مسلم اقلیت کےمسائل سیرت طیبہ کی روشنی میں
غیر مسلم ملکوں میں مسلمانوں کی شہریت اور تہذیبی شناخت کے امور کا ایک جائزہ (آخری قسط )
اختر امام عادل قاسمی ،بہار
حلف خزاعہ کی تجدید
اسی طرح کا ایک معاہدہ عہدِ جاہلیت میں بنو عبد المطلب اور خزاعہ کے درمیان ہوا تھا جس کو حلفِ خزاعہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تاریخِ طبری اور بغدادی وغیرہ میں واقعہ کی پوری تفصیل موجود ہے۔ اس معاہدہ کی اساس باہم نصرت و محبت اور امن و سلامتی پر تھی اس کی یہ دفعہ بطورِ خاص بہت اہم تھی۔ ’’عبد المطلب اور ان کی اولاد اور ان کے رفقاء اور قبیلہ خزاعہ کے لوگ باہم مساوی اور ایک دوسرے کے مددگار ہوں گے، عبدالمطلب پر ان کی مدد ہر اس شخص کے مقابلے میں لازم ہوگی جن کے لیے ان کو مدد کی ضرورت ہو اس طرح خزاعہ پر عبد المطلب اور ان کی اولاد اور رفقاء کی مدد لازم ہوگی پورے عرب کے مقابلے میں، خواہ وہ مشرق و مغرب میں سخت زمین یا نرم زمین کہیں بھی ہوں، اور اس پر اللہ کو کفیل بناتے ہیں اور اس سے بہتر کوئی ضمانت نہیں۔‘‘
اس معاہدہ کا علم رسول اللہ ﷺ کو تھا، صلح حُدیبیہ کے موقعہ پر قبیلۂ خزاعہ کے لوگ خدمت
نبوی ﷺ میں حاضر ہوئے اور معاہدہ نامہ کی ایک کاپی حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کی، حضرت اُبی بن کعبؓ نے اس کا مضمون پڑھ کر سنایا،حضورﷺنے فرمایا تمہارا یہ معاہدہ برقرار رہے گا، اسلام عہدِ جاہلیت کے معاہدوں کو منسوخ نہیں کرتا، آپ نے اس معاہدہ کی تجدید فرمائی اور اس میں ایک دفعہ کا اضافہ فرمایا:ان لایعین ظالما وانما ینصر مظلوما۔۔کہ ظالم کی کوئی مدد نہیں کی جائے گی بلکہ مدد صرف مظلوم کی جائے گی۔ اہمیت محض معاہدہ کی نہیں ہے، عہدِ جاہلیت میں اس طرح کے قبائلی معاہدے ہوتے رہتے تھے، اہمیت اس کی ہے کہ حضور ﷺ نے نیک مقاصد پر مبنی اس معاہدہ کی توثیق فرمائی، آپ ﷺ کی توثیق کے بعد یہ شریعت کا حصہ بن گیا۔
غیر مسلموں سے دفاعی اتحاد
(۱)حضور ﷺ نے بعض جنگی مواقع پر غیر مسلموں سے جودفاعی اتحاد قائم فرمائے، مثلاً بنو قریظہ کے مقابلے میں یہود بنو قینقاع سے فوجی مدد لی، صفوان بن اُمیہ نے حُنین وطائف میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگ کی جبکہ وہ مشرک تھا،اس کو بھی سیاسی مذاکرات کے لیے ایک نظیر بنایا جاسکتا ہے اگر چہ بعض مواقع پر آپ نے مشرکین سے فوجی مدد لینے سے انکار بھی فرمایا ہے ۔آپ ﷺ کے ان دونوں طرح کےطرزِ عمل سے جمہور فقہاء نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کفار سے فوجی اتحاد مشروط طور پر قائم کیا جا سکتا ہے جس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کا ملی وقار مجروح نہ ہو۔ تفصیلات کتب فقہ میں موجود ہیں ۔ غیروں کی قربت ممنوعہ موالات کے دائرے میں داخل نہ ہو۔ البتہ اس طرح کے مذاکرات میں اس امر کا بھی لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ سماجی یا سیاسی بنیادوں پر ہماری قربت ممنوعہ موالات کے دائرے میں داخل نہ ہو ،اس لیے کہ پھر امت کی مذہبی اور تہذیبی زندگی کا سوال پیدا ہو جائے گا یہ بحث بہت معروف ہے کہ اسلام میں غیر مسلموں سے گہرے دوستانہ تعلقات سے روکا گیا ہے ،لجس کو موالات کہتے ہیں البتہ وہ غیر مسلم جو مسلمانوں سے صرف عقیدہ کا اختلاف رکھتے ہوں حربی خیالات نہ رکھتے ہوں ان کے ساتھ محدود سماجی تعلقات اور خیرخواہانہ مراسم رکھنے کی اجازت دی گئی ہے ،جس کو مداراۃ یا مواساۃ کہتے ہیں ،قرآن کریم میں ان دونوں رخوں پر واضح ہدایات موجود ہیں: ’’ایمان والے مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں، جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کچھ بھی تعلق نہ ہوگا، مگر یہ کہ تم ان سے بچاو چاہو‘‘ ۔
(آل عمران 28)
دیگر مذاہب کی کتابوں کا حوالہ اور ان سے استفادہ
(۲ ) مختلف مذاہب کے درمیان بہت سی تعلیمات میں اشتراک پایا جاتا ہے ،اصول سیاست، اصول اخلاق، سماجی قواعد بلکہ بہت سے مذہبی تصورات میں بھی ہم آہنگی پائی جاتی ہے ،خاص طور پر آسمانی مذاہب میں اس طرح کی نظیریں بہت ملتی ہیں ،مذاکرات کے درمیان کسی نقطۂ اتفاق تک پہونچنے ، کسی مشترکہ کاز کو قوت پہونچانے کے لیے ،یا اتمام حجت کے لیے دیگر مذاہب کی کتابوں کے حوالے دیے جاسکتے ہیں اور ان سے محدود استفادہ بھی کیا جا سکتا ہے ،اس میں کوئی مضائقہ نہیں ،بلکہ بعض دفعہ فریق ثانی کے لیے یہ زیادہ مؤثراور قابل قبول ثابت ہوتاہے ،خود قرآن کریم نے مختلف مناسبتوں سے کئی مقامات پر دیگر مذاہب کی کتابوں اور ان کی تعلیمات کے حوالے دیے ہیں ،جن کا مقصد کہیں عقیدہ ونظریہ کی اصلاح ہے تو کہیں دیگر اہل مذاہب کے بعد کو کم کرنا ہے ،اسی طرح حیات نبوی میں بھی اس کےنمونےموجودہیں ۔
کلام نبوت میں دیگر مذہبی کتابوں کے حوالے :
٭ زنا کی سزا میں اسلام کا جو قانون رجم ہے ،یہ خود تورات میں موجود ہے ،اس کا علم اس وقت ہوا جب نبی کریم ﷺ کی خدمت عالیہ میں یہود کی طرف سے ایک مقدمۂ زنا پیش ہوااور آپ نے تورات کے حوالے سے قانون رجم کی بابت ان سے دریافت فرمایا ،انہوں نے ازراہ شرارت توریت میں اس قانون کا انکار کیا ،لیکن وہ اپنے اس انکار کو ثابت نہ کرسکے اور حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے ان کی علمی خیانت کاپردہ فاش کردیا ،تفصیل کتب حدیث میں موجود ہے۔
٭ ایک بار اہل کتاب کا ایک عالم دربار رسالت میں حاضر ہوا اور اپنی مذہبی کتابوں کی روشنی میں اس نے روز قیامت کی کچھ منظر کشی کی :کہ اللہ پاک ایک انگلی پر آسمانوں کو ،ایک انگلی پر زمینوں کو ، ایک انگلی پر درختوں کو ، ایک انگلی پر پانی وغیرہ کو اور ایک انگلی پر ساری خلائق کو اٹھالے گا اور کہے گاکہ میں مالک ہوں ،یہ سن کر حضور ﷺ اس قدر خوش ہوئے کہ آپ کے دندان مبارک نظر آنے لگے ،اس لیے کہ یہ اسلامی تعلیمات سے بہت ہم آہنگ تھی ،پھر آپ ﷺ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی :وما قدروا الله حق قدره والأرض جمیعا قبضته یوم القیامة والسماوات مطویات بیمینه سبحانه وتعالى عما یشركون ۔ترجمہ :انہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جو اس کا حق تھا ،اور ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے ،اللہ کی ذات ان کی شرکیات سے پاک ہے ۔
٭حضرت عقبیٰ بن عامر ؓ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ قرآن میں تین سورتیں ایسی ہیں جو تورات وانجیل میں بھی موجود تھیں ،قل ھواللہ ،اور معوذتین ،حضور ﷺ نے روزانہ رات میں پڑھنے کی ان کو تلقین فرمائی
خوشگوار تعلقات کے لیے غیرمسلموں کے مذہبی اعمال میں شرکت کرنا
(۳ ) غیر مسلموں سے مذاکرات یا خوشگوار تعلقات بنانے کے لیے ان کے مذہبی اعمال اور تقریبات میں شرکت کرناجائز نہیں ہے، اس لیے کہ قرآن نے شدید لہجہ میں کہا ہے کہ کفرتم سے اس وقت تک راضی نہ ہوگا جب تک کہ تم ان کی ملت کی اتباع نہ کرلو اور ان کے رنگ میں نہ رنگ جاؤ ،اور یہ انسان کی ضلالت اور ایک مومن کے خسارہ کے سوا کچھ نہیں ہے:’’یہود ونصاریٰ تم سے ہر گز راضی نہ ہوں گے جب تک کہ تم ان کی ملت کی اتباع نہ کرلو، صاف کہہ دو کہ اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے ،اور اگر تم نے علم آ جانے کے بعد ان کی خواہشات کی اتباع کی تو پھر اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مددگار تمہارے لیے نہیں ہے‘‘۔(البقرہ 120)
یہ مسلمان کی تہذیبی شکست ہے کہ وہ غیر مسلموں کے مذہبی رسوم کی رونق میں اضافہ کریں جبکہ ہمیں ان کی مشابہت سے بچنے بلکہ مخالفت کا حکم دیا گیاہے تفصیل گزر چکی ہے۔ قرآن نے صریح طور پر مقام زُور پر جانے سے منع کیا ہے : وَالَّذِینَ لا یشْهَدُونَ الزُّورَ
ترجمہ : یہ لوگ جھوٹ کی جگہوں پر حاضر نہیں ہوتے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ یہاں الزور سے مراد مشرکین کے مذہبی مواقع اور مقامات ہیں۔ بہت سے علماء نے تمام منکرات کے مقامات کو اس کا مصداق قرار دیا ہے ۔
حضرت عمرو بن مرۃ’’لا یشھدون الزور‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: لایمالؤن اھل الشرک علی شرکھم ولایخالطونھم ۔یعنی اہلِ شرک کے شرکیہ افعال کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور نہ ان کے ساتھ کسی مقام پر جمع ہوتے ہیں۔
ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے جائز اعمال کا ترک کرنا
(۴ )قیام امن اور ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے ایسے اعمال کا ترک جائز نہیں جو شرعاً واجب نہیں ہیں لیکن ان کا تعلق مذہب سے ہو یا مسلمانوں کے قومی یا تہذیبی شعار کی حیثیت سے شہرت رکھتا ہو ،اس میں وہ عمل بھی داخل ہے جو کہ مذہب کا حصہ نہیں ہے لیکن مسلمانوں کی متوارث تہذیب وثقافت کی شناخت بن چکا ہو ،اور اس کے ترک سےترک شعائر کی طرح کفر اپنی بالادستی اور خوشی محسوس کرتا ہو اس لیے کہ یہ کفر کی بالادستی کوتسلیم کرنے کے مترادف ہے اور مسلمان اپنی مرضی سے کفر کی بالا دستی قبول نہیں کرسکتے۔ قرآن کریم میں ہے :لن یجعل الله للكافرین على المؤمنین سبیلا ۔ترجمہ: اللہ تعالیٰ ہرگز کافروں کو مومنوں پر راہ نہیں دے گا ۔نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:لإسلام یعلو ولا یعلى ترجمہ: اسلام بلند رہے گا اس پر کسی کو بالادستی حاصل نہیں ہوگی۔
٭ اسی طرح یہ اسلام میں مکمل داخلہ کے منافی ہے ،اللہ پاک نے قرآن کریم میں کسی حلال چیز کو حرام کرنے سے منع فرمایا ہے ،صاحب شریعت کے علاوہ کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے،اپنی مرضی سے کسی جائز عمل کو ہمیشہ کے لیے ترک کردینا یا اس کے ترک کی منظوری دینا بھی نتیجہ کے اعتبار سے تحریم حلال ہی کے زمرہ میں آتا ہے ،اور قرآن نے اس کو بھی ممنوع قرار دیا ہے :یا أَیهَا النَّبِی لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ۔’’ اے نبی! جس چیز کو اللہ پاک نے حلال کیا تم اسے حرام کیوں کرتے ہیں‘‘ ۔ جب کہ حضور ﷺ نے کسی جائز چیز کی حرمت کا قانون نہیں بنایا تھا بلکہ صرف عملی طورپر بذات خود اس سے اجتناب کرنے کا ارادہ فرمایا تھا، مگر قرآن نے اس کو تحریم کے دائرے میں شامل کرکے اس سے ممانعت کردی نیز اس سے تہذیبی موت کا اندیشہ ہے ،کیونکہ جب قوم کسی دوسری قوم کے لیے یکطرفہ طور پر اپنی تہذیب چھوڑدیتی ہے ،تو آہستہ آہستہ اس کی تہذیبی غیرت اور قومی حسیت کمزور ہونے لگتی ہے اور اس کا نتیجہ موت ہے ۔
٭پھر اس کی کیا ضمانت ہے کہ معاملہ ایک ہی چیز کے ترک تک محدود رہے گا اور آئندہ کسی دوسری چیز کے ترک کا مطالبہ سامنے نہیں آئے گا ؟۔۔اس کے بعد کیا ہوگا ہر صاحب بصیرت اس کا اندازہ کرسکتا ہے۔۔ اپنی چیزوں سے دستبردار ہونے والی قوم کبھی زندہ تصور نہیں کی جاسکتی ۔
نظریات باطلہ پر تنقید کے حدود
(۵ ) اسلام ایک سچا مذہب ہے ،جس نے حق کو کھول کھول کر بیان کیا ہے اور یہ بھی درست ہے کہ اس نےجھوٹے عقائد اورباطل نظریات کا طلسم بھی
چاک کیا ہے یہاں نفی اور اثبات دونوں ہیں ،امر بالمعروف کی طرح نہی عن المنکر بھی ایک اہم ترین فریضہ ہے ،اس لحاظ سے باطل افکار ونظریات کے خلاف تنقید کرنے میں مضائقہ نہیں ،بلکہ بعض اوقات اس کے بغیر کام ہی نہیں چلتا ،اگر سوال کا جواب نہ دیا جائے تو یہ ایک طرح کی شکست سمجھی جاتی ہے ،تنقید وتردید نظریاتی جنگ کا لازمی حصہ ہے ،اور ہتھیار کی جنگ سے زیادہ اس کی اہمیت ہے ،یہ جسموں پر نہیں دلوں اور دماغوں پر یلغار کرتی ہے ،یہ قریب سے نہیں دور سے وار کرتی ہے ،اور یہاں فتح وشکست آج نہیں کل کے لیے ہوتی ہے ایسے ہی موقعہ پر قرآن نے جدال کی اجازت دی ہے :وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِی هِی أَحْسَنُ
ترجمہ :ان کے ساتھ بہتر طریق سے جدال کرو ۔
٭اس کی ایک بہترین مثال عہد نبوت میں معرکۂ احد میں دیکھنے میں آئی ، مسلمانوں اور کافروں کے درمیان ہتھیار کی جنگ کے بعد تھوڑی دیر کے لیے زبانی جنگ ہوئی ،جس میں مسلمانوں کی طرف سے حضرت عمر بن الخطاب ؓ نے ابوسفیان (جو اس جنگ میں کافروں کے نمائندہ تھے )کے سوالوں کے مسکت جوابات دیے اور خود سرور دوعالم ﷺ نے حضرت عمر ؓ کو جوابات تلقین فرمائے ،کتب حدیث و سیر میں یہ واقعہ معروف ہے
٭اسی طرح ایک بار نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد مدینہ منورہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺسے حضرت عیسیٰ ؑ کی الوہیت اور ابنیت پر مباحثہ کیا آپ ﷺ نے ان کو اطمینان بخش جوابات دیے انہوں نے مسجد نبوی میں اپنے مذہب کے مطابق الٹی سمت نماز پڑھی ،صحابہ نے روکنا چاہا مگر آپ نے روکنے سے منع فرمایا ،جس کا تذکرہ کتب سیر وغیرہ میں تفصیلاً موجود ہے ۔ان دونوں مواقع پر نبی کریم ﷺ نے جس صبر وسکون ،متانت وسنجیدگی اور حسن اخلاق کا مظاہرہ فرمایا ،اور مسلمانوں کو بھی اس کی تلقین فرمائی وہ تنقید ومناظرہ کے لیے مثالی لائحۂ عمل ہے ،حضور ﷺ کے طرز عمل ،معاملہ کی فہم اور جواب کے لیے الفاظ اور جملوں کے انتخاب سے تنقید کے حدود وآداب پر روشنی پڑتی ہے ،اسی چیز کو قرآن مجادلۂ احسن کہتا ہے ۔تنقید کے وہ نکات جو طرز نبوت سے مستفاد ہیں ،یہ ہیں۔
٭بحث میں اصل نکتہ سے انحراف نہ کیا جائے ۔٭کسی کی ذاتیات پر حملہ نہ کیا جائے ۔
٭جبرکا طریق اور جارحانہ رویہ اختیار نہ کیا جائے ۔٭لب ولہجہ میں متانت وشائشتگی کا لحاظ رکھا جائے ،اور طعن وتشنیع سے گریز کیا جائے۔٭جواب برائے جواب میں بھی کوئی غیر حقیقی بات زبان سے نہ نکالی جائے ۔٭فریق مخالف کی اشتعال انگیز کارروائی کے باوجود تحمل اختیار کیا جائے۔ ٭فریق مخالف کی شخصیات اور مذہبی جذبات وتصورات کا ہر ممکن احترام کیا جائے ۔٭ نظریاتی اختلاف ذاتی مراسم اور باہمی تعلقات پر اثر انداز نہ ہو اور ہر طرح حسن اخلاق اور بشاشت کا مظاہرہ کیا جائے وغیرہ ۔
اگر تنقیدات میں ان حدود کی رعایت نہ برتی جائے تو وہ تنقید نہیں نزاع اور بحث نہیں سب وشتم بن جائے گی جس سے قرآن کریم نے حکمت آمیز لہجے میں منع کیا ہے کہ اس سے کوئی نفع ہونے کے بجائے منفی ردعمل پیدا ہوتا ہے اور بسا اوقات انسان اس نفسیات سے اس درجہ مغلوب ہوجاتا ہے کہ وہ خود بھی نہیں جانتا کہ اس ک تیر ہدف کن کن لوگوں کو شکار بنا رہاہے ،علامہ آلوسی ؒنے لکھا ہے کہ میں نے بہت مرتبہ شیعہ سنی کی بحث میں جاہل سنیوں کو دیکھا ہے کہ جب شیعہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر ؓ کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں تو جاہل سنی ان کے جواب میں حضرت علی ؓ کے لیے نازیبا کلمات استعمال کرنے لگتے ہیں (معاذ اللہ ) ۔یہ مذہبی مباحثات کی جھوٹی نفسیات ہیں جو تنقید وبحث کے حدود وآداب سے ناواقفیت کی بناپر پیدا ہوتی ہیں اسی لیے قرآن نے اس طرح کی تنقیدوں پر روک لگائی ،اور کہا کہ جولوگ دیگر اقوام کے مذہبی جذبات کا احترام نہیں کرتے ردعمل کی بنیاد پر اسلامی شخصیات یا عقائد کے خلاف فریق مخالف کی جانب سےجو بھی منفی کارروائیاں ہوں گی یہ لوگ اس کے ذمہ دار قرارپائیں گے ،اس لیے کہ ہم جس چیز کو غلط سمجھتے ہیں ضروری نہیں کہ دوسرے بھی اسے غلط سمجھیں ،ایسے لوگوں کے لیے معارضانہ طریق کے بجائے داعیانہ طریق زیادہ مؤثر ثابت ہوتا ہے : ’’اللہ کے سوا جن معبودوں کو یہ پکارتے ہیں،ان کو گالیاں نہ دوکہ وہ بھی اللہ کو زیادتی کرتے ہوئے جہالت کی بنیاد پر گالیاں دینے لگیں ،اسی طرح ہر جماعت کے لیے ان کے اعمال کو ہم نے خوبصورت بنادیا ہے ،آخران کو اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے پھر اللہ ان کو بتائے گا جو یہ کرتے تھے ‘‘۔ (سورہ الانعام108)۔غرض کسی مذہب میں موجود حقائق کو نقل کرنا برا نہیں ہے بلکہ تحقیر آمیز انداز میں بیان کرنا برا ہے ۔
مشترکہ سماجی مسائل پر دیگر اہل مذاہب کے ساتھ اشتراک
(۶)مشترکہ سماجی مسائل جیسے غربت ،کرپشن ،بے حیائی ،عورتوں ،مزدوروں اور عمر دراز لوگوں کے ساتھ زیادتی وغیرہ پر دیگر اہل مذاہب کے ساتھ مذاکرات میں اشتراک درست ہے ،اور ان چیزوں کے خاتمہ یا اصلاح کے لیے مشترکہ جدوجہد کی جاسکتی ہے ،عہد نبوت میں اس کی بہترین مثالیں حلف الفضول ،تجدید حلف خزاعہ اور میثاق مدینہ وغیرہ موجود ہیں ،جن میں مختلف اقوام اور قبائل نے چند مشترکہ سماجی اور سیاسی مسائل پر معاہدے کیے تھے ،ان میں غریبوں اور مظلوموں کی مدد ،ظالموں کا مقابلہ اور برائیوں کا خاتمہ وغیرہ جیسے مسائل بھی شامل تھے ، گزشتہ صفحات میں اس پر تفصیل سے گفتگو آچکی ہے۔
دیگر اہل مذاہب کے ساتھ سیاسی اشتراک
۷ )جمہوری ممالک میں سیاسی حصہ داری کی بڑی اہمیت ہے ،اگر مسلمان اس میں اپنا کردار ادا نہ کریں تو کئی محاذوں پر وہ برادران وطن سے بہت پیچھے رہ جائیں گے ،اور جس ملک میں مختلف قومیتوں کے لوگ رہتے ہوں وہاں کسی ایک قوم کا تنہا اپنے بل بوتے سیاسی استحکام حاصل کرنا آسان نہیں ہے ،ایسے حالات میں دیگر اہل مذاہب کی سیاسی جماعتوں سے اشتراک عمل کیا جاسکتا ہے ،بشرطیکہ مسلمان مشترکہ بنیادوں پر مساوی حیثیت سے اس میں شریک ہوں اوران کا قومی اور ملی وقار مجروح نہ ہو ،اگر ملک میں مختلف سیاسی جماعتیں ہوں تو ترجیح ان جماعتوں کو دی جانی چاہیے جو اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے معتدل اور روادانہ خیالات کی حامل ہوں ، اور اسلامی عقائد ونظریات سے ان کے خیالات متصادم نہ ہوں ،ان کے مقابلے میں ایسی جماعت کے ساتھ اتحاد کرنا ہرگز جائز نہ ہوگاجو اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں سخت گیر اور متشددانہ نظریات رکھتی ہو ،البتہ سخت گیرجماعت اگر اپنے سیاسی منشور سے مسلمانوں سے متصادم نظریات خارج کرنے اور صرف مشترکہ مسائل پر اتحاد کے لیے آمادہ ہو اور ملک میں کوئی نسبتاً اعتدال پسند جماعت موجود نہ ہو اور اس کے ساتھ اشتراک کیے بغیر مسلمانوں کے سیاسی یا سماجی استحکام کی کوئی صورت موجود نہ ہو ، مسلمانوں کا اس کے ساتھ اشتراک بحیثیت مذہب اس کے فروغ کا باعث نہ بنے،نیز مسلمانوں کےقومی اور ملی وقار پر کوئی آنچ نہ آئے تو ایسی جماعت سے بھی سیاسی تعاون کی بدرجۂ مجبوری گنجائش ہوگی ،اس کا مأخذ وہ آیت کریمہ ہے جس میں اہل کتاب کو مشترکہ بنیادوں پر اتحاد کی دعوت دی گئی ہے:’’اے اہلِ کتاب آؤ ایک ایسی بنیاد پر جمع ہو جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے‘‘۔(آل عمران)
جبکہ ان میں یہود بھی تھے ،اور یہود کی اسلام دشمنی پر خود قرآن نے مہر لگادی ہے: لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِینَ آمَنُوا الْیهُودَ وَالَّذِینَ أَشْرَكُوا الآیۃ۔ ’’ یقینا تم کو (عملی زندگی میں) مسلمانوں کے سب سے بد ترین دشمن یہود اور مشرکین ملیں گے‘‘۔اس کے باوجود خود نبی کریم ﷺ نے ان کو میثاق مدینہ میں شامل فرمایا ،گو کہ مدینہ منورہ میں حضور ﷺ کی حیثیت ایک بالا دست قوت کی تھی لیکن کتاب اللہ کے عموم سے حالت مغلوبی میں بھی اس سے استفادہ کی گنجائش ہےبشرطیکہ مسلمان مساوی حصہ دار کی حیثیت سے ان کے ساتھ شریک ہوں اور مذکورہ بالا شرائط کی تکمیل ہوتی ہو۔ واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واحکم ۔ (مضمون نگار مصنف ہیں اور جامعہ ربانی منوروا شریف بہار میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں)
***
جمہوری ممالک میں سیاسی حصہ داری کی بڑی اہمیت ہے ،اگر مسلمان اس میں اپنا کردار ادا نہ کریں تو کئی محاذوں پر وہ برادران وطن سے بہت پیچھے رہ جائیں گے ،اور جس ملک میں مختلف قومیتوں کے لوگ رہتے ہوں وہاں کسی ایک قوم کا تنہا اپنے بل بوتے سیاسی استحکام حاصل کرنا آسان نہیں ہے ،ایسے حالات میں دیگر اہل مذاہب کی سیاسی جماعتوں سے اشتراک عمل کیا جاسکتا ہے ،بشرطیکہ مسلمان مشترکہ بنیادوں پر مساوی حیثیت سے اس میں شریک ہوں اوران کا قومی اور ملی وقار مجروح نہ ہو