مسلمانوں کی ڈاڑھی سے ہی کیوں ہوتے ہیں خوف زدہ ؟
جمہوری ملک میں وزیراعظم رکھ سکتےہیںڈاڑھی توایک پولیس اہلکارکیوں نہیں؟
ذیشان آزاد، جھارکھنڈ
باغپت کے انتصار علی کی مدد کسی نے نہیں کی، کہاں گئے نام نہاد سیکولرزم کے علم بردار؟
بھارت میں مسلمانوں کی ڈاڑھی پر اٹھتے ہوئے سوال نئے نہیں ہیں چنانچہ آئے دن متعصب و تنگ نظر لوگوں کی جانب باریش مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ حال ہی میں اتر پردیش کے باغپت میں ڈاڑھی رکھنے پر داروغہ پر کارروائی ہوئی اور صرف ڈاڑھی رکھنے کی وجہ سے معطل کردیا گیا جس کی وجہ سے مجبور ہو کر انہوں نے اپنی داڑھی منڈوالی۔ ملک کی خدمت کرنے والے ایک سپاہی کو خالص سنت نبویﷺ یعنی داڑھی کو ملازمت کی وجہ سے قربان کرنا پڑا جبکہ ہمارے ملک میں ہر شخص کو اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے ملک کی خدمت کرنے کی آزادی ہے مگر انتصار علی کو اس جمہوری حق سے محروم کر دیا گیا چنانچہ وہ ڈاڑھی کے بغیر ایس پی کے سامنے پیش ہوئے جس کے بعد ایس پی ابھیشک نے داروغہ انتصار علی کو دوبارہ نوکری پر بحال کردیا۔ انتصار علی کی معطلی پر جواب دیتے ہوئے ایس پی ابھشیک سنگھ نے کہا کہ پولیس مینول کے مطابق پولیس اہلکار ڈاڑھی نہیں رکھ سکتا اور اگر کوئی رکھنا چاہتا ہے تو اسے انتظامیہ سے اجازت لینا ہوگا۔ ان کے مطابق داروغہ انتصار علی نے اجازت لیے بغیر ہی داڑھی رکھ لی تھی جس کی شکایت ملنے پر انہیں نوٹس جاری کی گئی تھی لیکن انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا اس لیے ضابطہ شکنی کرنے پر ان کے خلاف کارروائی کی گئی تھی۔
لیکن یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر انہوں نے اجازت نہیں لی تھی تو پچیس سال سے وہ داڑھی رکھ کر ملک کی خدمت کیسے کر رہے تھے جب کہ انتصار علی نے 2019 میں ڈاڑھی رکھنے کی اجازت مانگی تھی؟ جب انہیں 25 سالوں سے اجازت مل رہی تھی تو اب کیا آفت آگئی تھی کہ انہیں معطل کیا گیا یا انہیں ڈاڑھی رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ یو پی پولیس مینوول میں دس اکتوبر 1985 کو ایک سرکیولر جوڑا گیا تھا جس کے مطابق مسلم ملازم ایس پی سے اجازت لے کر ڈاڑھی رکھ سکتا ہے۔ حالانکہ یو پی پولیس کے 1987 کے سرکیولر میں مزید کہا گیا ہے کہ سوائے سکھوں کے پولیس والوں کے لیے مذہبی شناخت رکھنے کی اجازت نہیں۔
دعوت نیوز سے ایک شخص نے نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ داروغہ انتصار علی پر معاشی، سماجی اور انتظامیہ کا اس قدر دباؤ تھا کہ مجبوراً اسے اپنی ڈاڑھی کٹوانی پڑی۔ داروغہ انتصار علی کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہیں اور اعلیٰ تعلیم کے لیے گھر سے باہر جامعہ اسلامیہ اور علی گڑھ جیسی مشہور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں۔ خود انتصار علی باغپت کی اپنی جس رہائش گاہ میں قیام پذیر ہیں وہ قرض پر لی گئی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر انتصار علی کی مالی اور اخلاقی مدد کی جاتی تو وہ قانونی چارہ جوئی کے لیے اپنی لڑائی کو جاری رکھتے لیکن نام نہاد سیکولر لیڈر اور آزاد خیال افراد نے اس ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھائی اور انتصار علی کی مدد
کے لیے آگے نہیں آئے جس کی وجہ سے ‘مرتا کیا نہ کرتا’ انہوں نے مجبوراً نوکری کو ترجیح دی۔
وه شخص سورما ہے مگر باپ بهی تو ہے
روٹی خرید لایا ہے تلوار بیچ کر
راقم الحروف نے پہلے ہی ذکر کیا ہے کہ ایسے معاملات نئے نہیں ہیں 2019 میں بھی راجستھان کے الور ضلع میں محکمہ پولیس نے مسلم اہلکاروں سے کہا تھا کہ انہیں ڈاڑھی رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ الور کے ایس پی پریر دیشمکھ نے ایک حکم جاری کیا اور 9 پولیس اہلکاروں کو ملی ہوئی ڈاڑھی رکھنے کی اجازت کو منسوخ کر دیا تھا۔ ان 9 مسلم پولیس اہلکاروں میں 7 کانسٹیبل، ایک ایس آئی اور ایک ہیڈ کانسٹیبل شامل تھے۔
2016 میں مسلم فوجی انصاری آفتاب احمد کی ڈاڑھی کے مسئلہ پر اپیل سپریم کورٹ سے خارج ہوئی۔ معاملہ سال 2001 کا تھا اس وقت آفتاب احمد نے اپنے کمانڈنگ افسر یعنی سی او سے ڈاڑھی بڑھانے کی اجازت مانگی تھی۔ آفتاب احمد نے دعوی کیا تھا کہ ان کو اس کا حق حاصل ہے۔ شروع میں تو ان کو اجازت دے دی گئی لیکن بعد میں ایئر فورس کے حکام نے یہ کہتے ہوئے انہیں دی گئی اجازت واپس لے لی کہ قوانین کے مطابق صرف سکھ فوجیوں کو ہی داڑھی بڑھانے کی اجازت ہے۔ اس کے بعد آفتاب احمد نے اس کے خلاف کرناٹک ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی مگر ان کو یہاں مایوسی ہاتھ لگی جس کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی جہاں سے بھی انہیں ایک مرتبہ پھر نامراد لوٹنا پڑا ہے۔اس دوران جب آفتاب احمد نے ڈاڑھی نہیں کٹوائی تو ان کا تبادلہ پونے کے کمانڈ اسپتال میں کر دیا گیا۔ وہاں بھی ایئر فورس حکام نے آفتاب کو ڈاڑھی کٹوانے کے لیے کہا تھا لیکن انہوں نے صاف طور پر انکار کر دیا۔ اس کے بعد آفتاب احمد کو وجہ بتاو نوٹس جاری کی گئی اور پھر انہیں سروس سے ہٹا دیا گیا۔29 جولائی 2017 کی بات ہے جب ہندوستانی فوج کے آرمس فورس شعبہ میں گزشتہ کئی سالوں سے ملک کی خدمت انجام دینے والے ایک مسلم فوجی جوان کو ایک بڑی راحت مل گئی تھی جب جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن پر سماعت کرتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ نے ٹریبونل کے اس فیصلہ پر فوری روک لگاتے ہوئے اسٹے جاری کر دیا تھا۔ دراصل آندھرا پردیش کے ضلع گنٹور کے خواجہ معین الدین پاشا نامی فوجی نے 2011 میں کمانڈنگ آفیسر سے اجازت طلب کر کے ڈاڑھی رکھنا شروع کی تھی لیکن 2014 میں اس کی کولکاتا پوسٹنگ کے وقت اچانک اس کے کمانڈنگ آفیسر نے اس سے داڑھی منڈوانے کا مطالبہ شروع کردیا اور جب مسلم فوجی نے داڑھی نہیں منڈوائی تو اس کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے سمری کورٹ مارشل شروع کر دیا اور دلی کی آرمس فورس ٹریبونل نے بھی فوجی کے خلاف کورٹ مارشل کی اجازت دے دی تھی بعد میں دلی ہائی کورٹ میں فیصلے پر روک لگا دی تھی۔
ملک میں گاہے بگاہے ڈاڑھی کے حوالے سے مسلم طلباء کو بھی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے 2014 میں سپریم کورٹ نے ایک سولہ سالہ مسلم طالب علم سلیم احمد کی درخواست جس میں اس نے اسکول میں ڈاڑھی رکھنے کی اجازت چاہی تھی مسترد کر دیا تھا اس وقت کے جج مارکنڈے کٹجو نے اس معاملے پر فیصلہ سناتے وقت یہ ریمارکس دیے: ’ہمیں حقوق اور ذاتی عقیدے میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم سکیولرازم کو حد سے زیادہ نہیں کھینچ سکتے، ہمیں اپنے ملک میں طالبان نہیں چاہیئں اور کل کوئی طالبہ آکر یہ کہہ سکتی ہے کہ وہ برقع پہننا چاہتی ہیں تو آپ کیا کریں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں جسٹس کاٹجو نے اپنے فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر کسی کے احساسات کو تکلیف پہنچی ہے تو وہ اس کے لیے معافی کے خواستگار ہیں۔ اس موقع پر سپریم کورٹ کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن سمیت کئی لوگوں نے جسٹس کاٹجو کی ستائش کی تھی۔ بعد میں عدالت عظمیٰ نے اس کے حق میں فیصلہ صادر کرتے ہوئے مدھیہ پردیش کے نرملا کانوینٹ اسکول کو یہ حکم دیا کہ وہ 10ویں جماعت کے طالب علم محمد سلیم کو اسکول میں واپس لے۔کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوا کہ ڈاڑھی رکھنے کی وجہ سے غیر مسلم بھی پولیس اہلکاروں کے نشانے پر آ گئے ہیں۔ چنانچہ 23 مارچ 2020 کو جبکہ لاک ڈاؤن چل رہا تھا مدھیہ پردیش پولیس کے کچھ اہلکاروں نے ایک غیر مسلم وکیل دیپک بندیلے کی بری طرح پٹائی کی تھی۔ وکیل نے پولیس اہلکاروں کے خلاف آواز بلند کی اور پولیس کے متعصبانہ رویے کو لوگوں کے سامنے لایا۔انتصار علی کے معاملے میں دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک شخص جو 25 سالوں سے اپنے دینی شعار پر عمل کر رہا تھا آخر کیوں اسے ترک کرنے پر مجبور ہونا پڑا؟ کیا اس حوالے سے وکلاء اور دانشوروں کو آگے آنے کی ضرورت نہیں ہے؟ کیوں ملی وسماجی تنظیموں نےاس معاملے کا نوٹس نہیں لیا؟ کیا مسلم مسائل کو اٹھانے والے نام نہاد لیڈروں کی نظر سے یہ معاملہ نہیں گزرا ہوگا؟۔
اسلام میں ڈاڑھی کی اہمیت ہے۔ خود حضور اکرم ﷺ نے داڑھی رکھنے کا اہتمام فرمایا اور امت کو بھی داڑھی رکھنے کا حکم دیا ہے چنانچہ اکثر مسلمان اپنے نبی کی اتباع میں ڈاڑھی بڑے ذوق و شوق سے رکھتے ہیں اور ہمارے ملک میں ان کا آئینی حق بھی ہے۔
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم تا 7 نومبر، 2020