حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی، جمشید پور۔
حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی، جمشید پور۔
طب کا پیشہ اِنتہائی متبرک اور قابل احترام سمجھا جاتا ہے لیکن جیسے جیسے ڈاکٹروں میں دولت مند ہونے کی چاہت اور لالچ بڑھتا گیا یہ پیشہ مسیحائی بھی متاثر ہوتا گیا اور اب تو یہ مکمل تجارت بن گیا ہے جس میں صرف روپیہ کمانے اور نفع حاصل کرنے کی سوچ ہی حاوی رہتی ہے۔ ہر ایم بی بی ایس ڈاکٹر، سرجن اور الگ الگ امراض کے ماہر معالجین ’مسیحا‘(حکیم حاذق) نہیں ہوتے بلکہ اس کے لیے ’’خدمت خلق ‘‘ کا جذبہ ہونا بھی شرط ہے۔ اگر کسی کا جذبہ کھوٹا اور نیت میں فتور ہو تو وہ چاہے ڈاکٹری کی کتنی ہی بڑی ڈگری رکھتا ہو، مسیحا نہیں کہلا سکتا۔
میڈیکل لائن ،تجارت بن گئی۔ ڈاکٹروں سے لے کر دوافروش، دوا بنانے والی کمپنیاں، اسپتال، شعبہ پیتھالوجی، سب کے سب تجارتی نظریہ کے تحت کام کر رہے ہیں۔(الاماشاءاللہ) پہلے گورنمنٹ اسپتالوں میں مریضوں کا علاج ہوا کرتا تھا اور دوائیں مفت میں ملتی تھیں، پھر پانچ دہائی پہلے 1970 سے نجی اسپتالوں (چھوٹے ہسپتال، نرسنگ ہوم) کا چلن شروع ہوا گورنمنٹ نے اِنھیں بڑھzا وادیا تاکہ عوام کو فائدہ ہو۔ گورنمنٹ سے لائسنس لینے کی بہت سی شرطوں میں یہ بھی تھا کہ کچھ فیصد غریبوں کا بھی مفت علاج ہوگا لیکن سب ہوا ہوائی ہوگیا اور لوٹ کھسوٹ کا دور شروع ہوگیا۔ تکلیف میں مبتلا غریب و بد حال مریضوں کو کوئی راحت نہیں ملی بلکہ پریشانیاں اور بڑھ گئی ہیں۔صوبائی حکومتیں، سنٹرل حکومتیں ان مجرموں کے کان کھینچیں تو شاید مریضوں کو راحت ملے۔ اکثر نجی اسپتالوں میں لوٹ مچی ہوئی ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس پیشہ سے جڑے ہوئے ڈاکٹرس ،نرسیں، فارمیسی وغیرہ سب کھلی ڈکیتی کر رہے ہیں، چند ایک کو چھوڑ کر۔ دوا ساز کمپنیاں، میڈیکل اسٹورس اور ڈاکٹروں کا گٹھ جوڑ: آپ کو بھی تجربہ ہوگا کہ گلی محلوں میں قائم طبی مراکز، نجی نرسنگ ہوم میں ڈاکٹر دوائیں تجویز کرنے کے بعد نسخہ ہاتھ میں تھماتے ہوئے ہدایت دیتے ہیں کہ مریض فلاں فار میسی سے ہی دوا خریدیں (اور ہمیں دکھائیں تاکہ یہ پکا ہو جائے کی دوا وہیں سے خریدی گئی ہے جہاں ڈاکٹر صاحب کا کمیشن فکس ہے) آج کل نقلی دوائیں چل رہی ہیں جو آپ کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ میٹھی نصیحت (جس میں زہر کی آمیزش ہوتی ہے) کو سن کر کوئی بھی مریض ڈاکٹر کو تو مسیحا ہی سمجھے گا، اُسے کیا معلوم اس مسیحائی میں ڈاکہ زنی شامل ہے۔ لیکن ایسا قطعی نہیں ہے، ایسے ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل کرنے والا مریض در اصل مقامی اور غیر رجسٹرڈ کمپنی کی غیر میعاری دوائیں خرید کر اس نام نہاد ’’مسیحا‘‘ کی جیب بھرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔
ایک گولی جس کی زیادہ سے زیادہ قیمت پانچ دس روپیے ہو سکتی ہے وہ اس بیس روپیے یا اس سے زیادہ کی پڑتی ہے۔جی ہاں، اس مقدس اور اہم ذمہ داری سے وابستہ ڈاکٹر اب ناجائز طریقے سے دولت کمانے کے لیے انسان کی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔اور انہیں ذرہ برابر بھی شرم وعار نہیں ہے۔ یاد رہے کہ ہمیں ان کے ظالمانہ طریقہ کار کو سمجھنا اور اس کا راستہ روکنا ہوگا۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے صرف کہنے سے کچھ نہیں ہونے والا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ شکار غریب اور ان پڑھ یا کم پڑھا لکھا طبقہ ہورہا ہے اور ڈاکٹروں کا گروپ مالامال ہو رہا ہے۔ خدمت خلق کرنے والے ڈاکٹرس عوام کے سرتاج: یہ دنیا نیک ڈاکٹروں بھی سے خالی نہیں ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اب ایسے ڈاکٹرس بہت کم رہ گئے ہیں لیکن جو بھی ہیں غنیمت ہیں، یہی لوگ اصل میں مریضوں کے مسیحا ہیں۔ ناچیز راقم کی عمر 55 سال ہے 15سال پرانا عام مرض شوگر ہے اور بی پی بھی۔ خیر سے چار بچوں کا باپ ہوں۔ ڈاکٹروں کو جھیلتے جھیلتے اور دوا کھاتے کھاتے کچھ تجربہ بھی ہوگیا ہے۔ اسی تجربے کی بنیاد پر کئی جگہوں پر ڈاکٹروں سے کچھ نہ کچھ کہا سنی ہوتی رہتی ہے۔ کئی اہم اور دلچسپ واقعات ہیں جن میں سے صرف ایک ملاحظہ فرمائیں۔ جمشید پور میں بچوں کے ماہر ایک ڈاکٹر کے ہاں میری 4 سالہ بچی نورجہاں شیرازی کا علاج چل رہا تھا۔ مہنگی سیرپ تین دفعہ بدل کر دی، چوتھی بار سیرپ بدلنے پر میں نے ڈاکٹر سے سخت اعتراض جتایا اور کہا کہ آپ گولی tablet کیوں نہیں لکھتے؟ ڈاکٹر بگڑ گیا کہا ہمیں ڈاکٹر کی تمیں( بنگالی میں) ٹیبلیٹ کِنو کھلائے گا؟ ہم نے کہا کہ گردن پر پیر رکھ کر کھلا دیں گے وہ گھبرا گیا اور پھر گولی لکھ دی۔ 6 میں تین گولیاں گھول کر پلائی، اللہ نے شفا عطا فرمائی الحمدللہ۔ جمشید پور میں کئی نامور ڈاکٹر انسانیت نواز، مریضوں کے مسیحا گزرے ہیں۔ مشہور ڈاکٹر ’ قوی‘ صاحب صرف 2 روپے فیس لیتے تھے اور یہ سلسلہ ان کی حیات تک 2013 یا 2015 تک چلا۔ اور وہ دو روپے ٹوکن بانٹنے والی بوڑھی نرس لیا کرتی تھی، تین ٹائم مریضوں کو دیکھتے صبح آٹھ بجے سے گیارہ بجے دوپہر تک ۔ تین بجے سے پانچ بجے تک، رات آٹھ بجے سے دس بجے تک ہر وقت ڈیڑھ سو سے دوسو تک ٹوکن بانٹے جاتے تھے، بڑے بڑے کروڑ پتی اپنا اور اپنے بچوں کا علاج کرانے آتے تھے ناچیز کی بچی جب تین سال کی تھی بیمار ہو گئی کئی بڑے ڈاکٹرس کو دکھایا ،فائدہ نہیں ہوا ڈاکٹر قوی کے پاس پہنچا ،انہوں نے دیکھ کر کہا کہ اتنے چھوٹے بچوں کے ’ہونٹ ‘ چوما نہ کریں، گال چومیں، پھر صرف ایک گولی ’ہیٹرازن‘ لکھی وہ بھی لیڈر لے کمپنی کی صرف ساٹھ پیسے کی دو دن کھلایا تو شفا ہوگئی الحمدللہ۔ واقعی، انسانیت نواز مریضوں کے مسیحا ڈاکٹروں کے ہاتھوں میں رب العالمین شفا بھی عطا فرماتا ہے۔ شہر جمشید پور کے مشہور سرجن ڈاکٹر سِدھو پنجابی کی فیس 1990 میں صرف 5 روپے تھی ایک سو ٹوکن روز بانٹے جاتے تھے، ٹوکن ختم ہونے پر بھی وہ مریضوں سے شفقت سے پیش آتے۔ ایشیاء کی مشہور لیڈی ڈاکٹر پی ہیرا جو جمشید پور میں ایک حادثہ میں جل کر مر گئیں تھیں وہ غریب عورتوں کا مفت میں علاج کرتی تھیں۔افسوس اب جمشید پور اور اس کے اطراف میں ایسے انسانیت نواز مریضوں کے مسیحا ڈاکٹر دور دور تک نظر نہیں آتے۔
ڈاکٹروں کی جان لیوا فیس: ڈاکٹروں نے فیس ہی اتنی زیادہ رکھی ہوئی ہے کہ وہ مریضوں کے لیے پریشانی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ جب بھی دکھاو، فیس لگے گی اور جہاں بیٹھتے ہیں اس نجی نرسنگ ہوم کی فیس بھی اس میں شامل ہوتی ہے ۔پہلے ڈاکٹر ایک فیس میں 2 رپوٹنگ کرتے تھے پھر ہفتہ بھر بعد دوبارہ فیس لیتے تھے،اب یہ سلسلہ اکثر جگہ بند ہو رہا ہے۔ کیا یہ مریضوں کے ساتھ ظلم نہیں ہے؟ افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ اس حمام میں سبھی رین کوٹ پہن کر نہا رہے ہیں یعنی ہمارے دینی بھائی مسلمان ڈاکٹر بھی اس طرح کی لوٹ میں شامل ہیں۔ نئے نئے طریقوں سے غریبوں کی جیب کاٹ رہے ہیں، غیر ضروری لیباریٹری ٹیسٹ تجویز کرانا اور یہ کہ فلاں جگہ ہی کرانا۔ کسی غریب نے اپنی سہولیت کے اعتبار سے اگر دوسری جگہ کرالیا تو اس کی رپورٹ کو یہ کہہ کر رد کر دینا کہ اس کی رپورٹ صحیح نہیں ہے۔ بے چارہ مجبور مریض تکلیف کے ساتھ ساتھ مالی خسارے کی اذیت سے بھی دوچار ہوتا ہے۔
کووڈ-19سے لڑنے والے ڈاکٹر یقیناً مسیحا ہیں: اس وقت جو ڈاکٹر اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں یقینا انہیں سماج میں عزت ملنی چاہیے حکومتوں کو بھی چاہیے کہ ان ڈاکٹروں کو انعامات سے نوازیں اور جو ڈاکٹر ڈیوٹی پر نہیں آرہے ہیں اور روپوش ہوگئے ہیں ان کی نوکری فوری ختم کی جائے اور ان کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے۔ مرکزی اور صوبائی اور سنٹرل حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ڈاکٹروں کی ہڑتال پر پابندی لگائیں جب حکومتیں مزدوروں کی ہڑتال پر پابندی لگا سکتی ہیں تو اِن ظالم ڈاکٹروں کی ہڑتال پر روک کیوں نہیں لگا سکتی ہیں؟
ڈاکٹروں کی اخلاقی پستی: موجودہ ڈاکٹر حضرات( کچھ کو چھوڑکر) اخلاقی پستی میں دنیا کی ساری قوموں کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ ان کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ایک انسان ان کے سامنے تڑپ تڑپ کے جان دے رہا ہوتا ہے مگر اِنہیں ذرہ برابر پروا نہیں ہوتی، ذاتی مفاد اور دولت کے اندھے تعاقب نے انہیں انسانی قدروں کو پامال کرنے پر آمادہ کر دیا ہے۔’’مذہب اسلام نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے‘‘۔ لیکن اسپتالوں کے نام پر انسانی قتل گاہوں میں بے رحم ڈاکٹروں کے ہاتھوں لا تعداد مظلوم مریضوں کے قاتلوں کو قاتل کیوں نہیں سمجھا جاتا ؟ وہ تو اپنی غفلت پر پردہ ڈالنے کے لیے محض ’’قضائے الٰہی‘‘ کہہ کر مریض کی میت کو ورثاء کے سپرد کر دیتے ہیں۔
کووڈ-19سے لڑنے والے ڈاکٹر یقیناً مسیحا ہیں: اس وقت جو ڈاکٹر اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں یقینا انہیں سماج میں عزت ملنی چاہیے حکومتوں کو بھی چاہیے کہ ان ڈاکٹروں کو انعامات سے نوازیں اور جو ڈاکٹر ڈیوٹی پر نہیں آرہے ہیں اور روپوش ہوگئے ہیں ان کی نوکری فوری ختم کی جائے اور ان کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے۔ مرکزی اور صوبائی اور سنٹرل حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ڈاکٹروں کی ہڑتال پر پابندی لگائیں جب حکومتیں مزدوروں کی ہڑتال پر پابندی لگا سکتی ہیں تو اِن ظالم ڈاکٹروں کی ہڑتال پر روک کیوں نہیں لگا سکتی ہیں؟