’’مسلمانوں کی طرف داری‘‘ مفروضہ یاحقیقت؟

مایوسی نہیں سیاسی و سماجی بصیرت کی ضرورت ہے

محمد انور حسین، ناندیڑ، مہاراشٹر

 

ہمارے ملک میں سیاسی بیانیہ ہمیشہ الیکشن کے اطراف گھومتا رہا ہے اور الیکشن کا بیانیہ ہمیشہ اقلیتی ووٹس اور خاص طور پر مسلم ووٹوں کے اطراف گھومتا ہے۔ مسلمانوں کی زبوں حالی اور ان کے ساتھ پیش آنے والے ناخوش گوار حالات الیکشن کے موضوعات ہوتے ہیں ۔موجودہ الیکشن میں بھی آسام اور بنگال میں مسلمانوں کے ووٹ ایک اہم موضوع بنا ہوا ہے ۔سیاسی پارٹیاں مسلم رہنماوں اور مسلم ووٹرس کو ایک خاص رنگ میں دیکھتی ہیں اور پیش بھی کرتی ہیں ۔مسلم لیڈروں کے بارے میں ہمیشہ یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ نہیں معلوم وہ کب کونسا رخ اختیار کریں گے؟ کیا وہ روایتاً قوم پرستی کا راگ الاپیں گے یا ملک کی ترقی اور سیکولرازم کی بات کریں گے؟ اس طرح ملک میں سیکولرازم کی برقراری کا بوجھ بھی مسلم ووٹرس کے سر پر ہی رکھ دیا جاتا ہے۔
موجودہ دور میں اس طرح کے بیانیے کے نتیجہ میں یہ خیال عام کر دیا گیا ہے کہ مسلم ووٹرس اور مسلم رہنما ملک کی سالمیت یا دوسرے معنوں میں ہندو راشٹر کے لیے خطرہ ہیں۔ مسلمانوں کے بارے میں ایک مخصوص طر ز فکر دراصل جارحانہ سیاسی فکر کا نتیجہ ہے ۔مسلمانوں کے بارے میں ’تخریب کار‘ کا نعرہ دے کر ملک کی سیاسی پارٹیاں ہندو راشٹر کے نام پر غیر اخلاقی برتری حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔اس کا فائدہ سیاسی پارٹیوں کو اس طرح ہوتا ہے کہ عوام کے بنیادی مسائل نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ عملی طور پر اور علمی سطح پر ملک کے اہم مسائل سے کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی ۔خاص طور پر مسلمانوں کے مسائل کے حل کی کوئی بات ہی نہیں کرتا۔ الیکشن دوسری قوموں کی طرح مسلمانوں کے لیے بھی اپنے مطالبات پورے کروانے کا ایک موقع ہوتا ہے لیکن ان کے سماجی و سیاسی مفادات کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔
مسلمانوں کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ وہ سماج کے بنیادی دھارے سے کٹے ہوئے ہوتے ہیں۔الیکشن ایک بہترین موقع ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے بنیادی سوالات کو زیر غور لایا جائے اور ان کو سماج کے دھارے سے جوڑنے کی کوشش کی جائے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ ستر سالوں میں کانگریس نے بلکہ بہت سی علاقائی پارٹیوں نے بھی مسلمانوں کے ساتھ کبھی اس طرح کا معاملہ نہیں کیا۔ پچھلے کچھ الیکشنس سے یہ بات عام کی جارہی ہے کہ اب سیاست میں بنے رہنے کے لیے مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے۔ کچھ مخصوص علاقوں میں کوئی سیاسی پارٹی مسلمانوں کے بارے میں ڈرتے ڈرتے ہی کوئی بات کرتی ہے تو اسے ملک دشمنی کے عنوان سے بدنام کیا جانے لگتا ہے۔مسلمانوں کا کوئی مذہبی رہنما الیکشن کے میدان میں حصہ لیتا ہے تو اسے انتہا پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے جبکہ دوسرے مذاہب کے مذہبی رہنماوں کی سیاست میں جارحانہ شمولیت کو بھی ملک کے لیے بہتر خیال کیا جاتا ہے ۔اب صورتحال یہ ہے کہ ملک کی تمام ہی سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کو اچھوت سمجھ رہی ہیں ۔ہر سیاسی پارٹی اس بات کو اکثریت کے سامنے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ بھی کسی نہ کسی طرح ایک مضبوط ہندو راشٹر ہی کا حصہ ہے۔
مسلمانوں کے سامنے جو صورتحال ہے وہ انتہائی غیر واضح ہے ۔مسلمان بی جے پی کو ووٹ دینے کو تیار نہیں ہے اور اس کو بھی ان کی ضرورت نہیں ہے ۔اس کے بعد کانگریس، لیفٹ کی پارٹیاں اور کچھ علاقائی پارٹیاں رہ جاتی ہیں ۔لیکن المیہ یہ ہے کہ ان پارٹیوں کے سابقہ رویے اور تجربے انتہائی نا خوش گوار ہیں۔ مسلمانوں کے ووٹ لے کر اقتدار میں آنے کے باوجود بھی انہوں نے مسلمانوں کی بھلائی کے لیے کوئی کام نہیں کیے مسلمانوں میں غربت، بے روزگاری اور جہالت جیسی تھی ویسی رہی۔ اس الیکشن میں مسلمان ایک چو راہے پر کھڑے ہیں وہ ایک طرف بی جے پی کو ووٹ نہیں دے سکتے دوسری طرف کانگریس اور لیفٹ پارٹیاں ہیں جو بے وفا محبوب کی مصداق بھروسے کے قابل نہیں بچی ہیں ۔تیسرا مسئلہ مسلم قیادت والی پارٹیوں کی شکل میں کھڑا ہوا ہے۔ بشمول ایم آئی ایم اور دیگر مسلم پارٹیوں کے امیدواروں کو ووٹ دینے سے ووٹ بٹ جانے اور بی جے پی کے جیت جانے کی توقع بڑھ جاتی ہے ۔چوتھی طرف الیکشن سے کنارہ کشی کا ایک راستہ ہے جو مسلمان اختیار نہیں کر سکتا ۔اس بیچارے مسلمان پر فاشزم کے مقابلے میں سیکولرازم کو باقی رکھنے کا بوجھ بھی ہے۔ پریشان ہے کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے؟
"ایک طرف اس کا گھر ایک طرف میکدہ”
ملک کا میڈیا ہر اس بیان اور عمل کو خوشامد (appeasment) کا نام دے رہا ہے جو مسلمانوں کے حق میں یا مفاد میں بولا جاتا ہے۔ ملک کی تقریباً تمام ہی پارٹیوں کی یہ ایک سیاسی مجبوری ہو چکی ہے کہ وہ اس "مسلم طرف داری” کے الزام سے اپنے آپ کو بچائے رکھے۔ گویا یہ ایک گالی ہوگئی ہے ۔اس بیانیہ کو بڑھاوا ہمارا نام نہاد میڈیا بھی دے رہا ہے۔
الیکشن دراصل سماج کی بے چینی اور توقعات کے اظہار کا موقع ہوتا ہے ۔سماج کے مختلف طبقات آپس میں مل کر سماج کی ضرورتوں کی تکمیل کا موقع تلاش کرتے ہیں۔ سماج اپنی توقعات اور مطالبات کو سیاسی پارٹیوں کے سامنے رکھے اور وعدوں اور توقعات کا احتساب کرے ۔لیکن یہ سب اب کتابی باتیں رہ گئی ہیں ۔سیاست کی اس صورتحال کے پس پردہ ملک کا سرمایہ دارانہ نظام بھی ہے جو مذہبی جنونیت کی افیم عوام کو کھلا کر اپنی تجوریاں بھرنے کی فکر کر رہا ہے۔
مسلمانوں کے لیے آگے کی راہ :
الیکشن میں جذباتی نعرے لگانے کے بعد بھی بی جے پی مخالف رجحانات کو دیکھ دیکھ کر خوش ہونے کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہوتا ہے۔ لیکن الیکشن کا یہ دورانیہ مسلمانوں کو ایک غبارے کی طرح پھولنے میں مدد کرتا ہے اور نتائج آتے ہی یہ غبارہ بری طرح پھٹ جاتا ہے اور مسلمان مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے ۔نتیجہ فسادات میں جیل جانے کے لیے تیار رہنا ہے۔ وہ مساجد، درگاہوں اور اوقاف کے جھگڑوں میں الجھ کر رہ جاتا ہے، گوشت پر پابندی سے پریشان ہو جاتا ہے ۔گوشت کی بات تو ایسے کی جا رہی ہے جیسے مسلمان گوشت خوری کے علاوہ کچھ کرتا ہی نہیں ۔اگلے الکشن تک پھر وہی ’تم ڈراتے رہو ہم ڈرتے رہیں‘ کا کھیل کھیلا جاتا رہے گا.
کریں تو کیا کریں؟
ملک میں مسلمانوں کو سیاسی طور پر مضبوط ہونا ہے تو پہلے انہیں سماجی طور پر مضبوط ہونا پڑے گا ۔سماجی مضبوطی کا انحصار تعلیمی، معاشی اور اخلاقی ترقی پر ہے ۔یہ بات مسلمہ ہے کہ جب تک کوئی قوم دوسروں کے لیے نافع نہیں بنتی اس کی قدر ممکن نہیں ہے ۔ہر الیکشن کے بعد جو مایوسی پیدا ہوتی ہے وہ ہم کو مزید کمزور کر جاتی ہے ۔ان دنوں جاری انتخابات میں بھی آثار مایوسی کے ہی نظر آ رہے ہیں لیکن مایوسی کی راہیں بھی کہیں نہ کہیں جاکر مسدود ہو جاتی ہیں اور وہاں سے امید کی کرنیں ابھرتی ہیں۔ مثبت سوچ، مسلسل جدوجہد، اخلاقی برتری، علم و حکمت اور سیاسی بصیرت کے ذریعے حالات بدل سکتے ہیں ۔۔
’ظلمتوں میں روشنی کی جستجو کرتے رہو‘
***

مسلمانوں کا کوئی مذہبی رہنما الیکشن کے میدان میں حصہ لیتا ہے تو اسے انتہا پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے جبکہ دوسرے مذاہب کے مذہبی رہنماوں کی سیاست میں جارحانہ شمولیت کو بھی ملک کے لیے بہتر خیال کیا جاتا
ہے ۔اب صورتحال یہ ہے کہ ملک کی تمام ہی سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کو اچھوت سمجھ رہی ہیں

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 اپریل 2021