مسلمان ہی نہيں غير مسلم بھی پسند کر رہے ہيں حلال مصنوعات
ميم ضاد فضلی
حلال غذا ہر مسلمان کی اوّلين ضرورت ہے۔ بلکہ طبی لحاظ سے اس کی افاديت اس قدر اہم ہے کہ دنيا کے کئی غير مسلم ممالک بھی تيزی کے ساتھ حلال اشياء کے استعمال کی طرف متوجہ ہورہے ہيں۔ حلال اشيا کی دستيابی اور يقين دہانی کے ليے ملائشيا کی حکومت کے زير اہتمام باضابطہ ايک فعال ادارہ چل رہا ہے جو کسی بھی چيز کے حلا ل يا حرام ہونے کی تحقيقات اور چھان بين کے بعد سرٹيفکيٹ دستياب کراتا ہے۔ مذکورہ ادارہ کے سرٹيفکيٹ مسلم ممالک کے علاوہ متعدد ايشيائی، افريقی اور مغربی غير مسلم ممالک کی متعدد کمپنيوں نے حاصل کيے ہيں اور اپنی مصنوعات پر ہمارے ذريعہ ديے گئے سرٹيفکيٹ کی بنياد پر ’’حلال کا لوگو‘‘ لگا کر بازار ميں پيش کر رہے ہيں۔ چنانچہ ہندوستان ميں بھی گزشتہ چند برسوں سے اس جانب خصوصی توجہ دی جانے لگی ہے، اس طرح حلال مصنوعات کا کاروبار اربوں ڈالر ميں پھيلتا جا رہا ہے۔ چنانچہ ۱۸ جنوری ۲۰۲۰ کو تاريخی شہر حيدرآباد کے ہائی ٹيک سٹی ميں حلال کاروبار ميں سرگرم نوی ممبئی کی معروف کمپنی ’’اتوبہ‘‘ کے زيرانتظام انٹر نيشنل حلال ايکسپو کا انعقاد عمل ميں آيا تھا۔ جس ميں بطور خاص ملائشيا کی حلال سرٹيفکيشن کمپنی کے وفد نے شرکت کی اور شرکاء کو حلا ل اشيا کی اہميت و افاديت کے بارے ميں متعدد ورکشاپ اور ليکچرس کے ذريعہ تفصيلات فراہم کی تھيں۔ ملائشيا کا يہ وفد دعوت کے دفتر بھی آيا تھا۔ اس موقع پر ادارہ کی سرگرميوں اور حلال کاروبار کے بارے ميں تفصيلی گفتگو ہوئی۔ ملائشيا کی حلال سر ٹيفکيشن کمپنی ’’سيرونائي‘‘ (Serunai)کے وفد ميں انتن سوريا، محلہ عمر اور ڈاکٹر محمد جبال بن عبد الرحيم نے فرداً فرداً اپنے تجربات اور ديگر ممالک ميں حلال مصنوعات کے مطالبے کے بارے ميں بتا تے ہوئےکہا کہ اس وقت جاپان اور چين جيسے ممالک ميں بھی حلال اشيا کی مانگ کافی بڑھ گئی ہيں۔ درجنوں کمپنيوں نے حلال سرٹيفکيٹ کے ليے ہم سے رابطے قائم کيے ہيں۔ محترمہ انتن سوريہ نے حلال اشيا کی تفصيلا ت پيش کرتے ہوئے بتايا کہ حلال فوڈ سے مراد محض چکن اور بيف ہی نہيں بلکہ حلال فوڈ ميں سروسز يا خدمات، مشروبات، کاسميٹکس، فارماسيوٹيکلز، پرفیوم حتيٰ کہ چاول، پانی، پولٹری کی خوراک، چمڑے اور ٹيکسٹائل کی مصنوعات بھی شامل ہيں جن کی تياری کے عمل کے دوران استعمال کيے جانے والے تمام کيميکل اور Additives ميں اسلامی نقطہ نظر سے کوئی حرام عنصر شامل نہ ہو۔ حلال ايک اسلامی قدرہے جس کی رو سے ان مصنوعات کی فائنانسنگ، سورسنگ، پروسيسنگ، اسٹوريج اور مارکيٹنگ ميں کوئی حرام عنصر يا عمل شامل نہيں کيا گيا ہو، سرٹيفکيٹ ديتے ہوئے ’’سيرونائي‘‘ ان تمام مسائل پر خصوصی توجہ رکھتی ہے۔
انہوں نے بتا يا کہ دنيا ميں گوشت کے علاوہ کھانے پينے اور استعمال کی جانے والی اشيا ميں بہت سے حرام اجزاء استعمال کيے جاتے ہيں جس کی وجہ سے وہ اشياء حلال نہيں رہتيں، جن کا بحيثيت مسلمان ہم سب کے ليے جاننا نہايت ضروری ہے۔ افسوس کی بات يہ ہے کہ بھارت کے علاوہ دنيا ميں بسنے والے کروڑوں مسلمان لاعلمی کی وجہ سے مختلف شکلوں ميں حرام اشياء کو اپنی روزمرہ کی خوراک کا حصہ بنا چکے ہيں۔ جبکہ برطانيہ، امريکہ، فلپائن، زمبابوے، افريقہ، ہالينڈ اور برازيل وغيرہ ممالک کے مسلمان ايسے ادارے قائم کرنے ميں کامياب ہوچکے ہيں جو غذائی اشياء کے مشمولات پر گہری نگاہ ہی نہيں رکھتے بلکہ ممکنہ تحقيق کے بعد مسلمانوں کو اچھے برے کی آگاہی بھی فراہم کرتے ہيں۔ يہ حقيقت اب کسی سے پوشيدہ نہيں رہی ہے کہ يوروپ اور امريکہ کی تمام ملٹی نيشنل کمپنياں جو دنيا کے تمام بڑے بڑے ملکوں ميں اپنا کار وبار چلا رہی ہيں اور اپنی مصنوعات کے ذريعہ ہر جگہ مارکيٹ پر چھائی ہوئی دکھائی ديتی ہيں۔ يہ تمام کمپنياں يہوديوں کی ملکيت ہيں جو ايک منصوبہ بند سازش کے تحت دنيا بھر کے مسلمانوں کو کھلم کھلا سور يعنی خنزير کی چربی کھلا رہی ہيں۔ بسکٹ اور کيک سميت بيشتر بيکری اشياٹوتھ پيسٹ، شيونگ کريم، چيونگم، چاکليٹ، ٹافی اور کارن فليک، نيز ڈبہ بند غذائی اشيا ميں ڈبہ بند پھل اور پھلوں کے رس کے علاوہ ملٹی وٹامن کی گوليوں سميت بيشتر ايلوپيتھک دواؤں اور سرجری کے ٹانکوں ميں استعمال ہونے والے دھاگوں ميں بھی ديگر اجزاء کے علاوہ جو چيز لازماً شامل ہو تی ہے، وہ خنزير کی چربی ہے۔ حالاں کہ مسلمانوں کی بے چينی سے تجارتوں کے متاثر ہونے کے بعد اب لگ بھگ سبھی کمپنياں اپنی مصنوعات کے اجزاء (ingredients) کی درجہ بندی کرکے ان کے ناموں کے بجائے کچھ مخصوص کوڈ (Food Code) لکھنے شروع کرديے ہيں۔جيسے E100 اور اس طرح کے بہت سے کوڈس ہيں، جنہيں ديکھ کر يہ معلوم کيا جاسکتا ہے کہ جو چيز ہم اپنے استعمال ميں لارہے ہيں اس ميں کوئی حرام عنصر شامل ہے يا نہيں۔ اطمينان بخش بات يہ ہے کہ اس حوالے سے عالمی سطح پر مسلمانوں ميں کافی بيداری آئی ہے اور اب ان کی اچھی خاصی تعدادکسی بھی شئے کو خريد تے ہوئے يہ ضرور يقينی بناليتی ہے کہ يہ پاک اور حلال ہے۔ اس کی آسان صورت يہ ہے کہ ہمارا ’’لوگو’‘ جن مصنوعات پرچسپاں ہے، اسے ہماری ٹيم کے ماہرين نے جانچ پڑتال کے بعد ہی سرٹيفکيٹ جاری کيا ہے۔ اس طرح کی بيداری لانے سے ايک فائدہ يہ بھی ہوا ہے کہ حلال سرٹيفائڈ خصوصاً کھانے پينے والی اشياء کو مسلمانوں کے علاوہ غير مسلم بھی ترجيحی بنياد پر استعمال ميں لانے لگے ہيں۔
حلال غذا کی اہميت اور موجودہ دور ميں اس کی دستيابی ميں درپيش مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے ملائشيا کے معروف ادارہ ’’سيرونائي‘‘ حلال فوڈ کے موضوع پر ايک روزہ سرٹيفکيٹ کورس بھی چلاتا ہے۔ مذکورہ کورس ميں حلال و حرام کے اعتبار سے ان اجزاء ترکيبی، کلرز، فليورز، اور ديگر ايسی چيزوں کے متعلق شرعی رہنمائی فراہم کی جاتی جو کثرت سے کھانے پينے کی مختلف اشياء، کاسميٹکس اور دواؤں ميں استعمال ہوتے ہيں۔ نيز اس کورس کا ايک اہم مقصد حلال سرٹيفکيشن، حلال آڈٹ اور حلال کے اعتبار سے مختلف انڈسٹری کے اہم ترين کنٹرول پوائنٹ سے شرکاء کو آگاہ کرنا ہے۔ محترمہ محلہ عمر نے بتايا کہ حرام و حلال کے درميان ايک مشتبہ شئے بھی ہے۔ ايک متقی مسلمان حرام سے بچنے کے ليے مشتبہ اشياء سے بھی ہر ممکن طور پر پرہيز کرتا ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر ۵۲ ممالک کی مختلف مسلم تنظيموں کے ساتھ ہمارا اشتراک ہے جنہيں حلال سرٹيفکيٹ فراہم کرنے کی ہم نے اجازت دی ہوئی ہے۔ ہندوستان ميں سردست دو تنظيميں ايک شمالی ہند ميں جمعيۃ علماء حلال فاؤنڈيشن، جبکہ جنوبی ہند ميں حلال انڈيا پرائيويٹ لميٹيڈ چنئی کو مصنوعات کے ليے سرٹيفکيٹ دينے کی اجازت حاصل ہے۔ تاہم ہندوستان ميں ہم نے ’’اتوبہ‘‘ کے ساتھ تيسرا معاہدہ کيا ہے جس کی شراکت سے ہندوستان ميں حلال صنعت و تجارت کے شعبے ميں مزيد کام کرنے کا ارادہ ہے۔ اس سلسلے ميں اسی سال مارچ ميں ہمارا نمائندہ وفد پھر بھارت آئے گا اور اس کے بعد وسيع پيمانے پر حلال کاروبار کو فروغ دينے کے علاوہ حلال مصنوعات کے استعمال کی جانب عوام کو متوجہ کرنے کے ليے منظم کوشش کی جائے گی۔