معاشی بہتری ہنوز غیریقینی!

قوت خرید بڑھانے کے لیے ٹیکس میں کمی کی ضرورت

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

 

وزیر مالیات نرملا سیتا رمن نے کہا تھا کہ معیشت میں بہتری ہورہی ہے۔ اس سے قبل وزیراعظم مودی گزشتہ تین ماہ سے معیشت میں تیزی کے آثار دیکھ دیکھ کر پھولے نہیں سمارہے تھے۔ ان کے بھکتوں کی بھیڑ اور ان کے گرد منڈلاتے معیشت کے لال بجھکڑوں نے خوب شور مچانا شروع کردیا تھا لیکن جیسے ہی جی ڈی پی پہلی سہ ماہی میں منفی 24فیصد پر پہنچ گئی تو سبھی نے بغلیں جھانکنا شروع کردیا ہے۔ اس لیے جب وزیر خزانہ کہتی ہیں کہ معیشت میں ترقی ہورہی ہے لیکن مالی سال 21-2020میں جی ڈی پی منفی ہی رہے گی تو اصولی طور پر یہ بیان متضاد نظر آتا ہے۔ حقیقتاً اس میں حکومت کی طرف سے وضاحت کے بعد بہت زیادہ اختلاف نہیں ہے۔ آر بی آئی کے اندازہ کے مطابق مالی سال 21-2020کی شرح منفی 9.5فیصد رہ سکتی ہے جبکہ آئی ایم ایف نے 10.3فیصد منفی رہنے کا امکان ہے۔ جاریہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں منفی رہنے کے بعد ستمبر تا دسمبر میں منفی جی ڈی پی رہنے کا اندازہ ہے۔ دوسری سہ ماہی جولائی تا ستمبر یہ 9.8فیصد اور تیسری سہ ماہی میں 5.6فیصد منفی رہ سکتی ہے حالانکہ چوتھی سہ ماہی جنوری تا مارچ معاشی حالت میں بہتری کا اندازہ ہے اور وہ مثبت ہوکر 0.5فیصد رہنے کا امکان ہے۔ ان اندازوں سے واضح ہے کہ معاشی حالت میں آہستہ آہستہ بہتری آرہی ہے اور ترقی کی گاڑی بھی سست رفتاری سے آگے بڑھنے لگی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ترقی کا پہیہ رک سا گیا تھا مگر اب ترقی کی گاڑی آگے بڑھنے لگی ہے۔ سالانہ بنیاد پر ستمبر میں ٹاٹا موٹرس کی فروخت 37فیصد بڑھی ہے جبکہ ماروتی سوزوکی کی فروخت میں 30فیصد تیزی آئی ہے۔ ستمبر میں برآمدات میں 5.27فیصد کا اضافہ ہوا ۔ بجاج آٹو کی فروخت 10فیصد اور ہنڈائی انڈیا کی فروخت 23.6فیصد بڑھی ہے۔ الکٹرونکس اور انجینئرنگ اشیا کی اپنی خصوصیت ہے۔ ان میں بالترتیب 0.04فیصد اور 3.73فیصد کا اضافہ ہوا۔ پرسنل لون میں کریڈٹ گروتھ اگست میں 10.6فیصد رہی اور امید ہے کہ آئندہ مہینوں میں اس میں اضافہ ہی ہوگا کیونکہ تہواروں کے موسم میں خریداروں کی قوت خرید بڑھ جاتی ہے۔ بازار کے اعداد و شمار جمع کرنے والی کمپنی ’’ریڈیسر‘‘ کے مطابق درگا پوجا میں آن لائن کمپنیوں نے 4.1ارب ڈالر کی کمائی کی جبکہ گزشتہ سال محض 2.7ارب ڈالر کا سامان فروخت ہوا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ کورونا کے دور میں خریداروں کی مجبوری بھی ہو۔ 14 اکتوبر 2020میں وزیراعظم جن دھن یوجنا کے تحت کھولے گئے کھاتوں کی تعداد 4405کروڑ پہنچ گئی ہے جس میں ایک لاکھ 30ہزار 471کروڑ روپے جمع ہوئے۔ اپریل 2020سے 14اکتوبر 2020تک تین کروڑ جن دھن کھاتے کھولے گئے جس میں 11.060کروڑ روپے بڑھے جبکہ 2019میں اسی مدت میں محض 1.9کروڑ روپے کے جن دھن کھاتے کھولے گئے تھے۔ ان میں صرف 7857کروڑ روپے کا اضافہ ہوا تھا۔ اس طرح اگر گزشتہ سال سے مقابلہ کیا جائے تو امسال نئے جن دھن کھاتوں میں 60فیصد کا اضافہ ہوا۔ اپریل کی جلد بازی اور بغیر منصوبہ بندی کی وجہ سے مزدوروں اور محنت کشوں کے ذریعے دور دراز علاقوں میں بھیجے جانے والے رقم تقریباً رک سے گئے تھے لیکن جون جولائی میں اس میں بہتری آئی مگر اگست میں اس میں کمی آئی۔ اب ستمبر میں بھیجے گئے رقوم کا اعداد وشمار فروری کے برابر ہوگیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اکثر مزدور اور محنت کشن اپنے کام پر لوٹ آئے ہیں اور بقیہ دیوالی اور چھٹ پوجا کے بعد کام پر لوٹ سکتے ہیں۔ کورونا قہر کی وجہ سے بدحال ہوئی سرگرمیاں پھر سے پٹری پر لوٹ رہی ہیں۔ اسٹیل اور اس کی تیار شدہ اشیا کی طلب بڑھنے س اس میں تیزی آئی ہے۔ صنعتکاروں اور کارخانہ داروں کو آرڈر ملنے لگتے ہیں۔ ستمر کے مقابلے میں اکتوبر میں فروخت 12 سالوں میں سب سے زیادہ ہوئی ہے۔ آئی ایچ ایس مارکٹ کے ذریعہ جاری اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ اکتوبر میں ملک کا پرچیزنگ انڈیکس (پی ایم آئی) 58.9تک پہونچ گا ہے سال 2010کے بعد پی ایم آئی میں سب سے اونچائی دکھ رہی ہے۔ ستمبر میں بھی پی ایم ٓئی 8سالوں کے اونچی سطح 56.8پر تھا۔ پی ایم آئی 50سال سے زیادہ ہونے کا مطلب ہے کہ گزشتہ ماہ کے مقابلے تعمیری اور مینو فیچکرنگ سرگرمیاں بڑھی ہیں۔ پی ایم آئی کا مقابلہ گزشتہ سال کے بجائے گزشتہ ماہ سے کی جاتی ہے۔ گزشتہ ماہ کے اعداد و شمار کے مطابق اگست میں پی ایم آئی 52کی سطح پر تھا جو جولائی کے 46سے زیادہ ہے۔ 50سے اوپر پی ایم آئی کاروباری سرگرمیوں میں وسعت اور ترقی کو 10فیصد زیادہ ہے۔ گزشتہ سال کے اکتوبر میں جی ایس ٹی سے وصولی 95379کروڑ روپے ہوئی اور امسال اکتوبر میں یہ وصولی 10515کروڑ روپے ہوئی۔ لگتا ہے کہ معیشت کے برے دن آہستہ آہستہ ختم ہورہے ہیں زیادہ تر شعبوں میں بہتری کے آثار نظر آرہے ہیں۔ درگا پوجا کے موقع پر جو تیزی آئی اس سے بھی زیادہ دیوالی میں ہونے کی توقع ہے۔
یہ ضرور ہے کہ فارما سیوٹیکلس، کیمیکلس غذائی اشیا، ٹریکٹرس، ٹو وہیلرس و دیگر اشیا کے شعبوں میں تیزی آئی ہے مگر دی فیڈریشن آف آٹو موبائیل ڈیلرس اسوسی ایشن (فاڈا) کی رپورٹ کے مطابق امسال کتوبر میں پبلک وہیکل میں 8.8فیصد کی کمی کے ساتھ 4,8860یونٹ فروخت ہوئے جبکہ 2019سے اکتوبر تک 2,73,980یونٹ فروخت ہوئے تھے۔ اس طرح ٹو وہیلر کے گزشتہ ماہ کی فروخت میں 26.82فیصد کی گراوٹ کے ساتھ 10,41,682فروخت ہوئے۔ مگر 2019سے اکتوبر میں یہ 23394یونٹ رہے تھے۔ کمرشیل وہیکل کے فروخت میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 3032فیصد گراوٹ درج ک گئی۔ سب سے زیادہ تھری وہیلر کی فروخت میں گذشتہ سال کے مقابلے 64.45فیصد گراوٹ آئی۔ ٹریکٹر کی فروخت میں 55فیصد کا اضافہ ہوا۔ سفر اور سیاحت کے شعبے ابھی بھی 10-30فیصد کے درمیان پر جدوجہد کررہی ہے۔ تعمیری شعبہ اور رئیل اسٹیٹ کا حال بھی برا ہے۔ دیوالی کے تہوار میں کچھ بہتری کی امید تھی مگر کورونا کی دوسری لہر نے خریداروں اور کاروباریوں میں مایوسی پیدا کردی ہے۔ خریدار سڑکوں سے تو سامان خرید رہےہیں مگر مالس جانے سے کترا رہے ہیں۔ اس لیے آج بھی روزگار سے جڑے شعبوں میں سفر و سیاحت تعمیر اور رئیل اسٹیٹ وغرہ جدوجہد کے دور سے گزر رہے ہیں۔ حقیقتاً وائرس پرکسی طرح قابو نہ ہونے کی وجہ سے غیر یقینیت برقرار ہے اور لوگوں میں اعتماد کا فقدان نظر آرہا ہے۔ 8نومبر کو صرف دلی میں کورونا کے 7745نئے کیسز سامنے آئے ہیں جس کی وجہ سے کہیں کہیں جزوی لاک ڈاون کرنا پڑرہا ہے۔ 14ویں فائنانس کمیشن میں وزیراعظم کے مشاورتی کونسل کے معاشی مشیر مسٹر گووندا راؤ کے مطابق معیشت ابھی بھی سستی کی طرف لڑھکی ہوئی ہے جس کی وجہ سے سرمایہ کاری میں کمی آئی ہے۔ بینک بحران کے باعث لوگوں کو ضرورت کے مطابق قرض دینے سے پہلو تہی کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شعبہ خدمت اور سفر و سیاحت ٹھیک سے کام نہیں کررہا ہے۔ فی الوقت جی ایس ٹی سے ٹیکس کی وصولی ضرور بڑھی ہے جو معیشت میں بہتری کو دکھاتی ہے نہ کہ تہوار کی وجہ سے طلب میں اضافہ ہوا ہے۔ بہت ساری اشیا پر آج بھی 28فیصد کا جی ایس ٹی لگ رہا ہے جس سے طلب نہیں بڑھ رہی ہے تمام تر کنسٹرکشن اشیا خواہ سمنٹ ہو یا اسٹیل اس پر بھی یہی شرح نافذ ہے جس کی وجہ سے خریداری نہیں ہورہی ہے اس لیے ضرورت ہے کہ معیشت میں تیزی کے لیے ٹیکس کی شرح میں کمی ہو۔ اس طرح گاڑیوں پر بھی 28فیصد کی جی ایس ٹی ہے۔ اس لیے اس شعبہ کی فروخت میں بہت کمی آئی ہے سی ایم آئی ای کی رپورٹ کے مطابق مینو فیکچرنگ کے شعبے دباؤ میں ہیں جس کا اثر ان کی معیشت پر پڑے گا۔ اس دوران مرکزی وزیر نتن گڈکری نے ۵ لاکھ روپے کے بڑے راحتی پیکیج کا عندیہ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت مالی خسارہ کو قابو میں کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھارہی ہے۔ ضروری ہے کہ حکومت کو بڑے منصوبے کے ساتھ سامنے آنا چاہیے اور ان شعبوں پر خرچ کرنا چاہیے جو دباؤ میں چل رہے ہیں تاکہ طلب بڑھے۔ نقد کے ذریعے بنیادی ڈھانچوں کو قوت ملے۔ مگر قرض دینے والے اداروں میں خوف کا ماحول ہے اور وہ منصوبہ سازوں کے منتظر ہیں۔ وزارت مالیات کی طرف سے برابر خوشی کے مژدے سنائے جارہے ہیں تاکہ غم کا ماحول نہ بنے اور یہی سب سے بڑا غم ہے۔
***

حکومت کو بڑے منصوبے کے ساتھ سامنے آنا چاہیے اور ان شعبوں پر خرچ کرنا چاہیے جو دباؤ میں چل رہے ہیں تاکہ طلب بڑھے۔ نقد کے ذریعے بنیادی ڈھانچوں کو قوت ملے۔ مگر قرض دینے والے اداروں میں خوف کا ماحول ہے اور وہ منصوبہ سازوں کے منتظر ہیں۔ وزارت مالیات کی طرف سے برابر خوشی کے مژدے سنائے جارہے ہیں تاکہ غم کا ماحول نہ بنے اور یہی سب سے بڑا غم ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020