں اور ان کے فکری، تعلیمی، اور صحافتی اداروں نے سرپرستی فراہم کی۔ اس مرحلے میں’ موروثی پس ماندگی ‘کے چیلنج میں ’اپنے تمدن سے نفرت‘ کے چیلنج کا اضافہ ہوگیا جس نے امت کے فکر وعمل سے وابستہ اسلامی شناخت کو مسخ کیا، اس کی صورت خراب کی اور اس پر خطِ تنسیخ پھیر نے کی کوشش کی۔
جب اس سخت گھڑی نے عمومی طور پر امت کے ضمیر، عقل اور وجدان کو متاثر کیا تو امت نے مثبت طور پر اس کا جواب تلاش کرلیا جو اسلامی تحریکات کی صورت میں سامنے آیا، اسلامی ممالک پہلے پہلے جمال الدین افغانی اور ان کے انقلابی پرچے ’العروۃ الوثقیٰ‘سے آشنا ہوئے، پھر ان کا سلسلہ ان تحریکات تک دراز ہوتا گیا جن کے بارے میں ہم گفتگو کر رہے ہیں۔
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسلم ممالک میں صرف معاصر اسلامی تحریکات کی سرگرمیاں نہیں جاری ہیں بلکہ ان کے ساتھ وہ "دیگر” بھی ہیں جو فکر اور میدانِ عمل میں ان سے مزاحم ہیں۔ ان ’دیگر‘لوگوں سے ان اسلامی تحریکات کے تعلقات میں ہمیںکچھ خامی محسوس ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، دیارِ اسلام میں موجود فکری، تعلیمی، اور صحافتی اداروں پر مغربی تمدنی نظام کے تسلط نے اس امت میں مغرب زدہ افراد کی ایک ایسی فوج تیار کر دی ہے جو مغرب کے خود ساختہ افکار کی دلدادہ اور لادینیت کی داعی ہے۔ ان ’دیگر‘مذہب بیزار لوگوں کی صف میں موجود ہر شخص مغرب کا ایجنٹ نہیں، جو اسلامی سرزمین کو مغربی ممالک کا غلام بنانے کے لیے کوشاں اور امت کی ترقی، اس کی قوت، اور اس کی آزادی کا دشمن ہو۔ ان میں مغربی’ایجنٹوں‘کی مختصر تعداد بھی ہے اور ایسے ’لادینیت کے علم بردار‘ بھی ہیں جن کی مذہب بیزاری دین اور دین پسندی کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہے، اور جن کا مقصد صرف دین کو ریاست سے جدا کرنا نہیں ہے۔ ظاہر ہے ان سے ہمارے اختلاف کی نوعیت اصولی اختلاف کی ہے نہ کہ فروعی نوعیت کے اختلاف کی۔
ان مغربی ایجنٹوں، زندیقوں، اور دین اور دین داری کے دشمنوں کے علاوہ بھی اُن کی صفوں میں بہت سے ایسے "دیگر مذہب بیزار” ہیں جنھوں نے کچھ دوسرے اسباب سے مغرب پرستی اور مذہب سے دوری کی راہ اختیار کی ہے۔ اس کی ایک وجہ ان کی نشو ونما کا ماحول اور فکری اٹھان بھی ہو سکتی ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جب انھوں نے مغربی پلڑے کا اسلامی پلڑے سے اس کی موجودہ صورت میں موازنہ کیا جب وہ پسماندگی، اور جمود کا شکار ہے، تو وہ سمجھے کہ اسلام کی بس یہی ایک صورت ہے جس کے مقابلے میں انھیں مغربی پلڑا بھاری محسوس ہوا۔ اس کا سبب یہ غلط خیال بھی ہوسکتا ہے کہ مغربی ماڈل کو مستعار لینا ہی مغرب سے مقابلے اور امت اور وطن کو استعمار سے نجات دلانے کا راستہ ہے۔ مسلمانوں میں موجود ایسے مذہب بیزار لوگوں کے سلسلے میں ہی ہمارا یہ کہنا ہے کہ ان سے تعلقات کے سلسلے میں معاصر اسلامی تحریکات کے اندر بڑی اور ناقابلِ توجیہ خامی پائی جاتی ہے۔
اسلامی تحریکات کی بھاری اکثریت نے مذہب بیزاروں کے اس گروہ کو ان لوگوں کی فہرست سے خارج کردیا جن سے انھیں رابطہ رکھنے اور جنھیں اپنی صفوں میں شامل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے، یا کم از کم اس بات کی کوشش کی جانی چاہیے کہ انھیں دشمنوں کی صف سے نکال کر یا تو ہم دردوں کی صف میں شامل کیا جائے یا غیر جانبداروں کی۔ اکثر اسلامی تحریکات نے ان مذہب بیزار لوگوں سے دوری اختیار کی جو اسلامی ممالک کے اندر اثر رسوخ کے بیشتر وسائل پر قابض ہیں۔ ایک تو یہ تحریکات یہ نہیں جانتی ہیں کہ ان لوگوں کا لادینیت کی طرف میلان کن اسباب سے ہوتا ہے، اور پھر انھیں یہ اندازہ بھی نہیں ہے کہ اگر یہ لوگ حقیقت کو سمجھ لیں تو اسلامی جدوجہد میں یہ کس قدر مفید ہوسکتے ہیں، مزید یہ کہ ان "دیگر مذہب بیزار” افراد کے ساتھ نقاطِ اتفاق تلاش کرنے اور انھیں آگے بڑھاکر اختلافی امور کو محدود اور پیچھے کرنے کی مطلوبہ جدو جہد نہیں کی گئی۔
اسی طرح اسلامی تحریکات کی "اپنی فکر” اور دوسروں کی "اپنی فکر” کے درمیان روابط میں بھی خامی پائی جاتی ہے۔ اسلامی تحریکات کی بھاری اکثریت کا دوسرے لوگوں کے نظریات اور ان کے طریقۂ فکر وتحقیق سے جو بھی تعلق ہے وہ نا فہمی، یا تجاہل کی بنیاد پر یا کہیں دونوں ہی کی بنیاد پر ہے۔
لا دینی تحریکات، ان کے نظریات اور ان کے مناہج سے اختلاف اور ان کے تئیں ردِ عمل کے سلسلے میں یہ تحریکات جو حدود وقیود متعین کرتی ہیں وہ عمومی اور مطلق نوعیت کی چیزوں کی بنیاد پر ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ جو جانتے ہیں وہ تمھیں نہیں معلوم اور تم جو جانتے ہو وہ ان سے نا واقف ہیں، یہ چیز امت کی عقل اور اس کی قوتوں میں موجود انتشار کو گہرا اور مضبوط بناتی ہے، اس کی قوتوں کو تباہ کرنے کے لیے ایک ایسی خطرناک صورتِ حال کو جنم دیتی ہے جس میں ہر دو فریقوں میں سے نہ کوئی غالب ہوتا ہے نہ کوئی مغلوب۔
جو بات شک وشبہہ سے پرے ہے وہ یہ کہ ان اسلامی تحریکات کے لیے ضروری ہے کہ ان لا دینی تحریکات کے سلسلے میں ردِ عمل کے موجودہ رویہ کے بجائے ایک ایسی متبادل راہ اختیار کریں جس میں ’دیگر‘کے پاس موجود سرمایہ کے تئیں جہل اور تجاہل کی سہل انگاری کے بجائے، اس ’دیگر‘ کو سمجھنے کے لیے فکر مندی ہو، ان کے پاس حرکت وعمل میں مددگار بننے والے نافع امور بھی ہوسکتے ہیں یا ایسی نقصان دہ چیزیں بھی جنھیں ٹھیک سے جاننا ان کے دام میں پھنسنے سے موثر بچاؤ اور ان پر ضروری تنقید کا وسیلہ بھی ثابت ہوگا اور ہم دوسروں کو ان کے برے اثرات سے بچا بھی سکیں گے۔
اسی طرح اسلامی تحریکات کے ان "دیگر” عناصر سے تعلقات کے معاملہ میں بھی جو تنظیمی طور پر ان کا حصہ نہیں ہیں مختلف نوعیت کی خامیاں در آئی ہیں۔ کچھ ایسے غلو پسند بھی ہیں جو اپنی جماعت ہی کو مسلمانوں کی کل جماعت سمجھتے ہیں! اسی طرح ایسے اعتدال پسند بھی ہیں جو اپنی جماعت کو مسلمانوں کے اندر ہی کی ایک جماعت سمجھتے ہیں لیکن جو بھی اس کے تنظیمی دائرہ سے باہر ہے اسے نظر انداز کرنے اور اس سے تجاہل برتنے کی روش اختیار کرتے ہیں۔■