’’مجھے مسلمانوں کی اس اچھائی پر بہت غصہ آتا ہے‘‘
بدنام کیے جانے کے باوجود مسلمانوں کے جذبہ انسانیت سے متاثر ایک برادر وطن کے تاثرات
سنتوش شندے
ملک میں کہیں بھی کوئی دہشت گردانہ حملہ ہو، یافسادات ہورہے ہوں تواس کے درپردہ حقائق کا پتہ لگائے بغیر ہی لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال آتا ہے کہ یقیناً یہ سب کچھ مسلمانوں کا کیا دھرا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم سماج کی شبیہ کو بہت زیادہ بدنام کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو نہایت ہی کمتر تصور کیا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ نفرت کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ مسلمان بقرعید اور رمضان کی عید مناتے ہیں ان تہواروں کے علاوہ ملک کایہ سماج سال بھر دوسروں کی طرف سے برا بھلا سنتا اور نفرتوں کو برداشت کرتا رہتا ہے۔
لیکن ملک میں جب کہیں کوئی آسمانی یا زمینی آفت آتی ہے یا کوئی اور مصیبت آتی ہے تواس وقت ملک کے مسلمان سب کچھ بھول بھال کرانسانیت کے ناطے فوری مدد کے لیے پہنچ جاتے ہیں جب کہ سال بھر ان کے ساتھ اہانت آمیز رویہ اختیار کیا گیا ہوتا ہے لیکن وہ پھر بھی مصیبت کے وقت میں سب کی مدد کے لیے آگے آتے ہیں۔وہ سب کچھ برداشت کرکے ہر جگہ دوسروں کی مدد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر کوروناوائرس کو ہی لیجیے، اگرچہ یہ چین سے آیا ہے لیکن ہندوستان میں یہ افواہ پھیلائی گئی کہ کورونا لانے اور پھیلانے میں مسلمانوں کا حصہ ہے۔ اس بات کو اس قدر پھیلایا گیا کہ لوگ مسلمانوں سے دور ہوگئے۔ ان کے پاس سے سامان بھی خریدنے سے گریز کرنے لگے۔اتنی نفرت اور غصہ کا گھونٹ بھی مسلمان آسانی سے پی گئے ۔
لیکن جب کورونا وائرس سے فوت ہونے والے ہندوؤں کی میتوں کو ان کے رشتہ دار بھی ہاتھ لگانے سے ڈر رہے تھے بلکہ بعض مقامات پر تو وہ میتوں کو لاوارث چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے اس وقت مسلمان ہی تھے جنہوں نے آگے بڑھ کر ان کی آخری رسومات انجام دیں۔ ہندوؤں کے علاوہ دیگر مذاہب کے کوویڈ سے مرنے والوں کی آخری رسومات بھی مسلمانوں نے ادا کیں۔ اس کے علاوہ مہارشٹر میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ مراٹھا مورچہ ہو یا دستور سے متعلق مورچہ ہو ان تمام مورچوں میں شامل ہزاروں افراد کو پانی پلانے میں مسلمان ہی پیش پیش رہے۔
میں بچپن سے مذہبی نفرت پھیلانے والوں سے یہ سنتا آرہا ہوں کہ مسلمانوں کے مدرسے اور مساجد دہشت گردی کے اڈے ہوتے ہیں جہاں پر دہشت گردی پروان چڑھتی ہے اور بم بنائے جاتے ہیں۔ لیکن میں نے2019 اور2021 میں کولہاپور اور سانگلی کا تباہ کن سیلاب دیکھا جس سے متاثر ہونے والوں کو ان مدرسوں اور مساجد میں پناہ دی گئی انہی غذا اور بستر فراہم کیے گئے بیماروں کی تیمارداری کی گئی ان کے لیے دواؤں کا انتظام کیا گیا الغرض ان کا ہر طرح سے خیال رکھا گیا ان سے اس طرح سلوک کیا گیا جیسے وہ مسلمانوں کے رشتہ دار ہوں۔ جن مدارس اور مساجد میں بم بنانے اور دہشت گردی پھیلانے کی جھوٹی باتیں پھیلائی جاتی تھیں ان مدارس ومساجد میں انسانیت کا ایسا عظیم الشان مظاہرہ دیکھا تو میں دنگ ہو کر رہ گیا۔
لیکن مسلمانو! تم جتنا بھی بھلا کرو گے یا تم جو بھی اچھے کام کرتے ہوں گے اس کے بدلے میں تمہاری تھوڑی بہت واہ واہی ہوگی لیکن اس کے بعد تمہیں پھر انہی مخالف حالات کا سامنے کرنا پڑے گا۔ نفرت کے سوداگروں اور انسانیت کے دشمنوں سے تم کو غدار، دھوکے باز، دہشت گرد، ملک دشمن جیسے خطابات ہی سننے کو ملیں گے، جب کہ ملک میں کہیں بھی کوئی بھی آفت آجائے تم یہ سب باتیں بھول کر انہی کی مدد کے لیے آگے آجاتے ہو جو رات دن تمہیں گالیوں سے نوازتے رہتے ہیں۔
اس لیے ’’مجھے مسلمانوں کی اس اچھائی پر بہت غصہ آتا ہے‘‘ کہ اتنی ساری نفرتیں برداشت کرنے کے بعد بھی اس قدر انسانیت نوازی وہ کہاں سے لاتے ہیں۔ (سنتوش شندے)
(مضمون نگار مراٹھی اخبارات میں کالم نگار ہیں ،اصل مضمون مراٹھی میں تھا
جسے محمد کلیم نے اردو میں منتقل کیا ہے )
***
جب کورونا وائرس سے فوت ہونے والے ہندوؤں کی میتوں کو ان کے رشتہ دار بھی ہاتھ لگانے سے ڈر رہے تھے بلکہ بعض مقامات پر تو وہ میتوں کو لاوارث چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے اس وقت مسلمان ہی تھے جنہوں نے آگے بڑھ کر ان کی آخری رسومات انجام دیں۔ ہندوؤں کے علاوہ دیگر مذاہب کے کوویڈ سے مرنے والوں کی آخری رسومات بھی مسلمانوں نے ادا کیں۔ اس کے علاوہ مہارشٹر میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ مراٹھا مورچہ ہو یا دستور سے متعلق مورچہ ہو ان تمام مورچوں میں شامل ہزاروں افراد کو پانی پلانے میں مسلمان ہی پیش پیش رہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 اگست تا 21 اگست 2021