مشرقِ وسطیٰ میں امریکی پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت
جمہوری اقدار کے قیام کے نام پر امریکہ نے پر تشدد طریقہ اختیار کیا
اسد مرزا
گزشتہ بیس سالوں کے درمیان جہاں ایک جانب مشرقِ وسطیٰ کے بیشتر ممالک میں عوام کی خواہشات میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، وہیں اس بات کی بھی ضرورت محسوس کی گئی کہ اگر امریکہ خطے میں اپنے اثر ورسوخ کو قائم رکھنا چاہتا ہے تو اسے اپنی پالیسیوں میں نمایاں تبدیلی لانا ہو گا۔
افغانستان میں بیس سال تک جاری جنگ اور عراق میں جاری فوجی مداخلت اور مشرقِ وسطیٰ کے باقی ممالک میں امریکہ کی دخل اندازی اور ان کے غیر مقصود نتائج کی بنا پر عالمی حلقوں میں مشرقِ وسطیٰ میں امریکی پالیسیوں پر ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ اس بحث کا مقصد خطے میں امریکہ کی دلچسپی اور اس کی خارجہ پالیسی کے خدوخال کا جائزہ لینا شامل ہے۔ کیونکہ موجودہ حالات میں امریکی پالیسی کا محور چین اور ایک حد تک روس کی بڑھتی ہوئی جارحیت اور اس جارحیت کے منفی اثرات امریکی دفاعی پالیسی اور علاقائی چیلنجز پر کیا ہیں، ہونا چاہیے۔
اس بحث کے ساتھ ہی یہ سوالات بھی اٹھنا شروع ہو گئے ہیں کہ کیا امریکہ اپنے مفادات کا حصول صرف فوجی اور دفاعی ذرائع سے ہی حاصل کر سکتا ہے یا اس کے بجائے سیاسی، سفارتی، معاشی اور عوامی سطح کی پالیسیوں کو استعمال کرکے بھی یہ مقاصد حاصل کرسکتا ہے؟ اس بحث میں امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتیں انتہائی شدت کے ساتھ شریک ہیں۔ ایک جانب وہ گروپ ہے جو کسی ملک کی تعمیرِ نو کے لیے دفاعی اور فوجی حکمت عملی کو ترجیح دیتا ہے جو کہ 9/11 کے بعد افغانستان میں فوجیں بھیجنے کے لیے ذمہ دار تھا اور بعد میں عراق میں بھی اسی حکمت عملی پر کام ہوا تھا، تو دوسری جانب وہ گروپ ہے جو کہ سیاسی، سماجی اور معاشی طریقوں یا سافٹ ڈپلومیسی کو ترجیح دیتا ہے۔
افغانستان میں امریکہ کی پالیسی ناکام ہونے کی دو بنیادی وجوہات تھیں، اول تو کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک میں اپنی کٹھ پتلی حکومت کے ذریعہ اوپر سے کوئی نیا طرزِ عمل نافذ نہیں کر سکتا، جب کہ اسے عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل نہ ہو۔ دوسرے، افغانستان میں امریکی پالیسی ناقص اور جھوٹ پر مبنی انٹلی جینس یا معلومات مہیا کرائی گئی تھیں اور اس کے ذریعہ ایک بدعنوان اور بے اصولی نظام جس کا فائدہ افغان اور امریکی حکام دونوں ہی اٹھا رہے تھے قائم کیا گیا تھا۔
افغانستان میں امریکہ کی شکست کے بعد امریکی حکام شاید اب اس امر کو بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ آپ کسی دوسرے ملک میں اس کی تعمیر نو کی بات کرکے وہاں فوج کے ذریعہ سے مداخلت نہیں کر سکتے، جب تک کہ آپ کے منصوبے یا کوشش کو عوام کی اکثریت کی حمایت نہ حاصل ہو اور آپ صرف دور سے تعمیر نو کے پروگرام کی نگہداشت سفارتی ذرائع کے ذریعہ نہ کریں اور زمینی سطح پر کام کرنے والی اور عوام کی فلاح وبہبود کو یقینی بنانے والی غیر سرکاری تنظیموں کی بھی حمایت نہ کریں۔
ممکنہ طور پر بائیڈن انتظامیہ ان حالات میں ایک قابلِ فہم پالیسی اپناتے ہوئے، حقوق انسانی کے مطالبات کو بار بار نہ دہراتے ہوئے امریکی مفادات کو ذہن میں رکھ کر ان دونوں کے درمیان توازن قائم کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے علاوہ خطے میں اپنی بالادستی اور مفادات کو یقینی بنا سکتا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ اور کچھ حد تک ایشیا میں اگر امریکی پالیسیوں اور اقدامات کا ایک غیر جانب دارانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ بات بالکل صاف ہو جائے گی کہ پورے خطے میں جہاں جہاں بھی امریکی مداخلت رہی ہے وہ زیادہ تر نام نہاد جمہوریت اور آمرانہ انداز میں حکومت کرنے والے سیاست دانوں کی حمایت میں رہی ہے۔ اور اس مداخلت کے بعد جب آپ کسی ملک کو خاک کا ڈھیر بنا دیتے ہیں تو آپ عالمی برادری سے توقع کرتے ہیں کہ وہ حالات بہتر کرنے کے لیے آگے آئے اور آپ کا یا آپ کے منظورِ نظر کا ساتھ دے؟
مزید یہ کہ یہ کہانی ہر جگہ ایک جیسی ہی ہے، چاہے وہ افغانستان ہو جہاں آپ بغیر طالبان کو شامل کیے یا ان سے بات چیت کیے بغیر افغانی عوام کو امداد مہیا کرانے پہنچ جاتے ہیں یا پھر لبنان ہو جہاں آپ معاشی اور عوامی سطح پر پیدا ہونے والی صورت حال کو نظر انداز کرکے اپنے منظورِ نظر حمایتوں کو شہ دیتے رہتے ہیں لیکن جب ان حمایتیوں کو ملک میں استحکام قائم کرنے کے لیے معاشی مدد کی ضرورت ہوتی ہے تو آپ انہیں بھول جاتے ہیں، ان سب حرکتوں سے صرف آپ کا غیر انسانی چہرہ ظاہر ہوتا ہے اور باقی حقوق کی باتیں صرف لفاظی ثابت ہوتی ہیں۔
اس کے برخلاف اگر امریکہ نے ان دونوں ملکوں میں سرکاری مداخلت کے بجائے سماجی تنظیموں یا NGOs کی مدد لی ہوتی تو شاید نتائج بالکل مختلف ہوتے اور اگر ان نتائج پر لبنان اور عراق کی تعمیر نو کے لیے کوئی پالیسی اپنائی جاتی تو شاید وہ ان دونوں ملکوں میں بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ کشیدگی کو ختم کرانے کے لیے بہتر طور پر ان سے نبرد آزما ہوتی اور وہ امریکہ اور وہاں کے عوام دونوں کے حق میں بہتر ہوتی۔ ساتھ ہی ساتھ آپ جس مقصد کے تحت وہاں گئے تھے یا باہر سے مداخلت کر رہے تھے، وہ بھی حاصل ہو جاتا یعنی کہ ایک تکثیری سماج کا قیام اور جمہوری اداروں کی بالادستی اور دونوں ملکوں میں عوام کی خواہشات کے مطابق کسی حکومت کا قیام بغیر کسی خوں ریزی یا تباہ کاری کے عمل میں آتا۔
عراقی دفاعی تجزیہ نگار طلحہٰ عبدالرحمن کے بقول نہ تو آپ عراق میں جمہوری اقدار کو قائم کراسکے نہ ہی آپ ملک کی تعمیر نو کراسکے بلکہ آپ نے جمہوریت کے نام پر ایک ایسے نظام کو قائم کرادیا جو کہ نااہل، انتہائی بدعنوان اور پرتشدد طریقوں پر گامزن رہا۔
امریکی محکمہ اسٹیٹ اور نیشنل سیکوریٹی کونسل کے اعلیٰ افسر مارٹن اندک نے ہنری کسنجر اور ان کی مشرقِ وسطیٰ پالیسی پر اپنی نئی کتاب میں تحریر کیا ہے کہ کسنجر کے بقول آپ پوری دنیا میں امن قائم نہیں کرسکتے ہیں، آپ کو صرف تنازعات کو کم کرنا ہو گا تاکہ ایک پر سکون ماحول قائم کیا جا سکے۔ مارٹن کے بقول کسنجر اور آج کے دور میں جو واضح فرق آیا ہے وہ عوام کی خواہشات میں، آج مشرقِ وسطیٰ کے بیشتر ممالک کے عوام ایک جمہوری نظام قائم کرنے کے خواہش مند ہیں اور اس کے لیے کوشاں ہیں جیسا کہ عرب بہار کے بعد رونما ہونے والے واقعات سے ظاہر ہے۔ اسی لیے آج امریکہ کو اپنی خارجہ پالیسی میں جو بنیادی تبدیلی لانی ہے اس کی بنیاد اسی نقطے پر ہے کہ اب اسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ پوری دنیا میں ایک غالب طاقت بن کر نہیں بلکہ ایک با اثر طاقت بن کر اپنی بالادستی قائم کر سکتا ہے اور اس کے لیے اسے فوجی نہیں بلکہ Soft Diplomacy اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ مارٹن کا مزید کہنا ہے کہ امریکی پالیسی سازوں کو یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ جن ملکوں میں آپ شدت پسندی کے پھیلنے کی بات کر رہے ہیں ان ملکوں میں شدت پسندی تبھی ایک قابل توجہ شکل اختیار کر پائی جب عوام، جن میں اکثریت نوجوان نسل کی ہے اپنے ملک میں جمہوریت قائم کرنے میں ناکام رہے، اور اس ناکامی نے انہیں شدت پسندی کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔
مجموعی طور پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ جب تک امریکہ اپنے موقف اور حالات کو مختلف طریقے سے دیکھنے اور ان سے نپٹنے کے لیے نئے راستے اختیار نہیں کرتا ہے تب تک امریکی پالیسی اپنی فوجی طاقت کے بل پر ہی جاری رہے گی اور اس کا فائدہ نہ تو امریکہ نہ ہی کسی دوسرے ملک کے عوام کو مل پائے گا۔حال میں افغانستان میں رونما ہونے والے واقعات اور دوسرے ملکوں میں بھی بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے جو فیصلے کیے گئے ہیں، اس کے مطابق قوی امکانات ہیں کہ شاید اب امریکی خارجہ پالیسی سافٹ ڈپلومیسی کا سہارا لے گی اور امریکی خارجہ پالیسی میں امریکی دفاعی ترجیحات کو قدرے کم اہمیت دی جائے گی۔
(مضمون نگار سینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز، دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں)
***
***
مشرقِ وسطیٰ اور کچھ حد تک ایشیا میں اگر امریکی پالیسیوں اور اقدامات کا ایک غیر جانب دارانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ بات بالکل صاف ہو جائے گی کہ پورے خطے میں جہاں جہاں بھی امریکی مداخلت رہی ہے وہ زیادہ تر نام نہاد جمہوریت اور آمرانہ انداز میں حکومت کرنے والے سیاست دانوں کی حمایت میں رہی ہے۔ اور اس مداخلت کے بعد جب آپ کسی ملک کو خاک کا ڈھیر بنا دیتے ہیں تو آپ عالمی برادری سے توقع کرتے ہیں کہ وہ حالات بہتر کرنے کے لیے آگے آئے اور آپ کا یا آپ کے منظورِ نظر کا ساتھ دے؟
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 24 تا 30 اکتوبر 2021