معاشرے میں بیداری اور اس کی اصلاح

فاخرہ عتیق (وانمباڑی)

 

ہم اور ہمارا خاندان کن اقدار پر چل رہا ہے، ہم کیا چیزیں چھوڑتے جارہے ہیں اور کن کن چیزوں کو شعوری یا غیر شعوری طور پر اختیار کرتے جارہے ہیں، انفرادی طور پر ان باتوں پر کم ہی لوگ غوروفکر کرتے ہیں۔ اگر ہم بہت زیادہ پیچھے نہیں صرف ایک نسل پیچھے جاکر اپنے خاندانی نظام اور اقدار پر غورکریں تو اندازہ ہوگا کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہم نے کیا کچھ گنوایا ہے اور کیا حاصل کیا ہے۔ اس وقت اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے کھویا زیادہ قیمتی ہے اور جو کچھ پایا ہے وہ کھوئے ہوئے کے مقابلے بہت کم اور معمولی ہے۔ ہم نے خوشیاں دینے والے اور محبت لٹانے والے رشتوں کو پیچھے چھوڑ کر ایسی خوشحالی حاصل کی ہے جس نے ہمیں ڈپریشن اور نفسیاتی دباؤ دیا ہے۔ اعلیٰ عہدوں اور باوقار تصور کی جانے والی نوکریوں کو حاصل کیا ہے مگر اہلِ خاندان کے ساتھ فرصت کے گزارے جانے والے اچھے لمحات کھوئے ہیں، جو ہمیں ذہنی سکون اور جذباتی خوشیاں دینے والے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ ہم رشتوں کی حساسیت تک کھو بیٹھے ہیں۔
ہمارے ایک جان کار جو ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں وائس پریزیڈنٹ کے عہدے پر رہ کر 25 سال پہلے کئی لاکھ ماہانہ تنخواہ اٹھاتے تھے ایک دن کہہ بیٹھے:
’’وہ ہمیں پیسہ اور آرام فراہم کرتے ہیں لیکن اسے خرچ کرنے اور انجوائے کرنے کے لیے وقت نہیں دیتے۔‘‘
اس مصروفیت بھری پیشہ وارانہ زندگی کی دوڑ میں بہت سے لوگ خونی رشتوں کی محبت تو کیا بیوی، بچوں تک کی محبت گنواں بیٹھتے ہیں مگر اس بات پر غور کرنے کے لیے راضی نہیں کہ رشتوں کو کمانا، نبھانا اور خاندان کے افراد سے تعلق اور رشتوں کو مضبوط بنائے رکھنا اور مزید استحکام دینا انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ مضبوط رشتے، مستحکم خاندان اور اس کے افراد ہمارے لیے ایک سایہ دار درخت یا سائبان کی طرح ہیں کہ جب زندگی کی دوڑ میں بھاگتے بھاگتے تھک جاتے ہیں تو اس درخت کے سائے میں بیٹھ کر سستالیتے ہیں اور پھر تازہ دم ہوکر دوبارہ زندگی کی دوڑ میں شامل ہوجاتے ہیں۔
ہمارا خاندانی نظام کس بحران سے گزررہا ہے، اس کا جائزہ لینا چاہیں تو شوہر بیوی کے درمیان علیحدگی کی بڑھتی شرح، بچوں اور بالغ افراد کی خود کشیوں کے واقعات، والدین کی اولاد سے شکوے شکایتیں اور اولاد کی والدین سے بغاوت، بھائی کے ذریعے بھائی کے قتل کے واقعات، بزرگوں کی کسمپرسی اور حالت زار، گھروں میں بڑھتا تشدد اور باہمی اختلافات، رحمِ مادر میں اور پیدائش کے بعد لڑکیوں کا قتل اور اس کے نتیجے میں بگڑتا جنسی تناسب، وہ بڑے مظاہر ہیں جو خاندانی نظام کو تباہی کے دہانے پر لے آئے ہیں اورپورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے تیار ہیں۔ یہی نہیں گزشتہ دو تین سالوں کے درمیان کچھ ایسے تکلیف دہ واقعات کا ٹرینڈ دیکھنے کو مل رہا ہے جو دل دہلادینے والے ہیں، ان میں ایک خاص ٹرینڈ زنا بالجبر اور قتل کے روح فرسا واقعات تو ہیں ہی ایسے واقعات بھی پیش آنے لگے ہیں جہاں خاندان کے ایک فرد نے پوری کی پوری فیملی کو ختم کرڈالا۔
23؍جون2019ء کو ایک ٹیچر نے اپنی بیوی اور تین بچوں کا گلا ریت کر قتل کردیا۔ اس کے چند روز بعد 2جولائی کو سن فارما کمپنی کے ایک سائنٹسٹ نے اپنی بیوی، نو عمر بیٹے اور نوجوان لڑکی کو قتل کرکے خود کشی کرلی۔ ایک واقعہ دہلی اور دوسرا اس سے ملحق شہر گڑگاؤں کا ہے۔ مارچ2016ء کا ایک واقعہ ممبئی سے ملحق علاقے تھانے میں پیش آیا تھا جس میں حسنین نامی مسلم نوجوان نے اپنے چودہ رشتہ داروں کا قتل کردیا تھا۔ یہ ہے ہمارا خاندان کا استحکام اور یہ ہیں ہمارے سماج کی چند تصویریں جن میں مذہب اور مقام کی کوئی قید نہیں نظرآتی۔ خاندانی اور سماجی اقدار کے تل پٹ ہونے کا ذکر تو چھوڑیے یہاں تو خاندان کا وجود ہی خطرات کے گھیرے میں ہے۔
ایسے میں وہ لوگ جو مضبوط خاندان اور مضبوط سماج کا خواب دیکھتے ہیں اور اس کی تشکیل و تعمیر کا نسخۂ کیمیا بھی رکھتے ہیں، محض تماشائی کیسے بنے رہ سکتے ہیں۔ ایسا صرف ان کے ساتھ ہوسکتا ہے جن کے دل پتھر ہوگئے ہوں اور جذبہ و احساس برف کی سل بن گیا ہو۔ کیونکہ ہم پتھر دل نہیں ہوئے ہیں اور ہمارے جذبات برف کی سل نہیں بنے ہیں، اس لیے سماج میں بیداری اور اس کی فکری وعملی اصلاح کے لیے تیز قدمی سے آگے بڑھنے کا عزم رکھتے اور اس کے طریقے اور وسائل و ذرائع تلاش کرتے ہیں۔ یہ وقت خوابِ غفلت سے بیدار ہونے اور دوسروں کو بیدار اورمتحرک کرنے کا ہے۔ یہ موقع بھی ہے اور ذمہ داری بھی، فرض بھی ہے اور اجر کا ذریعہ بھی۔
بیداری کی بنیادیں
ہم خاندانی نظام کو مضبوط کرکے ایک مضبوط معاشرہ اور سماج تشکیل دینا چاہتے ہیں اس لیے ہمارے لیے ان بنیادوں کو سمجھنا اور ان کا علم ضرور ہے جن پر ہم مستحکم خاندان کی بنیادیں قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو مختصراً یوں کہہ سکتے ہیں:
1- تقویٰ: کہ ہم اپنے قول و عمل میں اس بات کو ملحوظ رکھیں کہ ہمارے رویے یا عمل سے اللہ تعالیٰ خوش ہوگا یا ناراض۔
2- احسان: کہ ’’جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں‘‘ اور بغیر کسی فائدے کی خواہش کے اچھا رویہ اور برتاؤ جاری رکھوں۔
3- صلہ رحمی: کہ ہمارے جو بھی قریب یا دور کے رشتہ دار ہیں ان سے محبت و خیر خواہی کا برتاؤ ہر صورت جاری رکھا جائے۔
4- خلوص و محبت: تمام انسانوں کے لیے کہ یہ اللہ کا کنبہ ہیں اور پوری انسانیت اس خاندان کا حصہ ہے۔
قرآن کریم اور سنتِ رسول ہمیں اس سلسلے کی تفصیلی ہدایات بھی دیتے ہیں اور رسول پاکؐ نے ایک ماڈل خاندان بھی ہمارے سامنے پیش کیا جس کا مطالعہ ہمارے لیے ضروری ہے۔
بیداری و اصلاح کا طریقہ کار
ہمارا مخاطب پورا سماج ہے جس میں ہم خاندان و سماج کے پیش آمدہ اشوز کے سلسلہ میں لوگوں کو آگاہ کرتے ہوئے ان کے فکر و عمل کی اصلاح کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کے لیے جہا ںہمیں سماج میں پہلے سے رائج اور جاری طریقوں کو استعمال کرکے لوگوں کو بیدار کرنا ہے وہیں ہمیں مختلف مجلسوں اور ایونٹس کو اس کام کے لیے استعمال کرکے پیغام پہنچانے کے بارے میںبھی سوچنا ہوگا۔ روایتی طریقوں میں جلسے جلوس، سمینار اور انٹریکشن کی مجلسیں، مساجد کے خطبے اور دینی مجلسوں کے ذریعے لوگوں کو بتانا ہوگا کہ ہمارا خاندانی نظام کہاں آن پہنچا ہے اور اسے کیا خطرات درپیش ہیں اور اس کے نتیجے میں سماج اور ملک کو کس قسم کے مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے اور مزید ہونے والا ہے۔ ان روایتی طریقوں اور وسائل کے استعمال کے ساتھ ساتھ ہمیں کچھ مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر لوگوں کے سامنے پرزور انداز میں اٹھانا اور کچھ بڑے بڑے معاشرتی و خاندانی مسائل کو لوگوں کے درمیان موضوع بحث بنانا ہوگا اور اس بات کے لیے ذہن سازی کرنی ہوگی کہ وہ اپنی عملی زندگی میں ان رویوں سے باز آئیں جو خاندان کی بنیادوں کو ڈھانے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم گھریلو تشدد کو لے سکتے ہیں جو مرد کا عورت کے ساتھ ہی نہیں بلکہ خاندان کے افراد کا باہم دگر بھی ہوسکتا ہے۔ ساتھ ہی اسے پہنچنے والے نقصان کو ناقابلِ قبول صورت میں پیش کرنا ہے تاکہ خاندان کو اس کے ذریعے پہنچنے والے عظیم نقصان سے بچایا جاسکے۔ اس کے علاوہ درج ذیل کام انجام دیے جاسکتے ہیں:
1- ماڈل کی تشکیل: سماج کے بااثر اور باشعور لوگ اپنی بیداری اور اصلاح کی کوششوں کے ذریعہ معاشرے میں ماڈل خاندانوں کی تشکیل و تعمیر کا ہدف متعین کریں اور ترغیب و تربیت کے ذریعہ افراد خاندان کی سنت نبوی اور عہدِ صحابہ کے اسوہ کے مطابق ذہن سازی کریں۔ اس میں خامیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ اور خوبیوں اور اچھائیوں کا فروغ سب سے اہم ہے۔
2- نئی نسل کی ذہن سازی: ہمارے خاندانی نظام کی ایک بہت بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم اپنی نئی نسل میں بلند خاندانی اقدار اور اسلامی تعلیمات کو منتقل کرنے پر توجہ نہیں دیتے۔ جبکہ یہی نئی نسل مستقبل کی زمامِ کار سنبھالتی ہے۔ اگر ہم اس نسل میں بلندخاندانی اقدار اور اسلام کی تعلیمات منتقل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اگلی نسل خاندانی انتشار سے محفوظ ہوجائے گی۔ اس کے لیے ہمیں ان کی ذہنی و فکری تربیت اور کونسلنگ کے عمل کو مسلسل جاری رکھنا ہے۔ اس عمل میں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے اپنے رویے اور اعمال خود سب سے بڑے مربی اور کونسلر ہوتے ہیں۔
3- معاشرتی دباؤ: سماجی اور معاشرتی دباؤ بھی اصلاح فکر وعمل کا ایک ذریعہ ہوتا ہے اور یہ وہاںسے کام کرنا شروع کرتا ہے جہاں ترغیب و نصیحت بے اثر معلوم ہونے لگتی ہے۔ چنانچہ جو افراد اور خاندان اور ان کے رویہ خاندان اور معاشرے میں انتشار اور بداخلاقی کے فروغ کا سبب بنیں اور ترغیب و نصیحت کارگر نظرنہ آئے وہاں سماجی و معاشرتی دباؤ کے ذریعہ سماج کو ان کے برے اثرات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
4- تحریک بنیں: خاندان کے استحکام، اس کے تحفظ اور برائیوں کے خاتمے کے لیے ہمیں خود تحریک بننا اور لوگوں کو تحریک کا حصہ بنانا ہوگا۔ ہماری بیداری اور اصلاح خاندان و تعمیر سماج کی مہم اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی اور نہ ثمر آور ہوسکتی ہے جب تک ہم پورے سماج کو اس کا حصہ نہ بنالیں۔ جب پورا سماج اس تحریک کا حصہ بنے گا تبھی حقیقی بیداری بھی آئے گی اور اصلاح کا عمل بھی انجام پائے گا۔
آخری بات: ہمیں یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ ہم بیداری اور اصلاح کی پیغامبر ہیں۔ اس کے لیے ہمیں سماج و معاشرے میںجاری غلط اقدار و روایات پر تنقید بھی کرنی ہوگی مگر اصلاح و تنقید کی بھی ایک زبان اور اسلوب ہے۔ اس اسلوب اور زبان کو ہمیشہ معیاری، دل پذیر، باوقار اور مؤثر بنائے رکھنا ہے، کچھ اس انداز میں کہ لوگ ہم سے جڑتے جائیں۔ ہماری باتیں ان کے لیے بھلائی اور خیرخواہی کا تاثر دیں نہ کہ نفرت، بدخواہی اور دوری کا سبب ہوں۔
ll

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 فروری تا 20 فروری 2021