مساوات: سیاست ومعاشرت کی ایک اہم اسلامی قدر
ذوالقرنین حیدر
مساوات موجودہ انسانی دنیا کا ایک ایسا تصور ہے جو تضاد کے عجیب رویوں سے دوچار ہے۔ ایک طرف اکثریت کے نزدیک یہ ایک مقدس اور ضروری قدر ہے تو وہیں دوسری طرف مساوات کا جتنا بحران موجودہ وقت میں دیکھا جارہا ہے وہ پہلے شاید کبھی نہیں دیکھا گیا۔ علم سماجیات کے ماہرین کا ماننا ہے کہ مساوات کا مسئلہ پہلے سے کہیں زیادہ سنگین ہوچکا ہے اور خاص کر قریب کی دہائیوں میں ایک بڑا مسئلہ یہ سامنے آیا ہے کہ اب عدم مساوات صرف غریب یا تیسری دنیا کا مسئلہ نہ ہوکے جیسا کہ باور کرایا جاتا تھا امیر ترین اور ترقی یافتہ ترین ممالک کا بھی اتنا ہی بڑا مسئلہ بن کر سامنے آرہا ہے۔ اس تضاد کی دو وجہیں اہم ہیں۔ ایک تو اس تصور میں موجود کنفیوژن ہے اور دوسریوجہ اس کے تعلق سےافراد اور حکومتوں کا بے توجہی اور غفلت کا رویہ ہے۔ ہم پہلی وجہ کے حوالے سے کچھ گفتگو کریں گے۔پہلی وجہ پر فوکس کرنا اس لیے بھی بہت اہم اور ضروری ہے کیونکہ مساوات ایکاصطلاح اور رائج مفہوم کے اعتبار سے ایک جدید تصور ہے جس کی جڑیں اکثر ماہرین انقلابِ فرانس میں قرار دیتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مساوات یا اس کا کوئی مترادف لفظ نہ اسلامی نصوص میں ملتا ہے سوائے چند ایک روایات کے جن میں قریب قریب کے لفظ کے ساتھ مساوات کی گفتگو ملتی ہے اور اس کی ایک مثال یہ روایت ہےالناس سواسية كأسنان المشط. (البتہ یہ حدیث ماہرین کے نزدیک ضعیف ترین روایات میں شمار ہوتی ہے) اور نہ ہی موجودہ معنی میں قدیم فقہی لٹریچر میں اس کا صاف تذکرہ ملتا ہے۔ البتہ کیا اپنے معنی ومفہوم اور جوہر کے لحاظ سے مساوات اسلام میں قابل قبول ہے یا نہیں یہ ایک اہم سوال ہے۔اس گفتگو میں ہم کچھ سوالوں کے جواب حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور ساتھ ہی بہت سے سوالات اور نکات مزید غور وفکرکے لیےہمارے ساتھ باقی بھی رہیں گے۔
مساوات اور اسلام کے باہمی تعلق پر گفتگو کرنے سے پہلے مساوات سے متعلق جدید لٹریچر کا ایک مختصر جائزہ پیش کرنا مناسب اور مفید ہوگا۔
سماجی وانسانی علوم کے ہر شعبہ اور تخصص نے مساوات پر غیر معمولی توجہ دی ہے۔ شعبہ اور تخصص کے لحاظ سے مساوات کا مفہوم اور اس کا دائرہ عمل کافی حد تک مختلف بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ علم معاشیات کے ماہرین کا پورا فوکس معاشی مساوات یا مادی اشیاء کی تقسیم میں مساوات پر ہوتا ہے۔ علم سیاسیات کے ماہرین کی ساری توجہ سیاسی مساوات اور سیاسی حقوق میں برابری پر ہوتی ہے۔ علم سماجیات میں پورا اہتمام سماجی اداروں اور سماجی ڈھانچے کے حوالے سے مساوات اور عدم مساوات پر ہوتا ہے۔ لیکن اگر ان تمام شعبوں اور میدانوں سے پرے فلسفیانہ سطح پر مساوات کے ڈسکورس کا جائزہ لیا جائے تو مساوات کے دو بڑے تصورات منظر عام پر آتے ہیں جن کی مزید ذیلی تقسیمیں بھی ملتی ہیں۔ یہ تصورات دراصل مساوات کے تعلق سے ایک بنیادی سوال کے جوابات میں موجود اختلاف پر مبنی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مساوات کن چیزوں میں ہونی چاہیے (آمدنی، دولت، مواقع، حقوق، سماجی وسیاسی حیثیت وغیرہ)؟
پہلے تصور کو (Distributive Equality) یا تقسیمی مساوات کہتے ہیں۔ اس تصور کے مطابق مساوات کا اصل تعلق تقسیم اشیاء سے ہے۔ گویا مساوات کا مطلب یہ ہے کہ دولت کی تمام شہریوں یا انسانوں کے درمیان برابر سی تقسیم کی جائے۔ چوں کہ تقسیم دولت بشمول آمدنی، روزگار، وسائلمیں مکمل مساوات ممکن اور قابل عمل نہیں ہے اس لیے مساوات کی اس قسممیں مزید کئی قسمیں وجود میں آئیں۔ مساوات کی اس قسم کو تقسیمی عدل (distributive justice)کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ اس تصور میں جو مزید متعدد قسمیں سامنے آئیں وہ دراصل کچھ بنیادی سوالوںکے جوابات پر قائم ہوئیں۔ پہلا سوال یہ تھا کہ تقسیم عدل میں کون سی چیزیں شامل کی جائیں گی (آمدنی، دولت، مواقع، روزگار، بہبود، افادیت وغیرہ)؟دوسرا سوال یہ تھا کہتقسیم کن لوگوں کے درمیان کی جائے گی (افراد، مجموعہ افراد، مخصوص افراد وغیرہ)؟ تیسرا سوال یہ کہ تقسیم کی بنیاد کیا ہونی چاہیے (مساوات، maximization، انفرادی حیثیت وغیرہ)؟ان اعتبارات سے اس تصورمیں موجود ذیلی تصورات یوں ہیں جن کا تفصیلی ذکر یہاں غیر ضروری طوالت کا سبب ہوگا: ریڈیکل مساوات (radical/strict egalitarianism)، اختلاف کا اصول (The Difference principle)، مساوات قسمت (luck egalitarianism)، بہبود پر مبنی اصول (welfare-based principles) تقسیمی مساوات کے اہم اور قابل ذکر تصورات ہیں۔
مساوات کے دوسرے تصور کو تعلقاتی مساوات (relational equality)کہتے ہیں۔ اس تصور میں اصل فوکس تعلق کی نوعیت اور بنیاد پر ہوتا ہے۔ یعنی کسی ملک میں لوگوں کے باہمی تعلق کی نوعیت کیا ہوگی؟ افراد اور حکومت یا ریاست کے درمیان تعلق کی نوعیت کیا ہوگی؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جس پر سیاسی وسماجی مساوات کی پوری عمارت قائم ہوتی ہے اور جس میں مساوات کا ایک بڑا دائرہ سامنے آتا ہے۔ سوال کو مزید کھولیں تو اس سوال میں نئے نئے پہلو سامنے آتے جاتے ہیں اور ہر پہلو مساوات کی ایک شق کو پیش کرتا ہے جس پر تفصیلی گفتگو آگے آئے گی۔ کیا سماج میں کسی کو پیدائشی طور سے کسی ایسی بنیاد پر کوئی امتیاز یا فضیلت حاصل ہوسکتی ہے جو لوگوں نے خود سے وضع کر رکھی ہوں جیسے زبان، نسل، قبیلہ، ذات، مذہب وغیرہ کی بنیادیں؟ کیا حکومت اور سیاست کسی مخصوص طبقے ہی کا حق ہے؟ مساوات کے اولین علمبرداروں جیسے جان جاک روژو، Mary Wollstonecraft، تھومس پین یا بعد میں الیزابیتھ اینڈرسن وغیرہ کے سامنے اصل مسئلہ یہی تھا کہ لوگوں کے تعلقات یا سیاسی اور سماجی معاملات میں جنس یا نسلی یا کسی اور پیدائشی خصوصیت کی بنیاد پر کوئی تفریق یا امتیاز روا نہ رکھا جائے۔ مساوات کے اس تصور کو سماجی مساوات (social equality) بھی کہتے ہیں۔ مساوات کے اس تصور کو لوگوں نے تین اہم پہلوؤں سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک مشہور تعریف کے مطابق سماجی مساوات کی تین بنیادیں ہیں: احترام، ذمہ داریاں، اور شرکت۔ یعنی ہر فرد برابر احترام کا مستحق ہو، ہر فرد برابری کے ساتھ ذمہ داریوں اور حقوق میں شریک رہے اور ہر فرد برابری کے ساتھ ملک کے فیصلوں اور حکومت کے چلانے میں شامل ہو۔ ایک دوسری اہم تعریف جو دراصل اس سے زیادہ واضح اور تفصیلی ہے اس کے مطابق مساوات در اصل تین چیزوں میں برابری کا نام ہے: (۱) احترام اور شناخت (respect and recognition)، (۲)محبت، خیال اور خیرسگالی (love, care and solidarity)، (۳) طاقت (power)۔ یعنی ہر کسی کا احترام ہو اور اس احترام کے لیے ضروری ہے کہ ہر کسی کی شناخت کو تسلیم کیا جائے اور برابری سے تسلیم کیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں سماج کی ایک بڑی شناخت ہو جس میں ہر شناخت کو پوری طرح تسلیم بھی کیا جائے اور بڑی شناخت ہر کسی کو اپنے اندر سمو لینے اور انٹگریٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اسی طرح سماج کے ہر فرد میں دوسرے کا خیال اور اس کے لیے خیر خواہی کا جذبہ ہو۔ یہ احساس کہ ہم سب برابر ہیں اور ہم سب سے مل کر یہ سماج وجود پذیر ہوا ہے اور ہم سب کی کامیابی اور خوشحالی میں ہی سماج کی کامیابی منحصر ہے۔ تیسرا اہم پہلو یہ کہ طاقت یعنی حکومت کو بنانے اور چلانے، لانے اور بدلنے ہر چیز میں سماج کے ہر فرد کا برابر کردار ہو اور مشارکت ہو۔
اس حوالے سے دیکھا جائے تو تعلقاتی مساوات یا سماجی مساوات کے دو براہ راست میدان ہوتے ہیں اور تیسرا میدان براہ راست نہ ہونے کے باوجود بھی بہت حد تک وابستہ ہوتا ہے۔ یعنی سماجی اور سیاسی دائرے میں تو مساوات کا پورا عمل دخل ہوتا ہے اور معاشی میدان مساوات کی اس تعریف میں کہیں بھی براہ راست تو شامل نہیں ہوتا لیکن چوں کہ ہمیشہ سے کسی نہ کسی حد تک اور دور حاضر میں غیر معمولی حد تک معاشیات سیاسیات کے تابع یا اس سے بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے چنانچہ سیاست میں مساوات کے اصول کی کارفرمائی معاشیات میں بھی اپنا پورا اثر دکھائے گی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ مساوات پر مبنی سیاست میں یہ فیصلہ لیا جانا کہ ملک کے ہر شہری کو زندگی کی بنیادی ضرورتیں اور سہولتیں مفت میں فراہم کی جائیں گی، ٹیکس کے نظام کو ایسا بنایا جائے گا کہ مالداروں کی دولت کو آسانی کے ساتھ غریبوں کے مفاد میں استعمال کیا جاسکے وغیرہ۔ اب سیاست اور سماج میں مساوات کے اصول کے حوالے سے کسی قدر تفصیلی گفتگو پیش ہے۔
سماجی تعلقات اور مساوات:
سماجی تعلقات میں مساوات کا مطلب ایک تو یہ ہوتا ہے کہ سماج میں ہر فرد کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور ہر فرد کا یکساں اور برابر مقام ہوگا۔رنگ ونسل، زبان وقبیلے یا کسی بھی ایسی بنیاد پر لوگوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی جائے گی۔ اس سلسلے میں امریکہ کے سپریم کورٹ سے متعلق ایک کیس کا ذکر اہم ہوگا۔ ۱۹۵۴ سے پہلے تک امریکہ میں سیاہ فام امریکیوں کے لیے ہر جگہ علیحدہ نظم ہوتا جو اپنی اصل کے اعتبار سے دوسرے نظم کی طرح ہی ہوتا تھا، اس میں کلاس روم اور ٹرین کی بوگیاں سر فہرست تھیں۔ گویا علیحدگی تھی مگر اس میں بظاہر کوئی عدم مساوات نہیں تھی۔ ٹرین اور اسکول میں علیحدہ جگہ ہونے کے خلاف کئی بار وہاں کے سپریم کورٹ میں شکایت درج کی گئی لیکن کورٹ نے کیس کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ چوں کہ جگہ ایک ہی جیسی ہیں، اسے عدم مساوات نہیں کہا جاسکتا۔ کورٹ کی زبان میں Separate but equal is constitutional۔ البتہ ۱۹۵۴ میں جب یہ کیس اسکول سے متعلقپیش ہوا تو سپریم کورٹ کے جج نے علیحدگی کو ختم کرنے کا فیصلہ صادر کیا۔ اس فیصلے میں کہے گئے چند جملے سماجی مساوات اور اس کے دور رس اثرات کے حوالے سے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں چنانچہ وہ یہاں نقل کیے جاتے ہیں: "سیاہ فام بچوں کو اپنی عمر اور کوالیفیکیشن کے دوسرے بچوں سے الگ کردینا صرف اس بنیاد پر کہ وہ الگ نسل سے ہیں، ان بچوں کے اندر سماج میں اپنی اسٹیٹس کو لے کر احساس کمتری پیدا ہونے کا باعث ہوگا جو ان کے دل ودماغ پر وہ اثرات ڈالے گاجنھیں ختم کرنا ناممکن ہوجائے گا۔”سماجی مساوات کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ سماج میں ہر کسی کو اعتماد اور اپنائیت کی نظروں سے دیکھا جائے۔ چنانچہ کسی بھی مخصوص شناخت والے مجموعے کو بدنام کرنا اور ان کی غلط تصویر قائم کرنا اور ان کے خلاف stigma پیدا کردینا مساوات کے منافی ہے۔ یہیں سے بہت سے اہل علم کا یہ ماننا ہے کہ سماجی مساوات دراصل انٹیگریشن کا دوسرا نام ہے اور اسی طرح کسی سماج میں مساوات قائم ہونے کے لیے اس سماج میں انٹیگریشن کا پایا جانا لازمی شرط بھی ہے۔شمولیت (inclusivity) بھی مساوات کے سماجی پہلو کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ اس کے لیے بعض ماہرین شناخت میں عدم ماتحتی (identity non-subordination) کی تعبیر بھی استعمال کرتے ہیں۔ البتہ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ایک انسان یا سماج کے ایک ممبر کی حیثیت سے مساوات کی بات کی جاتی ہے۔ باقی جہاں تک بات ہے سماج کے مختلف اداروں کے عمل (functionality) کے لیے جو ضروری نظام بنتا ہے، اس میں کوئی مساوات کی بات نہیں کرتا۔ مثال کے طور سے استاذ شاگرد کا تعلق ہو یا کسی کمپنی میں مینیجر اور بقیہ کارکنوں میں جو تعلق ہے، وہ ایک ضروری اور سماجی تقسیم ہے۔ چنانچہ یہ واضح رہنا چاہیے کہ سماج میں موجود ہر تقسیم مساوات کے منافی نہیں ہے، بلکہ وہ تقسیم جو ان بنیادوں پر ہو جن کا تعلق انسان کے اختیار سے باہر ہوتا ہے اور وہ مستقل امتیاز کا سبب بنیں یا وہ معاشرے کے ایک فرد کی حیثیت سے تقسیم یا اونچ نیچ کا سبب بن جائے۔ مشہور امریکی مصنف کینیتھ کارسٹ (Kenneth Karst) کا کہنا ہے کہ سماجی مساوات کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کا ہر فرد اپنے آپ کو ملک سے ایک جیسا تعلق رکھنے والا محسوس کرے۔ اور اس کی سب سے بڑی اور اہم علامت کے طور پر یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ اس سماج میں موجود اقلیتیں اپنے کلچر اور شناخت کو لے کر کس قدر محفوظ اور پرسکون محسوس کرتی ہیں۔
سیاسی معاملات اور مساوات
ایک مشہور انگریزی مصنف نے مساوات کی تعریف کے لیےدرج ذیل تعبیر استعمال کی ہے: The Right to equal belonging to a democratic society۔ سماجی وسیاسی ماہرین کے ایک بڑے گروپ کا یہ ماننا ہے کہ مساوات کا اصل تعلق سیاست ہی سے ہے۔ دوسرے لفظوں میں سیاست میں عدم مساوات کا جتنا نقصان کسی معاشرے کو اٹھانا پڑسکتا ہے، وہ کسی اور میدان میں موجود عدم مساوات سے نہیں اٹھانا پڑتا ہے۔ اس مفروضے کے حق میں چار اسباب پیش کیے جاتے ہیں:(۱) سیاست دراصل شہریوں کی بنیادی ضروریات پر بہت گہرا اثر رکھتی ہے چاہے وہ صحت کا معاملہ ہو، دفاع کا معاملہ ہو یا قانونی چارہ جوئی کا مسئلہ ہو۔ اسی طرح سیاست ہی شہریوں کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کی ضمانت بھی دیتی ہے، چاہے وہ ضمیر کی آزادی ہو یا اپنا رفیق حیات طے کرنے کی آزادی ہو۔ (۲) سیاسی طاقت کے پیچھے زور اور زبردستی کا بھی ایک راستہ ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال ٹیکس کی ہے کہ اگر کوئی خود سے ٹیکس دینے سے انکار کردے تو حکومت اپنی طاقت کا استعمال کرکے ٹیکس کو زبردستی ادا کرا سکتی ہے۔ (۳) سیاسی طاقت کے گھیراؤ سے بچنا ناممکن ہوتا ہے اور اگر کوئی سیاسی طاقت سے خود کو بچانا چاہتا ہے تو اس کے پاس صرف ایک ہی راستہ ممکن ہوگا کہ وہ ملک کو خیرآباد کہہ دے۔ (۴) سیاسی طاقت جاگیردارانہ (monopolistic)، اور حتمی ہوتی ہے بایں طور کہ اگر سیاسی فیصلے اور غیر سیاسی فیصلے کے درمیان ٹکراؤ پیدا ہوجائے تو سیاسی فیصلے ہی کو فورا ترجیح ملے گی۔
سیاست میں مساوات کا مطلب کیا ہوگا؟ ہر کسی کو ووٹ دینے کا برابر حق ہو۔ ہر کسی کو ووٹ لینے یعنی کسی بھی ذمے داری کا امیدوار بننے کا برابر حق ہو۔ ایڈون بیکر (Edwin Baker) سیاست میں مساوات کے تین اصول پیش کرتا ہے۔ پہلا اصول یہ ہے کہ سیاسی حصہ داری میں برابری ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کو تمام شہریوں کے سیاسی کارروائیوں میں برابری کے ساتھ شریک ہونے کا حق ماننا ہوگا۔ دوسرا اصول عدم ماتحتی (non-subordination) کہلاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کسی شہری یا کسی گروہ کی ذاتی ترجیحات اور پسند کو اپنے ماتحت کرسکتی ہے اور نہ ہی اسے دبانے اور کمزور کرنے کی کوشش کرسکتی ہے۔ تیسرا اصول وسائل اور مواقع سے متعلق ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ریاست اس بات کو یقینی بنائے کہ جن وسائل اور مواقع کو افراد سماجی زندگی اور سیاسی مشارکت کے لیے ناگزیر سمجھتے ہیں، ریاست ہر ایک کو فراہم کرے۔ بعض ماہرین سیاسیات جمہوری سماج کی تعریف ہی یہ کرتے ہیں کہ ایک ایسا سماج جو برابر یا مساوی افراد کی باہمی مشارکت سے چلنے والا ہو۔ گویا جمہوری سماج کے تین عناصر ترکیبی ہوسکتے ہیں: مشارکت، افراد کا مجموعہ اور برابری یا مساوات۔ چنانچہ مانٹیسکو (montesquieu)کے الفاظ میں وطن کی محبت کا مظہر مساوات سے محبت ہے۔ اسی طرح جمہوریت سے محبت بھی دراصل مساوات کی محبت سے ہی ہوکر گزرتی ہے۔
مساوات کے دونوں تصور یعنی تقسیمی مساوات اور تعلقاتی مساوات کا ایک مختصر تعارف پیش کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دونوں تصورات آپس میں بہت زیادہ مختلف ہیں۔ اس سلسلے میں دونکاتکو پیش نظر رکھنا چاہیے:
ایک تو یہ کہ تقسیمی مساوات کیسماجی وسیاسی حقوق اور تعلقات کی نوعیت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہے، بلکہ ان کا پورا زور محض مادی اشیاء کی تقسیم پر ہوتا ہے۔ چنانچہ تقسیمی مساوات کے ماننے والوں کے مطابق سیاسی مساوات یا سیاست میں مشارکت کی کوئی اہمیت نہیں ہے، بلکہ وہ سیاسی مشارکت کو صرف ایک علامت کے طور پر دیکھتے ہیں، جس کے ہونے نہ ہونے کا انسان کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ تقسیمی مساوات کے ماننے والوں میں عموما یہ اتفاق پایا جاتا ہے کہ تقسیمی مساوات اپنے اصلی مفہوم کے اعتبار سے ناقابل عمل اور غیر فطری ہے۔ اب رہی بات مساوات کے ضمن میں اس چیز کی کوشش کہ سماج میں موجود معاشی عدم مساوات کو کم سے کم کیا جائے تو یہ پہلو بالواسطہ طور سے تعلقاتی مساوات یا سماجی مساوات میں بھی داخل ہوجاتا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بیشتر ماہرین سماجی وتعلقاتی مساوات ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اس پورے تناظر میں اسلام کا موقف کیا ہوگا؟ کیا اسلام نے مساوات کو سماجی اور سیاسی میدان میں ایک اصول کے طور پر قبول کیا ہے؟ اگر اسلام مساوات کو قبول کرتا ہے تو کیا اسلام مساوات کی اس پوری بحث میں کوئی اضافہ بھی کرتا ہے؟ اسلامی تاریخ اس سلسلے میں کیا موقف پیش کرتی ہے؟
مساوات اور اسلام
جیسا کہ اوپر عرض ہوا اسلام میں لفظ مساوات موجودہ اصطلاحی معنی یا موجودہ تصور کے ساتھ استعمال نہیں ہوا البتہ قرآن مجید کی بعض آیات اور بعض احادیث کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلام نے مساوات کو غیر معمولی زور اور تاکید کے ساتھ پیش کیا۔ اس سلسلے میں سب سے اہم آیت جو قابل ذکر ہے وہ ہے: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ(لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے۔ تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ بےشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے۔ سورۃ الحجرات، آیت: ۱۳)
یعنی تمام انسانوں میں وہی مساوات کا رشتہ ہے جو کسی ایک چھوٹی سی فیملی میں تمام بھائی بہنوں کے درمیان ہوتا ہے۔ نہ کوئی کسی سے کمتر ہوتا ہے اور نہ کوئی کسی سے افضل۔ اسلامی مفکر ڈاکٹر سلیم عوا اسلام میں مساوات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے یہ آیت پیش کرکے لکھتے ہیں: اس آیت سے یہ بات بالکل صاف ہے کہ اسلام نے مساوات کو غیر معمولی اہمیت دی ہے اور اس کا ایک بڑا مظہر یہ ہے کہ عرب میں دیت کے سلسلے میں بہت بے احتیاطی پائی جاتی تھی۔ اپنے آپ کو بڑا قبیلہ سمجھنے والے ایک خون کے بدلے دس دس خون کی دیت کا مطالبہ کرتے تھے، لیکن اسلام نے بالکل صاف کردیا کہ دیت میں کوئی بڑا چھوٹا نہیں مانا جائے گا۔ ایک خون کی دیت ایک ہی ہوگی اور وہ برابر ہوگی۔ یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ دنیوی معاملات میں کسی بھی طرح کی تفریق کسی کے درمیان بھی جائز نہیں ہوگی۔ جہاں تک بات تقوی کی وجہ سے عزت کے بڑھ جانے کی ہے، تو یہ قیامت سے متعلق ہے کہ وہاں اللہ انھی لوگوں کو عزت دے گا جو تقوی کی روش پر قائم رہے ہونگے۔ ہمارا کام نہ تو تقوی ناپنا اور اس کا فیصلہ کرنا ہے اور نہ ہی اس کی بنیاد پر کوئی تفریق کرنا ہے۔ اس دنیا میں عزت تمام انسانوں کی ہوگی اور برابر ہوگی اور وہ ولقد کرمنا بنی آدم کی بنیاد پر ہوگی۔
اسی طرح حجۃ الوداع کے موقع سے آپؑ نے فرمایا:يا أيها الناس: إن ربكم واحد، وإن أباكمواحد،ألالافضل لعربي على عجمي ولا عجمي على عربي، ولا لأحمر على أسود ولا لأسود على أحمر إلا بالتقوى، "إن أكرمكم عند الله أتقاكم۔
(اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارے باپ ایک ہیں، تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے ہیں۔ اللہ کے نزدیک تم سے سب سے باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر، نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی گورے کو کالے پر نہ کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں ہے البتہ تقوی فضلیت کا سبب ہے۔)
یہ دونوں نصوص مساوات کے حوالے سے بہت صاف واضح اور مضبوط گفتگو پیش کرتی ہیں۔ ان دونوں نصوص کی روشنی میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عمارہ کہتے ہیں کہ مساوات کے تین مفہوم یا پہلو ہو سکتے ہیں: (۱) قانونی مساوات: یعنی قانون کی نظر میں کسی کی پیدائش، وراثت، رنگ، نسل، جنس، مذہب وغیرہ کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہ ہو۔ (۲) تمام شہریوں کے درمیان مواقع کی برابری: یعنی مواقع کے سلسلے میں اہمیت صرف اور صرف ذاتی محنت اور جدوجہد کی ہو اور اس کے علاوہ کسی امتیاز کو قبول نہ کیا جائے۔ (۳) ہر چیز میں مساوات قائم کرنا۔ پہلے دونوں مفہوم تو اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کے حصول کے لیے پوری کوشش کی جائے البتہ تیسری چیز قانون فطرت کے خلاف ہے اور ایک ایسی خیالی چیز ہے جس کو کبھی حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اسلامی نقطہ نظر سے قانون کے سامنے تو مکمل مساوات لازمی ہے اور ساتھ ہی مواقع میں بھی پوری برابری ضروری ہے، لیکن تیسرے پہلو کے سلسلے میں توازن بنانے کی کوشش کرنا اسلامی تعلیم کا تقاضا ہے۔ توازن بنانے کے لیے اسلام کے عدل اجتماعی کا وہ تصور سامنے رہنا چاہیے،جس میں ایک طرف بنیادی ضروریات کیتکمیل کو اسلام نے بلا معاوضہ قرار دیا، دوسری طرف زکوۃ وغیرہ کے ذریعے توازن بنانے کا اہتمام کیا جس پر قدرے تفصیل سے گفتگو اس سے پہلے عدل کے ضمن میں گزر چکی ہے۔
ولقد کرمنا بنی آدم سے مساوات کے اس پہلو کی پر زور تائید بھی ہوتی ہے اور اسلام کی مساوات کے تعلق سے سبقت بھی سامنے آتی ہے جس کو موجودہ مفکرین احترام کے حوالے سے موسوم کرتے ہیں جیسا کہ اوپر تفصیل سے ذکر ہوا۔
گویا اس گفتگو سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام نے سماجی تعلقات اور سیاسی معاملات میں تو غیر مشروط اور مکمل مساوات کا حکم دیا ہے البتہ معاشی معاملات میں عدل کو اصل بنایا ہے۔ اور یہی اسلام کی خوبی ہے کہ وہ سماج کے ہر مسئلے کو کسی ایک لاٹھی سے حل نہ کرکے اقدار کے پورے مجموعے کے ذریعے سماج کے تمام مسائل کو بحسن وخوبی حل کردیتا ہے۔
اس لیے، یہ کہا جاسکتا ہے کہ زندگی کے کچھ شعبوں میں اسلام مکمل مساوات کا حکم دیتا ہے اور وہ سب کے لیےہے۔ اور زندگی کے کچھ مسائل کو اسلام عدل کے ذریعے حل کرتا ہے۔ لیکن یہ کہنا کسی بھی طرح قابل قبول نہیں لگتا کہ اسلام نے انسانوں کے درمیان تو عدل کرنے کا حکم دیا ہے اور مساوات کو صرف مسلمانوں کے ساتھ خاص کیا ہے۔
دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے یہاں کئی ایسے تصورات موجود ہیں جو مساوات کے بالکل منافی ہیں، بلکہ خود اسلامی مزاج سے بھی میلنہیں کھاتے ہیں۔ ان پر تفصیلی گفتگو کرنا یا ان کا احاطہ کرنا تو ممکن نہیں ہے، البتہ تین مسئلوں کو یہاں مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
پہلا مسئلہ ذات پات کو سماجی درجہ بندی بنانے کا مسئلہ ہے۔ اسلام کی آمد سے پہلے عرب میں قبائل کی بنیاد پر سماج میں اونچ نیچ کی روایت کافی مضبوطی کے ساتھ قائم تھی مگر اسلام آتے ہی ان تمام درجہ بندیوں اور امتیازات کا خاتمہ کردیا۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے موجودہ معاشرے میں ذات پات کے نام پر دوبارہ وہی روایت قائم ہوچکی ہے۔ یہ روایت ہمارے مسلم معاشرے میں عملی طور پر تو بہت گہرے قدم جما ہی چکی ہے ساتھ ہی اسلامی کتابوں اور لٹریچر میں بھی کسی حد تک گھسنے میں کامیاب ہوچکی ہے۔ اس موضوع پر سماجی نوعیت کی ایک اسٹڈی دیکھنے کے لیے ملاحظہ ہو: Caste and Social Stratification among Muslims in India by Imtiaz Ahmad۔
دوسرا مسئلہ خواتین کی شہری ذمہ داریوں یا پبلک معاملات میں ان کے کردار کا ہے جس میں سیاسی ذمہ داریاں بھی شامل ہیں۔ اس سلسلے میں متعدد معاصر علماء نے نصوص کا تفصیلی جائزہ پیش کرکے یہ خلاصہ پیش کیا ہے کہ اصولی طور سے مرد وزن میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ صرف اہلیت کی بنیاد پر سیاسی وغیر سیاسی ذمہ داریوں کا انتخاب کیا جانا چاہیے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر علی صلابی، ڈاکٹر مختار شنقیطی اور ڈاکٹر عنایت اللہ سبحانی کی رائے دیکھی جاسکتی ہیں۔
تیسرا مسئلہ مذہبی حلقوں میں موجود عدم مساوات کی ایک قسم کا ہے۔ کئی قوموں اور مذہبوں میں مذہبی علماء نے ایک نسلی طبقے کی شکل اختیار کر لی تھی اور وہ طبقہ سماجی درجہ بندی کی ایک قسم کے طور پر سامنے آنے لگا تھا۔ اسلام نے مذہبی علم اور علماء کے حوالے سے بہت انوکھی اور عملی تعلیم پیش کی تھی۔ ہر کسی کے سامنے نہ صرف یہ کہ مذہبی علم کو پوری آزادی سے حاصل کرنے کا حق دیا گیا تھا بلکہ اس بات کی حد درجہ تاکید اور حوصلہ افزائی بھی کی گئی تھی۔ ساتھ ہی مذہبی علم کے نام پر کسی طرح کے طبقہ بنانے اور اس میں مضمر منفی اثرات کی پر زور مذمت بھی کی تھی جس کی ایک واضح مثال سورہ توبہ کی آیت (۳۴) ہے جس میں کہا گیا ہے:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ۔ (مومنو! (اہل کتاب کے) بہت سے عالم اور مشائخ لوگوں کا مال ناحق کھاتے اور (ان کو) راہ خدا سے روکتے ہیں۔ اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو خدا کے رستے میں خرچ نہیں کرتے۔ ان کو اس دن عذاب الیم کی خبر سنادو) لیکن ان سب کے باوجود مختلف قوموں کے اثرات اور ساتھ ہی کچھ دوسرے عوامل جن کو سماجیات اور علم نفسیات کے حوالے سے تفصیل سے دیکھا جا سکتا ہے مسلم معاشرے میں بھی مذہبی علماء کی Clergy والی شکل سامنے آنے لگی اور جس کو مزید تقویت دینے کے لیے نصوص اور روایات کی غلط تاویل کا سہارا لینے کی بھی کوششیں ہونے لگیں۔
مساوات کے سلسلے میں اسلام کا ایک خاص اضافہ قابل ذکر ہے جو مساوات کے اسلامی ورژن کو بقیہ تمام ورژنوں سے جدا کردیتا ہے یا دوسرے لفظوں میں مساوات کے موجودہ تصور کو غیر معمولی وقعت عطا کرتا ہے۔ اور وہ ہے مساوات کی فلسفیانہ بنیاد۔ موجودہ دنیا میں مساوات پر پورا زور ہونے کے باوجود مساوات اپنی الٹی ہی سمت پر کیوں گامزن ہے؟ یعنی عدم مساوات کی مقدار مزید سے مزید کیوں ہوتی جارہی ہے؟ کیوں کہ موجودہ دنیا کے پاس مساوات کی کوئی ایسی فلسفیانہ بنیاد نہیں ہے جو اسلام پیش کرتا ہے۔واضح رہے کہ موجودہ مساوات کے ڈسکورس میں عموما دو فلسفے پائے جاتے ہیں۔ ایک فلسفہ سماجی معاہدہ (Social Contract Theory)کا ہے یعنی سماجی معاہدے کی بنیاد پر یہ طے کیا جانا کہ مساوات سماج کا ایک اصول طے ہوگا۔ دوسرا فلسفہ طبیعی اصول (Natural Law) پر قائم ہے۔ اس کے برخلاف اسلام اس تعلق سے بہت مضبوط اور انسانوں کی تخلیق میں پیوست فلسفہ پیش کرتا ہے۔ اوپر مذکور دونوں نصوص یعنی قرآنی آیت اور حدیث نبوی میں مساوات کا لفظ تو موجود نہیں ہے لیکن مساوات کی تعلیم بھی موجود ہے اور مساوات کا ایک زوردار فلسفہ بھی موجود ہے۔ ایک ماں باپ کی اولاد ہونا ایک ایسا غیر معمولی فلسفہ ہے کہ اگر یہ فلسفہ ذہن نشین ہوجائے تو مساوات کا سفر بہت آسان اور بہت تیز گام ہوجائے گا۔
آخری بات
مساوات ایک اہم اسلامی اصول اور سیاسی وسماجی زندگی کی ایک خوبصورتاسلامی قدر ہے۔ اس کی حیثیت دراصل عدل کے جڑواں کی ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کا کام کرتے ہیں۔ قرآن مجید اور سنت نبوی میں بہت وضاحت کے ساتھ یہ اصول پیش کیا گیا اور اسلام کے سنہری عہد میں لوگوں نے اس کی بے مثال عملی تصویر بھی پیش کی لیکن بدقسمتی سے ہماری علمی وفکری روایت میں اصولی طور سے بھی یہ تصور بہت کمزور یا دھندلا رہ گیا اور بعد کی تاریخ میں عملی طور سے بھی بہت سی ایسی چیزیں روایت کا حصہ بن گئیں جو اس اصول سے براہ راست ٹکرانے والی تھیں۔ یہ ایک تفصیلی موضوع ہوسکتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا اور لازماً اس کے بہت سے عوامل ہوں گے اور ان پر گفتگو بھی کی جاسکتی ہے۔ لیکن اس تجزیے سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ اس اصول کو جب کہ یہ براہ راست قرآن وسنت سے ثابت ہوتا ہے اور سیرت رسول میں اس کی غیر معمولی عملی مثالیں بھی پائی جاتی ہیں جن کا تذکرہ اس چھوٹے سے مضمون میں ممکن نہیں ہے، ہم اپنی روایت میں بھی ان چیزوں پر جلداز جلد نظر ثانی کرلیں جہاں اس اصول سے صاف ٹکراؤ موجود ہے اور ساتھ ہی مستقبل کے لیے اپنے لائحہ عمل میں اس اصول کی کارفرمائی کو یقینی بنائیں۔
مراجع:
The Practice of Equality by Samuel Scheffler
Conceptions and Dimensions of Social Equality by John Baker
Social Equality or Just Justice? By Christian Shemmel
Human Rights Constitutional Law and Belonging by Elena Drymiotou
Political Liberties and Social Equality by Inigo Ricoy and Queralt
في النظام السياسي للدولة الإسلامية محمد سليم عوا
الإسلام والأمن الإجتماعي محمد عمارة