مسلم دنیا میں تعلیم کا دوبارہ ظہور۔ امید افزا تبدیلی کی دستک
حالیہ برسوں میں ۔25مسلم اکثریتی ممالک کا اوسط شرح خواندگی 90 فیصد حصول تعلیم میں صنفی فرق میں بھی تیزی سے کمی۔یونیسکواورعالمی بینک کی رپورٹ
ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی
تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور اعلیٰ تعلیم غربت کے خاتمہ، مشترکہ خوشحالی کے فروغ اور سماج کو اپنے وقت کے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے طاقتور بنانے ایک طاقتور ہتھیار ہے۔ اس بنیادی حقیقت کا مسلم امت کو عہد وسطیٰ میں جو اسلامی تاریخ کا سنہرا دور تھا گہرا ادراک حاصل تھا۔ حصول تعلیم مسلمانوں کے لیے ایک تاکیدی حکم ہے جس پر وہ تقریباً 800برسوں تک کاربند رہےتھے۔
گزشتہ 4صدیوں کے دوران دنیا بھر میں مسلمانوں نے تعلیم کو چھوڑ کر زندگی کے ہر شعبے میں بہت زیادہ دلچسپی دکھائی ۔ اسلامی دنیا میں شاعری، موسیقی، مصوری ،فن کوزہ گری( سیرامکس)، فن تعمیر،فلز کاری(میٹل ورکس) وغیرہ اہم سرگرمیاں بن گئیں لیکن یوروپ سے آنے والی تیزی سے فروغ پذیر عصری تعلیم میں بہت کم دلچسپی ظاہر کی گئی ہے۔ 15ویں صدی میں جو یوروپ کے لیے ایک انقلابی تبدیلی کا دور رہا ہے،امت کے لیے غالباً سب سے نقصاندہ عمل پرنٹنگ پریس کے استعمال کی اجازت دینے سے انکار تھاجبکہ طباعت گھروں کے ذریعہ یوروپ میں سائنسی اور صنعتی سرگرمی کے تمام شعبوں میں علمی انقلاب کو ممکن بنایا گیا۔
عرصہ دراز تک محو خواب رہنے کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں نے یہ سمجھنا شروع کیا کہ عصری علم اور اعلیٰ تعلیم کے بغیر وہ مغرب کی جانب سے اپنے استحصال پر قدغن نہیں لگاسکتے۔ یہی وہ بات تھی جو سرسید احمد خان نے 19ویں صدی کے اواخر میں مسلم امت سے کہی تھی۔ خوش نصیبی سے حالیہ ماضی کے دوران یعنی اکیسویں صدی میں مسلم دنیا میں تعلیم کا ازسر نو ظہور ہوا ہے۔
جان ملر کے سروے کے مطابق 5 مسلم ممالک یعنی آذربائیجان ، تاجکستان ، قازقستان ، ترکمانستان اور ازبکستان ان 25 ممالک میں شامل ہیں جن کی شرح خواندگی 100فیصد ہے۔ ورلڈ بینک اور یونیسکو کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 25مسلم اکثریتی ممالک کا اوسط شرح خواندگی 90 فیصد ہے جن میں سعودی عرب (95%) ، انڈونیشیا (94%) ، ملائیشیا (94%) ، ایران (90%) ، اردن (96%) ، یو اے ای (94%) اور ترکی (95%)شامل ہیں۔ نو ممالک بشمول شام (86) ، تیونس (82) ، عراق (79) ، مصر (75) الجیریا (73) اور مراکش (72) 70 سے 89 کے درمیان میں ہیں۔ بدقسمتی سے پندرہ ممالک بشمول بنگلہ دیش ، پاکستان اور نائیجیریا کی بڑی آبادی والے ممالک اب بھی خواندگی میں پیچھے ہیں جہاں شرح خواندگی62 فیصد سے کم ہے تاہم 1980کے خواندگی کے اعداد و شمار(اوسطاً 30%) کے مقابلے میں 2018کا ڈیٹا انتہائی اطمینان بخش ہے۔
عالمی خواندگی کی شرح (2017) 82 فیصد (مرد87 فیصد اور خواتین 77 فیصد ) ہے۔
ایک خاص بات یہ ہے کہ بہت سے اسلامی ممالک میں خواندگی میں صنفی فرق (مرد اور خواتین) میں بھی تیزی سے کمی آئی ہے۔ کم از کم 21 ممالک میں یہ تفاوت صرف صفر تا7فیصد کے درمیان ہے۔
اسلامی دنیا میں (علم کے تمام شعبوں میں) اعلیٰ تعلیم پر سنجیدہ توجہ کی ضرورت ہے۔ ہاں ،یہ سچ ہے کہ مسلم دنیا میں سائنسی بیداری جاری ہے۔ بہت سے ممالک ، جیسے سعودی عرب ، ایران ، قطر ، ترکی وغیرہ میں تحقیق پر مصارف میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔
مغربی ممالک میں اعلیٰ تعلیم عام طور پر 40 فیصد سے اوپر ہے جبکہ چند ممالک جیسے ترکی ، سعودی عرب اور انڈونیشیا کو چھوڑ کر جہاں یہ شرح 2 تا6 فیصد کے درمیان ہے مسلم ممالک میں تحقیق پر مصارف پر بھی سنجیدہ توجہ کی ضرورت ہے۔ صرف چند ممالک جیسے ترکی ، سعودی عرب ، ایران اور قطر نے اس مقصد کے لیے خاطر خواہ رقم اکٹھا کی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ قطر نے سائنس کے بجٹ کو اپنے جی ڈی پی کے 0.8 فیصد سے بڑھا کر 2.8 فیصد کرنے کی تجویز دی ہے۔
بہت سے مسلم ممالک پہلے ہی جدید علوم پر زور دیتے ہوئے اعلیٰ تعلیم کے مراکز (یونیورسٹیاں) قائم کر چکے ہیں۔ ٹائمز ہائر ایجوکیشن ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ 2018 کے مطابق ، مسلم ممالک کی 56 یونیورسٹیوں کو دنیا کی 1102 یونیورسٹیوں میں شامل کیا گیا ہے جن میں سے 22کا تعلق ترکی سے ہے اور اس کے بعد ایران 18 ، پاکستان 10،ملائیشیا اور مصر 9،سعودی عرب 5،یو اے ای اور انڈونیشیا 4، اردن اور مراکش 3،تیونس 2 اور الجیریا ، بنگلہ دیش ، کویت ، لبنان ، نائیجیریا ، عمان اور قطر کی ایک ایک یونیورسٹی شامل ہے۔
رینکنگ کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ 41یونیورسٹیوں میں طالبات کی تعداد طلبا کی تعداد کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ 11یونیورسٹیوں میں مردوں اور خواتین کا تناسب 65:35سے زیادہ ہے۔ سعودی عرب کی امام عبدالرحمن بن فیصل یونیورسٹی میں 22,257طلبہ زیر تعلیم ہیں جہاں یہ تناسب سب سے زیادہ 81:19ہے۔ اس کے بعد متحدہ عرب امارات یونیورسٹی (7,492طلبا) 79:21کے ساتھ دوسرے مقام پر ہے۔ اس کے بعد قطر یونیورسٹی (13,342طلبا) 73:27اور کویت یونیورسٹی (37,752طلبا) 72:28کے تناسب کے ساتھ علی الترتیب تیسرے اور چوتھے مقام ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 17 تا 23 اکتوبر 2021