مرد اور عورت :برابری کا نظریہ
مہمان اداریہ
ڈاکٹر محی الدین غازی
مرد اور عورت ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں، اور دونوں مل کر زندگی کے سفر کو جاری رکھتے ہیں۔ اس طرح مرد وعورت میں اصل رشتہ تو مل جل کر زندگی گزارنے کا ہے، تاہم جہاں اجتماعیت ہوتی ہے، خواہ وہ کتنی ہی چھوٹی ہو، وہاں حقوق اور فرائض کی بحث کا چھڑنا ناگزیر ہے۔ مرد اور عورت کے درمیان حقوق وفرائض کی بحث زمانہ قدیم سے موجود رہی ہے۔ البتہ اس دور میں اس بحث کا آہنگ بہت بلند ہوگیا ہے۔
مرد وعورت کے سلسلے میں عام طور سے دو طرح کے رویے پائے جاتے ہیں، ایک مطلق مساوات کا نظریہ ہے، جو مرد اور عورت کے درمیان ہر طرح کے فرق کو مٹادینے کا قائل ہے، تمام تر زور لگانے کے بعد بھی فرق تو نہیں مٹتا، البتہ زندگی کشمکش اور معرکہ آرائی کا شکار ہوجاتی ہے۔اور دوسرا نظریہ مطلق تفریق اور نابرابری کا ہے، جو مرد کی برتری کو اس قدر بڑھادیتا ہے کہ دونوں کے درمیان تعلق ظلم وجبر کی علامت بن جاتا ہے، اور محسوس ہوتا ہے کہ دونوں شوہر اور بیوی نہیں، بلکہ آقا اور غلام ہیں۔ قرآن مجید نے ایک تیسری صورت بتائی ہے، اور وہ یہ ہے کہ حقوق اور فرائض کے معاملے میں مرد اور عورت یکساں ہیں، البتہ دونوں کے درمیان مطلق مساوات نہیں ہے، بلکہ مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ (صرف ایک درجہ) تفوق حاصل ہے۔ ’’ عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مردوں کے حقوق اُن پر ہیں البتہ مردوں کو اُن پر ایک درجہ حاصل ہے اور سب پر اللہ غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا موجود ہے۔‘‘ (البقرہ۲۲۸:)اس آیت میں مرد اور عورت کے درمیان مساوات کا ذکر بھی ہے، اور مرد کی فوقیت کا ذکر بھی ہے۔ البتہ مطلق فوقیت کی بات نہیں ہے، بلکہ ایک درجہ فوقیت کی بات ہے۔
مساوات اور تفوق کے اس مرکب میں خاندانی نظام کے لیے بڑی برکتیں پوشیدہ ہیں۔ تفوق آمیز مساوات کے اس اصول کو عملی طور پر برتنے کا طریقہ یہ ہے کہ مرد ہمیشہ مساوات کے پہلو پر نظر رکھے، اور گھر کے ہر معاملے میں عورت کو برابر کا مقام دے۔ دوسری طرف عورت مساوات کے پہلو کا ادراک رکھتے ہوئے بھی ہمیشہ اس ایک درجہ فرق پر نگاہ رکھے، اور جہاں تک ہوسکے اس ایک درجے کا لحاظ کرے۔ چونکہ فرق بہت تھوڑا ہے، اس لیے مرد کے لیے اسے نظر انداز کرنا اور برابری کی سطح پر رہ کر ازدواجی زندگی گزارنا کوئی مشکل کام نہیں ہے، خاص طور سے اگر عورت کی طرف سے اس کی ایک درجہ فوقیت کو برتنے کی فکر موجود ہو۔ اسی طرح عورت کے لیے برابری سے آگے بڑھ کر اس ایک تھوڑے سے فرق کی رعایت کرلینا بار خاطر نہیں ہوگا، خاص طور سے اگر مرد کی طرف سے اس سلسلے میں رعایت اور نرمی کا معاملہ ہو۔
جس فیملی میں مرد کی نگاہ فرق پر اور عورت کی نگاہ برابری پر ہوتی ہے، وہاں لازمی طور سے کشمکش ہوتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس اگر مرد برابری پر اور عورت فرق پر توجہ دے، تو زندگی بہت سہل اور رواں ہوجاتی ہے۔مرد وعورت کے تعلقات میں ناہمواری اور کشیدگی اس وقت آتی ہے جب مرد اپنی فوقیت کا بہت زیادہ فرق قائم رکھنا چاہتا ہے، جو بسا اوقات عورت کی طاقت اور آمادگی دونوں سے باہر ہوتا ہے۔ جب کہ عورت مکمل برابری قائم رکھنا چاہتی ہے جو بہت سے مردوں پر شاق گزرتی ہے، اور اس طرح حقوق وواجبات کی کشمکش گھر کو تباہ کرڈالتی ہے۔قرآن مجید کی یہ رہنمائی مرد وعورت کو ایک دوسرے سے بہت قریب کردیتی ہے، اور مل جل کر زندگی گزارنے کا سازگار اور عملی ماحول فراہم کرتی ہے۔