مرکزی انتخابات کے تحت اتحادی سلسلہ تیز تر

کسان فصل کاٹنے جائیں گے تو خواتین احتجاجی مورچہ سنبھالیں گیں

عرفان الٰہی ندوی

اسلاموفوبیائی زہر کے تحت نمازی نے لات کھائی تو ایک مسلمان نے خود کو آگ لگائی
خاتون پروفیسر کی دلت ہونے کی بنا پر نوکری سے چھٹی۔ سڑک پر پکوڑے بھی نہیں بیچ پائی
شمال میں موسم ربیع کی بارش اور ژالہ باری کے بعد مطلع صاف ہو گیا ہے۔ دھوپ کی تمازت نے سرد ہواؤں کے اثر کو زائل کر دیا ہے۔ شمالی ہند کی سب سے بڑی اور سیاسی طور پر سب سے اہم ریاست یوپی میں کابینہ کیت وسیع کے ساتھ لوک سبھا کے عام انتخابات کی بساط پوری طرح بچھ چکی ہے ۔
سیاسی پنڈتوں کے مطابق یوگی بابا کی کابینہ میں جن چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے چار وزرا کو شامل کیا گیا ہے وہ الگ الگ علاقوں کے ساتھ پسماندہ اور دلت برادریوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بی جے پی کی مرکزی قیادت نے انڈیا گٹھ بندھن کے پی ڈی اے یعنی پچھڑے ،دلت اور اقلیت کے فارمولے کو توڑنے کے لیے این ڈی اے میں اسی طبقے کی ان پارٹیوں کو شامل کیا ہے جو انہیں سیاسی طور پر نقصان پہنچا سکتی تھیں۔ بی جے پی نے 80 پارلیمانی سیٹوں میں صرف چھ سیٹیں این ڈی اے کی حلیف جماعتوں کے لیے چھوڑی ہیں ان میں سے آر ایل ڈی اور اپنا دل ایس کو دو دو سیٹیں اور اوم پرکاش راج بھر کی ایس بی ایس پی اور نشاد پارٹی کے حصے میں صرف ایک ایک سیٹ آئی ہے۔ سوشل میڈیا میں آر ایل ڈی کے جینت چودھری کا مذاق بھی اڑایا جا رہا ہے کہ چونی چھ کے بجائے صرف دو سیٹوں کے لیے کیسے پلٹ گئی ۔وہیں ایس بی ایس پی کے اوم پر کاش راج بھر کی باچھیں کھل گئی ہیں۔ خود تو ریاستی کابینہ میں وزیر بن گئے اور بیٹے کے لیے گھوسی لوک سبھا کی سیٹ سے ٹکٹ کا بندوبست کرا لیا۔ وزیر بنتے ہی ان کے بڑبولے بیان سوشل میڈیا میں سرخیاں بٹور رہے ہیں تاہم، سیاسی حلقوں کی نظریں ابھی بھی بی ایس پی کی سربراہ مایاوتی کی آخری چال پرٹکی ہوئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق وہ کسی بھی لمحے انڈیا گٹھ بندھن میں شامل ہو کر بازی پلٹ سکتی ہیں۔
یو پی کے ڈی جی پی پرشانت کمار کا ایک دھمکی بھرا بیان بھی شہ سرخیوں میں چھایا ہوا ہے۔ انہوں نے سی اے اے قانون کو نافذ کرنے کی تیاری پر کہا کہ پولیس کے پاس ڈیٹا بیس کے ساتھ ڈنڈا بھی تیار ہے ۔سی اے اے کی مخالفت کرنے والے اس بیان کا مطلب خود سمجھ سکتے ہیں۔
دہلی کی سرحدوں پر بیٹھے ہوئے کسانوں کے احتجاج کو تقریبا ایک ماہ پورا ہو چکا ہے لیکن سرکار ان کی مانگیں پوری کرنے کے بجائے ان کے تھک جانے کے انتظار میں ہے۔ پولیس کی مستعدی نے کسانوں کی دہلی کوچ کی دوسری کوشش بھی کامیاب نہیں ہونے دی۔ سرکار کو امید ہے کہ گیہوں کی کٹائی شروع ہوتی ہی کسان اپنے کھیت کھلیانوں میں لوٹنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ کسان لیڈر بھی سرکار کی چال کو سمجھ رہے ہیں اس لیے انہوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے خواتین کو آگے کر دیا ہے۔ عالمی یوم خواتین پر شنبھو بارڈر سے خاتون کسانوں نے اعلان کیا کہ اگر مرد فصل کاٹنے جائیں گے تو بارڈر پر احتجاج کا مورچہ وہ سنبھالیں گی۔
دارالحکومت دہلی سے ایک چونکانے والا ویڈیو وائرل ہوا ہے۔ وہاں اندر لوک علاقے میں نماز جمعہ کے دوران مسجد میں جگہ کی قلت کی بنا پر کچھ مسلمان سڑک پر نماز پڑھنے لگے، چوکی انچارج نے پہلے تو انہیں ہٹانے کی کوشش کی پھر طیش میں ا ٓکر سجدے میں لوگوں کو پیچھے سے لاتیں مارنا شروع کر دیا۔ موقع پر موجود لوگوں نے پولیس کے رویہ کی مخالفت کی جس کے بعد پولیس اہلکار موقع سے بھاگ گئے۔ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس کے اعلی عہدے داروں نے چوکی انچارج کو معطل کرنے کے ساتھ جانچ کا بھی حکم دے دیا ہے۔ جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے اپنے بیان میں کہا کہ ’یہ گزشتہ دس سالوں میں بوئی گئی نفرت کی زندہ تصویر ہے۔‘ مولانا محمود مدنی نے بھی اس موقع کو اسلاموفوبیا کی علامت بتاتے ہوئے وزیر داخلہ کو ایک خط لکھا تھا جس میں پولیس اہلکار کو برخاست کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ دہلی کے مشہور صحافی رویش کمار نے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے ایکس پر لکھا کہ’ یہ بالکل شرمناک بات ہے، پولیس کے اندر سیاست کا زہر پہنچ گیا ہے۔۔۔ اس نفرت کو اسٹیٹ اور میڈیا کا تحفظ مل چکا ہے اس لیے اس نفرت سے لڑنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے‘ سوشل میڈیا پر لوگ سوال پوچھ رہے ہیں کہ ایک طرف خلیج کے عرب ملکوں میں مندر بن رہے ہیں دوسری طرف بھارت میں نمازیوں پر لاتیں چل رہی ہیں اس سے ہمارے ملک کی امیج پوری دنیا کے سامنے کیا بنے گی ؟ اطلاعات کے مطابق مسلمانوں کو اس معاملے میں دیگر قوموں کی حمایت بھی حاصل ہو رہی ہے۔ سکھوں کے ایک جتھے نے متاثرہ علاقوں میں مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعہ سے ہمیں دکھ ہوا ہے ہم مسلمانوں کے ساتھ ہیں۔ ایک دوسرے نوجوان نے کہا کہ کچھ یاتریوں کے استقبال کے لیے روڈ خالی کرائے جاتے ہیں ان پر پھولوں کی برسات ہوتی ہے وہیں دوسرےلوگوں پر لاتیں چلائی جا رہی ہیں۔
یو پی کے شاہ جہاں پور سے ایک دل دہلانے والی خبر سامنے آئی ہے جہاں طاہر نام کے ایک شخص نے پولیس کی حیلہ حوالی سے تنگ آکر پولیس کپتان کے دفتر میں خود کو آگ لگا لی۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق متاثرہ شخص کا ویڈیو وائرل ہوتے ہی سرکاری عملہ حرکت میں آگیا اور علاج کے لیے لکھنو ریفر کر دیا۔ ذرائع کے مطابق متاثرہ شخص کی بولیرو گاڑی تقریبا پانچ ماہ پہلے چوری ہو گئی تھی جو اس کے خاندان کی گزر بسر کا واحد ذریعہ تھی جس کی رپورٹ تھانے میں درج ہے۔ متاثرہ شخص نے اپنی گاڑی حاصل کرنے کے لیے پولیس تھانوں کے چکر لگائے اور جب کہیں سنوائی نہیں ہوئی تو انصاف سے نا امید ہو کر اس نے خود کو پولیس دفتر کے سامنے آگ کے حوالے کر دیا۔ اس دوران اس کے بچے پاپا پاپا پکار رہے تھے۔ متاثرہ شخص نے اپنے بیان میں علاقے کے دبنگ امیش کے ساتھ پولیس کی ساز باز ہونے کا الزام لگایا ہے ۔
دہلی کی پکوڑے بیچنے والی پروفیسر ریتو سنگھ کی خبر بھی سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر ریتو سنگھ دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر تھیں۔ان کا الزام ہے کہ دلت ہونے کے سبب انہیں نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔ اب وہ وزیراعظم مودی کی صلاح پر پکوڑے بیچ کر بے روزگاری کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں لیکن دہلی پولیس انہیں پکوڑے بھی نہیں بیچنے دے رہی ہے ان کے خلاف ایف آئی ار درج ہو گئی ہے ۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ دلچسپ اور تازہ حال احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر صلا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 مارچ تا 23 مارچ 2024