مجاہد آزادی عبد القیوم انصاری کی ہمہ جہت خدمات

یکم جولائی کو یوم پیدائش پر خراج

افروز عالم ساحل

جب ملک میں خلافت تحریک کی شروعات ہوئی تو بہار میں 14 سال کے ایک نوجوان نے بھی لبیک کہا اور ملک کی آزادی کی لڑائی میں کود پڑا۔ اس نوجوان کا نام تھا عبدالقیوم انصاری۔ وہ نو عمری سے ہی انگریز حکومت مخالف تحریکوں میں سرگرم رہے۔ عبدالقیوم انصاری بہار کے سہسرام ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اسی دوران مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی خلافت تحریک کے سلسلے میں بہار کا دورہ کر رہے تھے، اسی دورے میں عبدالقیوم انصاری کو بھی علی برادران سے ملنے کا موقع ملا۔ علی برادران ان کے قومی جذبے سے متاثر ہوئے اور انہیں 1920میں ڈہری آن سون خلافت کمیٹی کا جنرل سکریٹری بنایا گیا۔ اسی سال یعنی ستمبر 1920میں کلکتہ میں کانگریس کا اسپیشل سیشن بلایا گیا تو نوجوان ڈیلیگیٹ کی حیثیت سے عبدالقیوم انصاری اپنے علاقے کی نمائندگی کرتے نظر آئے۔ یہاں ان کی ملاقات مولانا ابوالکلام آزاد سے بھی ہوئی۔ گاندھی جی کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا۔ کانگریس کے اسی اسپیشل سیشن میں گاندھی جی کی پہل پر ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرانے اور ترکی میں خلافت کی حفاظت کی خاطر تحریک عدم تعاون کی تاریخی قرار داد پاس کی گئی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ عبدالقیوم انصاری ان دنوں انگریز حکومت کے ذریعہ چلائے جانے والے اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے جس سے انہوں نے علیحدگی اختیار کی اور خود اسکول قائم کر ڈالا۔ اس میں وہ بچے تعلیم حاصل کرنے لگے جو گاندھی جی کے اعلان کے بعد سرکاری اسکولوں سے نکل گئے تھے اور اب وہ تحریک عدم تعاون کا حصہ تھے۔عبدالقیوم انصاری خلافت تحریک میں اس قدر سرگرم رہے کہ انہیں اس تحریک میں حصہ لینے کی وجہ سے فروری 1922میں ڈہری آن سون میں گرفتار کر کے سہسرام جیل میں ڈال دیا گیا۔ وہ نومبر تک جیل میں رہے۔ اس سزا کے بعد بھی ان کا حوصلہ پست نہیں ہوا تھا، اس لیے جیل سے نکلتے ہی پھر سے سرگرم ہوگئے اور آگے بھی حکومت مخالف سرگرمیوں میں پیش پیش رہے۔ دسمبر 1922 میں گَیا میں منعقد کانگریس اجلاس میں ایک سامع کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ اس اجلاس کی صدارت چترنجن داس کر رہے تھے۔
1928 میں کلکتہ کالج اسٹریٹ میں سائمن کمیشن کے مخالفت میں چل رہی طلبہ تحریک میں سب سے سرگرم تھے، اس میں انہیں برطانوی پولیس کے ظلم کا شکار ہونا پڑا تھا۔ انہوں نے 1937 میں مومن کانفرنس کی بنیاد ڈالی۔ اس طرح سے وہ ملک کی آزادی کے لیے ہمیشہ سرگرم رہے اور ہر تحریک میں سب سے آگے نظر آئے۔
سب سے کم عمر کابینہ کے وزیر:
1946ء میں منعقدہ بہار قانون ساز اسمبلی انتخابات میں رانچی کم سنگھ بھوم محمڈن دیہی حلقہ سے پہلے پہل ایم ایل اے منتخب ہوئے اور انہیں 14 اپریل 1946 کو شری کرشنا سنگھ کی وزراء کے کونسل میں کابینہ کا وزیر بنایا گیا جو اس وقت سب سے کم عمر کے وزیر تھے۔ سچیدانند سنہا، راجیندر پرساد اور شری کرشنا کے ساتھ ان کا نام بھی آئین سبھا کے لیے بہار کے کانگریس امیدواروں میں بھی شامل تھا۔ 1946 کے آخر میں بہار فسادات کے بعد انہیں پنرواس محکمہ کا چارج سونپا گیا۔ اس دوران عبدالقیوم انصاری گاندھی جی سے رابطے میں رہے۔ اس کا تذکرہ ان دنوں گاندھی جی کے ذریعہ لکھے گئے کئی خطوط میں ہوتا ہے۔
پنرواس کے کام کو جلد از جلد نمٹانے کے لیے عبدالقیوم انصاری کے ذریعے تیار کردہ منصوبے کے بارے میں گاندھی جی نے ان سے کئی بار بات چیت بھی کی۔ بعد میں اپنے خیالات کو بطور تبصرہ ان کی رہنمائی کے لیے بھی لکھا۔ گاندھی جی نے یہ تبصرہ بہار چھوڑنے سے پہلے 24 مئی 1947 کو لکھا تھا۔
ملک کی آزادی کے بعد گاندھی جی نے عبدالقیوم انصاری کو ایک خط لکھا۔ اس خط میں وہ لکھتے ہیں "بھائی انصاری، آپ کی بیماری کی بات منو بہن نے سنائی۔ میری نگاہ میں بیمار پڑنا خدمت گار کے لیے گناہ ہے‘‘
عبد القیوم انصاری کی علمی خدمات:
عبد القیوم انصاری کی ابتدائی تعلیم ڈہری آن سون اور سہسرام ہائی اسکول سے حاصل کرنے کے بعد آگے کی تعلیم انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، کلکتہ یونیورسٹی اور الہ آباد یونیورسٹی سے حاصل کی۔ ڈگری حاصل کرنے کے بعد میں وہ علمی و ادبی سرگرمیوں سے جڑے رہے۔
ادب سے گہری دلچسپی رکھنے والے عبد القیوم انصاری نے ڈہری آن سون سے نکلنے والی ہفتہ وار میگزین ’الاصلاح’ کی ایڈیٹنگ کی ذمہ داری 1924 سے 1927 تک نبھائی۔ اس کے بعد 1934 میں ماہانہ ’مساوات’ کی ایڈیٹنگ کی ذمہ داری ادا کی۔ 1948 میں سہیل عظیم آبادی کے ساتھ مل کر انہوں نے روزنامہ ’ساتھی’ اور 1952 میں ماہنامہ ’تہذیب’ کا پبلیکیشن اور ایڈیٹنگ کا فریضہ انجام دیا۔ ڈہری آن سون سے ایک ماہانہ میگزین ’حسن و عشق’ کی اشاعت شروع ہوئی۔ اس کی تدوین عبد القیوم انصاری اور مولانا ابو محمد نے مشترکہ طور پر کی تھی۔ عبد القیوم انصاری ’انجمنِ ترقی اردو‘ سے بھی وابستہ تھے۔ 1940 سے 1951 تک وہ پٹنہ یونیورسٹی کے سینیٹ فیلو اور 1952 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کورٹ کے ممبر رہے۔ انہوں نے ہمیشہ اقلیتی طبقہ کے فلاح و بہبود اور تعلیمی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے بھی اپنی جدوجہد جاری رکھی۔
عبدالقیوم انصاری کی پیدائش بہار کے روہتاس ضلع میں مقیم ڈہری آن سون میں یکم جولائی 1905 کو ہوئی۔ ان کے والد کا نام مولوی عبدالحق تھا اور والدہ کا نام صافیہ بیگم تھا۔
عبدالقیوم انصاری قومی اتحاد، سیکولرزم اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے زبردست پیروکار تھے۔ وہ ایسے لیڈروں میں شامل تھے جنہوں نے مسلم لیگ کے علیحدہ مسلم ملک کے قیام سے متعلق نظریہ کی سخت مخالفت کی تھی۔ بہار کا یہ عظیم لیڈر 18 جنوری 1973 کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہوا۔
***


1946 میں منعقدہ بہار قانون ساز اسمبلی انتخابات میں رانچی کم سنگھ بھوم محمڈن دیہی حلقہ سے پہلے پہل ایم ایل اے منتخب ہوئے اور انہیں 14 اپریل 1946 کو شری کرشنا سنگھ کی وزراء کے کونسل میں کابینہ کا وزیر بنایا گیا۔ جو اس وقت سب سے کم عمر کے وزیر تھے۔ سچیدانند سنہا، راجیندر پرساد اور شری کرشنا کے ساتھ ان کا نام بھی آئین سبھا کے لیے بہار کے کانگریس امیدواروں میں بھی شامل تھا۔