مدھیہ پریش کا سندیش: برے پھنسے شیوراج
وزیراعلیٰ سے منسوب آڈیو ٹیپ نے سیاسی طوفان برپا کردیا
ڈاکٹر سلیم خان
فلمی دنیا کے ایک مقبول اور کامیاب اداکار سوشانت سنگھ راجپوت نے پھانسی لگا کر خودکشی کرلی۔ ان کی لاش کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تاکہ موت کی وجوہات کا پتہ لگایا جاسکے۔ پھانسی کے پھندے سے لٹکی لاش کا پوسٹ مارٹم اس لیے بھی ضروری ہوگیا کہ راجپوت کے والد کواس پر شبہ ہے اور وہ سی بی آئی جانچ کا مطالبہ کررہے ہیں۔ پوسٹ مارٹم کے ذریعہ پولس زہر خوری کا شک دور کرنا چاہتی ہے حالانکہ اس خودکشی ایک صاف وجہ صاف سامنے آچکی ہے۔ ایکتا کپور کے ’پوتر رشتہ ‘ نامی سیرئیل سے شہرت حاصل کرنے والے سوشانت سنگھ راجپوت کی سابق منیجر دشا سالیان نے کچھ روز قبل ممبئی کے مالونی علاقہ کی ایک عمارت میں 14 ویں منزل سے کود کر خود کشی کر لی تھی۔ دشا سالیان نے اپنے منگیتر روہن رائے نامی اداکار اور ماڈل کے فلیٹ سے چھلانگ لگا کرموت کو گلے لگا لیا تھا۔ ان دونوں واقعات کو ملا کر دیکھا جائے تواس (سشانت کی مشہور فلم) ’ شدھ ہندی رومانس ‘ کی کڑیاں مل جاتی ہیں پھر بھی آخری رسومات سے قبل مختلف قیاس آرائیوں کے درمیان کوئی حتمی رائے قائم کرنے کے لیے ایک جدید تکنیک پوسٹ مارٹم کی مدد لینی پڑی۔
سیاسی تجزیہ میں بھی ایک پوسٹ مارٹم ہی ہے جس میں سیاستدانوں کے بیانات کو چیر پھاڑ کر ان کے ذہن تک رسائی کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح داخلی وجوہات کے ساتھ ساتھ خارجی اسباب بھی سامنے آجاتے ہیں۔ فی الحال مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج چوہان کا ایک مبینہ صوتی فیتہ پیش نظر ہے جس میں موصوف نے اس قاعدہ کلیہ کو فراموش کردیا کہ سیاست کی بنیاد اگر مکروفریب پر ہو تو اس میں سب سے بڑا نقصان سچ بولنے سے ہوتا ہے۔ مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ کو اگر اس حقیقت کا علم ہوتا تو وہ اندور کے ریسیڈنسی کوٹھی میں سانویر کے کارکنان کو خطاب کرتے ہوئے اپنے پیروں پر کلہاڑی چلانے کی غلطی نہیں کرتے۔ ایم پی میں اقتدار کی منتقلی کا گناہ اعلیٰ کمان کے سر منڈھ کر اپنی جان نہ چھڑاتے۔ ذرائع ابلاغ میں گردش کرنے والی ایک آڈیو کلپ میں وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کو مبینہ طور پر یہ کہتے ہوئےسنا گیا ہے کہ ’کانگریس سرکار کے وزیر اعلیٰ صرف دلالی کرتے ہیں۔ دگ وجئے سنگھ نے کچھ شعبے لے لیے تو کچھ انہوں (کمل ناتھ) نے۔ 6 ہزار کروڑ روپیوں کا قرض صرف کاغذ پر معاف کیا گیا‘‘۔
یہاں تک تو ٹھیک ہے۔ اپنے مخالفین کے بارے میں ساری سیاسی جماعتیں اس طرح کے الزامات لگاتی ہیں جو اکثر درست ہوتے ہیں لیکن اس کے آگے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ نے بڑی صاف گوئی کے ساتھ اپنے من کی بات اگل دی اور اس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ان کی یہ تقریر گویا کوزے کے اندر سمندر سموئے ہوئے ہے۔ سب سے پہلے تو یہ جان لینا ضروری ہے کہ انہوں نے کیا کہا اور پھر اس بات کا پتہ لگاناچاہیے کہ انہیں یہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کا پس منظر یہ ہے کہ مدھیہ پردیش میں جس وقت اقتدار کی تبدیلی کا عمل شروع ہوا تو کانگریس نے یہ الزام لگایا کہ کمل ناتھ کی اکثریت والی سرکار کو دولت کے سہارے خریدو فروخت کرکے گرانے کی غیر آئینی سازش بی جے پی کے مرکزی قیادت نے رچی ہے۔ بی جےپی نے اس کی تردید میں کہاتھا کہ کانگریسی ارکان اسمبلی کی بغاوت میں اس کا کوئی کردار نہیں ہے۔ یہ کانگریسیوں کی اپنی پارٹی کے خلاف بے چینی کا نتیجہ ہے۔ جیوترادتیہ سندھیا اپنے اعلیٰ کمان سے نااتفاقی کے سبب الگ ہوئے اور ان کے حامیوں نے بھی پارٹی چھوڑ دی۔ یہ آڈیو بی جے پی کے اس دعویٰ کی دھجیاں اڑ اتا ہے۔
شیوراج سنگھ فرماتے ہیں ’’ پورے صوبے میں دہشت کا رقص کیا جارہا تھا۔ ہمارے کارکنان اور نظریات کو کچلنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ تب مرکزی قیادت نے طے کیا کہ حکومت گرنی چاہیے، نہیں تو یہ سب کچھ برباد کر دے گی‘‘۔ اس بیان میں جہاں حکومت گرانے کا فیصلہ کرنے کی مکمل ذمہ داری مرکزی قیادت پر ڈالی گئی ہے وہیں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ کانگریس نے بی جے پی کو دہشت زدہ کررکھا تھا۔ مدھیہ پردیش وہ صوبہ ہے جہاں بی جے پی نے ناتھو رام گوڈسے کی مداح پرگیہ ٹھاکر جیسی دہشت گردی کی ملزمہ کو کامیاب کرکے ایوان پارلیمان میں بھیجا۔ اس بی جے پی کا کانگریس کی صوبائی حکومت سے دہشت زدہ ہوجانا بےمعنیٰ ہے۔ موجودہ دور میں سیاستداں چونکہ سر سے پیر تک بدعنوان ہوتے ہیں اس لیے جب اقتدار چھن جاتا ہے تو مخالفین ان کے بدعنوانی کی تفتیش کرنے لگتے ہیں۔ یہ سیاستدانوں کے خوفزدہ ہونے کی بنیادی وجہ ہوتی ہےاور بی جے پی کے ساتھ یہی ہورہا تھا لیکن عوام کو گمراہ کرنے خاطر اس نے اسے نظریات کو کچلنے کا نام دیا۔ ہندوستانی سیاست بھی سوشانت سنگھ راجپوت کی مانند نظریاتی موت مرچکی ہے اب کوئی کسی کے نظریہ کو نہیں کچلتا اس لیے کہ اس کی ضرورت ہی نہیں رہی ہاں اپنے انتخابی فائدے کے لیےنظریات کو اچھالا ضرور جاتا ہے۔
کوئی سیاستداں جب یہ کہتا ہے کہ ’نہیں تو یہ سب برباد کردیں گے ‘ تو ایک بھولا بھالا عام آدمی اس کا مطلب یہ لیتا ہے کہ وہ ملک کو برباد کردیں گے لیکن سیاست کی فرہنگ میں اس کے الگ معنیٰ ہیں۔ ہمارے سیاسی رہنماؤں کو عوام کی فلاح وبہبود یا ملک کی آبادی وبربادی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس جملے سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ برسوں کی محنت سے عوام کو جو بہلا پھسلا کر ساتھ لیا گیا ہے وہ انہیں دور کردیں گے۔ اس طرح دوبارہ اقتدار میں آنا مشکل ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ شیوراج نے نظریات کے ساتھ کارکنان کو کچلنے کی شکایت بھی کی۔ یہ کسی بھی جماعت کے لیے ’کرو یا مرو ‘ کی صورتحال ہوتی ہے اور ایسے میں انہیں مخالفین کی سرکار گرانے اور اپنی حکومت بنانے کے لیے مجبور ہونا پڑتا ہے۔ اس حقیقت کا برملا اعتراف کرتے ہوئے شیوراج سنگھ چوہان نے اپنے کارکنان سے التجا کی ’’مجھے بتاؤ کہ کیا جیوترادتیہ سندھیا اور تلسی بھائی کے بغیر حکومت گر سکتی تھی؟ کوئی طریقہ نہیں تھا‘‘۔ اس سے ظاہر ہے کہ اگر انتخاب جیت کر اقتدار میں آنا ممکن ہوتا تو اس کی ضرورت نہیں پیش آتی۔ ووٹ کے ذریعہ حاصل ہونے والی ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کے لیے کوئی راستہ نہیں تھا اس لیے نوٹ کا سہارا لینے پر مجبور ہونا پڑا۔
اس عجیب وغریب سیاسی مجبوری نے بازی الٹ دی۔ ڈیڑھ سال قبل جس کو ہرانا ضروری تھا اب اس کو کامیاب کرنا لازمی ہوگیا۔ ہار جیت تو خیر ایک کھیل تماشہ ہے جس کا مقصدِحقیقی اقتدار کا حصول ہے۔ کل تک جو کرسی تلسی سلاوٹ کو ہرانے سے حاصل ہوتی تھی آج جتوانے سے ملتی ہے اس لیے وزیر اعلیٰ فرماتے ہیں ’’ سلاوٹ کو ہر حال میں کامیاب کرنا ہے۔ میں ایمانداری سے کہہ رہا ہوں، تلسی بھائی نے ایک منٹ میں وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ آپ ہی بتاؤ کہ اگر تلسی نہیں جیتے تو کیا میں سی ایم (وزیر اعلیٰ) رہوں گا۔ کیا بی جے پی کی حکومت باقی رہے گی ‘‘۔ عام طور پر سیاستداں دوسروں کے کام کا سہرہ بھی اپنے سر باندھ لیتے ہیں لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخر اتنے بڑے کارنامے سے شیوراج اپنا دامن کیوں چھڑا رہے ہیں؟ انہوں نے حکومت گرانے کا دشنام مرکز کے سر منڈھنے کی کوشش کیوں کی؟ کانگریس سے الگ ہونے والے اراکین اسمبلی کی تعداد ایک تہائی سے زیادہ ہوتی تو اس کی ضرورت پیش نہیں آتی اس لیے کہ دل بدلی قانون کے تحت انہیں اسمبلی کی رکنیت سے ہاتھ نہ دھونا پڑتا اور ضمنی انتخاب کی نوبت نہیں آتی لیکن چونکہ اب یہ مرحلہ درپیش ہے اور اس میں دوستوں کے بجائے دشمنوں کی حمایت کرنی پڑ رہی ہے اس لیے شیوراج کو ناک رگڑنا پڑ رہا ہے۔
قومی انتخاب میں شکست فاش سے دوچار ہوجانے کے بعد جیوترادتیہ سندھیا کی حیثیت ایک پٹے ہوے مہرے کی سی ہوگئی تھی۔ کمل ناتھ کے دباؤ میں کانگریس اعلیٰ کمان ان کو ایوان بالا کا رکن بنانے کے موڈ میں نہیں تھا۔ اس لیے ان کے پاس گنوانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ سندھیا کو راجیہ سبھا کی ممبر شپ عطا کرکے بی جے پی نے ان کا بھلا کردیا لیکن حامی ارکان اسمبلی کی رکنیت چلی گئی اور دو کو تو وزارت بھی گنوانی پڑی۔ آگے کے مرحلے میں پہلے تو ان بیچاروں کو انتخاب لڑ کر اسمبلی میں جانا ہے اور پھر سرکار دربار سے کمانا دھمانا ہے۔ اس لیےکہ فی الحال سیاست بازی کا واحد مقصد یہی ہوتا ہے۔ جیوترادیتیہ سندھیا کی ایک آڈیو کلپ میں اشوک نگر کی سابق کارپوریٹر انیتا جین اپنی بہو کے لیے ٹکٹ کی دہائی دیتے ہوئے پچاس لاکھ رشوت کی پیشکش کرتی ہیں۔ وہ لوگ جو اتنی بڑی رقم خرچ کرکے ٹکٹ لیتے ہیں اور اس سے کئی گنا زیادہ تشہیر پر خرچ کے انتخاب میں کامیابی درج کراتے ہیں تو کیا ان کے لیے ممکن ہوگا کہ وہ بدعنوانی میں ملوث نہ ہوں۔ اس پر تو کانگریس ان پر مقدمہ درج کروانے کے لیے کمر بند ہے۔
اس ویڈیو میں انیتا جین روتے ہوئے ایک فرد کا نام لے کر کہتی ہیں فلاں شخص ہر انتخاب میں قتل کرواتا ہےتو سندھیا تائید میں کہتے ہیں انہیں اس کا علم ہے۔ یہ نہایت سنگین پہلو ہے کہ رکن پارلیمان کو اس کا علم ہو مگر وہ ایسے قاتل کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرے۔ آگے اپنی معذوری کا اظہار کرتے ہوئے جیوترادتیہ کا یہ کہنا کہ کانگریس کے صدر نے ان تمام لوگوں کو ٹکٹ دینے کا حکم دیا ہے کہ جو پانچ ہزار سے کم کے فرق سے ہارے تھے یہ پیغام دیتاہے کہ جیوترادتیہ کی ناراضی کی وجہ صرف ایوانِ پارلیمان کے ٹکٹ سے محرومی نہیں بلکہ اور بھی کچھ ہے۔ فی الحال صورتحال یہ ہے کہ مدھیہ پردیش کی 24نشستوں پر منعقد ہونے والے ضمنی انتخاب میں 22 سابق کانگریسیوں کو بی جے پی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنا ہے۔ اس مرحلے میں بی جے پی کے مقامی رہنماؤں کی دو مشکلات ہیں۔ پہلی تو یہ کہ ان کا اپنا ٹکٹ ازخود کٹ گیا اور دوسری یہ کہ اب انہیں ایسے لوگوں کی حمایت کرنی ہوگی جن کی پہلے مخالفت کرتے رہے ہیں۔ وہ کس منہ سے ایسے لوگوں کے لیے ووٹ مانگنے کی خاطر عوام میں جائیں گے جن کی ماضی میں مخالفت کرتے رہے تھے۔ ایسے میں پارٹی کارکنان کے اندر بے چینی لازم ہے اور زمینی سطح کے پارٹی کارکنان کو ناراض کرکے کوئی پارٹی زندہ نہیں رہ سکتی۔
شیوراج چوہان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ان کارکنان کو بہلانے پھسلانے کاہے۔ چوہان اپنے کارکنان کی اس حق تلفی کو مرکز کے سرتھوپ رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ ہاتھ جوڑ کر شرمناک انداز میں کارکنان سے سوال کرتے ہیں ’’ مجھے بتاؤ کہ کیا جیوترادتیہ سندھیا اور تلسی بھائی کے بغیر حکومت گر سکتی تھی؟ کوئی طریقہ نہیں تھا۔ ‘‘ یعنی اگر کوئی اور متبادل موجود ہوتا تو وہ ایسی غلطی نہیں کرتے۔ اب چونکہ ان کا ساتھ لے ہی لیا ہے تو اسے نبھانا بھی پڑے گا۔ کل تک جس جیوترادتیہ کو برا بھلا کہتے تھے اب اس کی تعریف وتوصیف کرنی ہی ہوگی۔ جس تلسی سلاوٹ کی کل تک ٹانگ کھینچی جاتی تھی اب اس کو سر پر بٹھانا ہوگا اس لیے کہ اب وہ کمل دھاری ہوگیا ہے۔ تلسی سلاوٹ کے بارے میں شیوراج نے کہا کہ انہوں نے بغیر پس وپیش کے استعفیٰ دے دیا ظاہر ہے یہ عمل کسی پیشکش کے بغیر نہیں ہوا ہوگا۔ اس کاثبوت یہ ہے سابق وزیر صحت کا عہدہ نئی کابینہ میں بھی بحال ہوگیا۔ اس سلاوٹ کی موقع پرستی دیکھیں کہ جیوترادتیہ کے اشارے پر جان نچھاور کرنے والے نے انہیں اپنے پوسٹر سے غائب کردیا ہے۔ اندور ضلع کے کڑانہ گاوں میں لگے سلاوٹ کے پوسٹر میں کم ازکم آدھا درجن بھاجپائیوں کی تصاویر ہیں لیکن کسی کونے میں بھی جیوترادتیہ کا چہرہ موجود نہیں ہے۔
بی جے پی کے لیے سندھیا کی ضرورت اب ختم ہوچکی ہے اور انہیں ٹائلیٹ پیپر کی مانند پھینکنے کی تیاری چل رہی ہے۔ جیوترادتیہ سندھیا کے ستارے ویسے ہی گردش میں ہیں اور وہ اپنی والدہ کے ساتھ دہلی کے میکس اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ان کے اندرتو کورونا کی علامات بھی ظاہر ہوگئی ہیں لیکن والدہ میں نہیں جبکہ دونوں کی رپورٹ پوزیٹیو ہے۔ کورونا سے متاثرین کے معاملے میں اندور ہندوستان کا ساتواں بڑا شہر ہے جہاں 3 ہزار سے زیادہ مریض ہیں۔ اس کے باوجود وزیر اعلیٰ کو کبھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہاں جاکر عوام کے مسائل جانیں اور کورونا کی روک تھام کے کاموں کا جائزہ لیں۔ شیوراج نے اندور کا پہلا دورہ فلاحی نہیں بلکہ سیاسی مقصد سےکیا۔ انہیں عوام کی نہیں بلکہ بی جے پی امیدوار کو کامیاب کرکے اپنی کرسی بچانے کی فکر لاحق ہے کیونکہ اگر 22 میں سے نصف بھی ہار گئے تو اقتدار خطرے میں پڑجائے گا اور کسی وزیر کے لیے یہ کورونا سے بڑاعذاب ہے۔
بی جے پی کے اندر بغاوت کے سرُ صاف سنائی دینےلگے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ کیلاش جوشی کے بیٹے دیپک جوشی نے پھر سے یہ بات کہی ہے کہ ان کے سامنے سارے متبادل کھلے ہیں۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ اگر کانگریس ٹکٹ دیتی ہے تو وہ اسے بسر وچشم قبول کرلیں گے۔ دیپک جوشی کا دعویٰ ہے کہ وہ پچھلا انتخاب ہارے نہیں بلکہ انہیں سازش کرکے ہرایا گیا ہے اور پارٹی کے اندر جن لوگوں نے ان پیٹھ میں چھرا گھونپا ان کی پیٹھ سہلائی جارہی ہے۔ دیپک کا کہنا ہے کہ وہ طواف کرنے والے نہیں بلکہ کشمکش کرنے والے رہنما ہیں اور کارکنان کی خاطر لڑنا اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ گوالیار کے ایک اور براہمن رہنما انوپ مشرا کا درد بھی کیلاش جوشی سے مختلف نہیں ہے۔ اس سابق وزیر کو کانگریس سے زیادہ شکایت خود اپنی پارٹی سے ہے جس نے دھوکہ دے کر انتخاب ہروا دیا۔ اس بار جوشی کو پارٹی اس امیدوار کی حمایت پر مجبور کررہی ہے جس نے انہیں ہرایا تھا۔ بی جے پی کے معمر رہنما ڈاکٹر گوری شنکر شیجوار بھی پارٹی سے ناراض چل رہے ہیں۔ ان کے بیٹے مودت شیجوار کو گزشتہ انتخاب میں کانگریس کے ڈاکٹر پربھو چودھری نے شکست دی تھی۔ اس بار اول تو بیٹے کا ٹکٹ کٹ گیا اور اوپر سے اپنے حریف کو کامیاب کرنا ڈاکٹر گوری شنکر کے لیے بہت بڑی آزمائش ہے۔
بی جے پی کے ایک بڑے رہنما جئے بھان سنگھ پوویا بھی بہت بڑی مشکل میں ہیں۔ انہوں نے اپنی سیاست کی شروعات ہی سندھیا راج گھرانے کی مخالفت سے کی تھی۔ ان کا دھرم سنکٹ یہ ہے کہ اس بار وہ سندھیا کے پالے میں ہیں۔ ویسے تو وہ کہہ رہے ہیں کہ ضمنی انتخاب میں کانگریس کو سانس بھی نہیں لینے دیں گے مگر برسوں سے پارٹی کے لیے جد وجہد کرنے والے مخلص کارکنان کی عزت نفس کا خیال کرنا بھی لازمی ہے۔ جئے بھان سنگھ پوویا نے سرکاری افسران کے اوپر نزلہ گراتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وہ ابھی تک پرانی سرکار کے اثرات سے نہیں نکلے ہیں۔ ان کو اس بھرم سے نکل جانا چاہیے کیونکہ اب بی جے پی کی حکومت آگئی ہے۔ جئے بھان سنگھ کو یہ سوچنا چاہیے کہ بی جے پی نے پندرہ سال حکومت کی اس کے باوجود ایک سال کے اندر سرکاری افسران اس کے اثر سے نکل کر کانگریس کے اثر میں کیسے چلے گئے اور اب واپس کیوں نہیں ہورہے ہیں؟آخر بی جے پی کا زعفرانی رنگ اتنا ہلکا کیوں ہے؟
اس کی و جہ بی جے پی کی ابن الوقتی ہے۔ 2018 کے اواخر میں جولوگ دشمن تھے ان کو جس آسانی کے ساتھ اس نے اقتدار کی خاطر گلے لگا لیا ہے اس سے سنگھ کی شاکھا میں بچپن سے تربیت حاصل کرکے پارٹی کی خاطر اپنی جان نچھاور کرنے والے وفادار کارکنوں کو مایوسی ہوئی ہے۔ کانگریس سے غداری کرکے آنے والے موقع پرستوں کی حمایت ان کے لیے مشکل ہورہا ہے۔ اس طرح کے منافقت کا اچھا تاثر نہیں ہوتا۔ یہ لوگ اپنے آپ کو ہریش چند اور مخالفین کو جئے چند کہتے ہیں لیکن کرناٹک اور مہاراشٹر کے بعد پھر ایک باریہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ ان سے بڑا موقع پرست کوئی اور نہیں ہے۔ اس لیے ان کی عزت واحترام خاک میں مل گیا ہے۔ جیوترادتیہ سندھیا کےاشارے پر آنکھ بند کرکے کنوئیں میں کودنے والی امرتی دیوی نے بی جے پی کےدھرمیندر بگھیل نامی کارکن کوگھور کر دیکھا تو اس نے ڈبرہ پولیس سے تحفظ مانگ لیا۔ بگھیل کی یہ حرکت بزدلی اور ناراضی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ ایسی کئی مثالیں مدھیہ پردیش میں وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کو جگہ جگہ منہ چِڑا کرکہہ رہی ہیں ’برے پھنسے سرکار!‘
عام طور پر سیاستداں دوسروں کے کام کا سہرہ بھی اپنے سر باندھ لیتے ہیں لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخر اتنے بڑے کارنامہ سے شیوراج اپنا دامن کیوں چھڑا رہے ہیں؟ انہوں نے حکومت گرانے کا دشنام مرکز کے سر منڈھنے کی کوشش کیوں کی؟