ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی
جمہوریت کی بابت جن لوگوں کو یہ خوش فہمی ہے کہ اس میں اقتدار کی باگ ڈور عوام کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور وہ اپنے منتخبہ نمائندوں کی مدد سے حکومت کرتے ہیں، ایسے لوگوں کو مدھیہ پردیش کی رکن اسمبلی امرتی دیوی کا بیان دیکھ لینا چاہیے۔ یہ کوئی سنی سنائی بات نہیں ہے ۔ ان خیالات کا برملا اظہار محترمہ نے بھاسکر اخبار سے فون پر بھی کیا جس کی ریکارڈنگ موجود ہے اور اے بی پی چینل کے کیمرے میں بھی قید ہے۔ امرتی دیوی کی داستان اس طرح شروع ہوتی ہے کہ ’’میں تو ہولی کا تہوار منانے کے لیے اپنے میکے گئی تھی‘‘۔ بھارتیہ ناری کے نزدیک تہوار اور اس پر میکے کی جو اہمیت ہوتی ہے اس سے ہر کس و ناکس واقف ہے۔ ’’میرے پاس اچانک فون آیا کہ مہاراج کا آدیش (حکم) ہوا ہے ۔ تتکال (فوراً) گوالیار پہنچیے‘‘۔ اس جملے میں مہاراج اور آدیش کے الفاظ غور طلب ہیں ۔ کیا بادشاہت کے زمانے میں اس طرح کی القاب و آداب اور درباری زبان میں گفتگو نہیں ہوتی تھی؟
امرتی دیوی آگے فرماتی ہیں ’’ میں نے پوچھا ایسی کیا بات ہوگئی ۔ مجھے بتایا گیا کہ آپ تو گوالیار پہنچ جائیے، وہاں سب بتا یا جائے گا‘‘۔ اس میں کمال راز داری اور عدم اعتماد کا اشارہ پوشیدہ ہے کہ اگر وجہ بتادی جائے تو کہیں وہ افشاء نہ ہوجائے مبادا بنا بنایا کھیل بگڑ جائے۔ وہ کہتی ہیں تعمیل ارشاد میں ’’ہم تتکال گوالیار کے لیے روانہ ہوگئے‘‘۔ اس کو کہتے ہیں بلا چوں چرا اطاعت جوگزرے زمانے میں راجہ مہاراجہ کی بھی نہیں ہوتی ہوگی ۔ دورانِ سفر کی سرگرمی کو یوں بیان کرتی ہیں کہ ’’راستے میں مہاراج پر آستھا ( عقیدت) رکھنے والے ودھایک (رکن اسمبلی ) اور منتریوں (وزراء) کو فون لگایا تو سب کو اتنا ہی پتہ تھا جتنا ہمیں فون پر بتایا گیا تھا ‘‘ ۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ عدم اعتماد کا معاملہ کسی فردِ خاص کی ذات تک محدود نہیں تھا بلکہ بلا تفریق و امتیاز سارے وفاداروں سے رازداری برتی جارہی تھی ۔
امرتی دیوی کا بیان جاری ہے’’ دو گھنٹے میں ہم گوالیار آگئے ۔ یہاں پر کہا گیا کہ ضروری کام سے دلی چلنا ہے لیکن کارن (وجہ) یہاں بھی نہیں بتایا ۔ ائیرپورٹ سے فلائیٹ میں بیٹھ کر سیدھے گڑگاوں پہنچے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گوالیار تو صرف لوگوں کو جمع کرکے دہلی لے جانے کے لیے بلایا گیا تھا۔ وہاں پر بھی یہ بتانے کی ضرورت نہیں محسوس کی گئی کہ قصدِ سفر کا مقصد کیا ہے؟ اس کے باوجود سارے لوگوں کا کسی پس و پیش کے بغیر تیار ہوجانا ثابت کرتا ہے کہ آنکھ میچ کر پیروی کرنے والے اندھے بھکت کسی مخصوص سیاسی جماعت کی اجارہ داری نہیں ہے بلکہ ایسی بھیڑیں ہر جگہ پائی جاتی ہیں۔ اس سے وفادار کانگریسیوں کے اس الزام کی تصدیق ہوتی ہے کہ باغیوں کودھوکہ دے کریرغمال بنایا گیا اور پھر سونے کے پنجرے میں قید کردیا گیا۔
امرتی نے آگے بتایا ’’یہاں (گروگرام میں ) مہاراج آئے ۔ اس دوران کچھ بھاجپا(بی جے پی) کے نیتا بھی تھے۔ مہاراج نے پہلے اپنے نرنیہ (فیصلے) کے بارے میں بتایا ۔ اس کے بعد صرف مہاراج کے ودھایک (ارکان اسمبلی ) اور منتری (وزیر) رہ گئے‘‘۔ یعنی ان ارکان اسمبلی کی شناخت مدھیہ پردیش کے ان رائے دہندگان سے نہیں ہے جن لوگوں نے ان کو منتخب کرکے بھیجا ہے بلکہ یہ مہاراج کے ودھایک ہیں ۔وزیر ہونے کے باوجود مدھیہ پردیش کی حکومت سے ان کاتعلق نہیں ہے بلکہ وہ مہاراج کے وفادار وزیر ہیں ۔ عوام اور حکومت کی حیثیت ثانوی ہے اور پارٹی کی تو سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔
امرتی دیوی کے مطابق ’’مہاراج نے مجھ سے پوچھا کہ آپ استعفیٰ دیں گی ، کوئی دقت تو نہیں آئے گی؟ میں نے کہا : تیرا تجھ کو ارپن (قربان) ، میرا کیا لاگے(لگے) میں نے کہا مہاراج سب آپ کا ہی ہے ‘‘۔ اس جملے کا منظوم ترجمہ غالب کے اس مصرع کے مطابق ہوگا کہ ’’جان دی ، دی ہوئی اسی کی تھی‘‘۔امرتی دیوی کی اس عقیدت کا جوابی منظر بھی ملاحظہ فرمائیں ’’ یہ سنتے ہی مہاراج نے مجھے گلے لگالیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ۔ ان کے آنسو ٹپکے تو میں نے ان سے کہا کہ آپ نشچت ( مطمئن) رہیے۔ آپ کہیں گے ہم کنوئیں میں کودنے میں بھی ایک پل نہیں سوچیں گے ‘‘۔ اس کے منظر نامہ آگے تو بالی ووڈ کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ہندی زبان میں امرتی ایک صحت مند قسم کی جلیبی کو کہتے ہیں ۔ امرتی دیوی کے اس عقیدت سے شرابور بیان کو سن کر تو جیوترآدتیہ کو امرتی نامی مٹھائی بھی پھیکی لگی ہوگی ۔
امرتی دیوی کے بقول ان جذبات سے متاثر ہوکر ’’مہا راج نے سبھی کے سامنے مجھ سے کہا کہ یہ میرا شیر ہے ‘‘۔ جیوتر آدتیہ خوشی کے مارے امرتی دیوی کی جنس بھول گئے ورنہ شیرنی کہتے لیکن جب کوئی انسان خوشی سے پھولا نہ سمائے تو اس سے چھوٹی موٹی غلطی سرزد ہوجاتی ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ ’’ اس کے بعد انہوں نے ایک ایک کرکے سبھی ودھایکوں (ارکان اسمبلی) اور منتریوں (وزراء) سے پوچھا ‘‘۔ گویا فرداً فرداً بیعت کی تجدید عمل میں آئی۔ ’’ سبھی نے ایک پل سوچے بغیر استعفے کے لیے ہاں کردی‘‘ ۔ یعنی بلا شرط اطاعت گزاری بھی کسی فردِ خاص تک محدود نہیں تھا بلکہ اس معاملے میں سارے ایک ہی تھیلی کے چٹےّبٹے تھے۔ یہاں پر غور طلب پہلو یہ ہے کہ جہاں جیوترآدتیہ پر ان کےعقیدتمندوں نے کمال اعتماد کا اظہار کیا وہیں مہاراج نے ان پر بالکل بھروسہ نہیں کیا۔
جیوترآدتیہ نے ان ارکان اسمبلی سے استعفیٰ کی بات تو کی لیکن یہ نہیں بتایا کہ دو دن بعد وہ بی جے پی میں چلے جائیں گے اور نہ تو ان سے یہ پوچھنے کی زحمت گوارہ کی کہ اس صورت میں کیا وہ ان کے ساتھ پارٹی بدلیں گے ؟ بہت ممکن ہے کہ اس سوال پر اختلاف ہوجاتا اس لیے انہوں نے اس بابت مکمل خاموشی اختیار کی ۔ حیرت اس بات پر ہے کہ حاضرین محفل میں سے کسی کے اندر یہ پوچھنے کی جرأت نہیں تھی کہ استعفیٰ دے دینے کے بعد آپ کیا کرنے والے ہیں اور ہمیں کیا کرنا ہوگاَ ؟ ان لوگوں کے دل میں یقیناً اپنے مستقبل کے حوالے سے کئی خدشات ابھرے ہوں گے ۔ فی الحال جیوتردتیہ نہ تو دارالعوام کے رکن ہیں اور نہ کانگریس پارٹی ان کو ایوان بالا کا ٹکٹ دے رہی ہے اس لیے ان کے پاس گنوانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
بی جے پی میں چلے جانے سے جیوترآدتیہ نہ صرف ایوان بالا کے رکن بن جائیں گے بلکہ انہیں وزارت سے بھی نواز دیا جائے گا اس لیے ان کے تو دونوں ہاتھوں میں لڈو ہوں گے لیکن ان بیچاروں کا کیا ہوگا؟ استعفیٰ دینے کے بعد سب سے پہلے تو اسمبلی میں ان کی رکنیت ختم ہوجائے گی ۔ اس کے بعد جب ضمنی انتخابات ہوں گے تو یہ ضروری نہیں ہے کہ بی جے پی اپنے مقامی ارکان پر ان کو ترجیح دے کر انہیں ٹکٹ سے نواز ے ۔ اس لیے کہ اپنی سودے بازی وہ خود نہیں کوئی اور کررہا تھا جو بلا کا خود غرض ہے۔ بفرضِ محال بی جے پی ان کو ٹکٹ دے بھی دیتی ہے تو یہ ضروری نہیں ہے کہ زمینی سطح پر کام کرنے والے رہنما اور کارکنان ان کو اپنا کر ساتھ دیں۔ انتخاب کا آخری فیصلہ رائے دہندگان کے ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ بی جے پی کا وہ ووٹر جو کل تک ان کو اپنا دشمن سمجھتا تھا آج دوست سمجھ حمایت کردے ۔
ایسے بے شمار سوالات ان ارکان اسمبلی کے ذہن میں آئے ہوں گے لیکن کس کی مجال تھی کہ وہ زبان کھول کر استفسار کرتا ۔ کوئی تو خوف کھا گیا ہوگا اور کسی کے پیروں میں مصلحت زنجیر بن گئی ہوگی۔ کیا ایسے ڈرپوک نفس کے بندوں سے عوام کسی فلاح بہبود کی توقع رکھ سکتےہیں لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ انہیں لوگوں کو اپنا نمائندہ بنانے کے لیے مجبور کیوں ہیں؟ اور کس جابرانہ سیاسی نظام نے ان کی یہ حالت بنا رکھی ہے۔ اپنے مہاراجہ کو وفاداری کی یقین دہانی کرانے کے بعد کیا ہوا یہ بھی امرتی دیوی کی زبانی سنیے ’’ اس کے بعد ہم لوگوں کو بنگلورو کی فلائیٹ میں بٹھا دیا گیا‘‘ ۔ اس جملے کو پڑھنے کے بعد ایسا نہیں لگتا کہ یہ کوئی انسان ہے بلکہ گویا روبوٹ ہے کہ جس کو ریموٹ کنٹرول کے ذریعہ بلایا گیا تو وہ بنا جانے ’’کچے دھاگے میں بندھے‘‘ آئے۔ جن سے پوچھا گیا تو سب نے نندی بیل کی مانند سر ہلا دیا اور اس کا انعام ’’ہم بنگلورو کے ہوٹل میں ہیں‘‘۔
بنگلورو کے اس عالیشان تفریح گاہ میں جس کی ہر کوٹھی کا کرایہ یومیہ پچاس ہزار روپئے ہے۔ جس میں ان صوبوں کے نمائندوں کو ٹھیرایا گیا ہے جہاں کے لوگوں کی ماہانہ اوسط آمدنی ۸ ہزار سے کم ہے۔ ان نمائندوں کو اپنے رائے دہندگان سے کوئی سروکار نہیں ہے ان کا کہنا تو یہ ہے’’ سندھیا جی نے کانگریس چھوڑی تو ہم سبھی نے استعفے لکھ دیئے۔ اب مہاراج کا جو بھی آدیش (حکم) ہوگا ، اس کا ہم پالن (عمل) کریں گے‘‘ ۔ کہاں ہے رائے دہندگان اور ان کی مرضی پر چلنے کا کھوکھلا دعویٰ ’’ ابھی تو مہاراج نے کہا ہے کہ آپ کو جب ہم کہیں گے ، تبھی بنگلور سے نکلنا‘‘۔ یعنی عوام تو دور گھر پریوار کا خیال بھی بعد میں آئے گا سب سے آگے مہاراج کا آدیش ۔ کیا یہی ہے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت؟ امرتی دیوی کی یہ حکایت ہمارے جمہوری نظام کا آئینہ ہے ۔ اس طرح کے حقائق کی پردہ پوشی کے لیے جھنجھلا کر یہ سوال کر دیا جاتا ہے کہ ’’کیا آپ اس ملک میں بھی بادشاہت ، فسطائیت، یا آمریت چاہتے ہیں ؟ ‘‘ ۔ ایسا کرنے والوں کو کہ ٹھنڈے دماغ سے غور کرنا چاہیے کہ کیا ان تینوں کے علاوہ کوئی سیاسی متبادل موجود نہیں ہے؟ اور اگر نہیں ہے تو ان میں اور جمہوریت میں عملی فرق کیا ہے؟ ان دونوں سوالات پر سنجیدگی کے ساتھ غورو خوض کیا جائے تو نظر سیدھا اسلامی نظام سیاست پر جاکرٹھیرتی ہے جو عالم انسانیت کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔