ملک کے آئین کی رو سے مردم شماری کے ڈیٹا کو این آر سی کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا: پرشانت ریڈی

شہریوں کی آبادی کا قومی رجسٹر، جسے این پی آر کہتے ہیں، شہریوں کے قومی رجسٹر یعنی این آر سی سے مختلف ہوتا ہے۔ ملک کا آئین قومی آبادی کے ڈیٹا کو شہریوں کے رجسٹر کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ یہ بات مشہور انگریزی ویب سائٹ اسکرول ڈاٹ ان میں معروف وکیل پرشانت ریڈی نے کہی ہے۔

وکیل موصوف نے لکھا ہے ’’اگرچہ این پی آر کو شہریت کے قانون کے تحت وضع کیا گیا ہے تاہم اسے اس طرح بنایا گیا ہے کہ انتظامیہ کی مشینری کے تحت کام کرتا ہے ۔ سیٹیزن رجسٹریشن کا ڈائرکٹر ضابطہ 2(d)  کی رو سے مردم شماری کا ڈائرکٹر ہوتا ہے جسے مردم شماری قانون 1948 کے تحت مقرر کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ملک گیر سطح پر گھر گھر مردم شماری کی مشق کے اخراجات کے پیش نظر اس بات پر کوئی حیرت نہیں کہ حکومت نے مردم شماری اور این پی آر کو یکجا کردیا ہے تاہم شبہ ہے کہ ایسا کرنا قانون کی رو سے درست ہے یا نہیں۔

مردم شماری ایکٹ کی دفعہ 15 کے مطابق، کسی بھی مردم شماری کے عہدیدار کے ذریعہ جمع کردہ ڈیٹا کو عام کرنے پر پابندی ہے۔ کسی بھی دیوانی یا فوجداری کارروائی کے لیے مردم شماری قانون کے تحت جمع کردہ اعداد و شمار کے استعمال کیے جانے پر بھی ممانعت ہے۔ اس حد تک، مردم شماری قانون کے تحت جمع کردہ ڈیٹا خصوصی استحقاق کا حامل ہے اور اسے صرف حکمرانی کے مقاصد کی خاطر ہی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ قانونی کی متعلقہ دفعہ اس طرح ہے:

“15. Records of census not open to inspection of admissible in evidence. – No person shall have a right to inspect any book, register or record made by a census-officer in the discharge of his duty as such, or any schedule delivered under section 10 and notwithstanding anything to the contrary in the Indian Evidence Act, 1872 (1 of 1872), no entry in any such book, register, record or schedule shall be admissible as evidence in any civil proceeding whatsoever or in any criminal proceeding other than a prosecution under this Act or any other law for any act or omission which constitutes an offence under this Act.”

وکیل پرشانت ریڈی کے مطابق، ’’اس التزام کا ممکنہ مقصد مردم شماری قانون کے مسودہ نویوسوں کے نزدیک یہ تھا کہ شہری مردم شماری کی معلومات دینے میں اس صورت میں زیادہ کھلا پن محسوس کریں گے اگر انھیں قانونی ضمانت ملے کہ ان کا ڈیٹا حکومت کے ذریعے ان کے خلاد استعمال نہیں کیا جائے گا۔  یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قانون سازوں کو احساس ہوگا کہ مردم شماری جیسے بڑے ڈیٹا کی مشق دقت طلب ہوگی جس میں بعض اوقات نادرست ڈیٹا بھی راہ پاجائےگا۔ یا شاید یہ التزام اپنے وقت سے بہت آگے ڈیٹا کے تحفظ کا قانون وضع کرتا ہے۔‘‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ جواز خواہ کچھ بھی ہو، مردم شماری ایکٹ کی دفعہ 15 میں شامل قانونی ممانعت کا اطلاق ڈائریکٹر مردم شماری پر ہوتا ہے، خواہ وہ مردم شماری کے لیے ڈیٹا اکٹھا کررہا ہو یا این پی آرکے لیے۔ مردم شماری ایکٹ کوئی استثنا نہیں دیتا۔ این پی آر کے لیے اس التزام کا مطلب یہ ہے کہ مردم شماری ڈائرکٹر نے، جس میں شہریوں کے اندراج کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے اعداد و شمار جمع کیے ہیں، ان میں سے کسی کو بھی ہندوستانی شہریوں کے قومی رجسٹر تیار کرنے اور جاری کرنے کے لیے کسی کارروائی کی بنیاد کے طور پر شہری کو شناختی کارڈ جاری کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ این آر سی بنانے کے لئے این پی آر کی تصدیق کے عمل کو دیوانی کارروائی سمجھا جائے گا۔

حکومت شہریت کے ضوابط، 2003 میں ترمیم کرسکتی ہے، تاکہ مردم شماری سے این آر سی اور این پی آر کو مردم شماری سے علیحدہ کیا جاسکے، تاکہ ڈیٹا اکٹھا کرنے کی خاطر مردم شماری قانون کے تحت دیگر افسران کو شامل کیا جاسکے لیکن اس پر اخراجات آئیں گے۔ اس پر مطلب پارلیمنٹ میں گرانٹ کا نیا مطالبہ کرنا ہوگا جس پر پارلیمانی کمیٹیوں کو غور کرنا ہوگا اور بجٹ کے بل پر ووٹ کرنا ہوگا۔

مزید براں، اس نوعیت کی ترمیم سے تکنیکی طور پر پہلے سے جمع شدہ ڈیٹا کو تحفظ فراہم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بجائے حکومت مردم شماری قانون کی دفعہ 15 میں ترمیم کرنے کی کوشش کر سکتی ہے لیکن یہ شاید اور بھی مشکل ہوگا کیونکہ کسی بھی ترمیم کو راجیہ سبھا اور لوک سبھا دونوں ایوانوں سے منظور کروانا پڑے گا۔ حکومت منی بل کا راستہ نہیں لے سکتی۔

پرشانت ریڈی مزید کہتے ہیں: البتہ ان دنوں عدالتی نظرثانی کے معیار کو دیکھتے ہوئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ بات پوری طرح ممکن ہے کہ دفعہ 15 کو ہمارے جج صاحبان نظرانداز کردیں گے اور حکومت کو مردم شماری اور این پی آر دونوں کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرنے کا سلسلہ جاری رکھنے کی اجازت مل جائے گی۔