عجب قیامت کا حادثہ ہے کہ اشک ہے آستیں نہیں ہے

مولانا سید ولی رحمانی ؒ:مسلمانان ہند بے باک قائد و رہنما سے محروم

(دعوت نیوز ڈیسک)

 

پرسنل لا بورڈ، خانقاہ رحمانی مونگیر ، اور مارات شریعہ سمیت کئی ملی اداروں نے اپنا سرپرست کھودیا۔ با اثرملی شخصیات کا اظہار تعزیت
(دعوت نیوز ڈیسک)
ملت اسلامیہ ہند کے عظیم رہنما اور بے باک قائد مولانا سید ولی رحمانی کے انتقال سے ملت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے، چونکہ وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری کے عہدے پر فائز تھے اس لیے عملی طور پر وہ بورڈ کے لیے بہت سر گرم رہتے تھے۔ مولانا سید ولی رحمانی کے انتقال پر تعزیتی پیغام پیش کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر اور ناظم ندوۃ العلماء مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی نے ان خیالات کا اظہار کیا۔ مولانا رابع حسنی ندوی نے کہا کہ ملک میں مسلمانوں کے مسائل پر وہ بہت فکر مند تھے اور موجودہ حالات میں ملی مسائل کے حل میں ان سے ملت کو تقویت مل رہی تھی۔ مولانا رابع حسنی ندوی نے مولانا ولی رحمانی کی خدمات کی تحسین کرتے ہوئے ان کی بلندی درجات کی دعا کی۔ دوسری طرف ہندوستان کے مسلمانوں کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم جماعت اسلامی ہند کے سید سعادت اللہ حسینی نے مولانا ولی رحمانی کی رحلت کو ملت اسلامیہ کا عظیم نقصان قرار دیتے ہوئے کہا کہ مولانا مرحوم نے مشکل اور چیلنجنگ حالات میں جس جرأت و حوصلے کے ساتھ امت کے مختلف مسائل کو حل کرنے کی کوششیں کیں اس کے لیے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ امیر جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے انہوں نے شریعت کے تحفظ کی خاطر متعدد مہمات چلائیں اور سرکاری چیرہ دستیوں اور میڈیا کے گمراہ کن پروپگنڈے کا بڑے حوصلے کے ساتھ مقابلہ کیا۔ جماعت اسلامی ہند کے شعبہ میڈیا کی طرف سے جاری کیے گیے پریس نوٹ کے مطابق امیر جماعت نے کہا کہ مرحوم نے جس طرح مسلم پرسنل لا بورڈ میں خواتین کو آگے بڑھایا اور شریعت کے تحفظ کی خاطر خواتین کے اندر تحریک پیدا کی وہ بھی ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔
کل ہند مجلس مشاورت کے صدر حامد نوید نے کہا کہ مولانا رحمانی کے انتقال سے ملت میں ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے کیوں کہ وہ ملک و ملت کے مسائل پر وسیع نظر رکھتے تھے اور جرأت مندانہ انداز میں اپنا موقف رکھنے کے حامل رہنما تھے۔ مختلف ملی و دینی تنظیموں اور جماعتوں کی طرف سے ان کے انتقال پر تعزیتی خطوط اور پیغامات موصول ہوئے ہیں جن میں ان کے انتقال کو ملت کا سب سے بڑا نقصان قرار دیا جا رہا ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ اللہ نے نہ صرف انہیں قائدانہ صلاحیتوں سے نوازا تھا بلکہ جرات و ہمت بھی علطا فرمائی تھی۔ ملک کے انتہائی مشکل حالات میں وہ ملت کے سفینے کی ناخدائی کر رہے تھے ان کا دور بہت ہی شورش اور آزمائش کا دور تھا۔
ایسے ہی ایک مراسلے میں جماعت اسلامی بہار کے امیر حلقہ مولانا رضوان احمد نے کہا کہ ہندوستانی مسلمان کے مسائل کے حل کے لیے انہوں نے مسلم پرسنل لا بورڈ کے پلیٹ فارم سے مضبوط آواز بلند کی تھی اور امارت شرعیہ کے بینر تلے نارتھ انڈیا سمیت بہار کے دینی ملی تعلیمی اور سماجی مسائل کو حل کرنے اور کروانے کی غیر معمولی جدوجہد کی تھی۔ امیر شریعت ملک اور ملت کے مسائل کے تئیں غیر معمولی حساس تھے۔ وہ ملی اتحاد اور مسلم پرسنل لا کے ایشوز نہایت ہی بصیرت اور حکمت کے ساتھ اٹھاتے رہے اور متعلقہ مسائل کو حل کرتے رہے۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے امیر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے کہا کہ مولانی ولی رحمانی ملت کی مضبوط آواز سمجھے جاتے تھے۔ ان کی وفات سے ملت ایک ذہین وبیدار مغز شخصیت سے محروم ہو گئی ہے۔ ان کی موت کو ملک وملت کا بڑا خسارہ قرار دیتے ہوئے گہرے رنج وافسوس کااظہار کیا۔ پر آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد منظور عالم نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا مسائل کو حل کرنا اور کسی بھی حال میں پست ہمتی کا مظاہرہ نہ کرنا ان کا امتیازی وصف تھا۔ ہمت اور بے باکی، دینی غیرت وحمیت اور ملت کے لیے مخلصانہ جدوجہد ان کی زندگی کے روشن عناوین ہیں۔ اپنی متنوع خدمات کی بنا پر انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ ایک طرف معتبر عالم دین تھے تو دوسری طرف انتظام وانصرام کی بہترین صلاحیت رکھتے تھے۔
صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے اپنے گہرے رنج ودکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اعتدال، توازن، توسع اور کشادہ نظری مولانا مرحوم کا امتیازی وصف تھا۔ وہ ملت کے ہر طبقہ میں مقبول اور ہر دلعزیز تھے۔ ایسی شخصیت کا داغ مفارقت دے جانا بلاشبہ ایک عظیم سانحہ ہے۔
محمد برہان الدین قاسمی نے انہیں ایک جری قائد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے انتقال سے ملت کو بڑا نقصان ہوا ہے۔ ان جیسی دینی و ملی حمیت ان کے بعد بہت دور دور تک نظر نہیں آتی۔ مرحوم کی خدمات متعدد میدانوں پر محیط ہیں۔ مولانا ایک ماہر تعلیم کی حیثیت سے بھی معروف تھے۔ تعلیمی محاذ پر رحمانی فاونڈیشن اور رحمانی ۳۰ جیسے پروگراموں کے ذریعہ ملت کے ہونہار فرزندوں کو ملک کے باوقار تعلیمی اداروں تک پہنچایا اور اعلیٰ پروفیشنل تعلیم کی راہیں ہموار کیں۔ رحمانی ۳۰ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں عصری تعلیم کے متعدد شعبوں میں معیاری اعلیٰ تعلیم و قومی مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے طلبہ کو تیار کیا جاتا ہے۔ اس ادارے سے ہر سال NEET اور JEE میں سو سے زائد طلبہ منتخب ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ خانقاہ رحمانیہ کے تحت اصلاح معاشرہ اور تزکیہ و تربیت، امارت شرعیہ کے تحت کئی ریاستوں میں ملت اسلامیہ کی رہنمائی، بہار میں مسلمانوں کی سیاسی قیادت و نمائندگی، مدارس کے تحفظ کے لیے ان کی کوششیں اور اردو زبان کی ترقی کے لیے ان کی جدوجہد یہ سب مرحوم کی گراں قدر کوششوں کے میدان رہے اور ان سب محاذوں پر انہوں نے اپنی مسلسل کوششوں سے اہم کامیابیاں بھی حاصل کیں۔خانقاہ رحمانی مونگیر کو انہوں نے تربیت و تزکیہ کے ساتھ ساتھ ایک تحریک کا رخ دیا تھا۔ مولانا ولی رحمانی تحریر وخطابت میں اپنا جداگانہ اسلوب رکھتے تھے اور ملی مسائل میں جرأت صاف گوئی و بے باکی کے لیے بھی مشہو تھے۔
مولانا کے انتقال پر ان کے چاہنے والوں نے سوشل میڈیا پر بھی اپنے تاثرات پوسٹ کیے ۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’ان کا وجود تو پورے ملک کے لیے ایک نعمت تھا لیکن صوبہ بہار کی تو آپ تنہا دولت تھے‘۔ ایک اور صارف نے لکھا کہ ’ایک ایسے وقت اللہ نے آپ کو ہمارے درمیان سے اٹھایا جبکہ آپ کی قیادت کی ضرورت پہلے سے زیادہ محسوس ہوتی تھی‘۔
مولانا سید ولی رحمانی نے ۱۹۷۴ سے ۱۹۹۶ تک بہار قانون ساز کونسل کے رکن کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی ہیں۔ وہ اپنے والد ماجد مولانا منت اللہ رحمانیؒ کی وفات ۱۹۹۱ کے بعد سے خانقاہ رحمانی مونگیر کے موجودہ سجادہ نشین اور جامعہ رحمانی مونگیر کے سرپرست ہیں۔ وہ اس وقت آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔بابری مسجد کے مقدمے میں تمام ملزمین کو بری کیے جانے پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ یہ ایک بے بنیاد فیصلہ ہے جس میں شہادتوں کو نظر انداز کر کے قانون کا بھی پاس و لحاظ نہیں رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سی اے اے این آر سی، تین طلاق، بابری مسجد اور دیگر قوانین کے خلاف بھی مولانا ولی رحمانی نے حکومتوں کی سخت سر زنش کی تھی۔ مولانا ولی رحمانی نے بابری مسجد قضیہ میں بے باکی کے ساتھ قوم و ملت کی پیروی کی اور عائلی معاملات اور تین طلاق کے خلاف بھی ایک تحریک شروع کی تھی۔ انہوں نے اصلاح معاشرہ تحریک کو تقویت بخشی تھی اور شادی بیاہ میں جہیز کی لعنت کے خلاف جہیز لینے والوں اور طلاق دینے والوں کے اجتماعی بائیکاٹ کا بھی فیصلہ کیا تھا۔ ساتھ ہی برائیوں کے خلاف اصلاح معاشرہ تحریک شروع کی تھی۔
واضح رہے کہ مولانا ولی رحمانی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سیکریٹری، سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر، بہار، اڑیسہ اور جھارکھنڈ امارت شریعہ کے امیر تھے۔ وہ گزشتہ کئی دنوں سے علیل تھے اور پٹنہ کے ایک نجی اسپتال میں زیر علاج تھے۔ آج انہیں نازک حالت میں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تھا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ ان کی عمر ۷۸ سال تھی۔ اطلاعات کے مطابق ان کی کورونا کی رپورٹ بھی مثبت آئی تھی۔ ادارہ ہفت روزہ دعوت مرحوم کے تمام متعلقین سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے مولانا کی بلندی درجات کے لیے دعا گو ہے۔
***

شخصیت کا عکس
نام: محمد ولی رحمانی
والد کا نام: منت اللہ رحمانی، بانی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
دادا کا نام: محمد علی مونگیری بانی ندوۃ العلماء لکھنو
پیدائش: ۵ جون ۱۹۴۳ بمقام خانقاہ رحمانی مونگیر
تعلیم: رحمانیہ اردو اسکول خانقاہ رحمانی، جامعہ رحمانی مونگیر، ندوۃ العلما، لکھنو، دارالعلوم دیوبند اور تلکا مانجھی یونیورسٹی بھاگلپور، بہار
اہم خدمات: ۱۹۶۵ بعد فراغت تعلیم ہفتہ وار نقیب پھلواری شریف پٹنہ کے شریک ایڈیٹر رہے۔
جامعہ رحمانی مونگیر میں ۱۹۶۶ سے ۱۹۷۷ تک درس و تدریس سے وابستہ رہے اور چار سال تک ناظم تعلیمات رہے۔
والد بزرگوار کے انتقال بعد ۱۹۹۱ سے جامعہ رحمانی کے سرپرست اور خانقاہ رحمانی کے سجادہ نشین بنے۔
۱۹۹۱ تا جون ۲۰۱۵ تک مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری رہے۔
جون ۲۰۱۵ میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے کار گزار جنرل سکریٹری بنائے گئے۔
اپریل ۲۰۱۶ میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری بنائے گئے۔
وفات ۳ اپریل ۲۰۲۱ بروز سنچیر، پٹنہ۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 اپریل 2021